Categories
حرکات کے بارے میں

CPM کے لازمی تقاضوں کا خاکہ ایک نیپکن پر۔حصہ دوم

CPM کے لازمی تقاضوں کا خاکہ ایک نیپکن پر۔حصہ دوم

حصہ  اول میں ہم نے رُوح القدس  کی ہوا   کے لئے بادبان کھولنےاورسی پی ایم  کے عمل میں خُدا کے دِل کے لازمی عناصر  پر بات کی تھی۔ اب ہم اپنی توجہ مندرجہ ذیل موضوعات کی طرف بڑھاتے ہیں۔۔۔  

چار کھیتیاں

خُداوند کے مقصد کے پورا کرنے کے لئے  آپ کو خُدا اور انسان کی شراکت میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے ۔اس میں پانچ انتہائی بیش قدر سر گرمیاں شامل ہیں۔ اس کے ذریعے آپ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ خُد اآپ کو استعمال کر کے صحت مند اور باتسلسل تحریکیں چلانے لگے۔ آپ کو یہ لازما ًکرنا ہے کہ ہر تحریک کے نتیجے میں نئے ایماندار پید اہو جائیں۔ اس سادہ سے CPM کے منصوبے کو ہم چار کھیتیوں کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں ۔کسی بھی  صحت مند CPM کو چلانے کے لئے ان چاروں کھیتیوں کا ہونا ضروری ہے۔  دنیا پھر میں کسان اپنی کھیتیوں کے ساتھ ساتھ جھونپڑیاں یا مسکن بناتے ہیں جہاں وہ آرام کرتے ،اپنے اوزار سنبھالتے اور جنگلی جانوروں سے کھیتیوں  کی حفاظت کرتے ہیں ۔ہمیں بھی ایسے ہی ایک پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جو اُن راہنماؤں کی صورت میں ملتی ہے جو چرچز اور تحریکوں کی نگرانی کرتے ہیں ۔ہم ان چاروں کھیتیوں کو الگ الگ رکھتے ہیں تاکہ ہم جان سکیں کہ وہ اہم عناصر کیا ہیں جنہیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کی کوئی خاص ترتیب ہونا ضروری نہیں ہے  م۔ثال کے طور پر جب آ پ کسی کو یسوع مسیح تک لائیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ پہلی کھیتی میں کام کر کے اپنے بھٹکے ہوئے خاندان کے لوگوں کو تلاش کر رہا ہو، اور اسی دوران آپ اُسے تیسری کھیتی ( شاگردی ) تک بھی لا سکتے ہیں۔ اور جب آپ اُسے شاگرد بناتے ہوئے تیسری کھیتی میں رکھ رہے ہیں تو آپ اُس کے اور اُس کے دوستوں کے ذریعے چوتھی کھیتی میں ایک چرچ بھی قائم کر سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ  آپ چاروں کھیتیوں میں مختلف گروپوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں کام کر رہے ہوں ۔

پہلی کھیتی :   خُدا کے تیار کئے ہوئے لوگوں کی تلاش ( لوقا 10: 6، مرقس 1: 17، یوحنا 4: 35، 16: 8)( یہ عمل تصویر کے اُس حصے میں نظر آتا ہے جہاں کیاریوں میں بیج بوئے جارہے ہیں اور اچھی مٹی کی تلاش کی جا رہی ہے )

CPM  کے سر گرم کارکن یقین رکھتے ہیں کہ اُن سے پہلے روح القدس لوگوں کو تیار کر چکا ہے جو فوری طور پر مثبت ردعمل دیں گے( یا جلد ہی مثبت ردعمل دینے کو تیار ہوں گے )- ( یوحنا 16: 8) سینکڑوں کی تعداد میں روحانی بات چیت  کے بعد وہ دیکھتے ہیں کہ کھیتی پہلے ہی تیار ہو چُکی ہے وہ توقع کرتے ہیں کہ سلامتی کے یہ فرزند   دوسروں کے دلوں کو جیتنے کے لئے اہم کردار ادا کریں گے ( یوحنا  4: 35)۔ یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں پہلے سے موجود ایمانداروں سے بھی رابطے کرتے ہیں جنہیں خُدا نے CPM کے اس مقصد کے لئے شریک بننے کو تیار  کر رکھا ہوتا ہے ۔

لہذا آپ اور آپ کی ٹیم کو خُدا کے تیار کئے ہوئے لوگوں  اور کھیتیوں کو پوری دلی جذبے کے ساتھ تلاش کرنے کی ضرورت ہے ہر چیز کو دو گروپوں  میں تقسیم کر دیجیے: بچائے ہوئے یا بھٹکے ہوئے ۔ مرقس 1: 17 کی تعمیل کرتے ہوئے آپ کو بھٹکے ہوئے لوگوں کی تلاش  کرنی ہے اور بچائے ہوئے لوگوں کو پورے دل کے ساتھ یسوع کے پیچھے چلنے میں مدد دینی ہے ۔

  • آپ بچائے ہوئے لوگوں کی تلاش کریں جو اُس شہر یا اُس قوم میں آپ کے ساتھ مل کر رسائی حاصل کریں گے انہیں کیسے تلاش کیا جائے ؟ آپ انہیں خُدا کا مقصد سمجھائیں اور اُس کے بعد انہیں تربیت دینے یا اُن کے ساتھ سیکھنے کی پیش کش کریں ۔ وہ تمام CPM کی تحریک جنہیں میں جانتا ہوں وہ اسی انداز سے شراکت کے ساتھ شروع ہوئیں ایسے لوگوں کی تلاش کے لئے ہمیں روحانی بات چیت بار بار کرنے کی ضرورت ہے۔ 
  • آپ اور آپ کی ٹیم مل کر کھوئے ہوئے سلامتی کے فرزند تلاش کریں اور اُن کے سامنے گواہیاں دینا شروع کریں آپ کو ایسے لوگوں کی تلاش کے لئے بار ہا ( سینکڑوں مرتبہ ) روحانی گفتگو کرنا پڑے گی سو CPM میں گواہی دینا یا تبادلہ خیال کے درمیان سوالوں کے جواب دینا ایک سادہ سے پُل کا کام کرتا ہے ۔

دوسری کھیتی : منادی کی افزائش ( لوقا 10: 7-9،  متی 28: 18 -20 ) ( اسے بیج سے پھوٹتے ہوئے پودے کی تصویر کے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے )

بھٹکے ہوئے یا بچائے ہوئے لوگوں کے ساتھ  گفتگو کرتے ہوئے ہمیں منادی کی افزائش کو مدنظر رکھنا ضروری ہے لازمی ہے کہ کھوئے ہوئے لوگ انجیل کی خوشخبری اس انداز سے سُنیں کہ وہ اپنے طور پر مسیح کے پیچھے چل سکیں اور پھر اُس منادی کی خوشخبری کو اُسی انداز میں استعمال کر کے دوسروں کو خوشخبری دے سکیں CPM میں ہم صرف کتابی افزائش کی بات نہیں کرتے ہم ہر طریقے کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا یہ افزائش کر سکتا ہے یا نہیں اگر افزائش ممکن نہ ہو  تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو یہ طریقہ بہت  مشکل ہے یا میں شاگرد بنانے کی مہارتوں سے محروم ہوں ۔

ہر CPM میں بہت سے شاگرد منادی کر رہے ہوتے ہیں اور سینکڑوں اور ہزاروں لوگ اُسے سُن رہے ہوتے ہیں اور  یہ تمام لوگ اُس کی افزائش کر سکتے ہیں۔ یہ نمونہ لوقا کے باب نمبر 10 آیت نمبر 7 میں دیا گیا ہے جس میں ایمان رکھنے والا اور خُد اپوری محبت سے حاضر ہوتے ہیں اور دعا ہوتی ہے کہ خُدا اپنی قوت کے ذریعے اپنی محبت کا اظہار کرے تاکہ واضح طور پر یسوع کی خوشخبری کی منادی کی جا سکے اور سب لوگوں کو واحد بادشاہ یسوع کے پاس بُلانے کی دعوت دی جا سکے۔ 

تیسری کھیتی : شاگرد سازی کی افزائش ( 2 تیمتھیس 2: 2، فلپیوں 3: 17 ، عبرانیوں 10: 24-25) ( اسے پھل لاتے ہوئے پودے کی صورت میں دکھایا گیا ہے )

جب لوگ ایمان لئے آئیں تو انہیں فوری طور پر چھوٹے چھوٹے گروپوں یاانفرادی بنیاد پر شاگرد سازی کے تعلق میں جوڑ لیا جاتا ہے ۔یہ شاگرد سازی ایسی ہوتی ہے جو قابلِ افزائش ہوتی ہے وہ مختصر دورانیے  کی شاگرد سازی کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور پھر اُن لوگوں کو تربیت دیتے ہیں جنہیں وہ گواہی دے رہے ہوتے ہیں  یہ سب کچھ ایک قابلِ افزائش عمل کے ذریعے ہوتا ہے آخر کار وہ شاگرد سازی کے ایک طویل مدتی نمونے میں شامل ہو جاتے ہیں، جس کے ذریعے وہ خُد اکے کلام کو پوری طرح اپنے دل میں اتارتے ہیں۔  ضروری ہے کہ ہمارے پاس ایسا قابلِ عمل نمونہ ہو جو نئے ایمانداروں کی روحانی افزائش  اور اُس افزائش کو آگے بڑھانے  کے لئے کام کرنے کے قابل ہو ۔

شاگرد سازی کے قابلِ افزائش طریقوں میں ٹی ۔فور۔ ٹی یعنی تربیت کاروں کی تربیت  جیسے طریقہ کار استعمال کئے جاتے ہیں اس طریقے میں ایماندار سب سے پہلے ایک محبت بھرے احتساب کے ذریعے اپنا جائزہ  لیتے ہیں ، عبادت کرتے ہیں ، پاسبانوں کی نگرانی میں رہتے ہیں اور بار بار اپنے مقصد کی یاد دہانی کرتے ہیں۔ پھر وہ کچھ وقت خُداوند کے مقصد کو جاننے کے لئے بائبل سٹڈی کرتے رہتے ہیں۔  اس سے آگے بڑھ کر وہ تیار ہو جاتے ہیں کہ وہ خُدا کی فرمانبرداری میں اس سارے عمل کے درمیان سیکھے ہوئے اسباق کو عملی طور پر دوسروں تک پہنچا سکیں ا۔ور اس مقصد کے لئے دعا کرنا لازمی ہے ۔

چوتھی کھیتی : قابل ِ افزائش چرچز ( اعمال 2: 37-47 )

( اسے کٹی ہوئی فصل کے بنڈلوں کی صورت میں دیکھا گیا ہے )

شاگرد سازی کے عمل کے دوران ایماندار چھوٹے چھوٹے گروپوں یا قابلِ افزائش چرچ کی صورت میں ملتے ہیں۔ CPM میں اکثر چوتھے یا پانچویں سیشن کے بعد یہ چھوٹا سا گروپ ایک چرچ یا کسی چرچ کا حصہ بن جاتا ہے ۔ CPM کے اندر ایسے سادہ طریقہ کار موجود ہیں جس کے ذریعے بائبل کے اصولوں پر مبنی چرچ لوگوں کی تہذیبی ضروریات کے مطابق قائم کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ اس مقصد کے لئے دائروی خاکےi بھی استعمال کرتے ہیں  ۔

وسطی پلیٹ فارم : قابل افزائش راہنما ( ططس 1: 5-9، اعما ل 14: 23) ( اسے کسانوں یا چوپانوں کی صورت میں ظاہر کیا گیا ہے )۔

بہت سے ایماندار ایسے راہنماؤں کی صورت میں ابھریں گے  جو قابل افزائش بھی ہوں اور اُس مرحلے پر کام کی راہنمائی بھی کر سکنے  کے قابل ہوں اُن میں سے کچھ  ایک چرچ کے راہنما  بن سکیں گے، کچھ کثیر تعداد میں گروپوں کی راہنما ئی کر سکیں گے اور   کچھ ایسے بھی ہوں گے جو پوری تحریک کی راہنمائی کرنے کے قابل ہوں گے ہر ایک کو اُس کی قیادت کی سطح کے مطابق مناسب راہنمائی اور تربیت کی ضرورت ہو گی ۔ CPM کی تحریکیں نہ صرف چرچز قائم کرتی ہیں بلکہ یہ تحریکیں راہنماؤں کی افزائش بھی کرتی ہیں ۔

تیروں کے نشان

بہت سے ایماندار ان چاروں کھیتیوں  میں دیکھائے جانے والے عوامل بار بار  دوہراتے جائیں گے – کچھ خُدا کے تیار کئے ہوئے لوگوں کی تلاش کریں گے ، کچھ منادی کریں گے ، کچھ شاگرد بنائیں گے اور تربیت دیں گے ، کچھ نئے گروپ قائم کریں گے اور کچھ لوگ گروپوں کو تربیت دے کر اس سارے عمل کو دوہرائیں گے  لازمی نہیں ہے کہ ہر ایماندار اگلے مرحلے تک پہنچے (اسے ہر نئی کھیتی میں چھوٹے تیروں کے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے ) CPM کی تحریکوں میں ایماندار حیرت انگیز حد تک آگے بڑھتے ہیں ، نہ صرف اپنی شاگردی میں بلکہ دوسروں کو منادی کرنے میں بھی۔ 

موت

ان تمام کاوشوں کا نتیجہ موت ہے ۔( یوحنا 12: 24) – کہ ایماندار اس سارے عمل کے دوران پوری ہمت کے ساتھ سب کچھ برداشت کرئے ، یہاں تک کہ خُد اکے مقصد کی تکمیل کے لئے جان بھی دےدے ( اسے زمین پر گرتے ہوئے دانے کی صورت میں ظاہر کیا گیا ہے ) جب تک ایماندار یہ قیمت اد اکرنے کو تیار نہ ہوں تو یہ سارا عمل محض کتابی رہ جاتا ہے ۔

اگرچہ کسی تحریک کے مشکل تصورات کو ایک باب میں بیان کرنا مشکل ہے ، دل اور چار کھیتیوں کی تصویر آپ کو بنیادی لازمی عناصر سے آگاہ کر دیتی ہے۔ CPM کے موثر اور سر گرم محرکین ایک ایسی رو قائم کر لیتے ہیں جس کے ذریعے اس عمل کا ہر مرحلہ اگلے مرحلے کی طرف بڑھتا ہے اور شاگرد اور ایماندار تربیت پاتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح سے ہم اپنی کشتی کے  بادبان  کھولتے ہیں کہ وہ آگے بڑھتی چلی جائے۔ جب میں دل اور چار کھیتیوں کی تصویر اپنے دوستوں کے لئے بناتا ہوں تو وہ  CPM کی تحریکوں کی گہرائی  اور وسعت جان کر حیران ہوتے ہیں۔ یہ منادی یا چرچز کے قیام کی کوششوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ خُد اکی تحریک ہے ۔

کیا آپ بھی اپنے دوستوں کے لئے یہ ڈرائنگ ایک نیپکن پر بنا سکتے ہیں ؟

سٹیو سمتھ، ڈاکٹر آف تھیالوجی، ( 1962-2019 ) 24:14  اتحاد کے شریک سہولت کار اور متعدد کتابوں،   بشموُل  T4T: A Discipleship Re-Revolution ،کے مصنف تھے ۔ انہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک دُنیا بھر میں چرچز کی تُخم کاری کی تحریکوں کو تربیت دی اور متحرک کیا۔

یہ مواد     مشن فرنٹئیرز www.missionfrontiers.org    کے جولائی-اگست 2103  کے شمارے میں صفحات 29-31پر  اور  24:14 – A Testimony to All Peoples  کے صفحات 213- 222  پرشائع ہُونے والے ایک مضموُن کی تدوین شدہ شکل ہے۔    اور24:14  اورAmazon  پر دستیاب ہے۔

(1) چرچز کے دائروی خاکوں کی تفصیل کے لئے   مشن فرنٹئیرز www.missionfrontiers.org    کے ستمبر- اکتوبر 2012  کے شمارے میں صفحات 22-26پر شائع ہونے والا مضمون  “The Bare Essentials of Helping Groups Become Churches: Four Helps in CPM”  مُلاحظہ کیجئے۔ 

Categories
حرکات کے بارے میں

CPM کے لازمی تقاضوں کا خاکہ ایک نیپکن پر۔ حصہ اول

CPM کے لازمی تقاضوں کا خاکہ ایک نیپکن پر۔ حصہ اول

– سٹیو آر سمتھ –

چلیں آپ نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ آپ خُد اکی مدد سے اپنے علاقے یا نارسا قوم کے گروپ میں چرچ کی تخم کاری کی تحریک (CPM) شروع کرنا چاہتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے :” میں کہاں سے شروع کروں “؟ فرض کریں کہ ہم ایک کافی شاپ میں بیٹھے ہیں اور میں آپ کے ہاتھ میں ایک نیپکین  پکڑا کر کہتا ہوں ،” اس پر اپنے CPM کے راستے کا خاکہ بنایئے ” ۔کیا آپ  کو پتہ ہو گا کہ شروع کہاں  سے کرنا ہے ؟ 

آپ کو کسی ایسے راستے پر چلنے کی بجائے جس کی منزل کوئی نہ ہو ،ایک ایسی راہ پر چلنا ہے  جو آپ کو ایک تحریک کی کامیابی تک لے جائے آپ کے لئے یہ سمجھنا لازمی ہے کہ وہ راستہ کیسا ہو گا ۔

CPM کے راستے میں سب سے بڑا چیلنج ” تحریک ” کا لفظ ہے ۔چرچز کی تخم کاری کی تحریکیں خُدا شروع کرتا ہے نہ کہ اُس کے خادم  ۔پھر بھی وہ اپنے خادموں کو ان تحریکوں کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یہ تب ممکن ہوتا ہے جب وہ خُد اکی راہوں کے بارے میں جان لیں  اور اپنی منادی کی کوششیں پوری طرح اُس کے ہاتھوں میں دے دیں۔ 

منسٹری کے بادبان کھول کر روح کی ہوا سے بھر نا

اب اسے اس طرح سے دیکھیے ایک جہاز کا کپتان ہوتے ہوئے میں اُن سب چیزوں کو کنٹرول کر سکتا ہوں جن پر میرا اختیار ہو۔ میں بادبان کھول سکتا ہوں، پتوار کو صحیح جگہ پر لا سکتا ہوں، لیکن جب تک ہوا نہ چلے میری کشتی پانی پر ساکت رہے گی ۔میرا اختیار ہوا  پر نہیں ہے ۔اور اگر ہوا چل رہی ہو اور میں بادبان کھولنا بھول جاؤں ،تب بھی میں کہیں نہیں جا پاؤں  گا ۔اس صورت میں ہوا تو چل رہی ہو گی لیکن مجھے یہ نہیں پتہ ہو گا کہ اُس ہوا کے ساتھ  میں حرکت کیسے کروں ۔

شرعی قانون کے ایک روایتی یہودی استاد کو یسوع کے طریقہ کار سمجھنے میں دشواری ہو رہی تھی یسوع نے اُسے کہا :

” ہوا جِدھر چاہتی ہے چلتی ہے اور تُو اُس کی آواز سُنتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آتی اور کہاں کو جاتی ہے۔ جو کوئی رُوح سے پَیدا ہُؤا اَیسا ہی ہے۔” (یوحنا 3: 8)

روح کی ہوا کے بارے میں ہم پیش گوئی نہیں کر سکتے کہ وہ کیسے چلے گی۔ لیکن وہ چلتی ضرور ہےi۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا  روح کی ہوا چل رہی ہے یا نہیں ۔سوال یہ ہے :” کیا میری منسٹری کی صورت حال ایسی ہے کہ وہ روح کی ہوا چلنے کے ساتھ حرکت کر کے خُد اکی تحریک بن سکے ؟”

اگر ہماری منسٹریاں روح کے راستو ں کے مطابق حرکت نہ کریں تو ہم اکثر جھنجھلا کر کہنے لگتے ہیں :” خُد اآج کے دور میں ویسا سر گرم نہیں ہے جیسا گذشتہ زمانوں میں تھا :”۔ لیکن پھر بھی دنیا بھر میں درجنوں CPM کی تحریکیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ : 

یِسُوع مسِیح کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے۔ “(عبرانیوں 13: 8)

دل اور چار کھیتیوں کا خاکہ : CPM کے لازمی تقاضوں کا خلاصہ ایک نیپکین پر

CPM کی تحریکوں میں ایسے کون سے عناصر ہیں  جن پر ہم اختیار رکھتے ہیں ایسی کون سی چیزیں ہیں جو ہمیں خُد ا کے روح کی چلائی ہوئی ہوا  کی مطابقت میں بادبان کھولنے اور جہاز چلانے میں مدد دے سکتی ہیں  CPM کی تحریکیں چلانے والے ان عناصر اور پہلوؤں کو کئی انداز میں بیان کرتے ہیں۔لیکن ذیل میں CPM کے لازمی عناصر کی ایک سادہ سی تلخیص دی جا رہی ہے .iiمیں اکثر کافی شاپ میں بیٹھے ہوئے اپنے دوستوں کے لئے  نیپکین پر یہ سادہ سی شکل خاکے  کی صورت میں بنا کر دِکھاتا ہوں ۔اگر آپ CPMکی منصوبہ بندی کا خاکہ ایک نیپکین پر نہیں بنا سکتے تو شاید آپ کے اپنے لئے اور دوسروں کے لئے بھی ایسی تحریک کی افزائش کرنا مشکل ہو جائےiii۔ آپ کی حوصلہ افزائی کے لئے بتاتا چلوں کہ میری ڈرائنگ بہت بُری ہے۔ لیکن میرا حوصلہ بلند ہے کہ میرے دوست اسے آگے بڑھا سکتے ہیں ۔

اپنے لوگوں کے لئے خُدا کا دل تلاش کریں اور ایمان کے ساتھ اُس کے مقصد کی تکمیل کے لئے اُس سے دعا کریں ۔

آپ اور آپ کی ٹیم کے پاس ایک مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ تمام قوموں تک بادشاہی کی خوشخبری پہنچانا چاہتے ہیں، چاہے کچھ بھی  ہو ۔( یہ تصور ایک بڑے دل کی صورت میں اس خاکے میں پیش کیا جا رہا ہے) ۔آپ خُدا کے مقصد کو پورا کرنا چاہا رہے ہیں ،نہ کہ اپنے مقصد کو ۔متی 6: 9-10 اور 28: 18-20 ہمیں بتاتے ہیں کہ اُس کی بادشاہی تمام قوموں اور تمام امتوں کے لئے آئے  گی ۔اس مقصد اور تصور کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بہت بڑی  بھیڑ ایمان کے دائرے میں داخل ہو گی اور چھوٹے بڑے ہزاروں چرچز  پیدا ہوں گے۔  اس مقصد کے حامل ایماندار اپنی زندگیوں میں بھی تبدیلیاں لاتے ہیں تاکہ وہ اپنے معاشرے میں خُد اکی بادشاہی لانے کا موجب بن سکیں ۔

  • چونکہ یہ مقصد بہت ہی بڑا ہے تو آپ اسے بنیادی حصوں میں تقسیم کریں ۔اس سے آپ جان سکیں گے کہ ابتدا  کہاں سے کی جائے ۔ہر معاشرے میں لوگ مختلف  بنیادوں پر رشتے استوار کرتے ہیں، مثلا آس پڑوس میں رہنے والوں کے ساتھ ، کام کے ساتھیوں، دوستوں ،کسی کلب کے ساتھیوں کے ساتھ۔  آپ کا ہدف سادہ سا ہے۔ رائی کے دانے بوتے جائیے(متی 13: 31-33 )تاکہ آپ اُن لوگوں اور اُن سے پرے مزید لوگوں تک رسائی حاصل کر سکیں ۔
  • جب آپ دیکھ لیں کہ اُن میں سے ہر جماعت کے اندر تحریک  کی جڑوں نے زور پکڑ لیا ہے اور ایماندورں اور چرچز کی  چا ر جینریشنز  – جی فور – وہاں قدم جما چُکی ہیں تو آپ اگلے مرحلے پر جائیں ( 2 تیمتھیس 2: 2)( اسے نسلوں کے درخت کے ذریعے دکھایا جاتا ہے )۔ CPM کی کامیابی کا اندازہ کم از کم چار نسلوں کے مسلسل بڑھنے سے ہوتا ہے جو کہ ایک مختصر عرصے میں افزائش پائیں ( سالوں یا مہینوں میں نہ کہ عشروں میں )۔ CPM کے موثر اور سر گرم کارکن ایمانداروں یا چرچز کی تعداد کی بجائے ایمانداروں اور چرچز کی  نسلوں کی بنیاد پر اپنی کامیابی کا تعین کرتے ہیں ۔وہ اکثر اپنی تحریک کی کامیابی جنریشن یا نسلوں کے درخت کے ذریعے دکھاتے ہیں ۔

جب تک ہم خُد اکے دل سے واقف نہ ہوں  تو  ہم اُس سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ  وہ معجزات دکھائے۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جو اُس کے دل کے مطابق نہ ہو یا اُس کے دل کی خواہش سے کم تر ہو ۔

خُد اکی راہ پر چلنے والے خُد اکے دل کے لئے دعا کریں

خُداوند کے مقصد کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ آپ مسیح میں زندہ رہ کر ایک بنیاد قائم کریں  ( یوحنا 15: 5، زبور 78 : 72 ، متی 11: 12، 17: 20)( اس کی ترجمانی ایک ایسے شخص کی تصویر سے کی جاتی ہے جس کا دل خُدا میں ہو)۔ پھل وہ ہی لوگ لاتے ہیں جو خُد ا میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ اس سے کم کچھ بھی ہو وہ عارضی اور ناقص پھل لائے گا۔ CPM میں مرکزی کردار کرنے والے  خواتین و حضرات کے لئے ضروری نہیں ہے کہ  وہ روحانی طور پر دیگر لوگوں سے بہت بلند ہوں ،لیکن یہ لازمی ہے کہ وہ مسیح میں جیتے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ مسیح میں رہتے ہوئے بھی کو ئی CPM کی تحریک شروع نہ  کر سکیں ۔لیکن اگر آپ اُس میں زندہ نہیں ہیں  تو آپ ایسی کوئی تحریک شروع کر ہی نہیں  سکیں گے ۔ 

  • یاد رکھیے خُد اانسانوں کو استعمال کرتا ہے طریقوں کو نہیں ؛ خُد الوگوں کو استعمال کرتا ہے، صرف اصولوں کو نہیں ۔

جب ہم حلیمی کے ساتھ یسوع میں قائم رہتے ہیں تو ہمیں اُس کے ساتھ ساتھ خُدا سے مسلسل اور پُر جوش دعا کرنی ہوتی ہے کہ وہ ہمارے ذریعے اپنا مقصد پورا کرے (متی 6: 9-10، لوقا 10: 2، 11: 5-13، اعمال 1: 14)(اسے گھٹنے ٹیکے ہوئے شخص کے خاکے میں دکھایا گیا ہے )۔چرچز کی تخم کاری کی ہر تحریک کا آغاز ایک دعائیہ تحریک سے ہوتا ہے۔ جب خُد اکے لوگ پورے دل کے ساتھ اُس کے دل کی مرضی پوری ہونے کے لئے روزے رکھتے اور دعا کرتے ہیں تو حیران کُن معجزے  رونما ہونے لگتے ہیں ۔

سٹیو سمتھ، ڈاکٹر آف تھیالوجی، ( 1962-2019 ) 24:14  اتحاد کے شریک سہولت کار اور متعدد کتابوں،   بشموُل  T4T: A Discipleship Re-Revolution ،کے مصنف تھے ۔ انہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک دُنیا بھر میں چرچز کی تُخم کاری کی تحریکوں کو تربیت دی اور متحرک کیا۔

یہ مواد     مشن فرنٹئیرز کے جولائی-اگست 2103  کے شمارے میں صفحات 29-31پر شائع ہُونے والے ایک مضموُن کی تدوین شدہ شکل ہے۔  www.missionfrontiers.org    

i   یونانی زبان میں “روح” اور “ہوا”  کے لئے ایک ہی لفظ ہے۔

ii میں دِل اور چار کھیتیوں کی تصویر کے مُختلف حصوں کے لئے ناتھن شینک، نیل مِمز اور جیف سنڈل کا مشکوُر ہوں۔

iii اِن میں سے ہر ایک حصے کی  تفصیل، عملی معاونت کے ساتھ سٹیو سمتھ اور یِنگ کائی کی مشترکہ تصنیف  T4T: A Discipleship Re-Revolution 2011 WIGTake Resources میں دی گئی ہے۔  یہ کتاب www.churchplantingmovements.com اور ایمازون پر دستیاب ہے۔

Categories
حرکات کے بارے میں

Covid 19 کے دوران چرچز کے قیام میں تیز رفتاری کا حصول

Covid 19 کے دوران چرچز کے قیام میں تیز رفتاری کا حصول

آیلا ٹسے –

Covid 19                  کی وجہ سے سماجی فاصلوں اور تنہائی نے دنیا بھر میں شاگرد سازی کی تحریکوں کو بہت متاثر کیا کیونکہ ان تحریکوں کی نشو ونما ہی مسلسل ذاتی رابطوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ لیکن خُداوند نے ہمیں حوصلہ دیا کہ ہر بحران میں  خُدا کی بادشاہی کے لئے کوئی نہ کوئی موقع چھُپا ہوتا ہے ۔ہمارا طویل عرصے سے  یہ یقین ہے کہ تکلیف کا شکار لوگوں کی مدد  کرنا شاگردوں کی ذمہ داری ہے اور  شاگرد بنانے کا طریقہ بھی ہے ۔اس اصول کو نئے طریقوں سے استعمال کر کے ہم نے جانا کہ خُدا کی بادشاہی انتہائی بُرے حالات میں بھی آگے بڑھ سکتی ہے ۔ 

مشرقی افریقہ میں ہمیں Covid 19 سے زیادہ بڑے ایک مسئلے کا سامنا تھا۔ Covid سے پہلے کینیا کے شمالی علاقے کے کئی حصوں اور مشرقی افریقہ کے کئی علاقوں میں شدید قحط تھا ۔پھر اکتوبر 2019 میں شدید بارشیں ہوئیں اور ایک ہفتے کے اندر اندر شدید سیلاب آ گئے۔  قحط اور سیلاب کے دوران سب کچھ متاثر ہوا کیونکہ وہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ خانہ بدوش ہیں ۔ جو جانور قحط سے بچ گئے تھے وہ سیلاب کی وجہ سے مارے گئے ۔ پھر دسمبر میں ہم نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ ٹِڈی دَل دیکھا ۔ ٹڈیوں نے آ کر باقی بچے ہوئے کھیت ، جانوروں کے چارے اور تمام سبزے کو تباہ کر کے رکھ دیا ۔

فروری 2020 کے اختتام کے قریب Covid 19 کی وبا آ گئی ۔ سو ہمیں اپنی تحریک کی سر گرمیوں کے دوران ان بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ مارچ کے شروع تک ہمارے کئی راہنماؤں کے لئے یہ صورت حال بہت پریشان کن ہو گئی تھی ۔ کینیا کی حکومت نے ملک کو بند کرنا شروع کر دیا تھا ۔ میں اُس وقت ملک کے شمالی حصہ کی جانب سفر کر چُکا تھا اور میں وہیں بند ہو کر رہ گیا ۔سو مارچ سے اگست تک میں کینیا کے شمال میں  پھنسا رہا ۔

ایک اور بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہم ملک کے کسی اور حصہ کی جانب سفر نہیں کر سکتے تھے اور یوں ہم لوگوں سے ملاقاتیں بھی نہیں  کر سکتے تھے ۔ہم نے سوچنا شروع کیا ، ” ہم اس صورت حال سے کیسے نمٹیں ؟ ہمیں منادی اور خدمت کے نئے طریقے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ، تاکہ ہم لوگوں میں سر گرم ہو سکیں ۔” ہمیں ان سوالوں کے تین جوابات نظر آئے ۔

پہلا جواب دعا تھا ۔ مارچ کے وسط میں ہم نے اپنی ٹیم کے تمام ممبران سے کہا کہ وہ اُن تمام ملکوں میں جہاں ہم کام کر رہے ہیں اُن کی ترجمانی کرتے ہوئے ، ہماری مرکزی ٹیم اور ہمارے ملکی راہنماؤں کے ساتھ مل کر دعا کریں ۔ ہم سب نے ایک ہی وقت میں دعا شروع کی اور دعائیں تقسیم کرنے کے لئے واٹس ایپ کا استعمال کیا ۔ ہم نے خُدا سے دعا کی کہ وہ تحریک کو زندہ رکھے ، کیو نکہ ہم یہ دیکھ رہے تھے کہ راہنما اور اُن کے خاندان اپنی آمدنی کے تمام وسائل کھو رہے تھے ۔ اس تحریک کو جاری رکھنے کے لئے دعا  ہمارے لئے کلیدی ہتھیار تھی ۔ ہم سب نے دعا کرنا شروع کی  ،خاص طور پر پیر اور جمعرات کے دنوں میں ۔ ہم نے بدھ کے دن روزے رکھنے کی تحریک شروع کی ۔ ہر بدھ کے دن ہم  پورا دن روزہ رکھتے تھے جو آج بھی جاری ہے ۔

دوسری بات ہم نے یہ کہی ،” ہم اپنی ٹیموں کو ایسی سر گرمی میں شامل کریں گے ، جس سے انہیں حوصلہ ملے کیونکہ ہر کوئی اس میں سے گُزر رہا ہے ۔” ہم نے مختلف ملکوں میں راہنماؤں کو ٹیکسٹ میسج بھیج کر انہیں کلام کے حوالوں سے حوصلہ دیا اور اُن سے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے ؟ آپ اس صورت حال سے کیسے گُزر رہے ہیں ؟ آپ مدد کے لئے کیا کر رہےہیں ؟” ہمیں معلوم تھا کہ اگر ہمارے راہنماؤں کو حوصلہ افزائی نہ ملی تو اس سے ہماری تحریک کی رفتار پر بُرا اثر پڑے گا ۔ سو ہم نے جمعہ کے دن کو اپنے راہنماؤں کو کال کر کے حوصلہ دینے کے لئے مخصوص کر دیا ۔انہیں ایسے لوگوں سے فون کالیں گئیں جن سے وہ توقع نہیں کر رہے تھے ۔انہیں ایسے لوگوں سے کال ملتی جنہوں نے پہلے کبھی انہیں کال نہیں کیا تھا ۔ اس کا مقصد صرف یہ کہنا تھا ،” ہم اس مشکل میں آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔” اس سے ہمیں متحد رہنے میں بہت مدد ملی ۔ 

پھر اپریل میں ہم نے ہر منگل اور جمعرات کے دن اپنی تمام ٹیموں کے ساتھ زوم میٹنگ کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان میٹنگز میں ہم صورت حال پر گفتگوکرتے تھے جس کے نتیجے میں رابطے جاری رہنے میں مدد ملی جب ہم نے زوم میٹنگز شروع کی تو ہمیں ایک دوسرے کے قریب ہونے اور ایک دوسرے کی بات سُننے میں بہت آسانی ہوئی ۔

تیسری بات ہم نے یہ کہی ،” اس بحران میں لوگوں کے درمیان سر گرم ہونے کی کوئی نہ کوئی عملی طریقے ضرور ہوں گے ۔جو کچھ ہم نے شروع کیا ہم اُسے کس طرح باقی اور جاری رکھ سکتے ہیں ۔”( ہم ابھی تحریکوں کی بقا کے مرحلے پر ہیں ۔ ہم ابتدا سے افزائش اور پھر وہاں سے بقا تک پہنچے ہیں۔ ) تحریکوں کو باقی رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ راہنماؤں اور گروپوں اور چرچز کو کسی نہ کسی طور مالی مدد دی جائے کیونکہ اُن کی آمدنی ختم ہو چکی تھی۔ سو ہم نے سوچا ،” ہم خوراک کی فراہمی میں اُن کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں؟ بہت سے خاندان خوراک کی کمی کا شکار تھے کیونکہ نیروبی لاک ڈاؤن میں تھا اور مختلف علاقوں تک تمام اشیا ضر ورت وہیں سے آتی تھی ۔” اس سے ہمیں ایک نئی چیز نظر آئی۔ ہم نے شاگردوں میں سخاوت اور فیاضی دیکھنا شروع کی ۔ انہوں نے عملی محبت کے ساتھ اپنی چھوٹی چھوٹی چیزیں لوگوں کے ساتھ شئیر کرنا شروع کیں ۔ اس وقت میں یہ  بات اہم نہیں تھی کہ آپ کتنا شئیر کر سکتے ہیں ، بلکہ یہ اہم تھا کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے آ پ اُس میں سے کسی کے ساتھ کچھ شئیر کر رہے ہوں ۔

لوگوں نے اپنے پڑوسیوں کو چیزیں دینا شروع کیں  ۔ ہم نے دیکھا کہ شاگردوں کی اس عملی محبت کے نتیجہ میں گروپس افزائش پانے لگے ۔ ہمیں ایسی بہت سی کہانیاں سُننے کو ملی جن میں لوگوں کے پاس اپنے خاندانوں کے لئے بھی ہفتے بھر سے کافی خوراک نہیں تھی پھر بھی وہ اُن لوگوں کو خوراک دے رہے تھے جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا ۔ اور زیادہ تر وہ اپنے مسلمان ہمسائیوں کو کھانے پینے کی چیزیں دے رہے تھے ۔ اس مشکل صورت حال میں ایسی محبت دیکھ کر لوگوں کے دل کلام سُننےکے لئے کھُل گئے ۔

مئی اور جون میں ہم نے مدد کی درخواست کرنا شروع کی اور امداد آنی شروع ہوئی اور دسمبر تک ہم 13500 خاندانوں کو کھانا دینے کے قابل ہو گئے ( اس علاقے میں ایک خاندان میں اوسطاً 8 لوگ ہوتے ہیں ) ۔ان خاندانوں میں سے ہر ایک  کے ذریعے چرچ میں افزائش ہو رہی تھی ۔

سال کے اختتام تک پہنچ کر ہم نے دسمبر میں کچھ تجزیے کئے  اور رپورٹ مرتب کی۔ ہم نے یہ جانا کہ محبت کے اظہار کے ذریعے نہ صرف کلام پھیل رہا تھا بلکہ گروپ اور چرچز بھی افزائش پا رہے تھے ۔ایسے چرچز جنہیں ملنے کے لئے کسی جگہ کی ضرورت تھی ،وہ وہاں مل نہیں سکتے تھے ۔ سو لوگوں نے ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر ملنا شروع کیا ۔ اُس علاقے میں گھر بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں جن میں بہت کم لوگ سما سکتے ہیں ۔ سو ، گھریلو  میٹنگز ایک وقت میں کئی گھروں میں ہونے لگیں ۔ اس کے نتیجے میں زیادہ تعداد میں نارسا لوگوں تک رسائی حاصل ہوئی ۔

 میں نے مشرقی افریقہ میں اپنی تحریک کے پچھلے پندرہ سالوں پر نظر ڈالی اور دیکھا کہ  2020 میں یہ اپنے عروج پر تھی ۔ ہم نے صرف ایک سال میں 1300  نئےچرچز قائم ہوتے دیکھے ۔یہ بہت حیران کن بات تھی کیونکہ سال کی ابتدا میں ہماری افزائش 30 فیصد کم ہوئی تھی تو ہم نے یہ کہا تھا کہ ہم خُدا سے 600 سے 800 چرچز کے قیام کی دعا کریں گے لیکن خُدا ہمیں اُس حدف سے آگے لے گیا کیونکہ وہی یہ کر سکتا تھا ۔جب ساری ٹیموں نے سالانہ اعدادوشمار پیش کئے تو مجھے اُس پر مشکل سے یقین آیا ۔مجھے خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے فرداًفرداً سارے گراف دیکھنے پڑے ۔ 

خُدا یہ کام شاگرد سازی کی مثلث کے ذریعے کیا :خُداسے محبت ، اپنے پڑوسی سے محبت اور شاگرد بنانا ۔ عملی محبت کے ذریعے لوگوں کے دل کھُلے اور انہوں نے کلام کا مثبت جواب دیا ۔ نئے گروپوں میں سر گرمی شروع ہوئی،  نئے علاقوں تک رسائی ملی اور اب ہم اُسے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ میں 40 کوارڈینیٹروں کی ایک میٹنگ میں موجود تھا جو ابھی  تک اس پر غور و وفکر کر رہے تھے تاکہ ہم  اس رفتار کو اس سال اور آئندہ سالوں میں بھی جاری رکھ سکیں ۔ 

نئی ٹیکنالوجی سیکھنے کا کردار 

Covid 19 سے پہلے میرے سمیت میرے بہت سے ساتھی کمپیوٹر کی جدید ٹیکنالوجی سے ناآشنا تھے جب بھی کوئی زوم پر میٹنگ کی بات کرتا تو ہم انٹر نیٹ کی سُست رفتاری کی بات کرتے میں نے ایک دو مرتبہ زوم میٹنگ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن مجھے اس کا طریقہ نہیں سمجھ میں آیا تھا ۔ کسی کو مجھے کال کر کے ہدایات دینی پڑتی تھیں کہ میں یہ کیسے کروں ۔ زوم میٹنگ کے دوران ہر ایک کو باری باری مائیک آن کروانابھی بہت مشکل تھا۔ سو ہماری پہلی میٹنگ کے دوران ہم پس منظر سے آنے والی بہت سی آوازیں اور شور سُنتے رہے ۔ شور بہت تھا لیکن ہم ایک دوسرے کے چہرے دیکھ کر بہت خوش تھے ۔ پھر ہم نے زوم ، واٹس ایپ  اور دیگر پلیٹ فارم سیکھنے شروع کئے ۔ Covid کی وجہ سے مشکلات پر قابو پانا سیکھا ۔ 

 میں کئی مہینوں تک شمالی کینیا میں پھنسا رہا جہاں انٹر نیٹ کی رفتار بہت خراب تھی ۔مجھے بنیادی DMM تربیت کا پہلا دن یاد ہے ۔ دنیا بھر سے 130 لوگ ہمارے ساتھ شامل ہوئے تھے اور اچانک میرے انٹر نیٹ نے کام کرنا چھوڑ دیا ۔ مجھے کسی قسم کا سگنل نہیں مل رہا تھا۔ سو میں اپنی گاڑی میں بیٹھا اور ادھر اُدھر ڈرائیو کر کے   سگنل کی تلاش میں لگا رہا ۔ آخر کار ایک چھوٹے سے ائیر پورٹ پر مجھے سگنل ملا جو اُس پورے علاقے میں واحد جگہ تھی جہاں سگنل موجود تھا ۔ لوگ مجھے گھور تے ہوئے سوچتے تھے: “یہ پاگل شخص ایک کمپیوٹر پکڑے ہوئے اس میدان میں کیا کر رہا ہے ؟”میں شرمندہ تو تھا لیکن میں یہ کرنے کے لئے  تیار تھا ۔ جب سگنل وصول کرنےکے بعد میرا رابطہ بحال ہوا تو لوگ پہلے ہی گفتگو کے وسط میں تھے لیکن وہ خوش تھے کہ میں دوبارہ رابطہ  قائم کرنے کے قابل ہو گیا تھا ۔مجھے بہت بُرا لگا کیونکہ یہ تربیت کا پہلا دن تھا ۔ لیکن ہم نے ہر وہ طریقہ استعمال کیا جس کے ذریعے ہم لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کے طریقے سیکھ سکیں ۔

ہم نے ٹریننگ کے اسباق ریکارڈ کر کے اپنی ٹیموں کو بھیجنے شروع کئے ۔ ہم اُسی پلیٹ فارم کے ذریعے اپنے تمام ملکی راہنماؤںیا اپنے تمام کوارڈینیٹر ز کے ساتھ مل کر ڈسکوری بائبل سٹڈی کرنے کے قابل ہو گئے ۔ جب ہم نے زوم استعمال کرنا شروع کیا تو تب ہماری نشوونما شروع ہوئی ۔ ہم نے دنیا بھر سے 115 لوگوں کے ساتھ DMM کی  نو ہفتے کی تربیت شروع کی ۔ ہمارے ساتھ ہندوستان ، سری لنکا ، انڈونیشیا ، جنوبی امریکہ اور دیگر کئی جگہوں کے  لوگ شامل تھے۔  وہ تمام لوگ جنہیں ہم کبھی نہیں ملے تھے وہ نو ہفتے تک ہمارے ساتھ رہے اور ہمیں ایسے شریکِ کار بھی مل گئے جو آج بھی ہمارے ساتھ ہیں ۔

ایسی بہت سی مشنری تنظیمیں  اور عالمی ٹیمیں تھی جو پہلی سطح کے تربیتی کورسز کے لئے اپنے مشنریوں کو ہمارے پاس لائیں اور پھر اُس کے بعد  دوسری سطح کی تربیت اور راہنمائی کی   کلاسز کے لئے بھی ہمارے ساتھ شامل رہی۔ یہ سلسلہ افریقہ سے بڑھ کر  زیادہ علاقوں میں پھیل گیا ۔ خُد انے  COVID19  کو استعمال کر کے ہمیں دوسرے لوگوں سے ملایا اور یہ ہماری تربیت کے ذریعے مسیح کے عالمی بدن کے لئے بہت  بابرکت ثابت ہوا ۔

ہم ہر سال DMM کا ایک عالمی تحریک کا  کیمپ منعقد کرتے ہیں ۔ اکتوبر میں ہم نے سوچا ،” کیوں نہ ہم اس مرتبہ اسے  انٹر نیٹ پر کریں ؟ ” ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا لیکن اس کیمپ میں تین دن تک 27 مختلف ملکوں کے لوگ ہمارے ساتھ شامل رہے یہ چند حیرت انگیز طریقے تھے جن کے ذریعے خُدا نے ٹیکنالوجی کے استعمال کے وسیلے سے ہماری منسٹر ی کی حدوں کو وسیع کیا ۔

میں توقع کرتا ہوں کہ ٹیکنالوجی کا یہ بڑھتا ہوا استعمال آگے بھی جاری رہے گا ۔ہم پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھیں گے ۔ہم اب بھی رُوبرُو کوچنگ اور مقامی رابطوں کو ترجیح دیتے ہیں ،لیکن آگے بڑھنے کا طریقہ یہی ہے کہ  ،ایسے لوگوں کے ساتھ جن سے ہم روایتی طریقوں پر نہیں مل سکتے ، نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کریں ۔ مثال کے طور پر  گذشتہ ہفتے میں نے DMM کی ایک کوچنگ کا آغاز کیا جو ایک گھنٹے کی تھی ۔ دراصل میں سِکھا نہیں رہا تھا بلکہ سہولت کاری کر رہاتھا ۔ میں ایسا کیوں نہ کروں جب خُدا نے مجھے یہ وسیلہ عطا کیا ہے؟  ماضی میں میں صرف کینیا یا آس پاس کے علاقے کے لوگوں سے مل سکتا تھا اب میں شمالی ہندوستان کی ایک ٹیم سے بات کر رہا ہوں اور پانامہ سٹی کی ایک ٹیم کی کوچنگ کر رہا ہوں ۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں میں کبھی نہیں گیا ۔یہ سب کچھ میں نے نئی ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارمزکے استعمال کا طریقہ سیکھ کر کیا جس سے خُدا کی بادشاہی کو وسعت ملی ہے ۔

سیکھے ہوئے دو سبق ، جنہیں ہم مستقبل میں استعمال کر سکتے ہیں 

سب سے پہلے ہم نے یہ سیکھا  کہ بد ترین حالات میں بھی  اچھے نتائج مل سکتے ہیں ،سو ہمیں بُرے حالات میں حوصلہ نہیں  ہارنا چاہیے ۔ خُد ابُرے حالات میں اپنی مرضی کے اچھے نتیجے لا سکتا ہے۔ ہم نتائج کے لئے خُدا کے طرف  دیکھتے ہیں کیونکہ نتیجوں کا انحصار خُدا پر ہوتا ہے نہ کہ حالات پر ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بُرے حالات کو وہ کچھ نہیں چھیننے دیتے جو خُدا نے ہم کو دیا ہے ۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ راہنماؤں کو مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کے لئے بہت آگے کی سوچ رکھنی  ہوتی ہے ۔لیکن یہ سوچ  دعا اورخُدا پر بھروسے سے آتی ہے ،کیونکہ روح القدس ہماری راہنمائی کرتا ہے ۔

اعمال کی کتاب میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسولوں یا چرچ کو جب بھی چیلنجز یا مسائل یا ایذارسانی کا سامنا ہوا تو انہوں نے دعا کی ۔ اکثر ہم ایک ایسا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمارے بس سے باہر ہے ۔ راہنماؤں کی حیثیت سے ہم دعاکرتے ہیں کہ خُدا کسی مسئلے کے حل کے لئے وہ راستے دِکھا  ئے جو ہمیں نظر نہیں آ رہے ہوتے ۔ بد ترین صورت حال میں بھی روح القدس ہمیں آگے بڑھانے کے لئے نئے راستے دِکھا سکتا ہے ۔

ڈاکٹر آیلا ٹسے  لائف وے مشن انٹر نیشنل (www.lifewaymi.org ) کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں ۔یہ منسٹری 25 سال سے زائد عرصے سے نارسا لوگوں کے درمیان کام کر رہی ہے۔ آیلا  ،افریقہ اور دنیا بھر میں DMM کی کوچنگ اور تربیت کرتے ہیں ۔ وہ مشرقی افریقہ کی CPM نیٹ ورک کا حصہ ہیں اور مشرقی افریقہ اور جنوبی افریقہ کے لئے نیو جنریشنز کے علاقائی کوارڈینیٹر بھی ہیں 

Categories
حرکات کے بارے میں

خُدا جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں میں کس طرح سرگرم ہے

خُدا جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں میں کس طرح سرگرم ہے

یحزقی ایل  –

ہم باہر سے آنے والے چرچ کے تخم کار کو، چاہے وہ اسی ملک کا باشندہ کیوں نہ ہو ، ندارد نسل کا، یعنی صفر نسل کانام دیتے ہیں ۔مقامی فرد جسے پہلی نسل کہا جاتا ہے وہ ہوتا ہے، جو کلام سُنتا ہے اور اُس   پر ایمان لاتاہے ،بپتسمہ پاتا ہے اور شاگرد بنتا ہے ۔ اس کے فورا بعد اُسے تربیت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے خاندان دوستوں اور واقف کاروں تک رسائی حاصل کرے۔ جب پہلی نسل کا ایمان دار اپنے دوست احباب کو خوشخبری سُناتاہے اور وہ ایمان لے آتے ہیں، تو نئے ایمانداروں کو فوری طور پر بپتسمہ دے کر اور شاگرد بنا کر تربیت دی جاتی ہے۔ یہ تربیت مقامی ایماندار دیتا ہے۔ یہ گروپ پہلی نسل کا گھریلو چرچ کہلاتاہے اور مقامی ایماندار  اُس کا راہنما ہوتاہے ۔

ایماندار پہلی نسل کے گھریلو چرچ میں ہر ہفتے باقاعدگی سے اکٹھے ہو کر ہماری دی ہُوئی ہدایات کے مطابق یسوع کی عبادت کرتے ہیں ، مل کر روٹی توڑتے ہیں اور خُدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ جلد ہی وہ اپنے رابطوں کے نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کرنے کی ذمہ داری لے لیتے ہیں ۔ پہلی نسل کے ایمانداروں کی شاگرد سازی کر کے انہیں تربیت دی جاتی ہے کہ وہ  مزید نئے لوگوں تک رسائی حاصل کرکے اُسی طرح مزید گھریلو رفاقتیں  تشکیل دیں اور نئے چرچز قائم کریں۔ 

یہ عمل چلتا رہتا ہے۔ اِس کی باقاعدہ نگرانی اور جائزہ کاری کی جاتی ہے اور مسلسل تربیت دی جاتی ہے۔ اس طرح ہم ہزاروں گھریلو چرچ یا رفاقتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔گذشتہ کئی سالوں میں لاکھوں لوگ ایمان میں  آ کر بپتسمہ پا چکے ہیں اور بیسویں نسل تک

پہنچ چکے ہیں۔ ہماری منسٹری کے نیٹ ورک نے دیگر علاقوں میں رسائی حاصل کر کے جنوب مشرقی ایشیا کے دوسرے  جزیروں اور دیگر لسانی گروپوں میں بھی کارکنان کو مدد فراہم کی ہے ۔

جِسے ہم چرچ کی تخم کاری کی تحریک  کا نام دیتےہیں، وہ    افزائش کا یہی عمل ہے، اس طریقہ ٔکار کے لئے طویل مدت کا عہد درکار ہوتا ہے اور مسلسل جائزہ کاری اور نگرانی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاکہ کہِیں ایسا نہ ہو کہ چرچ کی تخم کاری کا عمل خطرے میں  پڑ جائے ۔

گھریلو چرچز کی خود مختاری اہم ترین ترجیحات میں  سے ایک ہے۔ راہنماؤں کو بہت جلد اُن مہارتوں سے آراستہ کر دیا جاتا ہے جن کے ذریعے وہ منسٹری کی ملکیت حاصل کر لیتے ہیں ۔ صفر نسل کے راہنماؤں کی حیثیت سے ہم جلد ہی چرچ کے تمام انتطامات اور کاروائیاں  مقامی راہنماؤں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ وہ بپتسمے دیتے ہیں ،لوگوں کو رفاقت میں قبول کرتے ہیں ، خُدا کے کلام کی تعلیم دیتے ہیں اور عشائےربانی کا عمل کرتے ہیں ۔ مہارتوں سے آراستگی کے اس عمل کو ہم ” نمونہ پیش کرنا ، مدد دینا ، نگرانی کرنا اور اختیار دینا”  کہتے ہیں ۔ یہ عمل لوگوں کے  ایمان لانے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے ۔ اِبتدا سے ہی خود مختاری دینے   کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور فوری طور پر اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا جاتا ہے ۔ 

اس تحریک میں  شامل ایماندار نہ صرف اپنے حتمی ہدف سے آگاہ ہوتے ہیں بلکہ اُس ہدف کے حصول کے لئے درکار طرز ِ زندگی بھی اپناتے ہیں ۔ہمارا کام اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ یہ طریقہ کار اور عمل نسل درنسل ہر نئے ایماندار اور گھریلو چرچ تک منتقل ہوتا رہے ۔

 یحزقی ایل جنوب مشرقی ایشیا کے ایک بیپٹِسٹ چرچ کے مشن ڈائرکٹر ہیں۔ ہماری منسٹری کی توجہ جنوب مشرقی ایشیا کے مُسلم اکثریت کے علاقوں میں تحاریک کا آغاز پر ہے۔   ہمارے نیٹ ورک کی چرچز کے قیام کی کوششوں کی بُنیاد اِنجیل ہی ہے۔ جب ہم لوگوں سے ملتے ہیں تو ہمارا اولین دارو مدار اِنجیل پر ہی ہوتا ہے۔  لوگوں کے ساتھ رابِطے  کے وقت ہم سب سے پہلے،  ہر جگہ، ہر وقت اور ہر ایک کو کلام کی آگاہی دیتے ہیں۔ نئے مقامی ایماندار کو کلام پیش کر کے ہم ایمانداروں کی جماعت کے قیام کی بُنیاد رکھتے ہیں۔  

مشن فرنٹئیرز        www.missionfrontiers.orgکے جنوری-فروری 2018  کے شمارے میں صفحات 20-19 پر شائع ہونے والے مضمُون سے   ماخُوذ۔

اور   24:14 – A Testimony to All Peoples  کے صفحات 132-130 پر بھی شائع ہُوا۔          24:14     یا           Amazonپر بھی دستیاب ہے۔ 

Categories
حرکات کے بارے میں

خُدا کا کلام ایمان نہ رکھنے والوں پر اثر انداز ہوتا ہے

خُدا کا کلام ایمان نہ رکھنے والوں پر اثر انداز ہوتا ہے

ٹریور لارسن 

” کیا بائبل کی تعلیمات کے مطابق یہ درست ہے کہ کسی ایمان نہ رکھنے والے سے، روح القدس کے وسیلے کے بغیر   کہا جائے کہ وہ خُدا کے کلام کی راہ پر چلے ؟”

روح القدس کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ گناہ اور راستبازی کے معاملوں میں ایمان نہ رکھنے والوں کی عدالت اور انصاف کرے (  یوحنا 16: 8)۔ ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ روح القدس غیر ایمانداروں میں اپنا کام کرنے کے لئے خُدا کے کلام کو استعمال کرتا ہے ۔ رومیوں 10: 17 سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ایمان سُننے سے آتا ہے اور سُننا مسیح کے کلام سے ہے ۔

اگر ہم اعمال اور اناجیل کے پیغامات کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اُن میں سے بہت تھوڑے پیغامات صرف شاگردوں کو مخاطب کر کے دیئے گئے تھے۔ کلام کے زیادہ تر پیغامات بیک وقت مختلف لوگوں کے لئے تھے جن میں ایمان نہ رکھنے والوں کی تعداد ایمانداروں سے زیادہ تھی ۔ ان پیغامات میں سے اعمال 20 کے دو پیغامات تو بالکل مخصوص پیغامات تھے جن میں ایک جگہ بزرگوں اور دوسری جگہ بالا خانے میں شاگردوں کو مخاطب کیا گیا ۔ پھر یسوع اور اُس کے شاگرد ایک ملی جُلی بھیڑ کے ساتھ کیسے بات کرتے تھے جن میں زیادہ تر لوگ ایمان نہیں رکھتے تھے ؟

یسوع نے چار مختلف قسم کی مٹی کی تمثیل ( جن سے مراد کلام کے جواب میں چار مختلف ردعمل ہیں ) ملے جُلے سامعین کو سُنائی: جن میں زیادہ تر غیر ایمان دار اور کچھ ایمان دار تھے ۔یہ تمثیل سُناتے ہوئے اُس نے تمام سُننے والوں کو یہ دعوت دی کہ وہ چوتھی قسم کی مٹی بنیں ، یعنی اُن کے دل خُدا کا کلام قبول کر کے اپنی زندگیاں اُس کے مطابق گزاریں اور اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائیں ۔ اس تعلیم کا مقصد خوشخبری دینا نہیں تھا۔ اگرچہ یہ تمثیل سُننے والوں میں سے زیادہ تر لوگ ایمان دار نہیں تھے  یسوع پھر بھی چاہتا تھا کہ سُننے والے خُدا کے کلام کا مثبت جواب دینے لگیں ۔ 

جب آپ چار مختلف قسم کی مٹی کی تمثیل پڑھتے ہیں تو کیا  آپ نے ر ُک کر کبھی یہ کہا ،” یسوع کو کوئی توقع نہیں تھی کہ غیر ایمانداروں میں سے کوئی مثبت جواب دے گا ” ؟ یہ یسوع کی منادی کا طریقۂ                      کار نہیں تھا ۔ وہ تما  م سُننے والوں کو یہ چیلنج دیتا تھا کہ وہ خدا  کے کلام کو قبول کر کے اپنی زندگیا ں اُ س کے مطابق ڈھالیں اور ایمان کا پھل لائیں ۔ جب وہ کلام کی تعلیم دیتا تھا تو وہ ایمان داروں اور غیر ایمانداروں میں کوئی تفریق نہیں کرتا تھا۔ اُن سب کو ایک جیسا پیغام ملتا تھا ۔ سب کو کلام کی دعوت دی جاتی تھی اور سب سے مثبت جواب کی توقع کی جاتی تھی ۔ لیکن اُن کے جواب سے یہ پتہ چل جاتا تھا کہ کون خُدا کے کلام پر عمل کرنا چاہتا ہے اور کون نہیں ۔ یسوع ان ملے جُلے سامعین سے یہ توقع کرتا تھا کہ وہ چوتھی قسم کی مٹی جیسے بنیں جو پہلی تین قسم کی مٹی سے بالکل مختلف ہے ۔

یسوع نے کہا کہ کچھ لوگ اُ سکے کلام کو قبول نہیں کریں گے ، سو ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ ہر کوئی خُدا کے کلام کو قبول کرے گا ۔یہ اُس وقت بالکل  حقیقت بن کے سامنے آتا ہے جب ہم کسی بڑی تعداد میں سامعین کو خُدا کا پیغام سُنائیں یا ایمانداروں اور غیر ایمان داروں پر مشتمل کسی چھوٹے گروپ میں اس پر گفتگو کریں ۔ آج کے زیادہ تر چرچز میں ایسی ملی جُلی مجلس نہیں ہوتی ۔ تمام شُرکا ایماندار ہوتے ہیں (ویسے نہیں ہوتے جیسے اعمال اور انجیل کے دور میں ملے جُلے سامعین ہوتے تھے ۔)

دریافتی بائبل سٹڈی کے گروپوں میں کیا ہوتا ہے ؟ کلا م کو رد کرنے والا کوئی شخص( جو پتھریلی زمین کی طرح ہوتا ہے )مشکل سے ہی بائبل سٹڈی میں شامل ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نارسا قوموں کے مسلم گروپوں میں لوگ بائبل پر گفتگو کی دعوت کو فوری طور پر رد ہی کر دیتے ہیں ( یا انہیں دعوت ہی نہیں دی جاتی – تاکہ جو بائبل سُننا چاہتے ہیں اُن کے لئے کو ئی خطرہ پیدا نہ ہوجائے ) ۔گروپ میں شامل ہونے والے بڑے ہمت اور حوصلے کے ساتھ بائبل سٹڈی کے گروپ میں داخل ہوتے ہیں ۔ 

ہماری گروپوں کی گفتگو میں دیگر تین قسم کی مٹی کی صفات رکھنے والے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں  ۔مسیح کا کلام وہ پڑھتے ضرور  ہیں اوراُس پر گفتگو کر کے چیلنج بھی لے لیتے ہیں  لیکن ہر ایک کا جواب مختلف ہوتا ہے ۔ نارسا مسلم گروپوں میں زیادہ تر لوگ جو  کلام سُن کر اپنی زندگیوں کو اُس کے مطابق نہیں ڈھالتے ،وہ بائبل سٹڈی گروپوں میں آنا ہی چھوڑ دیتے ہیں یا دوسروں کو بھی دھمکاتے ہیں ۔

خطرہ زیادہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں پر مشتمل گروپوں میں لوگوں کو بڑے محتاط طریقے سے منتخب کیا جاتا ہے ، اور یہ ہمیں کینڈا یا امریکہ کے چرچز میں نظر نہیں آتا ۔ اگر وہ یسوع کے پیچھے چلنے کی قیمت اد اکرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو انہیں اس سے کیا حاصل ہو گا ؟ انہیں نوکری کھو دینے ، گھر سے نکالے جانے یا تشدد کا شکار ہونے کا خطرہ بھی رہتا ہے  ۔ ایک طرح سے یہ حیرت انگیز بات ہے کہ ان خطرات کے باوجود بہت سے مسلمان بائبل سٹڈی کے گروپوں میں شامل ہو بھی جاتے ہیں ۔  چرچ کی عمارت میں داخل ہونے کی نسبت آپس میں ایک محفوظ ماحول میں بیٹھ کر کلام سُننا نسبت کم خطرے کا باعث ہوتا ہے ۔ہر سہ ماہی میں ایسے بہت  سے  مسلمان جو بائبل سٹڈی گروپ میں شامل ہونے کا حوصلہ کر لیتے ہیں ، وہ مسیح پر ایمان لے آتے ہیں ۔ انہی گروپوں میں شامل دیگر لوگوں کو ہو سکتا ہے کہ مزید ایک اور سہ ماہی کا عرصہ درکار ہو ۔ 

روح القدس ایمان نہ رکھنے والوں میں نہیں اترتا ۔ لیکن انہیں خُدا کے روح تک رسائی ضرور ہوتی ہے جو بیرونی طور پر کام کرتے ہوئے انہیں ایمان کی طرف لاتا ہے ۔ یسوع نے اس بات کی وضاحت یو حنا 16: 8 میں کی۔  روح القدس گناہ راستبازی اور انصاف کی عدالت کرتا ہے ۔روح القدس کا یہ کردار ایمانداروں میں اُس کے کردار سے مختلف ہے ۔ روح القدس اکثر ایمانداروں کو استعمال کرتا ہے کہ وہ ایمان نہ رکھنے والوں کو  خُدا کا کلام سُنا کر ایمان کے دائرے میں لے آئیں ۔ سو ایمان داروں کو چاہیے کہ وہ خُد اکا کلام سُنا کر غیر  ایمانداروں کی مدد کریں کہ  وہ ایمان کے دائرے میں آ جائیں یہ طریقہ دراصل اناجیل اور اعمال کی کتاب کے طریقے کی تقلید ہے۔ اس طریقے سے روح القدس ایسے ایمان نہ رکھنے والوں کے دلوں کو کھولتا ہے جو اُس کے کلام کا جواب دینے کو تیار ہیں ۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم ایمان نہ رکھنے والوں تک خُدا کا کلام پہنچائیں ۔ اگر انہیں کسی گروپ میں شامل ہو کر خُد اکا کلام پڑھنے اور اُس پر گفتگو کرنے کی عادت ہو جائے ۔ (اس سے پہلے کہ وہ ایمان لائیں )، تو ہم دیکھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایمان لے ہی آتے ہیں ۔اگر آپ بچپن ہی سے ایمان میں نہیں تھے اور بعد میں ایمان لائے ہیں تو آپ  اس معاملے میں اپنے تجربے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں ۔ میں خود ایک آزاد چرچ کے ماحول میں پلا بڑھا اور جب میں ہائی سکول پہنچا تو انہوں نے مجھے یوتھ لیڈر کے طور پر منتخب کر لیا ۔  میں تب تک پوری طرح ایمان نہیں لایا تھا لیکن جب انہوں نے مجھے یوتھ لیڈر منتخب کیا تو مجھے اپنی روحانی حالت کے باعث یہ انتخاب عجیب لگا اور میں پریشان بھی ہوا۔ جو کچھ میں نہیں جانتا تھا ، میں وہ سمجھ نہیں پاتا تھا اور میں یہ بھی نہ جان پایا کہ میں ایمان کیسے لا سکتا ہوں ۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ ایسا کیوں ہے کہ چرچ جانے کے باوجود میں حقیقی طور پر ایمان نہیں لایا تھا ۔ مجھے بس اتنا پتہ تھا : ( اگر مجھے اس گروپ کی قیادت کرنی ہے تو میرے لئے ضروری ہے کہ میں خُدا کے تعلق کا ذیادہ گہرائی میں تجربہ حاصل کروں )۔میں جنگل میں چلا گیا اور وہاں کافی دیر تک بیٹھا رہا ۔ میں نے دعا کرنے کی کوشش کی اور خُدا سے  پوچھا :” میں تمہیں کیسے تلاش کروں گا ؟ میں ایمان کیسےحاصل کروں گا ؟” میں وہاں بیٹھا رہا اور اپنی سمجھ کے مطابق خُدا سے باتیں کرتا رہا ۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میں کیا کر رہا تھا ۔ میں صرف خُدا تک پہنچنا چاہ رہا تھا :یہ جاننا چا ہ رہا تھا کہ میں آگے کیسے بڑھوں ؟ پھر خُدا نے ایک ایمان نہ رکھنے والے سے کلام کیا ۔ میں نے بائبل کے کچھ حصے چرچ میں سُنے تھے، اور پھر میں نے بائبل کا باقاعدہ مطالعہ شروع کیا اور کلام میرے دل میں اترنے لگا ۔ کلام نے میری مدد کی کہ میں جان سکوں کہ ایمان لانے سے پہلے میں اس کلام سے بالکل واقف نہیں تھا۔  میں خُد اکے کلام کے معاملے میں بالکل اندھا تھا۔  پھر ایک وقت ایسا آیا جب خُدا میرے پاس آیا اور اُس نے میری آنکھوں کو روشنی دی ۔ یہ سب بائبل سٹڈی کے گروپ میں ہوا جب میں پہلی مرتبہ اُس گروپ میں شامل ہوا ۔یہ گروپ ایمانداروں اور غیر ایمانداروں کا ایک ملا جُلا گروپ تھا مجھے یقین ہو گیا کہ خُدا نے میرے ساتھ ایک ذاتی تعلق قائم کر کے میرے گناہ دیکھتے ہوئے بھی مجھے معاف کیا اور مجھے اپنے فضل سے ایمان عطا کیا ۔ 

ہمیں اس بات پر کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ جب ایمان نہ رکھنے والے خُدا کے کلا م کا مطالعہ کریں تو خُدا  اُن سے ضرور کلام کرے گا ۔ زیادہ تر غیر ایمان دار  جو خُدا کے کلام کا مثبت جواب دیتے  ہیں ، اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسے کام کریں جس سے خُدا خوش ہو ۔ لیکن خُدا اُس سے آگے بڑھ کر انہیں  یہ دیکھتا ہے کہ اُن کا اصل مسئلہ اُن کے گناہ ہیں ،اور یہ کہ اُس فضل پر ایمان رکھنا لازمی ہے جو مسیح کے وسیلے سے ملتا ہے ، نہ کہ اُن کے اپنے اچھے اعمال سے ۔

اگر آپ دوبارہ اعمال کی کتاب کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں  گےکہ خُد انے اعمال میں کتنی مرتبہ لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا؟ خُدا  نے ایسے بہت سے کام کئے جن سے ایمانداروں کو حیرت ہوئی ۔ ہمیں آج بھی یقین ہونا چاہیے کہ خُدا کا روح اپنے کلام کے وسیلے سے اُن لوگوں کو نجات تک لے جا سکتا ہے جنہوں نے اس سے پہلے خوشخبری نہیں سُن رکھی ۔ بہت مرتبہ خُد اکا روح ، کلام کو استعمال کر کے غیر ایمانداروں کو نجات اور ایمان کی طرف لے آتا ہے ۔

Categories
حرکات کے بارے میں

24:14 گُزشتہ کاوشوں سے مختلف کیوں ہے؟

24:14 گُزشتہ کاوشوں سے مختلف کیوں ہے؟

ولیم او برائن اور آر۔ کیتھ پارکس  –

ہر دور میں ایسے با صلاحیت اور بُلاہٹ کے حامل بین التہذیبی مشنری موجود رہے ہیں جو پوری دُنیا کو یسوع کے بارے میں آگاہ کرنے میں کردار ادا کرنے کی خواہش کے حامل تھے ۔ ستفنس کی سنگساری کے بعد راہ ِ حق کے پیروکار اپنی جانیں بچانے کے لیے سامریہ اوردیگر علاقوں میں بھاگ گئے ۔ کلام کی کہانیاں سُنانے والے اِن بے  نام لوگوں نے قول اور فعل کے زریعے خوشخبری پھیلائی ۔ 1989 میں ڈیوڈ بیرٹ نے نشاندہی کی کہ 33 عیسوی سے آج تک انجیل کی منادی کے 788 منصوبے بنائے گئے۔ تب سے آج کے دور تک بہت سے نئے منصوبے بھی اُبھرے ہیں ۔ سوال اُٹھ سکتا ہے :”14: 24 کِس لحاظ سے مختلف ہے ؟”

ادارہ جاتی بمقابلہ بُنیادی کاوش : ماضی میں زیادہ تر منصوبے کسی نہ کسی تنظیم ، ادارے یا فرقے پر مرکوز رہے ہیں اگرچہ اِس کے نتیجے میں مشنری سرگرمیاں اور دُنیا بھرمیں مسیح کی جانب آنے والے لوگوں کی تعداد بڑھی لیکن اُن لوگوں تک رسائی کی کوششیں نہیں کی جاسکیں جن تک کلام نہیں پہنچ سکا تھا ۔ اِس کے علاوہ ایسی ایماندار جماعتیں بھی قائم نہ ہو سکیں جو خود اپنی افزائش کرتیں ۔ 

24:14کسی تنظیم یا فرقے سے منسلک نہیں ہے اِس کی تشکیل تنظیمی راہنماوں نے محض نظریات کی بنا پر نہیں کی اِس کی چلانے والوں میں زمینی حقائق سے با خبر سرگرم کارکُنان ہوتے ہیں جو اصلی تحریکوں میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر عملی اور نسبتاً کم نظریاتی معیار کی حامل ہے ۔ اِس تنظیم کا مرکزِ نگاہ یہ مقصد ہے  کہ تمام نا رسا قوموں تک موثر انداز میں پہنچ کر اُن کو سرگرم کیا جائے ۔ 

بندھنوں سے آزاد، بھیجنے کا عمل :  24:14 کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کارکُنان بین التہذیبی گروپوں تک محدود نہیں ہیں اور کثیر مالی وسائل کا تقاضا نہیں کرتے ۔نئے ایماندار خوشخبری کے منادوں کہ شراکت  کار بن جاتے ہیں  اور یوں کلام کی گواہی دینے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے ۔ 

جدید ٹیکنالوجی  کی دستیابی :   یہ بھی ایک اہم عنصر ہے ۔اِن میں سے سب سے زیادہ قابل ذکر ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی رابطے ہیں اِس کے نتیجے میں کلام کا ترجمہ تیز رفتار اور تربیتی وسائل کی تقسیم بہتر ہو جاتی ہےاِس کے علاوہ ٹیم کے ممبران کے ساتھ رابطے زیادہ تواتر کے ساتھ ہوتے ہیں اور کامیابی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔  تاہم، ہم سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی روبرو ملاقات کا متبادل نہیں ہو سکتی اِس لیے اِس منصوبے کو آگے بڑھانے میں روبرو مُلاقاتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ 

بہتر جائزے اور اعدادو شمار سے اگاہی :  ٹیکنالوجی کے استعمال سے نا مکمل کام کی درست ترین تصویر سامنے آتی ہے۔ 1974 میں عالمی منادی کے موضوع پر  لوسین کانفرس میں بہت سے کامیابیاں ملیں ۔ اِن میں سے ایک ” نا رسا قوموں کے گروہ” کی اصطلاح تھی جو فُلر تھیولاجیکل سیمنری کے رالف وینٹر نے پیش کی۔ ماضی میں تمام منصوبے پوری پوری قوموں کے لیے بنائے جاتے رہے اور قوموں میں موجود مختلف نسلی گروہوں اور زبانوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ 24:14 کے پاس اب ایسے  اعدادو شمار اور معلومات موجود ہیں جو زیادہ قابل ِ بھروسہ اور قابل ِ استعمال ہیں۔  ذمہ داری کو مخصوص انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اِس سے بڑھ کر نا صرف سر گرمی بلکہ سی پی ایم کی سرگرمیوں کی معلومات بھی حاصل کی جا رہی ہے ۔       اِس کے نتیجے میں شاگردوں کی وہ ضروری افزئش ہو رہی ہے جو کسی نارسا گروہ تک حقیقی رسائی کے لیے ضروری ہے ۔ 

بائبل کی بُنیادوں پر قائم :  14 :24 کا طریقہ کار بائبل کے اصولوں پر مبنی ہے جو تنظیم کو بے انتہا فائدہ پہنچاتا ہے ۔ ماضی میں غیر مُلکیوں کو روحانی راہنمائی کے لیے لازمی سمجھا جاتا تھا اور گروپوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ مشنریوں کا وقت ، توانائی اور وسائل دباؤ میں آ جاتے  تاہم 14 : 24 لوقا 10 میں مذکور سلامتی کے فرزند کا اصول استعمال کرتے  ہوئے اُن کے رابطوں اور تعلقات کے زریعے دِل جیت لیتی ہے ۔ دریافتی بائبل سٹڈی اور روح القدس کی راہنمائی سے شاگرد بنا کر اُنہیں فرمابرداری سِکھائی جاتی ہے پھر ہر گروپ شاگرد سازوں کی مزید نسلیں بڑھتا جاتا ہے یوں غیر مُلکیوں پر دباؤ نہیں پڑتا بلکہ مقامی راہنما اپنی قوم کے لوگوں کو شاگرد بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔ 

مصدقہ کامیاب ماڈل : 14 :24 کے اتحاد کی تحریکیں شاگردوں اور چرچز کی بے انتہا افزائش دیکھ رہی ہیں ۔ تہذیبی تناظر سے مطابقت رکھنے والے یہ ماڈل انسانی وسائل پر انحصار نہیں کرتے خُداوند اِن ماڈلوں کو تمام نارسا قوموں تک پہنچنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے ۔ 24:14 کے کلیدی راہنما اِس کام کے آغاز اور اِس کی کامیابی کے تعین کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں گُذشتہ دو دہائیوں میں وہ ایسے عوامل کی نشاندہی کر چُکے ہیں جو کسی تحریک کو تیز رفتار یا سُست بنا سکتے ہیں ۔ماضی میں کئی مرتبہ جب کوئی نئے اسلوب استعمال کئے گئے تو اُن کے فوائد جانچنے کے لیے جائزہ کاری کی مہارتیں موجود نہیں تھیں ۔ اَب انجیل کے منا د مسلسل تبدیلیاں کرنے کے اہل ہیں جن میں قیادت کی تبدیلی ، قریبی گروپوں کے ساتھ رابطے یا تجربے کے حامل افراد کی فراہمی ہو۔

ایک بہت خاص اتحاد : مجموعی طور پر 24:14 دو لازمی اور ایک دوسرے سے مربوط موضوعات کا مرکب ہے : نا رسا قومیں اور ثمر آور تحریکوں میں مِل کر کام کرنا ہم جانتےہیں کہ خوشخبری کی منادی دُنیا کی تمام اُمتوں اور قوموں کے لیے ہے 24:14  میں شامل لوگ مختلف قومیتوں کی ایک وسیع پس منظر سے آتے ہیں اور مغربی تہذیب کی قید سے آزاد ہوتے ہیں ۔ 

دُعا: بے شک دُنیا میں انجیل کی منادی کے تمام منصوبوں کے لیے دُعا ایک لازمی عنصر رہی ہے تا ہم اِن میں سے اکثر کے لیے دُعاوں کا دائرہ کسی ایک تنظیم یا فرقے تک محدود رہا اِس کے برعکس اِس منصوبے کا آغاز ہی دُنیا بھر میں تمام لوگوں کی دُعاؤں سے ہوا  اور پھر جب نئے شاگرد شامل ہوتے ہیں تو ایمان میں آنے والے نا رسا لوگ دُعا کو ایک نیا پہلو دے دیتے ہیں جو کہ اِس منصوبے کی کامیابی کے لیے لازمی ہے ۔ یہ عالمگیر دُعائیں 24:14 کا خاصہ  ہیں ۔

1985 میں ہم دُنیا کے نقشے پر نظر ڈالی اور یہ جانا کہ دُنیا کے نصف سے زائد ممالک جو روایتی مشنریوں کے لیے ممنوع ہیں ، پوری دُنیا تک پہنچنے کے ہمارے جُرات مندانہ منصوبوں کا حصہ ہی نہیں۔ اِن ممالک میں انجیل سے محروم قوموں کی بہت بڑی اکثریت تھی ۔ہم نے دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر مشن کے طریقہ ِ کار تبدیل کرنے کی کوشش کی تا کہ اِس تلخ حقیقت کو بدلا جا سکے۔ 

خُداوند نے 1985 سے جو کُچھ کیا ہے ہم اُس پر بہت پرُ جوش ہیں اور ہم دُنیا بھر میں اپنے بہت سے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ 24:14 کے اتحاد میں شامل ہیں ۔ ہمارا مقصد اُس دِن کو قریب لانا ہے جب خوشخبری کی منادی دُنیا کی ہر قوم ، قبیلے ، زبان اور اُمت تک پہنچ جائے ۔

 

ولیم  او برائین انڈونیشیا میں ایک سر گرم مشنری، امریکہ میں چرچ کے تخم کار اور پاسٹر،  آئی ایم بی کے ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ، سیمفورڈ یونیورسٹی میں گلوبل سنٹر کے بانی ڈائرکٹر اور بِیسن ڈیونِٹی سکول میں مشنز کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چُکے ہیں۔ وہ  1998 میں      “چوُزِنگ اے فیوچر فار یو ایس مشنز” نامی ایک کتاب کی تصنیف میں  بھی شریک مصنف رہے۔

آر۔  کیتھ پارکس ساؤتھ ویسٹرن بیپٹسٹ تھیولاجیکل سیمنری سے ڈاکٹر اِن تھیالوجی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ وہ انڈونیشیا میں مشنری، آئی ایم بی کے صدر اور سی بی ایف کے گلوبل مشنز کو آرڈینیٹر  کی حیثیت سے خدمات  انجام دے چُکے ہیں۔  اُن    کی اہلیہ ہیلین جین ہیں اور اِس جوڑے کے چار  بچے اور سات نواسے،نواسیاں/پوتے پوتیاں ہیں۔ آج کل وہ سی ایف بی رچرڈسن، ٹیکساس میں  غیر مُلکی طلبا کو بائبل سٹدی پڑھاتے ہیں۔

 مشن فرنٹئیرز        www.missionfrontiers.orgکے جنوری-فروری 2018  کے شمارے میں صفحات  نمبر 38-39 پر شائع ہونے والے مضمُون  کی تدوین شدہ شکل۔ یہ مضمون  24:14 – A Testimony to All Peoples   کے صفحات 206-209  پر   شائع ہُوا اور24:14  اورAmazon  پر دستیاب ہے۔

Categories
حرکات کے بارے میں

چرچ میں قائدانہ کردار – حصہ: 5B

چرچ میں قائدانہ کردار – حصہ: 5B

ٹریور لارسن 

” آپ نے افسیوں کے 4 : 11 میں مذکور رسولوں ، نبیوں ، منادوں ، پاسبانوں اور استادوں کو چرچ کے قیام کے عمل میں کہاں سر گرم دیکھا  ہے ؟ جب آپ نئے عہد نامے کے چرچز تشکیل دے رہے ہوں تواُن میں تعلیم اور منادی کا کردار کہاں آتا ہے؟ “

ہمارا” پھل پر نظر ” کا تصور شاگرد سازی کی تحریکوں کے نمونے کی ہی ایک صورت ہے جس کی تربیت ڈیوڈ واٹسن نے 2008 میں دی ۔ ہم مقامی سطح پر تحقیق اور چرچ کے قیام میں مقامی تناظر کو مدنظر رکھنے پر بہت زور دیتے ہیں ۔ ہم اس پر بھی بہت زور دیتے ہیں کہ غریب ممالک کے معاشروں میں محبت پیار اور ہمدردی کے جذبات کے اظہار کو تحریکوں کے اس نمونے میں شامل کیا جائے ۔ایک معیاری شاگرد سازی کی تحریک کی طرح ہمارا نمونہ صرف منادی پر انحصار نہیں کرتا ،بلکہ شاگردوں کو مسیح میں مستحکم ہو کر پھل لانے میں مدد دیتا ہے ۔ لیکن شاید ہم چرچ کی تشکیل اور ترقی کو شاگرد سازی کا پھل ہی سمجھتے ہیں، جیسا کہ ہم بائبل کے ابتدائی 200 سالوں میں دیکھ سکتے ہیں ۔ ” پھل پر نظر “کے نمونے کا متوقع نتیجہ ایک ایسا چرچ ہوتا ہے جو چاردیواری سے آزاد ہوتا ہے : ایک پھلتا پھولتا ، وسعت پاتا ہوا کلیسیا کا  نظام جو ہمیں اُس دور میں نظر آتا ہے جب نیا عہد نامہ لکھا گیا ۔ 

میرا تعلق اُس مکتبۂ فکر سے ہے جن کا یقین ہے کہ نئے عہد نامے کی تحریر مکمل ہونے کے بعد سے رسولوں اور نبیوں کا آنا بند ہو گیا ہے ۔ ہمیں اُن کے بارے میں فکر ہوتی ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کے پاس رسولوں جیسا اختیار ہے اور اُن کی تحریروں کی قدر وقیمت بھی نئے عہد نامے کی تحریروں جیسی ہے ۔یقینا ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ بائبل کی تحریر کا سلسلہ بند ہو چکا ہے ۔

رسالت کا تحفہ

پھر بھی پولوس رسول  محض ایک لکھنے والے سے بڑھ کر تھا ۔اُس کی زندگی کا مقصد تھا کہ ایسے علاقوں میں مسیح کی منادی کرئے جہاں چرچ موجود نہیں ہیں ۔ جب مجھے سیمنری کے ایک پروفیسر کی حثیت سے مسیحیت کے مختلف فرقوں کی طرف سے راہنماؤں کی تیاری اور تربیت کے لئے دعوت ملتی ہے، تو میں ایسے لوگوں سے ملتا ہوں جو اس موقع پر  پولوس رسول کی طرح لگتے ہیں۔ وہ نارسا قوموں اور علاقوں میں نئے چرچز کی ابتدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ کچھ مخصوص قسم کے پاسٹر ز 70 ایمانداروں کی ایک جماعت کی پاسبانی کرنے میں خوش رہتے ہیں (جو کہ ہمارے ملک میں چرچ کا اوسط سائز ہے  ) لیکن کچھ مسیحی راہنما ایسے کئی مزید چرچ بناتے چلے جاتے ہیں اور آخر میں وہ ایسے آٹھ دس چرچز کی نگرانی کر رہے ہوتے ہیں جوآپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں ۔ 

مجھے بار  بار یہ صورت حال نظر آتی رہی اور میں اپنی خدمت کے علاقے میں اس قسم کے مسیحی راہنماؤں کے بارے میں تجسس کاشکار ہو گیا جو ہمیں امریکہ میں اکثر نظر نہیں آتے ۔ جب یہ شاگردوں جیسے افراد ارشاد اعظم    پر غور کرتے ہیں تو انہیں نظر آتا ہے کہ ارشاداعظم اُن سے تقاضا کر رہا ہے کہ وہ مزید شاگرد  بناتے چلے جائیں اور اس کے نتیجے میں مزید چرچ بنتے چلے جاتے ہیں  ۔ یہ دوطرح کے راہنماا ایک دوسرے سے مختلف ہیں ایک وہ قسم ہے جو پاسبانی کا کردار ادا کرتے ہیں اور ایک مخصوص تعداد کے گلے کی نگہبانی کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں آسانی ہو ۔ دوسری قسم وہ ہے جو رسولوں کی سی خصوصیات کے حامل ہیں  اور نارسا علاقوں  اور قوموں میں نئے چرچز قائم کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں ۔

وقت کے ساتھ ساتھ میں ایسے سولہ لوگوں  سے واقف ہو گیا جو رسولوں کی خصوصیات کے حامل تھے اور جو صرف چرچز کی نگہبانی نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ نارسا قوموں میں  رہنے والے مسلمانوں کے درمیان نئے چرچز قائم کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اس غیر معمولی جذبے کی عکاسی کرنے  کے لئے میں آپ کو ایک شخص کے بارے میں بتاتا ہوں جس کا ایک بیٹا ہسپتال میں مرنے کے قریب تھا ۔ 15 سال تک مرگی کے دوروں کے باعث اُس کا دماغ شدید متاثر ہو چُکا تھا اور ایک روز اُس نے مجھے سے کہا ” ہسپتال میں میرے بیٹے کے کمرے میں ،مَیں بہت دباؤ کا شکار تھا، اس لئے مجھے ہسپتال کی ایک اور منزل پر ایک اور کمرا لے کر مسلمانوں کو منادی کرنا پڑی ۔ یہ میرے لئے بہت سکون بخش کام ثابت ہوا !” 

میں نے سوچا :” یہ ایک ایسا شخص ہے جو ہم میں سے ذیادہ تر لوگوں سے بہت مختلف ہے : وہ اپنے دباؤ سے نجات حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو منادی کرتا ہے !” یہ منسٹر ی  کی ذمہ داریوں سے بہت آگے کا کام ہے ایسے لوگ اسے ایک مشغلہ سمجھتے ہیں اور منادی کے لئے پولوس جیسا جوش و جذبہ رکھتے ہیں ۔( رومیوں 1: 14؛ 15: 20 ؛ 2 کرتھیوں 10: 12 – 16)کلام کی منادی ایسے تمام علاقوں میں کرنے کا جذبہ جہاں ابھی یسوع مسیح کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔ 

سی کے بیرٹ اپنی کتاب   The Signs of  an Apostle   میں بارہ رسولوں اور پولوس کا ذکر کرتے ہیں ۔ اور اُس میں راہنماؤں کے ایک  دوسرے درجے کا بھی ذکر ہے جو برنباس اور  رسولوں کی دوسری ٹیم کی طرح منادی کو نارسا علاقوں تک لے گئے ۔ اندرونیکس اور یونیاس ( رومیوں 16: 7 ) اپفردتس ( فلیپوں 2: 25) کی طرح دیگر لوگوں کو بھی رسول کہہ کر پکارا گیا ۔ اس کے علاوہ مزید لوگوں کا بھی بحیثیت رسول ذکر ہے جنہیں چرچز سے منادی کی ذمہ داری دے کر بھیجا گیا – مثال کے طور پر  2کرنتھیوں 8: 23 میں نام لئے بغیر کچھ بھائیوں کا ذکر ہے۔ یقینا  بائبل کی تحریر کا سلسلہ ختم ہو چُکا ہے لیکن شاگردوں جیسا  وہ جوش و جذبہ جو پہلی صدی میں موجود تھا  اور جس کی وجہ سے چرچ اتنی تیزی سے پھیلا ، وہ جذبہ کچھ جگہوں پر آج بھی موجود ہے یہ لوگ کلام کو آج بھی اُن آبادیوں اور قبیلوں تک لے جانا چاہتے ہیں جہاں ابھی تک یسوع کا نام نہیں لیا گیا ۔ ایسے لوگ جنہیں میں رسولوں جیسے جذبے کا حامل ہونے کے طور پر جانتا ہوں ، وہ کلام کو تیز رفتاری سے آگے پھیلانے میں راہنماؤں کا کردار ادا کر رہےہیں ۔

جب میں نارسا لوگوں کے گروہوں میں  بہت سا پھل لانے کے لئے  ایسے لوگوں کی مدد کر رہا تھا تو میں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ میرے اندر بھی یہ ہی جذبہ ہے ۔ سیمنری کے دنوں میں ، میں کمبوڈیا ، ویتنام اور لاؤس کے لوگوں تک  پہنچنے کے لئے لوگوں کو اپنے ساتھ شریک ہونے کی دعوت دے رہا تھا اُس وقت میں نے سوچا ہی نہیں کہ ان میں سے کوئی رسولوں کی خصوصیات کا حامل ہے ، مجھے یہ سمجھ کبھی نہیں آیا کہ میں بھی وہ ہی کر رہا تھا ۔ لیکن خُداوند نے مجھے اسی جذبے کے ساتھ پیدا کیا تھا ۔گذشتہ روز میری سالگرہ کے دن ،کسی نے مجھے پوچھا ۔ میرا مشغلہ کیا ہے ،میں نے کہا ، ” میں ایسے نارسا گروہوں کی تعداد کا شمار رکھتا ہوں جن تک ہم نے گذشتہ سال رسائی حاصل کی تھی ۔”یہ اس لئے ہے کہ جب میں کسی کے لئے کچھ اور نہیں کر رہا ہوتا تو میں یہ ہی کر رہا ہوتا ہوں ۔میری سوچ کے مطابق یہ چیز میرے لئے سب سے زیادہ پُر لطف ہے ! یہ دوسرے لوگوں سے مختلف ہے ۔ رسولوں کے جیسے لوگ ایسے میدانوں تک پہنچنا چاہتے ہیں جو ابھی کھولے نہیں اور وہ وہاں جا کر کھیتی پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ مختلف تہذیبوں میں جاکر کام کرنے والوں میں سے بہت کم لوگوں میں یہ جذبہ ہے ۔ پھر بھی اس قسم کے کئی غیر ملکیوں نے میرے ساتھ رابطہ کیا ہے اور وہ قومی سطح پر رسولوں کی جیسی خصوصیا ت رکھنے والے لوگوں کے ساتھ مل کر مزید پھل لانے میں مدد دے رہے ہیں ۔ میں رسولوں جیسے خادموں کی تلاش میں رہتا ہوں ۔ میں ایسے ایمانداروں کو ڈھونڈتا ہوں جن کے پاس یہ تحفہ ہے ۔ اور میں اب انہیں تلاش کرنے اور اُن کی مدد کرنے میں مہارت حاصل  کر چُکا ہوں ۔ میں اپنی زندگی کا ہر کام اس سوال کے گرد رہ کر کرتا ہوں :” میں زیادہ سے زیادہ پھل لانے کے لئے رسولوں جیسے خادموں کی مدد کس طرح کر سکتا ہوں ؟”۔ اگر مجھے دلی جذبہ رکھنے والے لوگ ملیں، یا تنظیمی صلاحیتو ں والے لوگ، تو ہمارے پاس اُن کے لئے بھی جگہ ہے ، جو کہ رسولوں جیسے راہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ۔ کیونکہ رسولوں جیسے خادم اتنا ذیادہ پھل لاتے ہیں کہ ہر طرح کی مشکلات سے نمٹنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے ذیادہ سے ذیادہ لوگوں کو بھرتی کرنا پڑتا ہے ۔ اسی لئے میرا خیال ہے کہ افسیوں 4: 11 میں جن پانچ تحفوں کا ذکر ہے اُن میں رسول بھی شامل ہیں ۔ وہ دیگر ایمانداروں کو خدمت کے کام کرنے کے لئے تیار کرتے ہیں جیسا کہ اس کے بعد والی آیت میں ذکر ہے ۔ ان پانچ تحفوں کے حامل لوگوں کا کام یہ ہی ہے کہ وہ دوسروں کو اختیار دیں اورانہیں  تیار کریں ۔ رسولوں کی خصوصیات رکھنے والے خادم ایک طوفان کی طرح آگے بڑھتے ہیں اور چرچ کے اس آگے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ میں مدد دینے کے لئے اور بہت سے لوگوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔

مناد ، پاسبان اور استاد 

ایسا لگتا ہے کہ ہماری تحریک میں یہ پانچوں تحفے رکھنے والے لوگ موجود ہیں ۔ ایک رسول اور مناد میں کیا فرق ہے ؟ میں نے یہ دیکھا ہے کہ مناد چھوٹے گروپوں میں انفرادی رابطے رکھنے سے اور روبرو ملاقاتیں کرنے سے خوش رہتے ہیں ۔ یہ مہارت رسولوں کی مہارت کے مقابلے میں ذرا کم ہے ۔ یہ کام مقامی بنیادوں پر ہوتا ہے  اور جہاں وہ ہوتے ہیں وہاں وہ خوش رہتے ہیں ۔ انہیں مدد دی جائے تو وہ دوسرے لوگوں کو منادی کرنے کے لئے تیار کر سکتے ہیں وہ دوسرے ایمانداروں کو صرف منادی کے لئے ہی تیار کر سکتے ہیں ۔لیکن رسولوں جیسے لوگ ایسی بہت سی صلاحیتیں رکھتے ہیں جنہیں وہ ضرورت کے وقت استعمال کر کے کلام اور چرچ کو اُن جگہوں تک پہنچا سکتے ہیں جہاں وہ ابھی تک نہیں پہنچے ۔

اب کچھ پاسبانوں یا پاسٹروں  کی بارے میں 

تحریکوں کے سب سے زیادہ پھل لانے والے سولہ متحرکین  میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے پاس پاسبانی کا تحفہ ہے، لیکن رسولوں کے جیسے پاسبان ہوتے ہوئے وہ ایمانداروں کے صرف ایک گروپ کی نگہبانی کرنے کے بجائے۔ اوپر  کی سطح کے راہنماؤں کی گلہ بانی کرتے ہیں ۔ جب کچھ لوگ زندگی کھو کر راستے سے الگ ہو جاتے ہیں  تو دیگر لوگ بھی ہٹ جاتے ہیں لیکن پاسٹر ز اُس وقت سامنے آتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں   جو دیگر راہنماؤں کو تسلی دیتے ہیں اور اُن کی مدد کرتے ہیں کہ وہ ہرقسم کی صورت حال میں حوصلہ بلند رکھیں ۔موت کے ساتھ بھی یہ ہی معاملہ ہے ہم نے چھوٹے گروپوں کے نیٹ ورکز میں کوو ڈ 19 کے باعث 3000 سے زائد لوگ کھو دیئے اور ان میں وہ راہنما بھی شامل ہیں جو اُن کے بہت قریب تھے ۔ سو اس وجہ سے ہمارے متحرکین بہت دکھ کا شکار ہوئے ۔ ایسی صورت حال میں ایسے پاسبان سامنے آ کردوسروں کی مدد کرتے ہیں ۔یقینا ایک تحریک میں ہمیں پاسبانی  کا  تحفہ رکھنے والے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ پچاس پچاس لوگوں کے گروپ کے لئے مزید گلہ بان تیار کر سکے ہمارے تمام بڑے چھوٹے علاقوں ،مختصر گروہوں اور کلسٹروں میں  راہنما موجود ہیں یہ سب مل کر ہماری راہنماؤں کی ٹیموں کا نظام تشکیل دیتے ہیں ۔

ہمارے کچھ خاص راہنما بھی ہیں ایسے خاص راہنماؤں کو ہم “مشیر “کہتے ہیں  یہ بھی حقیقتا پاسبانی کا ہی ایک کردار ہے ۔ یہ لوگ منشیات کے عادی لوگوں ، غم کا شکار لوگوں ، اور خاندانی جھگڑوں میں مدد دینے کے لئے  مشاورت دینے کی تربیت حاصل کر چکے ہوتے ہیں  یہ ایسے لوگوں کی مدد کرتے ہیں جب مثال کے طور پر  شادی سے پہلے کوئی لڑکی حاملہ ہو جائے ، اور ایسے دیگر بہت سے مسائل میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں ۔ ہم پاسبانوں کو محض انتظامی خدمات انجام دینے والے راہنما نہیں بناتے ۔ انتظامی راہنما  پاسبانی کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں ، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ کچھ مخصوص مسائل میں مدد کے لئے اپنے نیٹ ورک سے ایسے پاسٹروں کو بھی بُلا سکتے ہیں جنہیں راہنمائی کا کردار دیا نہیں گیا ہوتا ۔ اگر اُن کے پاس ایک بڑا اور وسیع انتظامی کردار ہو اور وہ پاسبانوں کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں تو ہم اُن سے کہتے ہیں کہ وہ پاسبانی سے آگے بڑھ کر نئے پاسبانو ں  کی تربیت بھی کریں ۔ 

 

یہ ہی معاملہ منادوں کے ساتھ بھی ہے ۔ یہ خاص راہنماؤں کا ہی ایک حصہ ہوتے ہیں ۔ مناد چھوٹے گروپ سے بڑے گروپ اور  قریبی علاقوں سے دور کے علاقوں تک جانے کے لئے طریقے تلاش کرتے ہیں۔  تنظیمی راہنما کلسٹر سے مالی امداد حاصل کر کے رضا کار منادوں کی مدد  کرتے ہیں ( جن کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو سکتا ہے ، مثلا سیلز مین) تاکہ وہ منادی کے لئے ذیادہ دور تک سفر کرنے کے لئے کچھ رقم حاصل کر سکیں ۔ معاشرے میں ترقیاتی کاموں کے سہولت کار بھی خاص راہنما ہوتے ہیں ۔اُن کے ذمہ ایسے پراجیکٹس کی نگرانی  ہوتی ہے جس سے پورے معاشرے کو فائدہ پہنچتا ہو۔ وہ پڑوسی سے محبت کے اظہار کے انداز میں بہت کچھ کرتے ہیں ۔وہ بھوکوں کو کھانا دیتے ہیں ،نوکریوں کے موقع پیدا کرتے ہیں اور سکول کے بعد ہزاروں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں ۔ ہم نے یہ فیصلہ کر رکھاہے کہ محبت کے اظہار کے ان طریقوں کو اپنے انتظامی سہولت کاروں کے کام کا حصہ بنا دیا جائے ۔ چرچ کے انتظامی راہنماؤں کے پاس ایسے پراجیکٹس کرنے  کے لئے  وقت نہیں ہوتا ۔ وہ ضرورت کے وقت ایسے لوگوں کو بُلا سکتے ہیں اُن سات لوگوں کی طرح جنہوں نے اعمال 6 میں بیواؤں کے لئے خدمت شروع کی ۔ 

چوتھے خاص راہنما بائبل کے استاد ہیں – وہ لوگ جن کے پاس تعلیم دینے کا تحفہ ہے ۔یہ انتظامی راہنما بھی ہو سکتے ہیں یا صرف تعلیم دینے اور استادوں کی تربیت پر توجہ دیتے ہیں ۔ ہمارے پاس استادوں کی تربیت کے لئے خاص سیمینار کرنے کا انتظام ہے ۔ گذشتہ پندرہ سالوں میں کچھ دیگر لوگوں کی مدد کے ساتھ میں نے بائبل سٹڈی کی 38 سیریز لکھی ہیں جن میں سے  ہر ایک 25 ہفتوں کے لئے بائبل سٹڈی گروپوں کو گفتگو کا مواد فراہم کرتی ہیں ۔یہ استاد ہماری تحریروں کو بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں ۔ وہ ایسے موضوعا ت کی نشاندہی کرتے ہیں جن کے بارے میں لکھا جانا ضروری ہوتا ہے، یہ تمام موضوعات بائبل پر مبنی ہوتے ہیں ، جن میں سے کچھ مخصوص موضوعات بھی ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر روزے کے بارے میں ہماری تعلیم ایک ایسے ملک میں بہت اہمیت رکھتی ہے جہاں سال میں ایک  مہینے روزے رکھے جاتے ہیں ۔ یہ تعلیم ایک مہینے کے روزوں کی وجہ سے بہت  مقبول ہے ۔ ہمارے پاس بائبلی بنیادوں پرقائم  صحت مند خاندانوں کی ایک اور موضوعاتی سیریز بھی موجود ہے ۔ ان موضوعاتی سیریز کو اکثر نئے گروپ کا آغاز کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ 

ہمارے پاس ایک بنیادی تعلیمات کی سیریز بھی ہے ۔ ہم اپنے نظام میں بائبل کی تجزیاتی مطالعے پر بہت غور  و فکر کرنے پر زور دیتے ہیں    اوریہ استاد ہمارے اس نظام کا حصہ ہیں استاد ایک نئی سیزیز نصف دن کے سیمینار کے ذریعے راہنماؤں کے ایک گروپ کو متعارف کرواتے ہیں ۔ اُس کے بعد یہ راہنما چند کلیدی اقتباسات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ بائبل سٹڈی کے دوران  ایسے سوالات کا جواب دینے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔ مثلا مسلمانوں کے لئے مسیح کا تصور ۔اس کے لئے انہیں مرقس کی انجیل سے مدد  ملتی ہے ۔ اُن میں سے کچھ ہمیں  تحریری مواد کے انتخاب اور تحریر میں مدد دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ سال میں مخصوص دنوں کے دوران  50 سے 200 لوگوں کی جماعتوں کو ان موضوعات کی تعلیم بھی دیتے ہیں ۔ اُن میں سے کچھ مختصر ویڈیو ز کے ذریعے منادی کا کام بھی تیار کرتے ہیں ۔ 

حیرت کی بات ہے کہ منادی کا لفظ جس طرح آج کے روایتی چر چ میں استعمال کیا جا رہا ہے ،وہ بائبل کے دور کے چرچ سے بہت مختلف ہے بائبل میں موجود یونانی الفاظ کے مطابق منادی کا بنیادی مقصد اُن غیر ایمانداروں کو کلام کی خوشخبری سُنانا ہے جنہیں ابھی تک یہ خوشخبری نہیں ملی ، نہ کہ چرچز میں موجود ایمانداروں کو۔  تاہم تحقیق کے دوران یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایسی کوئی پابندی نہیں کہ یہاں ایماندروں یا غیر ایمانداروں کی بات ہو ۔ ضروری ہے کہ ہمارے خدمت کے میدان میں 99فیصد مسلم لوگوں کے گروپوں کو منادی کرتے ہوئے ہم خطرے سے بچاؤ کے لئے  بہت سوچ سمجھ کر کام کریں ۔ ہماری زیادہ تر منادی لوگوں کے چھوٹے گروپوں میں ہوتی ہے جو ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ایمان لانے والے مسلمان عام طور پر بحث مباحثہ بھی کرتے ہیں ۔ بائبل میں تعلیم دینے کے لفظ سے زیادہ تر یہ ہی مراد ہے کہ یہ ایمانداروں کے لئے ہے ۔

ہم ان چاروں قسم کے تحفے رکھنے والے لوگوں کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ ہم فیاضی کے تحفے دینے والوں کی تلاش میں بھی رہتے ہیں ۔ نئے شاگردوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ تحریکوں میں اپنے ان تحفوں کو استعمال کر سکیں ۔ ہماری دس بنیادی مہارتوں میں سے ایک سالانہ میڈیکل چیک اپ بھی ہے ۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ تمام گروپ اور کلسٹر کچھ مخصوص سوالات کے ذریعے اپنا جائزہ  خود لیں ۔ 

راہنماؤں کو مہارتیں دینے کےلئے کوچنگ 

اگر یہ پوچھا جائے ،” نئے عہد نامے کے چرچز میں سے کون سے چرچ مستحکم تھے ؟ ” ، تو شاید آپ جواب دیں کہ وہ سب ہی مستحکم تھے لیکن اُن سب میں کوئی نہ کوئی خامیاں بھی تھیں ۔شاید کرنتھس کی کلیسیا سب سے ذیادہ خامیوں کی شکار ہو لیکن مسائل تمام چرچز میں تھے ۔تحریک ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس میں وہ سارے مسائل سامنے آ سکتے ہیں جن کے بارے میں ہم بائبل میں پڑھتے ہیں کسی ایک ہفتے میں ، اگر میں تمام راہنماؤں سے پوچھوں تو اُن میں سے کچھ مجھے ضرور بتائیں گے کہ وہ خاندانی مسائل کا شکار ہیں ۔ ایسے بھی لوگ ہوں گے جو انٹر نیٹ پر فحاشی دیکھنے کے مسئلے کا شکار ہوں ۔ جو بھی مسئلے آپ سوچ سکتے ہیں ، وہ آپ کو کہیں بھی کسی بھی چرچ میں ضرور ملیں گے اور اُس چرچ میں بھی جس کی کوئی چار دیواری اور حد نہیں اور جسے مسیح ہمارے راہنماؤں کے ذریعے بنا رہا ہے ۔

ہم اس عمل کو بہتر بنانے کی کوششیں کرتے جا رہے ہیں تاکہ راہنما ایمانداروں کو مسائل بائبل کے وسیلوں سے حل کرنے میں مدد دے سکیں ۔ راہنماؤں کے گروپوں میں ہمارے پاس کوچنگ سرکل کو نظام موجود ہے جہاں چار ساتھی راہنما یہ فیصلہ کرتے ہیں  کہ آئندہ ایک ہفتے میں 3 لوگ کس ایک راہنما کی کوچنگ کریں گے زیر تربیت راہنما اُن مسائل سے انہیں آگاہ کرتا ہے جن کا اُسے سامنا ہوتا ہے اور دیگر 3 راہنما اُس بارے میں سوالات کر کے اُس کی   مدد کرتے ہیں ۔ وہ مل کر  ایسے ممکنہ حل سامنے لاتے ہیں جس کے ذریعے زیر تربیت راہنما کو اپنے مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے ۔کوچنگ سرکل کے ذریعے راہنماؤں کی تربیت ہوتی ہے کہ وہ گروپ کی صورت میں مسائل حل کریں  اور وہ چار راہنماؤں کو ایک ٹیم کی صورت میں ڈھال دیتے ہیں  ۔

Categories
حرکات کے بارے میں

ایک تحریک کی اقدار- حصہ دوم

ایک تحریک کی اقدار- حصہ دوم

سٹیو سمتھ –

اس مضموُن کے پہلے  حصے میں  ایک تحریک کی  اقدار میں سے  ایک اہم  قدر،” صرف اور صرف کلام کے اختیار کی اطاعت “پر  بات کی گئی تھی۔  زیرِ نظر مضموُن میں دیگر اقدار  پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔ 

فرمانبرداری : کلام کی کہی ہوئی ہر بات کی اطاعت اور فرمانبرداری

تحریکوں کو بائبل کی حدود کے اندر چلاتے رہنے کے لئے دوسری قدر کلام کی مکمل فرمانبرداری ہے 

کرنتھیوں کے نام پہلے خط  کے 5 ویں باب میں پولوس کرنتھیوں کی کلیسیا کو اطاعت سِکھاتا ہے: 

کیونکہ مَیں نے اِس واسطے بھی لِکھا تھا کہ تُمہیں آزما لُوں کہ سب باتوں میں فرمانبردار ہو یا نہیں۔ “(2 کرنتھیوں  2:9)

اُن کے لئے ایساکرنا مشکل کام تھا لیکن پھر بھی انہوں نے فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا  مسیح کے پیروکاروں کی حیثیت سے محبت بھری فرمانبرداری اُن کی بنیادی اقدار میں سے ایک تھی ۔

صرف فرمانبرداری پر مبنی شاگردی ہی  CPM کو اصولوں اور راستبازی کی حدود کے اند ررکھ سکتی ہے۔ CPM  کی تحریک کے دوران ہر ہفتے کلام کے مطالعے کے وقت آپ لوگوں کو فرمانبرداری کا درس دے سکتے ہیں۔ اگلی میٹنگ میں آپ اُن سےاُس  اطاعت اور فرمانبرداری کا حساب بھی بہت پیار سے طلب کر سکتے ہیں ۔اس سے فرمانبرداری مستحکم ہوتی ہے اس کے بغیر شاگرد صرف کلام سُننے والے بن کر رہ جاتے ہیں   اور عمل کرنے والے نہیں رہتے ۔

دُشمن ہر وقت سر گرمی کے ساتھ دھوکہ دینے اور مسائل پیدا کرنے میں مشغول  ہے ۔ لیکن اگر اطاعت اور فرمانبرداری کے اصول قائم رہیں تو آپ بھٹک جانے والے ایماندار کو واپس بُلا سکتے ہیں ۔کرنتھیوں کے نام پہلے خط کے 5   ویں باب میں یہی ہوا ۔

فرمانبرداری میں مسئلے  کے حل کے لئے گروپ کا  نظم و ضبط بھی اہم ہے ،جیسا کہ کرنتھیوں  کی کلیسیا میں ہوا۔ شاگردوں کو اس بات پر ایمان رکھنا چاہیے کہ کلام کی اطاعت لازمی ہے اور اگر وہ گناہ کی راہ پر آگے بڑھتے جائیں تو اصلاح کے لئے نتائج اور تکلیفیں بھی انہیں ہی برداشت کرنا پڑیں گی ۔ 

ایک کیس سٹڈی – بیوی کی پٹائی کرنے والے

 ہم میں سے کئی لوگوں نے 12 مقامی راہنماؤں کی ایک ہفتے کے لئے تربیت کی منصوبہ بندی کی جو مشرقی ایشیا میں ابھرتی ہوئی CPM کی تحریک کے 80 اینا چرچز کی نمائندگی کر رہے تھے ۔ طے شدہ بنیادی اصول یہ تھا : اُن کے سوالوں کے جواب نہ دیں بلکہ یہ پوچھیں ،” بائبل اس بارےمیں  کیا کہتی ہے؟ ” یہ کہنا آسان تھا لیکن کرنا مشکل تھا !

ایک شام میرے ساتھی پاسٹر صاحب نے ایک گھنٹے تک افیسوں کے باب نمبر 5 کی تعلیم دی : شوہر بیویوں سے محبت رکھیں ۔اس حکم پر عمل انتہائی واضح نظر آتا تھا ۔

انہیں سِکھانے کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا اُن کے کوئی سوالات ہیں ۔ پچھلی قطار سے ایک 62 سالہ بوڑھے شخص نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ اُٹھایا ،” میں یہ جاننا چاہوں گا کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی بیویوں کی پٹائی کرنا چھوڑ دیں ؟ “

میں   اور میرے ساتھی پاسٹر دوست حیرت زدہ رہ گئے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ کلام سے اتنی واضح تعلیم ملنے کے بعد بھی کوئی بیوی کو مارنے کے بارے میں ایسا سوال پوچھ بھی سکے ۔ 

ہم نے پہلے سے طے شدہ اصول سے مدد لی : ” اس بارے  میں بائبل کیا کہتی ہے ؟” یہ وہ مقام تھا جب روح القدس کی قوت پر ہمارے ایمان کی آزمائش ہونے لگی ۔ 

ہم نے بہت محتاط ہو کر پورے گروپ سے کہا  :

اگر ہم دعا کریں تو روح القدس خود ہمیں سِکھائے گا۔ اگر ہم روح القدس کے کلام کا مطالعہ کریں تو وہ ہمیں بیویوں کو مارنے کے بارے میں واضح جواب دے گا ۔

سب سے پہلے میں چاہوں گا کہ پورا گروپ روح القدس کو پکارے اور کہے :” اے روح القدس ہمیں سِکھا !ہم تجھ پر انحصارکرتے ہیں !ہمیں فہم ودانش عطا کر !” 

ہم نے مل کر سر جھکائے اور بار بار خُدا سے دعا کی دعا کے دوران میں نے گروپ سے کہا:

روح القدس کی راہنمائی میں افسیوں کا       5واں باب کھولیں ۔اسے مل کر پڑھیں اور خُدا سے دعا کریں کہ وہ آپ کو اس سوال کا جواب دے ۔ جب آپ سب کسی جواب پر متفق ہو جائیں تو ہمیں بتا دیں ۔ وہ بارہ لوگ اکٹھے ہو کرتیزی سے  اینا زبان میں باتیں کرنے لگے جو ہم میں سے کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی اس دوران ہم اکٹھے ہو کر دعا کرنے لگے۔ ہم نے خدا سے التجا کی : “اے خُدا انہیں یہ مسئلہ سمجھنے میں مدد دے۔ بیویوں کو مارنے پیٹنے والے لوگ ہمیں اس تحریک میں نہیں چاہیں !”ہمیں یقین تھا کہ گروپ میں موجود روح القدس ایک یا دو لوگوں کی الجھنوں اور اعتراضات پر غالب آ جائے گا ۔

اس دوران اینا گروپ میں جذبات کا اُتار چڑھاؤ جاری رہا ۔ایک شخص اُٹھ کر کچھ کہتا اور دوسرا اُسے ڈانٹ دیتا۔ پھر کوئی اور اپنی رائے پیش کرتا اور دوسرے اُس سے اتفاق کرتے۔ بالآخر ایک بہت طویل انتظار کے بعد ایک راہنما کھڑا ہوا اور اُس نے ہمیں اپنا فیصلہ سُنایا : 

” کلام پڑھنے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم بیویوں کو مارنا پیٹنا چھوڑ دیں گے !” 

ہمیں بہت اطمینان ہو الیکن میں نے سوچا : ” اس فیصلے تک پہنچنے میں  اتنی زیادہ دیر کیو ں لگی ؟!” 

ایک دو دن کے بعد اُن بارہ میں  سے اینا زبان بولنے والا ایک شخص جو میرا قریبی دوست بھی تھا،میرے پاس آیا  اور  اُس نے مجھے اُن کی گفتگو کے بارے میں آگاہ کیا ۔

” اینا  زبان میں ایک کہاوت ہے : اگر آپ صحیح معنوں میں ایک مرد ہیں تو آپکو روزانہ اپنی بیوی کو مارنا پیٹنا چاہے “

میں فوری طور پر اُس 62 سالہ بوڑھے شخص کے سوال کی اہمیت سمجھ گیا اور مجھے جواب میں تاخیر کی وجہ بھی سمجھ میں آ گئی ۔ اصل سوال یہ نہیں تھا کہ،” کیا ہمیں اپنی بیویوں کو مارنا پیٹنا نہیں چاہیے ؟” بلکہ خُدا کے راستے کے پاکیزہ طور طریقوں اور اُن کے اپنی تہذیب کی روایتوں کے ٹکراؤکی وجہ سے اصل سوال یہ تھا  :

کیا میں مسیح کا پیروکار بن کر بھی اپنی تہذیب میں ایک مرد کی حیثیت سے زندہ رہ سکتا ہوں یا نہیں ؟

 اگر اُن کا جواب بائبل کے اصولوں کے خلاف ہوتا تو کیا ہم مداخلت کرتے ؟ یقینا ہم ایسا کرتے لیکن اگر ہم اس پورے عمل کو مختصر کر کے   خود ہی انہیں جواب دے دیتے تو وہ خُدا کے پیغام  کو گہرائی میں جا کر سمجھنے سے محروم ہو جاتے ۔

اُس روز اور اُس کے بعد کئی مرتبہ کسی تہذیبی روایت یا بائبل کے استاد کی بجائے خُداکا کلام حتمی اختیار کے طور پر مستحکم ہوا ۔ نئے ایمانداروں کے ایک گروہ نے سچائی تک پہنچنے کے لئے روح القدس کی راہنمائی پر بھروسہ کیا اور پھر روح القدس کے دیئے ہوئے جواب کی فرمانبرداری کا  فیصلہ کیا ۔گروپ کو یقینا اُس معاشرے میں مزاق کا نشانہ بنے کا چیلنج در پیش تھا ۔ 

اپنے علاقے میں خُدا کی بادشاہی کی تحریکیں جاری رکھیے۔ لیکن جب تک آپ تحریکوں  کے دریا کے لئے حدود تیار نہ کر لیں، یہ دعا نہ کیجیے کہ سیلاب ان دریاؤں کو تیز رفتاری سے بھر کر بہانے لگے! ابتدا کرتے ہی پہلے چند منٹوں اور گھنٹوں میں یہ حدود اورخواص متعین کر لیجیے ۔

  مشن فرنٹئیرز        www.missionfrontiers.orgکے جنوری-فروری 2014  کے شمارے میں صفحات  نمبر 31-29 پر شائع ہونے والے مضمُون  کی تدوین شدہ شکل۔ 4:14 – A Testimony to All Peoples  کے صفحات نمبر 95- 87پر بھی موجود ہے۔    24:14 یا Amazon پر بھی دستیاب ہے۔

Categories
حرکات کے بارے میں

ایک تحریک کی اقدار – حصہ اول

ایک تحریک کی اقدار – حصہ اول

سٹیو سمتھ –

اس سے قبل ہم خُدا کی بادشاہی کی تحریک کےآغاز  اور نئے شاگردوں کی عہد بندی کے فورا بعد ہی تحریک کے خواص طے کرنے کی اہمیت  پر بات کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے سامنے چرچز کی تخم کاری کی تحریکوں (CPM) کے بارے میں ایک بہت بڑا خدشہ بھی سامنے آتا ہے : کہ تحریک میں بدعت اور خلافِ شرع چیزیں ابھرنے لگیں گی ۔کلام واضح کرتا ہے کہ کسی بھی منادی کے دوران مسائل ضرور ابھریں گے ( مثلا ً متی       ۔( 13: 24-30, 36-43یہ وہ بنیادی وجہ تھی کہ پولوس نے اپنی کلیسیاؤں کو بدعت، بدکرداری اور  دیگر بہت سے گناہوں کے بارے میں خبردار کیا ۔

CPM کی تحریکوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپ کے ذاتی اختیار میں نہیں بلکہ بادشاہ کے اختیار میں ہوتی ہیں۔ تحریک کی ایک انتہائی اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اُسے چلانے کے لئے پوری طاقت صرف کی جائے ،لیکن روح القدس کے استاد ہونے کے اختیار کو نظر انداز نہ کیا جائے ۔

اختیار اپنے ہاتھ میں  نہ لینے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بلکہ ہی کنارہ کش ہو جائیں ۔ شاگردی کی بنیاد چند واضح اقدار پر رکھی جاتی ہے جو CPM کے بہتے دریا کو اصولوں اور شریعت کے کناروں  تک محدود رکھتی ہیں۔ اگر ہم جانتے ہوں کہ ہم نے  بدعت اور خلافِ شرع باتوں سے کیسے نمٹنا ہے تو ہمیں اُن سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں  ۔اگر ہم یہ نہ جانتے ہوں تو ہمیں واقعی ان چیزوں سے ڈرنے کی ضرورت ہے ۔

ایک تحریک کی اقدار: صرف اور صرف کلام کے اختیار کی اطاعت

اگر آپ کسی بھی تحریک کو خُدا کی تحریک کے طور پر آگے بڑھتاہوا  دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ CPM کی یا کسی بھی اور تحریک کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے ۔اگر تحریک اپنے اصل راستے سے ادھر اُدھر جائے تو آپ اُسے دھکیل کر ایمانداروں اور چرچز کو اصل راستے پر لا سکتے ہیں ۔ یہ وہ حدود ہوتی ہیں  جن کے درمیان تحریک کو بہنااور  آگے بڑھنا ہوتا ہے ۔ یہ حدود تحریک کو شرعی اصولوں ، راست اعمال اور پاکیزگی کی راہ پر رکھ سکتی ہیں ۔

اس کا دوسرا طریقہ تحریک پر انتہائی سخت گیر کنٹرول ہے۔ لیکن یہ متی      9:14-17 میں  بیان کئے گئے پرانے مشکیزوں میں نئی مے رکھنے جیسا ہے۔ یسوع نے مذہبی رسوم کے اُس بھاری بوجھ کی شدید مذمت کی جو یہودی کاہن خُدا کے لوگوں پر ڈالتے تھے۔  وہ اس معاملے میں انتہائی سخت گیر تھے اور لوگوں کو غلام بنا کر چلانا چاہتے تھے۔ ان پرانی مشکوں میں شریعت کے اصول اور اخلاقی اقدار کو قوانین اور ذاتی نگرانی کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ لیکن بالاخر یہ بادشاہی کی ترقی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ CPM میں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ آپ ابھرتےہوئے ایمانداروں  ، چرچز اور راہنماؤں کو یہ سِکھائیں کہ وہ خُدا کے کلام ( اختیار ) کو سُنیں اور اپنی رضامندی کے ساتھ اُس پر عمل کر کے اپنی اصلاح کریں ( فرمانبرداری) ،چاہے اُس کے نتائج کچھ بھی کیوں نہ ہوں ۔ تحریک کو بائبل کی حدود کے اندر رکھنے کے لئے کلام کا اختیار اور کلام کی فرمانبرداری دو  حدیں ہیں ۔

اختیار : صرف اور صرف خدا کے کلام کا اختیار

ایماندار سینکڑوں سالوں سے کلام کو واحد اختیار اور ہدایات کا سر چشمہ مانتے رہے ہیں ۔ لیکن عملی طور پر کلام سے ہٹ کر نئے ایمانداروں اور چرچز کو دیگر عناصر کے اختیار میں دینا آسان ہے۔ اصولی طور پر ہم کہتے ہیں :” کلام اُن کے لئے حتمی اختیار کا سر چشمہ ہے ” عملی طور پر مشنری ، ایمان کے بیانیے ، چرچز کی روایات یا ” الٰہی الفاظ ” کے حتمی اختیار پر غالب آ جاتے ہیں ۔

نئے ایمانداروں کو بائبل حوالے کر کے اور انہیں صرف اُس کا مطالعہ کرنے کو کہہ دینے سے کلام حتمی اختیار نہیں بن جاتا۔ اس کی بجائے آپ کو اُن کے اندر یہ سوچ  پُختہ کرنی ہے کہ خُداکا  کلام ہی اُن کے لئے  حتمی اختیار رکھتا ہے ۔ CPM کے دوران یا نئے چرچ کے آغاز کے ساتھ ساتھ آپ تمام نئے ایمانداروں کی سمجھ بوجھ کے لئے اصول اور خواص طے کر کے اُن کے عمل کے لئے راہ کا تعین کر دیتے ہیں ۔ پہلے ہی روز سے آپ کو لازماً اس بات کا اظہا ر کرنا ہے کہ کلام ہی پوری زندگی کے لئے اختیارات اور احکامات کا سر چشمہ ہے۔

آگے بڑھ کر ہو سکتا ہے کہ تحریک پھیلتے پھیلتے آپ کے ذاتی اثر و نفوذ سے باہر نکل جائے ۔ اگر اختیار کا تنازع ہو تو وہ کس کے اختیار کو مانیں گے ؟ اگرآپ خدا کے کلام کے ساتھ اپنی رائے بھی شامل کر دیں گے تو ایسی صورت میں کیا ہو گا ،جب جھوٹے استاد اُن کے سامنے آ جائیں جو آپ کی رائے سے اختلاف کریں ؟ جب وہ راستے سے بھٹک جائیں تو آپ انہیں واپس کیسے بُلائیں گے؟ 

اگر آپ نے انہیں یہ بات ذہن نشین نہیں کرائی   کہ اصولی طور پر خُدا کا کلام ہی حتمی اختیار ہے تو اُن کے غلط ہونے کی صورت میں  آپ کے پاس انہیں بُلانے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا ۔ایسی صورت میں  یہ صرف آپ کی اور دوسروں  کی رائے  کا ٹکراؤ اور اختلاف بن جائے گا ۔ اگر آپ نے اپنے ہی الفاظ اور احکامات  کو حتمی اختیار کا درجہ دے رکھا ہے تو آپ تحریک کو ناکا می کی جانب بڑھا رہے ہیں ۔ 

بائبل سے ایک مثال : 1 کرنتھیوں باب نمبر 5

مسیح کے ایک رسول پولوس نے بھی اپنی رائے کو حتمی اختیار بنانے سے گریز کیا ۔ اس کی بجائے وہ کلیسیاؤں کو کلام کے حوالے دیتا رہا ۔ پولوس کے قائم کردہ چرچز میں  شروع سے ہی بدعت اور خلاف ِ شرع چیزیں شامل ہونے لگی تھیں۔ اسے روکنے کا کو ئی طریقہ نہیں تھا ۔ لیکن پولوس نے چرچز میں ایک ایسی چیز شامل کردی جس کی بنا پر وہ اس مسئلہ سے نمٹ سکتا تھا ۔ اس کی مثال کرنتھیوں کے نام پہلے خط کے 5 باب میں نظر آتی ہے 

کہ تُم اُس میں ہو کر سب باتوں میں کلام اور عِلم کی ہر طرح کی دَولت سے دَولت مند ہو گئے ہو۔ “( 1کرنتھیوں   1:5)

ایساگناہ تحریک کو اصولوں سےدُور کر دے گا ۔ایک حقیقت پسند شخص ہوتے ہوئے پولوس کو احساس تھا کہ شیطان کڑوے دانے ضرور بو دے گا لیکن اس حقیقت کی وجہ سے منادی میں آگے بڑھنے کا اُس کا جذبہ کمزور نہیں پڑا ۔

ایسی صورت حال میں  یہی حل تھا کہ ایسے شریر آدمی کو اُن کے  درمیان سے نکال دیا جائے جب تک کہ  وہ نہ پچھتائے ( 1کرنتھیوں 5: 5) ۔اس موقع پر پولوس ایک روحانی باپ کی حیثیت سے اپنا اختیار استعمال کر سکتا تھا ۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مستقبل میں سامنے آنے والی کسی بھی اسی صور ت حال سے نمٹنے کے لئے پولوس موجود نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک اور مسئلہ یہ ہو سکتا تھا کہ پولوس کی رائے کے خلاف کسی اور شخص کی رائے بھی سامنے آ سکتی تھی ( مثلا 2 کرنتھیوں  11:3-6) . 

 اس کی بجائے پولوس نے خُدا کے کلام کا حوالہ دیا ۔

شریر آدمی کو اپنے درمیان سے نکال دو۔ ( 1 کرنتھیوں5:11)

پولوس نے اس فیصلے کے لئے راہنمائی کے طور پر  استثنا  کے باب نمبر 22 کا حوالہ دیا :

اگر کوئی مَرد کِسی شَوہر والی عَورت سے زِنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مَرد بھی جِس نے اُس عَورت سے صُحبت کی اور وہ عَورت بھی ۔ یُوں تُو اِسرائیل میں سے اَیسی بُرائی کو دفع کرنا۔” (استثنا 22: 22)

آپ کلام کو حتمی اختیار بنانے کا جذبہ کس طرح پروان چڑھا  سکتے ہیں  ؟ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سوالوں کے جوابات  دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی بجائے ایمان داروں کو کلام کے حوالوں سے رجوع کرنے کو کہیں,جو انہیں کسی فیصلے تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

 سرگرم اور صحت مند تحریکوں میں  ایک طے شدہ جواب ہے :” بائبل اس بارے میں کیا کہتی ہے ؟” جب آپ  بار بار یہ سوال پوچھتے ہیں تو ایماندارجلد ہی  جان جاتے ہیں کہ انہیں بائبل کو ہی حتمی اختیار کے طور پر قبول کرنا ہے نہ کہ آپ  کو بحثیت ایک معلم ،چرچ کے تخم کار یا مشنری کے طور پر حتمی اختیار کا حامل سمجھنا ہے ۔ 

اس مقصدکے حصول کے لئے سر گرم اور صحت مند تحریکیں نئے  ایمانداروں کے لئے ایک آسان سا طریقہ واضح کرتی ہیں تاکہ وہ بائبل سُن یا پڑھ کر صحیح طور پر اُسے سمجھ سکیں۔ شاگرد کھُلے دل اور صاف ذہن کے ساتھ بائبل کھولتے ہیں  اور بائبل کی سمجھ بوجھ میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔  پھر وہ وقت آتا ہے کہ وہ اپنی روحانی غذا خود حاصل کرنے لگتے ہیں  ۔

اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ کبھی بھی کسی سوال کا جواب نہ دیں  لیکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ آپ جذبات میں بہہ کر اُن کے سوالوں کے جواب نہ دیتے چلے جائیں، اور ایمانداروں کے گروہ کو کلام سمجھنے کا ایک موثر طریقہ سِکھا دیں ۔ آپ یہ جان کر حیران ہو ں گے کہ روح القدس کی راہنمائی کے تحت مسیح کا بدن بائبل سے سارے جواب حاصل کرنے کا اہل ہے۔ یہ جسم اپنے عارضے حیرت انگیز طور پر خود ہی ٹھیک کرنے کا اہل ہے ( متی   18:20 ) ۔

حصہ دوم میں ایک تحریک کی   دیگر لازمی  اقدار پر  روشنی ڈالی جائے گی۔

  مشن فرنٹئیرز        www.missionfrontiers.orgکے جنوری-فروری 2014  کے شمارے میں صفحات  نمبر 31-29 پر شائع ہونے والے مضمُون  کی تدوین شدہ شکل۔

Categories
حرکات کے بارے میں

گروپوں کو چرچز بننے میں مدد دینے کے لئے لازمی درکار تقاضے: چرچز کی تخم کاری کی تحریک میں چار قسم کے تعاون-حصہ دوم

گروپوں کو چرچز بننے میں مدد دینے کے لئے لازمی درکار تقاضے: چرچز کی تخم کاری کی تحریک میں چار قسم کے تعاون-حصہ دوم

سٹیو سمتھ –

حصہ اول میں ہم نے گروپوں کو چرچز بننے میں مدد دینے کے لئے دو لوازمات کا ذکر کیا تھا۔  مزید دو لوازمات ذیل میں دئے جا رہے ہیں۔

نمبر3: اس بات کو یقینی بنایئے کہ آپ اپنی شاگرد سازی کی ابتدا سے ہی چرچ کے بارے میں مخصوص اسباق اپنی تربیت میں شامل کریں۔ 

چھوٹے گروپوں کے ساتھ ہر میٹنگ میں  آپ کے پاس چرچ کی ایک واضح بائبلی تعریف اور چرچ کا ایک ماڈل یا نمونہ موجود ہونا چاہیے ۔ اگر یہ دونوں آپ کے پاس موجود ہوں تو جب آپ مختصر مدتی شاگرد سازی میں چرچ کی تربیت شامل کریں گے، تب اُس گروپ کے لئے    بہت آسانی ہو جائے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے گروپ چرچز اور چرچز قائم کرنے والے گروپ بن جائیں تو چوتھے یا پانچویں سیشن سے  چرچ کی تشکیل کے بارے میں  ایک یا دو اسباق اپنی تربیت میں ضرور شامل کریں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ سب کچھ ایسا ہو جس پر گروپ کے ممبران عمل کر سکیں اور اُسے اگلے گروپوں تک بھی منتقل کر سکیں جنہیں وہ خود شروع کریں ۔

جب آپ چرچ کی تربیت سازی کا سبق دے رہے ہوں  تو اپنے ذہن میں ایک مخصوص  ہدف رکھیں۔ مثلاً اس ہفتے ہم ایک چرچ بننے کا عہد کریں گے ،اور چرچ کی اُن خصوصیات کو شامل کرتے جائیں گئے جو ہم میں موجود نہ ہوں ۔

مثال کے طور پہ جب کوئی گروپ چرچ کی تشکیل کے اسباق پڑھ رہا ہوتا ہے تو عام طور پر دو میں سے ایک چیز ضرور ہوتی ہے ۔

1۔  پہلا قدم : ایک گروپ سمجھ لیتا ہے کہ وہ پہلے سے ہی ایک چرچ کی صورت میں ہے اور چرچ کی خصوصیات پر عمل کر رہا ہے۔ اس کے بعد ایک آخری قدم لیا جاتا ہے یعنی مل کرایک چرچ ہونے کا عہد باندھنا ( شناخت اور عہد کا حصول ) 

اقدام : اکثر اوقات ایک گروپ یہ سمجھ جاتا ہے کہ اُس میں چرچ کے کچھ بنیادی عناصر کی کمی ہے اور اس کے بعد وہ شعوری طور پر پہلے قدم کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے ( پھر وہ اُن عناصر کو اپنے اندر قائم کرتا ہے۔  مثال کے طور پر پاک  شراکت،  نذرانے )  اور اس طرح سے وہ مل کر ایک چرچ بننے کے عہد کی تکمیل کرتے ہیں ۔

4۔ چرچ ہیلتھ میپنگ کی علامات کے استعمال کے ذریعے ایک گروپ کو یہ جاننے میں معاونت پیش کیجیے کہ آیا اُن کے اندر چرچ کی زندگی کے تمام عناصر موجود ہیں ،یا نہیں ۔

چرچ ہیلتھ میپنگ (یا چرچ  کا دائرہ) ایک بہت اچھا تشخیصی طریقہ ہے جس کے ذریعے ایک گروپ، یا گروپ کے راہنما، یا گروپوں کے نیٹ ورکس کو یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا وہ ایک چرچ ہیں یا نہیں۔ یہ وسیلہ انہیں اپنی خامیاں جاننے اور اُن کی اصلاح کرنے میں مدد دیتا ہے۔  یہ انہیں یہ جاننے میں بھی مدد دیتا ہے،کہ وہ گروپ ا بھی تک چرچ نہیں بن سکا۔

CPM کی تحریکیں عام طور پر چرچ کے سرکل یا چرچ ہیلتھ میپنگ کے سبق کو چرچ کی تشکیل کی تربیت میں شامل کرتی ہیں۔ اعمال کی کتاب کے دوسرے باب سے چرچ کے بنیادی عناصر جاننے کے بعد (جو عموما دس کے قریب ہیں) ایک مختصر گروپ اُن کے لئے علامات بناتا ہے اور اُس کی بنیاد پر اپنا   جائزہ لیتا ہے کہ کیا وہ اُن سب عناصر پر عمل کر رہے ہیں   یا نہیں1 ۔ چرچ کی تشکیل کا سبق کچھ اس طرح سے ہوسکتا ہے: 

ایک گروپ کی صورت میں ایک سفیدکاغذ پر نکات کے ساتھ ایک دائرہ بنائیں جو آپ کے اپنے گروپ کی ترجمانی کرے اُس کے اوپر 3 نمبروں کی فہرست بنائیں : ان میں جماعت میں شامل لوگوں کی تعداد جوکہ انسانی شکل کی علامت کی صورت میں ہو سکتی ہے ، مسیح پر ایمان رکھنے والوں کی تعداد، جو کہ صلیب کی صورت میں ہو سکتی ہے ۔اور بپتسمہ پانے والوں کی تعداد جو کہ پانی کی لہر کی صورت میں ہو سکتی ہے ۔

اگر آپ کا گروپ  چرچ بننے کے لئے تیار ہے تو نقطوں سے بنے دائرے کو ایک ٹھوس لکیر میں بدل دیجیے2 ۔پھر ہر علامت کو  دائرے کے 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 اِن علامات کو سادہ رکھنے سے یہ ممکن ہو جاتا ہے کے ڈرائنگ میں مہارت نہ رکھنے والے بھی انہیں آسا نی سے دوبارہ بنا سکیں ! اِن علامات کو آپ اپنے تناظر کے مطابق  تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔

2  ہم اس لکیر کو ٹھوس اس لئے بناتے ہیں کہ اگر چہ ابھی تک ساری خصوصیات موجود نہ بھی ہوں، تو بھی اِس سے مضبوط ارداے کا اظہار ہوتا ہے۔

 

اندر  یا باہر رکھیے  اگر آپ کا گروپ باقاعدگی سے کسی ایک عنصر پر عمل کر رہا ہے تو اسے دائرے کے اندر بنائیے اگر ایسا نہیں ہو رہا یا گروپ اس بات کا منتظر ہے کہ باہر

  1. علامات 

    1۔ عہد – نقطوں والے دائرے کی بجائے ٹھوس لکیر والا دائرہ 

    2۔ بپتسمہ – پانی 

    3۔ کلام –کتاب

    4۔ خُداوند کا کھانا یا پاک شراکت – ایک کپ

    5۔ رفاقت – دل 

    6۔ نذرانہ اور خدمت – روپے کی علامت

    7۔ دعا – دعا میں اُٹھے ہاتھ

    8۔ حمدو ثنا – اوپر ہو اُٹھےہوئے ہاتھ 

    9۔ منادی – ایک دوست دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے، ایمان کی جانب اُس کی راہنمائی کرتا ہوا۔

    10۔رہنُما –  دومسکراتے چہرے    

    آخر میں آپ اپنے چرچ کو ایک نام دے سکتے ہیں ۔اس طرح آپ کو اپنے علاقے میں چرچ کی ایک شناخت قائم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ یاد رکھیں کہ آپ کا اصل مقصد کئی نسلوں پر مبنی چرچ کی تخم کاری کی تحریک کی افزائش کرنا ہے جو کہ چوتھی اور اُس کے بعد کی نسل تک 

    چلتی جائے ۔ سو اس عمل میں نسل کا نمبر بھی شامل کیجیے تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ آپ خُدا کو اپنے علاقے میں ایک تحریک کا آغاز کرتے ہوئے دیکھ رہے ہوں ۔ 

    اس موقع پر یہ جاننا کافی آسان ہو جاتا ہے  کہ وہ کیا چیزیں ہیں جو کہ گروپ کو ایک چرچ بننے سے روک رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُن میں کسی چیز کی کمی ہو لیکن اب آپ اس گروپ کو ایک چرچ کی صورت میں ڈھلتے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور وہ خود بھی یہ دیکھ سکتے ہیں ! یہ انتہائی متاثر کُن اور عملی سبق ہے جو گروپ کو اس بات میں مدد دیتا ہے کہ وہ خود ہی سوچیں اور چرچ کے باہر کے دائرے سے عناصر کو چرچ کے اندر تک لائیں۔ اس طرح سے گروپ کو ایک واضح عملی منصوبہ بندی متعین کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ 

    چرچز کی نسلیں

    ضروری ہے کہ آپ  اپنے زیر تربیت شاگردوں کو ایسی تربیت دیں کہ وہ بامقصد  انداز میں گروپوں کو چرچ بننے میں مدد دینے کے قابل ہو جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ایک خاص مرحلے پر مختصر مدتی شاگرد سازی کے عمل میں  چرچ کی تشکیل کے بارے میں ایک مخصوص سبق شامل کرنا ضروری ہے ۔چرچ ہیلتھ میپنگ بھی آپ کو اس عمل میں مدد دے سکتی ہے ۔اس صورت  میں چرچ کی تشکیل شاگرد سازی کے عمل کا ایک فطری مرحلہ بن جاتی ہے ۔ اور ساتھ ہی آپ چرچ کی تخم کاری کی تحریک کا ایک بڑا اہم سنگ ِمیل بھی عبور کر لیتے ہیں۔ کیا ہی خوبصورت اور پُر جوش لمحہ ہو گا جب ایمانداروں کی کئی نسلیں، نئے ایمانداروں کو چوتھی یا پانچویں میٹنگ کے بعد نئے چرچز میں ڈھال رہی ہوں ۔ جب یہ عمل نئے چرچز کی چوتھی نسل تک پہنچ جاتا ہے  تو چرچ کی تخم کاری کی تحریک اُبھر جاتی ہے ! 

    اگر آپ کے پاس چرچ کی تشکیل کا سبق یا ایک گروپ کو چرچ میں ڈھالنے کا ایک با مقصد اور قابلِ  افزائش طریقہ موجود نہ ہو تو پھر آپ بڑی تعداد میں نئے چرچز کے قیام کی توقع نہیں کر سکتے !

    اگر آپ ابتدا سے ہی چرچ کی تشکیل کے بارے میں سبق اور چرچ کی تخم کاری کا ایک سادہ اور بامقصد  طریقہ کار اپنی تربیت میں شامل کریں ۔ تو آپ چرچ کی نسل درنسل  افزائش کی توقع کر سکتے ہیں !

    ہو سکتا ہے کہ آپ ابھی پوری طرح اس عمل سے واقفیت نہ رکھتے ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ عمل آپ کے چرچ یا منسٹری کے اصولوں کے بھی خلاف ہو۔ لیکن خُداکی بادشاہی لانے کی خاطر اپنی روایتوں اور اصولوں کی قربانی دینے سے نہ جھجکیں ۔ اس عمل کے ذریعے ہمیں اعمال کی کتاب میں مذکور  ابتدائی اور اصل شاگردسازی کے انقلاب تک پہنچنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ اس سے ہمیں تاریخ کی ایک بہت بڑی اور متاثر کُن  تحریک تک پہنچ جانے میں مدد ملتی ہے ۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ہمیں روح القدس کے ساتھ پوری طرح شراکت اور معاونت میں مدد دیتا ہے ۔

     اس عمل کی بامقصدیت اور سادگی کے باعث کوئی بھی  ایماندار روح القدس کی قوت سے معمور ہو کر چرچ کی تخم کاری کرنے والا بن سکتا ہے ۔ چرچز کا محض آپ کے مشن کے میدان میں پھیلاؤ  ہی ضروری نہیں۔ ان کا پھیلاؤ گھروں  ، کمیونٹی سنٹروں  ،سکولوں،  پارکوں ،چائے خانوں اور پوری دنیا میں ہونا ضروری ہے ۔ خُدا کی بادشاہی جلد آئے !

    جنوب مشرقی ایشیا کی ایک ٹیم کے ساتھ کام کے دوران چار قسم کی امداد کا استعمال

    جب میں جنوب مشرقی ایشیا کی ایک ٹیم کے ساتھ چار قسم کی امداد کے عمل پر کام کر رہاتھا تو ہم چوتھی  مدد تک پہنچے جسے چرچ ہیلتھ میپنگ یا مختصرا  ًچرچ کے دائرے کہا جاتا ہے۔ میں نے کافی عرصے سے خدمت میں مشغول ایک کارکن کو وائٹ بورڈ کی جانب بُلایا۔ میں نے اُس سے کہا کہ وہ کلاس کو یہ بتائے کہ ایمانداروں کا ایک چھوٹا گروپ کیسا ہوتا ہے ۔ جب وہ اس مختصر سے بائبل سٹڈی گروپ کے بارے میں بتا رہا تھا تو میں نے اُسے وائٹ بورڈ پر نقطوں والے ایک دائرے  کے ساتھ ایک شکل کی صورت میں ظاہر کیا۔ اعمال کی کتاب 2: 37-47 کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے اُس سے کہا کہ وہ اعمال کی کتاب کے ابتدائی چرچ کے اُن عناصر کا جائزہ لے جو اُس چھوٹے گروپ میں باقاعدگی سے شامل ہیں ۔ اگر وہ عنصر باقاعدگی سے شامل ہو  تو ہم اُسے ایک علامت کی صورت میں دائرے کے اندر  بناتے تھے اور اگر وہ شامل نہ ہوتا تو ہم اسے دائرے کے باہر بناتے رہے ۔

     گروپ سے چرچ کی جانب سفر کا یہ جائزہ ختم ہونے کے بعد وہ شکل واضح طور پر چند خامیوں یا کمزوریوں کی نشاندہی کر رہی تھی ۔ وہ گروپ نہ تو پاک شراکت سے متعارف تھا اور نہ ہی  وہ ضروریات پوری کرنے کے لئے  نذرانے دے رہاتھا۔ ان دونوں عناصر کی  اشکال نقطوں والے دائرے کے باہر تھیں  ۔ میں نے پاک شراکت کی علامت کے ساتھ ایک تیر کا نشان بنایا جس کا رُخ دائرے کے اندر کی طرف تھا اور پھر میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا : ” اس گروپ کو پاک شراکت کا آغاز کرنے کے لئے کیا کرنا ہو گا ؟” اُس کارکن نے کچھ دیر سوچا  پھر اُس نے کہا کہ جب وہ اپنی خدمت کے مقام پر واپس پہنچے گا تو وہ آئندہ ہفتے میں گروپ کے لیڈر کو پاک شراکت کا عنصر شامل کرنے کے لئے مناسب طور پر اور آسانی سے کہہ سکے گا۔ جیسے جیسے وہ ساتھی جواب دیتا گیا تو میں نے تیروں کے نشان کی  مدد سے اُن کے مستقبل کے لئے منصوبے کا خلاصہ تیار کر دیا ۔

    ایساہی تیر کا نشان میں نے نذرانے کی علامت کے ساتھ بھی بنایا پھر ان تمام منصوبوں کو عمل میں لانے کے لئے غور و فکر کے بعد میں نے عمل کے لئے ایک حکمت عملی مرتب کر لی ۔

    آخر میں ہم مرکزی سوال کی طرف پہنچے : ” کیا یہ مختصر گروپ خود کو ایک چرچ کا نام دے سکتا ہے؟ ” کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس کارکن نے فیصلہ کیا کہ ایسا نہیں ہے۔ میں نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر وہ گروپ پورے دل سے ایک چرچ بننے کے عہد پر کاربند ہوجائے تو انہیں چرچ کی حثیت سے شناخت بھی ملےگی اور وہ حقیقی معنوں میں چرچ بھی بن جائیں گے۔ اگر ایسا ہوجائے تو نقطوں سے بنا ہوا یہ دائرہ ایک ٹھوس لکیر کے دائرے میں تبدیل ہوجائے گا  ۔ پھر میں نے اُس کارکن سے پوچھا کہ یہ سب کرنے کے لئے کیا کرنا ضروری ہو گا۔  اُس کا خیال یہ تھا کہ انہیں ایک مختصر گروپ سے ایک مکمل اور اصل چرچ بننے کے عمل تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے ۔سب سے پہلے انہیں اعمال کی کتاب کے 2 باب کی  37 سے 47 آیات کا گہرا مطالعہ کرنا ہے۔ اور اُس کے بعد اُسے اُن کی مدد کرنی ہے تاکہ خُدا اور ایک دوسرے کے ساتھ ایک ٹھوس اور مضبوط عہد کر لیں۔ میں نے یہ عملی منصوبہ نقطوں سے بنے اُس دائرے پر لکھ لیا جو اُس گروپ کی ترجمانی کرتا تھا ۔

    وہ کارکن اور پورا گروپ وائٹ بورڈ پر بنے عملی منصوبوں کو بہت  پُر جوش انداز میں دیکھ رہے تھے۔ یہ تمام منصوبے قابلِ عمل تھے ۔ درحقیقت اُس کارکن نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ تمام اقدامات اگلے ہی ہفتے دو مختصر گروپوں کے ساتھ کرے گا، جو اُس کے گروپ  جیسے ہی تھے۔ ایک دور افتادہ علاقے میں خدمت کرنے والا یہ کارکن جو ش اور جذبے سے کانپ رہا تھا ۔گذشتہ سات سال سے وہ اور اس کا خاندان پورے علاقے میں کلام پھیلانے کا کام کر رہے تھے ۔ انہوں نے مقامی شراکت داروں کی تربیت کی تھی اور نئے ایمانداروں کو گروپوں میں شامل کر کے اُن کی  شاگرد سازی بھی کر رہے تھے۔ اس تمام عرصے کے دوران اُن کی یہ خواہش  کہ یہ گروپ چرچ میں تبدیل ہو جائیں، پوری نہیں ہو سکی تھی۔ اب ایک سادہ لیکن بامقصد طریقے کے زریعے وہ جلد ہی پہلے چرچ کی ابتدا دیکھنے والے تھے ۔

    اُس تربیت کے تقریبا ایک سال کے بعد ،گذشتہ ہفتے میں اُس کارکن سے دوبارہ ملا ۔نہ صرف وہ گروپس اب چرچز میں ڈھل چکے ہیں بلکہ وہ نئے گروپوں کو بھی چرچ بننے کے اس عمل سے گزرنے میں مدد دے رہے ہیں۔

سٹیو سمتھ،  Th. D،(1962- 2019 )  14: 24  اتحاد کے شریک سہولت کار اور T4T: A Discipleship Re-Revolution  سمیت متعدد کتابوں کے مصنف تھے  ۔  وہ   تقریباً 20   سال   تک دُنیا بھر میں  CPM   کی تحریکوں کو  تربیت  دیتےاور متحرک  کرتے رہے۔ 

 

   مشن فرنٹئیرز        www.missionfrontiers.orgکے  ستمبر-اکتوبر 2012  کے شمارے میں صفحات  نمبر 25-26 پر شائع ہونے والے مضمُون  کی تدوین شدہ شکل۔

یہ مضمون  24:14 – A Testimony to All Peoples کے صفحات 74- 86 پر بھی شائع ہوا۔ 24:14 یا   ایمازون پر بھی دستیاب ہے۔

Categories
حرکات کے بارے میں

گروپوں کو چرچز بننے میں مدد دینے کے لئے لازمی درکار تقاضے: چرچز کی تخم کاری کی تحریک میں چار قسم کے تعاون۔ حصہ اول

گروپوں کو چرچز بننے میں مدد دینے کے لئے لازمی درکار تقاضے: چرچز کی تخم کاری کی تحریک میں چار قسم کے تعاون۔ حصہ اول

سٹیو سمتھ –

گروپ سے چرچ کی جانب سفر

چرچز کی تخم کاری کی تحریکوں میں ہم بہت سا وقت سلامتی کے فرزند کی تلاش ، اُس کا اُس کے خاندان کا دل جیتنے ، انہیں گروپوں میں تشکیل دینے اور اُن کی شاگرد سازی پر صرف کرتے ہیں ۔

لیکن اس ساری صورت حال میں چرچ کہاں پر آتا ہے ؟ یہ گروپ چرچ کب بنتے ہیں، اگر بن بھی سکتے ہوں ؟

نئے ایمانداروں کے لئے لازمی ہے کہ وہ چرچز میں جمع ہوں۔ یہ تاریخ کی ابتداسے ہی خُدا کا منصوبہ اور ارادہ رہا ہے۔ خُداوند کا طریقہ یہ ہی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو چرچ کی صورت میں ایک گروہ میں اکٹھاکرے تاکہ وہ ویسے بن جائیں جیسے انہیں بنانے کا اُس نے سوچا ہے، اور وہ کریں جو کرنے  کے لئے اُس نے انہیں بلایا ہے ۔

چرچز کی تخم کاری کا کوئی بھی طریقہ اس بات پر مرکوز ہونا چاہیے کہ ابتدائی سطح سے ہی اور شاگرد سازی کے عمل کی ابتدا سے ہی گروپوں  کو چرچز میں بدلنے میں مدد دی جائے۔ چرچ کا قیام چرچ کی تخم کاری کی تحریک کے عمل کا ایک لازمی سنگِ میل ہے ۔

تمام کے تما م گروپ چرچز کی صورت میں نہیں ڈھلتے۔ اکثر وہ ایک بڑے چرچ کا حصہ ہوتے ہوئے، گھریلو چرچ کی شکل اختیار کرتے ہیں۔  لیکن پھر بھی وہ مسیح کے بدن  ہونےکے تقاضے پورے کر رہے ہوتے ہیں ۔اہم بات یہ ہے کہ نئے ایمانداروں کو مسیح کا بدن بننے میں مدد دی جائے تاکہ وہ مزید افزائش کر کے اپنے معاشرے اور گردونواح میں اپنا مقام حاصل کر سکیں ۔

تخم کاری کی بنیاد پر بننے والے چرچز کے دو لازمی عوامل ہوتے ہیں : 

بائبلی بنیاد : کیا چرچ کا یہ نمونہ اور اس کا ہر پہلو کلام کے تقاضوں کے مطابق ہے یا نہیں ؟

بائبل میں چرچ کا کوئی میعاری نمونہ نہیں جس پر ہر چرچ کا استوار ہونا  لازِم ہو۔ ہم کلام میں چرچ کی ایسی بہت ہی مثالیں دیکھتے ہیں جنہیں اُن کی تہذیب کے تناظر میں ڈھالا گیا۔ CPM  میں ہم چرچ کے کسی ایک نمونے کو ہی بائبل کا اکلوتا نمونہ نہیں کہتے ۔ چرچز کے کئی قسم کے نمونے بائبلی بنیادوں پر قائم ہو سکتے ہیں ۔ سو، سوال یہ پیدا ہوتا ہے :” کیا یہ مخصوص نمونہ ( یا اس کےعناصر) کلام کی تعلیمات سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں ؟”

تہذیبی تناظر  میں افزائش کا امکان : کیا چرچ کا یہ نمونہ ایسا ہے کہ ایک عام نیا ایماندار اس کا  آغاز اور انتظام کامیابی  سے کر سکے؟ 

چونکہ چرچ کے کئی نمونے یا ماڈل  پورے خلوص کے ساتھ کلام کی تعلیمات کے مطابق خدمت کر سکتے ہیں، تو اس کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے : ” کون سا نمونہ یا ماڈل اس تہذیب کے لئے بہترین ہے اور ہمارے علاقے کے لوگوں میں افزائش کا سبب بن سکتا ہے ؟” 

عمومی اصول یہ ہے :” کیا ایک عام نوجوان ایماندار ایسے چرچ کی ابتدا اور اُس کا انتظام کر سکتا ہے ” دوسری صورت میں چرچ کی بنیاد رکھنے کا کام  محض چند اعلیٰ تربیت یافتہ افراد تک محدود ہو کر رہ جائے گا

 ان دونوں ہدایات کو ذہن میں رکھتے ہوئے چرچز کی تخم کاری کے اسلوب ایمانداروں کو اس قابل بنا سکتے ہیں کہ وہ سادہ چرچز کی ابتدا کر کے شاگردوں کو پورے خلوص کے ساتھ مسیح اور اُس کے بدن کے  ساتھ چلنے کے قابل بنائیں۔ جب ہم سب کھوئے ہوؤں تک پہنچنے کے لئے  تخم کاری کی تحریکیں شروع کرتے ہیں، تو ہم ایسی تحریکوں اور چرچز کے نمونوں کو تجویز کرتے ہیں جو حالات کے تناظر میں مناسب ترین اور افزائش لانے والے ہوں ۔ اس قسم کے چرچز میں آسان  رسائی والے مقامات پر مختصر گروہوں  کی میٹنگز پر زور دیا جاتا ہے۔ ان مقامات میں گھر ، دفاتر، چائے خانے  اور پارک ہو سکتے ہیں، نہ کہ کثیر لاگت کے ساتھ خریدی یا تعمیر کی گئی عمارتیں ۔

چرچ کے قیام کا مقصد حاصل کرنے کے لئے چار معاون نکات

میں جنوب مشرقی ایشیا میں مشنری کارکنان کے ایک گروہ کو تربیت دے رہا تھا ۔اُس دوران ایک موضوع زیرِ بحث آیا کہ کس طرح چھوٹے گروپوں، یعنی بائبل سٹڈی کے گروپوں کو چرچ بننے میں مدد دی جا سکتی ہے۔ میں جن کارکنوں کی بات کر رہا ہو ں وہ اپنے اس تناظر میں چرچز کا آغاز کرنے کی کوششیں کر رہے تھے جو کہ تخم کاری کی تحریکوں کا ایک حتمی مقصد ہوتا ہے۔ میں نے انہیں چرچ کی تخم کاری کے عمل کے لئے چار نکات کی تربیت دی۔ یہ ایک سادہ لیکن بامقصد مشق تھی ،جس کے ذریعے ایمانداروں کے راسخ العقیدہ گروہوں کو جنم دیا جاسکتا تھا ۔

اگر آپ کے پاس منادی اور شاگرد سازی کے لئے ایک واضح راہِ عمل موجود ہو  توقابلِ افزائش چرچز کا آغاز کوئی مشکل   کام نہیں ہوتا  ۔ واضح مقصد بہت لازمی ہے۔ آپ کے پاس شاگرد سازی کا ایک واضح تربیتی پروگرام ہونا چاہیے ،جس کے ذریعے ایمانداروں کو شعوری طور پر ایک چرچ کی شکل میں ڈھلنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ ایسے چرچزکے قیام کے لئے، جو آگے مزید نئے چرچز قائم کریں ، ہم نے ان چار اصولوں کوخاص طور پر  معاون اور مددگار پایا ہے ۔

1۔   اپنے ہداف کا واضح تعین : ایک گروپ کے چرچ میں بدلنے کے وقت کا واضح تعین 

اگر آپ کے ذہن میں یہ واضح نہ ہو کہ ایک مختصر گروپ یا بائبل سٹڈی گروپ کب ایک چرچ کی شکل اختیار کر لے گا  توچرچ کی ابتدا کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔

منظر نامہ: ایک گروپ تین ماہ سے کسی چرچ سے وابستگی کے بغیر باہم ملاقاتیں کرتا رہا ہے۔ انہوں نے بہت گہرائی میں بائبل کے مطالعے کے ساتھ   عبادت کے پر جوش لمحات بھی ساتھ گزارے ہیں۔ وہ کلام سنتے ہیں اور اُس کی فرمانبرداری کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ وہ ایک نرسنگ ہوم کا دورہ کر کے وہاں موجود لوگوں کی خدمت اور ضروریات پوری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیا انہیں ایک چرچ کہا جا سکتا ہے ؟

شاید اس منظر نامے میں اتنی معلو مات موجود نہ ہوں جس سے آپ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں ۔کیا چرچ ایک بڑے حجم کا بائبل سٹڈی  گروپ ہوتا ہے ؟ اگر آپ واضح طور پر یہ نہ سمجھتے ہوں کہ ایک گروپ کب چرچ کی شکل اختیار کر لیتا ہے ، تو ہو سکتا ہے کہ آپ اس گروپ کو بھی چرچ ہی کہنے لگیں ۔ تو چرچ کی ابتدا کے لئے پہلا قدم یہی ہے کہ ہم چر چ کی ایک واضح تعریف سے آگاہ ہوں – یعنی چرچ کے بنیادی اور لازمی عناصر کیا ہیں ۔ہم چھوٹے تربیتی گروپوں کا آغاز کریں ، جن کا ابتدا  ہی سے یہ مقصد ہو کہ وہ ایک وقت  کے بعد چرچ کی شکل اختیار کر جائیں گے۔ اعمال کی کتاب ہمیں ایک ٹھوس مثال پیش کرتی ہے جو اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے : 

سرگرمی : اعمال  2:36-47کا مطالعہ کیجیے ۔زیادہ مشکل میں پڑنے سے گریز کریں اور ایک خلاصے کی صورت میں یہ جاننے کی کوشش کریں ۔ کہ اس گروپ کوایک  چرچ کی حیثیت کس طرح  ملی۔ 

اپنا جواب تحریر کریں :

اعمال کے دوسرے باب سے سامنے آنے والی چرچ کی تعریف کی یہ ایک مثال ہے۔ یہ دس اہم عناصر پر زور دیتی ہے ، جن میں سے تین انتہائی اہم ہیں : عہد ، خصوصیات ، محبت بھرےرہنُما ۔

  • عہد ( 1 ) : بپتسمہ پانے والے ( 2) ایمانداروں کا ایک  گروپ ( متی 18:20 ،اعمال   2:41 (جو خود کو مسیح کا بدن کہتے ہیں اور باقاعدگی سے ایک دوسر ے سے ملنے کے عہد پر کار بندھ ہیں ( اعمال2:46) 
  • خصوصیات:  یہ چرچ کی خصوصیات یعنی اصولوں کے مطابق مسیح میں باقاعدگی سے زندگی گزارتے ہیں ۔ 
  • کلام (3) : کلام کو اہم ترین حکم جان کر پڑھنا اور اُس کی فرمانبرداری کرنا ۔ 
  • خُداوند کا کھانا یا پاک شراکت (4) 
  • رفاقت (5) : ایک دوسرے کے لئے محبت 
  • نذرانے(6) :ضروریات پوری کرنے اور دوسروں کی خدمت کرنے کے لئے ۔
  • دعا (7) 
  • حمد وثنا ( 8): الفاظ یا گیتوں کی صورت میں 
  • اُن کی زندگی کا مقصد کلام کو پھیلانا ہوتا ہے (منادی ) ( 9)
  • محبت کرنے والےرہنُما(10): چرچ کے پھلنے پھولنے کے ساتھ بائبل کے معیار  (ططس  1:5-9) کے مطابق پاسبانوں کا    تقرر کیا جاتا ہے ۔اور اس کے ذریعے باہمی احتساب اور چرچ میں نظم و ضبط کا قیام عمل میں آتا ہے ۔

چرچز کی تخم کاری کی غرض سے ان تین  اہم ترین چیزوں کو ترجیحات کے حساب سے دیکھتے ہیں. سب سے اہم ترین نُکتہ ،  عہد ہے ۔کوئی بھی گروپ  خود کو ایک چرچ کی حیثیت سے تب  ہی شناخت کرسکتا ہے جب اُس نے مل کر مسیح کے پیچھے چلنے کا عہد کر لیا ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے یہ عہد تحریری صورت میں لکھا بھی ہو۔ بس انہوں نے ایک چرچ بن کر آگے بڑھنے کا ایک  شعوری فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ چرچ اس اقدام کو ایک نام اور شناخت بھی دیتا ہے ۔

دوسری ترجیح “خصوصیات” کی ہے۔ ہو سکتاہےکہ ایک گروپ  خود کو چرچ کہلاتا ہو لیکن وہ چرچ کی بنیادی خصوصیات سے عاری ہو۔ تووہ حقیقت میں چرچ نہیں ہے ۔ اگر ایک جانور بھونکتا ہو اپنی دم ہلاتا ہو اور چار ٹانگوں پر چلتا ہو تو آپ چاہیں تو اُسے بطخ کہہ سکتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ ایک کتا ہی ہوتا ہے ۔ 

سب  سے آخر میں ایک پھلتے پھولتے چرچ کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس عمل کے دوران  جلد ہی مقامی سطح پر “محبت بھرے رہنُماؤں” کا تقرر کرے۔ ممکن ہے کہ ان پاسبانوں اور راہنماؤں کے سامنے آنے سے پہلے ہی چرچ قیام پا چکا ہو ۔ پولوس کے پہلے سفر کے اختتام پر ہم اس کی ایک اچھی مثال دیکھتے ہیں ۔ اعمال کی کتاب کے 14  ویں باب کی آیت 21 سے 23 میں پولوس اور برنباس نے اُن چرچزکا دورہ کیا جو انہوں نے گذشتہ ہفتوں اور مہینوں میں قائم کئے تھے۔ اور پھرُاس وقت انہوں نے اُن چرچز میں پاسبانوں اور راہنماؤں کا تقرر کیا ۔چرچ کی طویل مدتی بقا کے لئے ضروری ہے کہ محبت بھرے راہنما اُنہی میں سے تلاش کئے جائیں ۔

چرچ کی ابتدا کرنے کے لئے سب سے پہلا قد م یہ ہے : یہ جاننا کہ آپ کا مقصد کیا ہے اور اُس وقت کا واضح تعین کرنا جب یہ گروپ چرچ کی صورت اختیار کر لے گا ۔

2۔ جب آپ ایک تربیتی گروپ آغاز کریں تو ابتداہی سے چرچ کی زندگی کے اُن گوشوں کا عملی مظاہرہ کریں جب کا بیان اوپر کیا گیا ہے ۔                       چرچ کا قیام کرنے والے ایک راہنما کو اُس گروپ کی مدد کرنے میں بہت مشکل پیش آئی جسے وہ ایک چرچ بننے کے لئے تربیت دے رہا تھا ۔ اپنے تربیتی  گروپوں کی جو تصویر اُس نے مجھے پیش کی اُس کے مطابق یہ سارا عمل محض سیکھنے سکھانے کا عمل تھا، جس میں افزائش کی کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی تھی۔ تربیتی سیشنز کے دوران اُس گروپ کو تعلیم تو ملی لیکن اُن میں گرم جوشی پیدا نہ ہو سکی تھی۔ اس تربیت  کے  دوران وہ انہیں اپنے گھروں میں کو ئی مختلف چیز   شروع کرنے کو کہہ رہا تھا ۔ وہ اپنی توقعات کے برعکس کسی اور ہی چیز کا  متوقع نمونہ پیش کر رہا تھا ۔ میں نے یہ تجویز دی کہ وہ اپنے تربیتی  لیکچرزاور سیشنز کو ویسا بنائے جیسے وہ چرچز کو آئندہ دیکھنا چاہتا ہے ۔ اس طرح اُن گروپوں کو مستقبل میں چرچ بننا زیادہ آسان ہو گا ۔

 ایک چھوٹے گروپ سے چرچ کی شکل میں ڈھلنے کے لئے آسان اور بہترین طریقہ یہی ہے کہ پہلی میٹنگ سے ہی ایک چرچ کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا نمونہ پیش کیا جائے۔ اس طرح جب آپ چرچ کے لئے شاگرد سازی کے مرحلے پر پہنچتے ہیں تو آپ اُس کا تجربہ پہلے ہی کر چکے ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور سے پہلے ہی ہفتے سے شروع کر کے ہر میٹنگ میں تربیت کاروں کی تربیت1 میں دو تہائی شاگرد سازی کی تربیت ضرور کی شامل کی جانی چاہیے ۔ اس میں گذشتہ ہفتے کی پڑتال ضرور ہونی چاہیے۔ خُدا سے مزید مدد کی درخواست ہونی چاہیے اور مستقبل میں اُس کی خدمت اور فرمانبرداری پر بھی نظر رکھی جانی چاہیے ۔اس دو تہائی حصے میں چرچ  کے بنیادی عناصر جیسے عبادت ، دعا ،کلام ،رفاقت ، منادی ، خدمت وغیرہ سب شامل ہوجاتے ہیں ۔

ایک چھوٹے گروپ کے ساتھ پہلی میٹنگ میں ہی اپنی پوری کوشش کریں   کہ آپ اُس چرچ کا بہترین نمونہ پیش کر دیں، جسے آپ آخر میں تشکیل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ چرچ کے بارے  میں تربیت حیرت کا باعث نہیں ہو نی چاہیے ۔ یہ نہ ہو کہ آپ چار سے پانچ ہفتے ایک کلاس کی صورت میں گزار کر اور پھر یہ اعلان کریں : ” آج ہم آپ کو چرچ کے بارے  اور چرچ بننے کے بارے میں تربیت دیں گے ” اور پھر اُس کے بعد آپ کی میٹنگز کا طریقہ کار کُلی طور پر بدل جائے ۔ میٹنگ شروع کرنے کے بعد فطری طور پر دوسرا قدم یہ ہی ہونا چاہیے کہ ایک چرچ بننے کا عمل شروع کر دیا جائے ۔

حصہ دوم  میں ہم گروپوں کو چرچز بننے میں مدد دینے کے لئے دو مزید لوازمات پر بات کریں گے۔




سٹیو سمتھ،  Th. D،(1962- 2019 )  14: 24  اتحاد کے شریک سہولت کار اور T4T: A Discipleship Re-Revolution  سمیت متعدد کتابوں کے مصنف تھے  ۔  وہ   تقریباً 20   سال   تک دُنیا بھر میں  CPM   کی تحریکوں کو  تربیت  دیتےاور متحرک  کرتے رہے۔ 

 

مشن فرنٹئیرز        www.missionfrontiers.orgکے  ستمبر-اکتوبر 2012  کے شمارے میں صفحات  نمبر 22-25 پر شائع ہونے والے مضمُون  کی تدوین شدہ شکل۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1تربیت کاروں کی تربیت (T4T )،    CPMکا ایک اسلوب ہے۔ ملاحظہ کریں   سٹیو سمتھ اور                             یِنگ کائی کی مشترکہ تصنیف: T4T: A Discipleship Re-Revolution ، WIGTake Resources, 2011۔  اِس مضمون کا ایک حصہ  اِس کتاب کے باب 16 پر مبنی ہے۔ یہ کتاب http://www.churchplantingmovements.com/   اور ایمازون کے کِنڈل پر دستیاب ہے۔  

Categories
حرکات کے بارے میں

کلیسیاء بحیثیت ایک وسیع فطری نظام : حصہ 5 –

کلیسیاء بحیثیت ایک وسیع فطری نظام : حصہ 5 –

ٹریور لارسن  –

” کیا آپ  بتا سکتے ہیں کہ آپ نے اس کام کو گروپوں سے بڑھ کر نئے عہد نامے کے چرچز تک جاتے ہوئے کیسے دیکھا  ؟”

اس منسٹری کا آغاز کرنے سے پہلے ،جن نارسا گروپوں تک ہم رسائی  حاصل کرنا چاہتے تھے ، اُن میں پہلے سے موجود روایتی چرچز پر تحقیق کی ۔ جس آبادی پر ہم نے تحقیق کی اُس کی تعداد ایک ملین تھی۔ ہم چاہتے تھے کہ جو روایتی چرچز مسلمانو ں تک رسائی حاصل کر رہے ہیں ہم اُن کے ساتھ مل جائیں ۔ ہمیں 22 چرچز ملے، اُن میں سے کچھ رجسٹر ڈنہیں تھے، کچھ کے پاس عمارتیں نہیں تھیں ، اور اُن کے پاس پندرہ  سے لے کرایک سو تک ایماندار موجود تھے ۔ ہم توقع کر رہے تھے کہ اُن میں سے کچھ مقامی مسلمانوں تک رسائی میں مؤثر ہو ں گے۔  لیکن حقیقت یہ تھی کہ ہم نے کسی بھی روایتی چرچ کو مقامی مسلمانوں تک رسائی حاصل کرتے نہیں پایا ۔

اُن 22 چرچز میں سے جو تین بہترین تھے ، اُ ن میں گزشتہ دس سالوں میں اوسطاً صرف تین ایماندار ایسے تھے جو مسلم پس منظر سے تعلق رکھتے تھے ۔دیگر تمام چرچز سب سے الگ تھلگ قلعوں جیسے تھے ۔اُن چرچز کے ممبران اُن گروپوں سے تعلق رکھتے تھے جو زیادہ مسیحی علاقوں سے وہاں منتقل ہوئے تھے۔ یعنی چرچز کے ممبران کی تعداد نہ تو  اکثریت والے گروہ سے تعلق رکھتی تھی اور نہ ہی اُن میں ایسے خاندان تھے جو کہ حال ہی میں ایمان کے دائرے میں آئے ہوں۔ مجھے یہ جان کر بہت مایوسی ہوئی کہ روایتی چرچز میں سے کوئی بھی مسلمان آبادی تک پہنچنے میں کامیاب نہیں رہا تھا اور اُن میں سے زیادہ تر نے کوشش بھی نہیں کی تھی کیونکہ اُنہیں خدشہ تھا کہ اُن کے چرچز کو جلا دیا جائے گا ۔

ہمیں یہ پتہ چلا کہ تین چرچز اکثریت آبادی میں سے تھوڑا سا پھل لا رہے ہیں لیکن وہ تینوں رجسٹرڈ چرچز نہیں تھے۔ اُن میں سے کسی کے پاس کوئی عمارت نہیں تھی ۔ ہم نے یہ بھی جانا کہ زیادہ موثرچر چز جو اُس نارسا  قوم میں کام کر رہے تھے اُن کے پاس اپنی عمارت تھی ہی نہیں ۔ اگر مقامی لوگوں کو چرچ کی کسی عمارت میں داخل ہونا پڑتا تو وہ شاگرد سازی کے راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتا تھا۔ ہمارے ملک میں چرچ کی عمارت نہ ہونا روایتی چرچ سے اُلٹ سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ اگر کوئی مقا می شخص روایتی یا رسمی  چرچ میں شامل ہو تو  سماجی راہنماؤں کو اُس میں شرم محسوس ہوتی تھی۔ لیکن زیادہ تر علاقے کےراہنما ایسے لوگوں کو قبول کر لیتے تھے جو غیر رسمی طور پر اکٹھے ہو کر بائبل کے بارے میں بات کر رہے ہوتے تھے ، خاص طور پر اگر وہ گروپ چھوٹاہو اور لوگوں کی نظروں میں نہ آئے ۔ یہ کچھ عجیب سی دریافت تھی ، لیکن اس سے ہمیں آئندہ کے لئے بہت بڑا فائدہ ہوا ۔ 

میں سیمنریوں میں بائبل پڑھاتا ہوں۔ اور میں اکثر اناجیل اور اعمال کی کتاب پڑھاتا ہوں ۔میں نے بائبل میں مذکور ابتدائی چرچ کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق کی ہے اور ہم نے اُسی نمونے پر عمل کرنے کی کوشش کی جو اعمال میں ہے ۔بائبل میں ہماری ریسرچ اور خدمت کے میدان سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق عمارت کے بغیر چرچ کے ہمارے تصور میں بہتری آئی ۔ہم نے یہ جانا کہ مسیحیت کے ابتدائی 200 سالوں تک تو  چرچ کے پاس کوئی عمارتیں تھی ہی نہیں ۔،اور ہم نے دیگر کچھ اور نمونے بھی دریافت کئے ۔ 

ایک “چرچ “کیا ہوتا ہے ؟

بہت سے بائبل پڑھانے والے چرچ کو ایک مقامی ادارہ سمجھتے ہیں جس سے اُن کی مراد ایک عمارت ہوتی ہے ، لیکن بائبل میں آپ کو نظر آئے گا کہ کسی ایک عمارت پر زور نہیں کیا گیا۔ چرچ کا ترجمہ عموما کلیسیا ہوتا ہے جسکا مطلب ہے” جماعت یا مجلس ” ۔ کلیسیا کا لفظ یسوع کے پیروکاروں کی جماعت کے لئے بھی استعمال ہوا اور یہ لفظ کہیں جمع ہونے والی بھیڑ کے لئے بھی استعمال  کیا گیا ۔یہ ایک لچکدار اصطلاح تھی، جس کے بہت سے مطلب ہو سکتے تھے ۔ مقامی کلیسیا کو بائبل میں تین طرح سے بیان کیا گیا ہے :  

سب سے پہلے ، گھروں میں اکٹھے ہونے والے ایمانداروں کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو کلیسیا کہا گیا ۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ ایمانداروں کی چھوٹی جماعتیں جو گھروں میں اکٹھی ہوتی تھیں اُن کے لئے کلیسیا کا لفظ استعمال ہی نہیں ہوا ۔ ہم بائبل میں پڑھتے ہیں کہ وہ لوگ جو ایمان نہیں لائے تھے وہ بھی ان جماعتوں  میں شامل ہوتے رہے ۔

دوسری بات یہ، کہ کسی شہر یا چھوٹے سے علاقے میں چھوٹے چھوٹےمختلف گروپوں کی ایک مجموعی مجلس یا جماعت بن جاتی تھی۔ یہ بڑی جماعتیں گھروں میں اکٹھے  ہونے والے بہت سے لوگوں کی جماعتوں پر مشتعمل ہوتی تھیں ، اور انہیں بھی ایک چرچ کا نام دیا گیا ؛ مثال کے طور پر روم کے چرچ کا نام روم کے شہر میں اور اُس کے ارد گرد اکٹھی ہونے والی ایمانداروں کی تمام جماعتیں گھریلو چرچ تھیں، اس کے باوجود انہیں روم کے چرچ کی شناخت حاصل تھی ۔انفرادی ایماندار ایک گھریلو چرچ کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ پورے شہر کے چرچ کا حصہ بھی ہوتے تھے ۔ہم فرض کر لیتے ہیں کہ شہر کے بڑے چرچ کی مشترکہ جماعت صرف مخصوص شہروں کے لئے نہیں ہوتی تھی ، اس سے مراد ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا علاقہ بھی ہو سکتا تھا ۔ 

روجر گیرینگ  نے تحقیق کے بعد ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے گھریلو چرچ اور مشن ۔ اُس کتاب میں انہوں نے اس سے قبل اس موضوع پر لکھنے والے مصنفین کے الفاظ بھی درج کئے ہیں۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کیسے گھریلو چرچ کا نظام انجیل کی منادی کو پھیلانے اور شہروں کی بڑی جماعتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔نئے عہد نامے کے دور میں روم اور کرنتھس دونوں میں پانچ سے زیادہ جماعتیں گھروں میں اکٹھی ہوتی تھیں  اور ہم اس بارے میں پڑھ سکتے ہیں۔ یہ گھریلو چرچز تھے جو مختلف گھروں میں اکٹھے ہوا کرتے تھے ۔ سو مقامی چرچز سے کیا ہم مراد یہ لیں کہ وہ گھریلو چرچز تھے ؟ یا ہم اُس سے یہ مراد لیں کہ وہ روم کا  ایک مقامی چرچ تھا ( جس میں اُس علاقے کے تمام گھریلو چرچز شامل تھے ) ؟ وجہ یہ ہے کہ روم کا چر چ کئی گھریلو چرچز کا مجموعہ تھا ۔کلیسیا کا لفظ ان دونوں قسموں کے مقامی چرچز کے لئے استعمال ہوتا ہے جن کا ذکر بائبل میں ہے ۔ ہم کرنتھس کے شہر کے چرچ سے واقف ہیں، کیونکہ اُس وقت چرچ ابھی چھوٹا ہی تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ ایمانداروں کی تعداد اتنی ذیادہ نہیں تھی کہ انہیں کسی بڑے گھر میں اکٹھا ہونا پڑے ۔

جلد ہی یہ ہوا کہ تمام ایمانداروں کو کسی ایک جگہ میں پر شہر کے ایک چرچ میں جمع کرنا ناممکن ہو گیا ۔ مثال کے طور پر اعمال 4: 4 میں پانچ ہزار مردوں کا ذکر ہے یہ مرد اپنے گھروں کے سربراہ تھے ، سو اگر ہم اُن کی بیویوں اور بچوں کو بھی اس تعداد میں شامل کریں اور اُن کے رشتے داروں اور خادموں کو بھی تو یہ تعداد 15 سے 20 ہزار ایمانداروں  تک جا پہنچتی ہے ۔ اُس وقت تک کتنے گھریلو چرچز قائم کو چکے تھے ؟ گھریلو چرچ اور مشن میں تحقیق کی بنا پر اُس دور کے طرزِ تعمیر کا ذکر ہے ۔ اُس دور کے گھروں کے سب سے بڑے کمرے کا سائز آج کے دور کے ایک چھوٹے بیڈ روم جتنا ہوتا تھا ، اگرچہ امیروں کے گھروں میں کمرے بڑے اور صحن وسیع ہوتے تھے گیرینگ کی تحقیق  کے مطابق ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہر گھریلو چرچ میں 15 سے 20 لوگ اکٹھے ہو سکتے ہوں گے ۔ اب 20 لوگوں کے ہندسے کا موازنہ 20 ہزار ایمانداروں کے ساتھ کر کے دیکھتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اعمال 4:4 کے واقعات ہونے تک یروشلیم میں ایک ہزار سے زائد گھریلو چرچز موجود تھے اور یہ یروشلیم کی تحریک کے پہلے تین سالوں تک ہو چکا تھا ۔ اور اُس کے بعد اعمال 21 تک یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ چُکی ہو گی ۔سو اُن ایک ہزار گھریلو چرچز کا سربراہ کون تھا ؟  بارہ رسول دور اندیش تو ضرور تھے لیکن اُن کے لئے ناممکن ہوتا کہ وہ اُن ہزار چرچز میں سے ایک سو چرچز کی راہنمائی بھی کر سکتے ۔ کم ازکم 900 چرچز ایسے ضرور رہے ہوں گے جن کی پاسبانی نئے ایماندار کر رہےہوں گے اور جن کی نگرانی شہر کے بڑے چرچ کے بزرگ کرتے ہوں گے ۔ 

میں نے لوگوں کو یہ کہتے سُنا ہے کہ بائبل میں تحریکوں کا کوئی ذکر نہیں اور یہ تمام جماعتوں کی راہنمائی لازمی طور پر مستحکم اور پرانے ایمانداروں کو کرنی چاہیے ۔لیکن  یہ  بات واضح ہے کہ ان دعوؤں کا بائبل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔میں یہ کہتا ہوں کہ کیا آپ واقعی اس پر یقین رکھتے ہیں ؟کیا آپ جو کچھ بائبل میں پڑھتے ہیں آپ نے اُس پر کچھ سوچا بھی ہے ؟ یروشلیم میں پہلے تین سالوں میں ایمانداروں کی ایک ہزار جماعتوں  کی موجودگی یقینا ایک تحریک ہی ہے ! اور بائبل میں موجود شواہد اُس دور میں مختلف علاقوں میں موجودکم ازکم  6 تحریکوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں جن میں ایک ہزار سے زائد ایماندار شامل تھے ۔ بائبل میں موجود شواہد کو کسی اور معنی میں لیا ہی نہیں جا سکتا ۔ ہمارے ذہن میں کلیسیا کا مفہوم اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ بائبل کے تمام اعداد وشمار اُس میں سما سکیں ۔ ایک بات جو اعمال کی کتاب میں واضح نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ کلیسیا ایک وسیع نظام تھا جو فطری انداز پرقائم تھا ۔ کلیسیا بڑھتی چلی جاتی ہے اور نئی شاخیں اور نظام اُس میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں یہ فطری طور پر بڑھنے والا نظام ہے جو اپنے اندر نئے پیدا ہونے والے چرچز کو شامل کر سکتا ہے ۔ بائبل میں موجود چرچز گھریلو چرچز بھی تھے اور شہر میں موجود ( یا کسی مخصوص علاقے میں قائم )  چرچز کا مجموعہ بھی تھے ۔

کلیسیا کا لفظ وسیع تر علاقے کے چرچ کے لئے بھی استعمال کیا گیا : یہودیہ ، سامریہ ، گلتیہ  اور مکدونیہ کے چرچ ۔ یہ صوبے تھے اور ہم یہ تصور نہیں کر سکتے کہ صوبے کے تمام ایماندار کبھی بھی ایک جگہ اکٹھے ہو سکتے ہوں گے ۔ وہ مقامی تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ روبرو اکٹھے ہوتے تھے لیکن وہ ایک وسیع مفہوم میں عالمگیر حیثیت رکھتے تھے۔اُن کی اپنے صوبے میں موجود تمام ایمانداروں کے ساتھ ایک مشترکہ شناخت تھی ۔ یہ وہ تیسرا سائز ہے جو ہم فطری طور پر بڑھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک چرچ   کے نظام میں دیکھتے ہیں ۔ آسان ترین الفاظ میں ، نئے عہد نامے کے چرچز گھریلو چرچ ، کسی شہر یا علاقے میں موجود چرچ اور ایمانداروں کی وسیع علاقوں میں موجود جماعتوں کا نام ہے جو مسیح میں بہن بھائی ہونے  کی حثیت سے ایک دوسرے کے ساتھ کلیسیا کے نام سے وابستہ تھے( چاہیے جماعت چھوٹی ہو یا بڑی) ۔ یہ چاردیواری کے بغیر ایک ایسا چرچ تھا جو پھیلتا چلا گیا ۔ 

چرچ کے راہنما

راہنما کون تھے ؟ یروشلیم کے پورے شہر کے چرچ میں شامل 20 ہزار ایمانداروں کے لئے بزرگوں کی ایک مختصر ٹیم تھی ۔ اور ہر گھریلو چرچ میں موجود لوگوں کی پاسبانی کے لئے ایک ہزار راہنما تھے جن کا نام نہیں لیا گیا ۔لیکن شاگرد اعمال 6 تک حیرت زدہ  ہو چُکےتھے ۔ وہ راہنماؤں کی بڑھتی ہوتی ہوئی طلب پورا کرنے کے قابل نہیں تھے جو اس وجہ سے بڑھتی رہی کیونکہ چرچ بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔ سو جب بیواؤں کی ضروریات بڑھیں اور اختلاف پیدا ہوئے تو انہیں ایک دوسری قسم کی قیادت کی ٹیم شامل کرنا پڑی ۔ جسے ایک مخصوص انداز کی منسٹری سنبھالنی تھی قائدین کی یہ دوسری ٹیم ایسے افراد پر مشتعمل تھی جنہیں  بیواؤں کی خدمت کے میدان کے لئے اُن کی روحانی قابلیت ، عملی مہارت ، اور اُن کے رابطوں کی بنیاد پر چُنا گیا ۔ یقینا اُس وقت تک چرچ میں ہزاروں بیوائیں شامل رہی ہوں گی ۔ 

ایک دوسری مثال یہ ہے کہ ہم کلام میں افسیوں کے بزرگوں کے بارے میں پڑھتے ہیں جنہوں نے اسی طرح افسس کے علاقے میں ایک دوسرے سے  منسلک گھریلو چرچز کی نگرانی اور دیکھ بھال کی ہو گی ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایمانداروں نے اُس علاقے میں جادو کی بہت سی کتابیں جلا دی تھیں۔  اُن کی قیمت کا تخمینہ50 ہزار دنوں کی روزمرہ اجرت کے مطابق تھا جسے امریکی ڈالر میں 2021 کے ریٹ کے مطابق بدلیں تو وہ 10 ملین ڈالر کے برابر  بنتی ہے ۔ سو یقینا یہ کہا جا سکتا ہے کہ افسس کے علاقے میں 10 ہزار ایماندار یقینا موجود تھے ۔ افسس کے بزرگوں کےزیر ِ نگرانی تقریبا 500ایسے راہنما تھے جو چھوٹی جماعتوں کی راہنمائی کیا کرتے تھے ۔

بائبل کے اعدادو شما رکا خلاصہ 

ضروری ہے کہ کلیسیا کے مفہوم میں بائبل کے وہ تما م اعدادوشمار شامل کئے جا سکیں جو ہمیں چھوٹے گھریلو چرچز ، شہر کے چھوٹے گروپوں کے چرچز (جن میں ایک مخصوص علاقے کے چرچز بھی شامل ہیں، اور بڑے علاقوں کے چرچز بھی شامل ہوں ۔)

  1. اعمال کی کتاب میں مذکور چرچ کی نوعیت ایسی تھی جس نے پولوس کی زندگی کے دوران کئی مختلف علاقوں میں ہزاروں ایماندار پیدا کئے۔ آج کے دور میں بہت سے لوگ ان ہزار ایمانداروں کی بڑھتی ہوئی جماعتوں کو تحریک کا نام دیتے ہیں ۔ 
  2. روبروملاقاتوں میں زیادہ تر غیر رسمی گھریلو چرچز میں ہوتی تھیں ۔ 200 سال تک اُن کے پاس کوئی عمارت نہیں تھی ۔ اس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ چرچ کی عمارت کی بنیاد پر قائم آج کی منسٹر ی کا ابتدائی دو صدیوں میں کوئی تصور نہیں تھا ۔ لیکن گھروں میں ملنے والی ان جماعتوں کے ایماندار یقینا دیگر ایمانداروں سے واقف تھے اور اُن کے پاس جا کر اُن سے ملاقات کرتے اور بھائیوں اور بہنوں کی طرح ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتے تھے ۔ اس قسم کی انفردای رابطوں کی منسٹری کا حوالہ رومیوں 16 اور کلسیوں 4 میں ہمیں نظر آتا ہے ۔
  3. جب شہر کا ایک چرچ بڑھتا تھا تو اُس کے ممبران ایک مشترکہ شناخت حاصل کر لیتے تھے ،چاہیے بڑھنے کے اس عمل کے دوران وہ ایک مقام پر ایک دوسرے کے ساتھ روبرو نہیں ملتے تھے وہ صرف اپنی مختصر جماعتوں میں ایک دوسرے سے ملتے تھے ۔
  4. بہت سے گھریلو چرچز کی راہنمائی وہ نئے ایماندار کرتے تھے جو ابتدائی چرچ کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایمان میں آئے تھے ۔
  5. بزرگوں کی ایک ٹیم تمام گھریلو چرچز کی نگرانی کرتی تھی جو کہ شہر کے ایک چرچ کے ساتھ منسلک ہوتے تھے ( اور ان میں ممکنہ طور پر وہ بزرگ بھی شامل رہے ہوں گے جو چھوٹے علاقوں  اوردیہی آبادیوں کے چرچز  کی پاسبانی کرتے تھے )۔
  6. بائبل میں ہمیں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں کسی بھی سائز کے ایک چرچ کی راہنمائی صرف ایک بزرگ پاسبان کے ہاتھ میں ہو اگر چہ یہ آج کل عام طور پر ہو رہا ہے یہ  ضرور ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے گھریلو چرچز کو ایک راہنما کی قیادت میں دیکھتے ہیں ۔
  7. کسی علاقے میں جب انجیل کی منادی کو ایک سال پورا ہونے کو ہوتا تھا تو اُس سے پہلے ہی کسی چھوٹے علاقے کے چرچ یا شہر کے چرچ کے لئے بزرگوں کی ایک ٹیم تشکیل دے دی جاتی تھی ۔ اعمال 14 : 23 میں اس کا واضح ثبوت ملتا ہے ۔ شاگرد ہر چرچ میں بزرگوں کو مقرر کرنے کے بعد ، ( جو کہ ایک مستقل نمونہ تھا ) اپنے دوسرے مشنری سفر پر روانہ ہو جاتے تھے ۔ بزرگوں کی یہ ٹیم ہر نئے چرچ کے لئے اُن ایمانداروں میں سے منتخب کی جاتی تھی جو سب سے زائد اس کے اہل ہوتے تھے ۔بزرگوں کے انتخاب میں چرچ کے آغاز سے ایک سال سے ذیادہ تاخیر نہیں کی جاتی تھی  افسس کا چرچ ذیادہ مستحکم تھا اور اُسے قائم ہوئے بھی ذیادہ عرصہ گزرا تھا ، اور انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ نئے ایمانداروں میں سے بزرگوں کا انتخاب نہ کریں ( 1 تیمتھیس 3:  6) لیکن ہم اس کے بعد ذیادہ مسائل سے بھر پور کریتے کے چرچ میں یہ خبرداری نہیں دیکھتے ( ططس 1) ۔ سو شاگردوں نے یقینا سب سے ذیادہ اہل اور قابل افراد کا چُناؤ کیا ہو گا اُن علاقوں میں جہاں نارسا لوگ موجود تھے اور یسوع کے پاس لوگ آتے جا رہے تھے ۔شاگردوں نے چرچ کی راہنمائی کے لئے کسی بھی علاقے میں موجود سب سے قابل لوگ چُنے ، لیکن انہوں نے بزرگوں کی ایسی ٹیمیں منتخب کیں  جو ایک دوسرے کو نشوونما حاصل کرنے میں مدد دیتے تھے ۔

جدید دور کے نارسا قوموں کے گروپوں  پر بائبلی نمونوں کا اطلاق 

نارسا قوموں کے گروپوں کے تناظر میں مسلم علاقوں کے 99 فیصد مختصر گروپ ایسے ہیں جن میں صرف 5 ایماندار  ہیں ۔ جب یہ گروپ 8 سے زیادہ بڑھ جائیں تو انہیں اپنے معاشروں میں سیکیورٹی کے خدشات کا سامنا ہوتا ہے ۔ لیکن یہ ایماندار خوشی سے دیگر لوگوں کو خوشخبری سُناتے ہیں جو پھر اُن کے گروپ میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں سو وہ انہیں موجودہ گروپ میں شامل کرنے کی بجائے نئے چھوٹے گروپ تشکیل دے دیتے ہیں ۔ جب آپس میں منسلک یہ چھوٹے گروپ تین یا ذیادہ نسلوں تک بڑھ جاتے ہیں تو ہم 10 منسلکہ گروپوں کو ایک کلسٹر چرچ یا چھوٹے شہر کے چرچ کا نام دیتے ہیں ۔  اس مقام پر پاسبانوں یا راہنماؤں کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔ 5 ایمانداروں کی جماعت میں ایک راہنما ایسا ہوتا ہے جو اُن سب میں سے زیادہ ایمان میں مستحکم ہوتا ہے ۔ چھوٹے گروپوں کے راہنماؤں کے لئے ضروری نہیں کہ وہ بزرگوں کی قابلیت رکھتے ہوں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ کلسٹر چرچ کے راہنما بائبلی راہنماؤں  کی اہلیت کے معیار پر پورے اتریں ۔

کلسٹر چرچ کے گروپوں کے تما م راہنما  راہنماؤں کا ایک گروپ بنا کر ملتے ہیں ۔ وہ بزرگوں کے انتخاب سے متعلقہ بائبل کے  حوالے پڑھتے ہیں :1 تیمتھس3، ططس1 اور اعمال 6 جس کی بناد پر وہ موازنہ کرتے ہیں ۔گروپ کے لیڈر  پھر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان میں سے کون ایسے ہیں جو کلسٹر کی راہنمائی کے لئے درکار اہلیت اور قابلیت کے حامل ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ کلسٹر کے راہنماؤں کی تعداد کم ازکم تین ہو کیونکہ یہ راہنما ہمیں بائبل میں بھی نظر آتے ہیں ، لیکن راہنماؤں کی یہ تعداد دو یا پانچ بھی ہو سکتی ہے  ۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ کلسٹر چرچ  کا پا سبان صرف ایک شخص ہو کیو نکہ بائبل میں یہ ہمیں نظر نہیں آتا ۔ 

کیا چرچ کے پہلے دو سالوں میں نظر آنے والے نمونے اب تاریخ بن چُکے ہیں جن کو آج روایتی چرچ نے تبدیل کر دیا  ہے؟ یا یہ نمونے ہمیں ایسا ماڈل تیار  کرنے میں راہنمائی فراہم کرتے ہیں جن کے مطابق ہم آج بھی اپنے اپنے تناظر میں تبدیلیاں کر سکیں ؟ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پولوس نے ایسے نمونے قائم کئے جن کی تقلید کی جانی چاہیے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بزرگوں کی ٹیموں کے دیئے گئے نمونوں سے کبھی بھی ہٹانہیں جا سکتا،لیکن پولوس کے دور میں ہم نے ایسا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اُس نمونے کئی ہر ممکن حد تک تقلید کی جائے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں : ” ہو سکتا ہے وہ ابھی تک ممکنہ طور پر  پاسبان بننے کے اہل نہ ہوئے ہوں !” پولوس سے کون کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ اُس نے کیا وہ بائبل کے مطابق نہیں تھا ؟اُس نے ہر چرچ میں ایسے راہنما منتخب کئے  جنہیں کلام کی خوشخبری سُنے ہوئے ایک سال سے کم کا عرصہ ہوا تھا ۔ 

ہم یہ بات نہیں سمجھ پاتے کہ ہمارے چرچ کے ذاتی تجربات، کس حد تک  چرچ کےبارے میں  ہمارے نظریے پر غلبہ پا چکے ہیں ۔ ہم یہ بھی نہیں جان پاتے کہ چرچ کی روایتی شکل بائبل کے نمونوں کے مطابق  ہے یا نہیں ، اگر وہ ہے تو ٹھیک لیکن بائبل کے نمونے کے مطابق چرچ کو تبدیل کرنے کے بہت سے اور طریقے موجود ہیں ۔بائبل کاایک  نمونہ یہ ہے کہ جہاں چرچ وسیع ہوتا جا رہا ہو وہاں پہلے سال میں راہنماؤں کی ٹیم تیار کی جائے ۔ یہ کام صرف ایک پاسٹر مقرر کرنے سے کہیں ذیادہ محفوظ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تین راہنما ہو ں تو اُن میں سے سب کی کچھ نہ کچھ خوبیاں یا خامیاں ہوتی ہیں ۔ وہ ایک دوسرے کو اپنی اپنی خامیوں پر قابو پانے میں مدد دے سکتے ہیں اور یوں ایک دوسرے کااحتساب کر کے ایک دوسرے کو بڑھنے میں بھی مدد دے سکتے ہیں ۔ میں اس معاملے میں بہت پُر جوش ہوں ۔ یہ تحریکوں میں ایک بہت بڑ امسئلہ ہے : بڑھتے ہوئے چرچ میں منادی جاری رکھنے کے لئے راہنماں  کی نئی ٹیمیں کیسے تخلیق کی جائیں اور پھر اُن راہنماؤں کی کیسے مدد کی جائے کہ وہ مزید مستحکم ہو تے چلے جائیں ۔

ایسے راہنما جو کہ ایک تحریک میں شامل ہونا چاہیں، اُن کا سب سے پہلا کردار صرف اور صرف منادی ہے ، تاکہ وہ پہلے گروپ تخلیق کر سکیں ۔ لیکن جب نظام پھیلنا شروع ہو جائے تو پھر مقصد یہ ہو جانا چاہیے کہ تمام کلسٹر اور چھوٹے علاقوں کے چرچز کے لئے بزرگوں اور راہنماؤں کی ٹیمیں تیار کی جائیں ۔ ایک مخصوص علاقے کے لئے بھی ضروری ہے کہ کلسٹر چرچ کے راہنماؤں میں سے ہی اُن کے لئے راہنما منتخب کئے جائیں ۔اور ضروری ہے کہ اُن میں سے کچھ اگلے مرحلے کے لئے خدمت کرنے کو تیار ہوں ، یعنی ہمیں ایک وسیع تر چرچ کے لئے بھی راہنماؤں کی ٹیم کی  ضرورت ہو  گی ۔ ایک دوسرے سے منسلک راہنماؤں کی ٹیموں کا یہ سلسلہ بڑھتی ہوئی کلیسیا کے اس فطری نظام کو تشکیل دیتا ہے ۔ اگر ہم تحریک کو آغاز کر کے اُسے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں ، تو ضروری ہے کہ ہم بزرگوں اور راہنماؤں کی ٹیمیں تیار کرنے کے لئے کام کرتے رہیں۔

Categories
حرکات کے بارے میں

Part 3. God-Sized Vision and Expansion

Part 3. God-Sized Vision and Expansion

By Trevor Larsen –

Our initial goal in 1998 was 200 groups in one Unreached People Group; that was the vision: “God give us 200 groups.” When I said that, I thought: “Should I even tell anyone? They’re going to think I’m crazy!” Because there had never been any progress for decades, in fact centuries. But now, after starting from that one UPG, 75 other UPGs have many believers in this family of linked movements among Muslims, (except one Hindu UPG). As it spreads from our country to other countries, some Buddhist-background Communists are being reached. But the greater focus is on Muslims. Even in countries like Cambodia, Vietnam, and Thailand with Muslim minorities, we focus on the Muslims who live in those countries.

That’s in the DNA that we cultivated from day one. It grows out of my sense of stewardship. From the beginning we decided to count only Muslims in groups, to keep our focus there. We’re in a country in which Muslims are the dominant majority, so we get invitations to other blocks where there are large numbers of Muslims: South Asia, Southeast Asia, the Middle East, the Turkic bloc, and the Central Asia block. And I ask: “If the Lord is giving more fruit in our country right now, even though it’s not the same variant of Islam as other places, can our story build up faith and sharpen ministry models so that other teams might bear fruit elsewhere?” So I’ve been coaching people in the Middle East, who have gotten to movements. We have also been coaching people in other areas who have gotten to movements or emerging movements among Muslims. In some places we have made commitments to a three to five-year period of regular coaching with selected people who are ready to improve their model by aligning with the fruitful practices we discovered.

 We did a lot of ethnographic studies, to fit our model into one UPG’s culture. I did a study on the social-political power of Islamic leaders, and my national partners could ask a lot of questions as my research assistants. I assumed that our model, developed to fit our context, might have relevance in only that one unreached people group we were initially trying to reach. But then our movement bridged over into other unreached people groups. We discovered that our pattern of deeply researching local culture and context implanted the DNA of context-fittedness into our model. This flexibility has enabled us to adjust to different contexts as the gospel spreads. Seeing that gave me more confidence to accept an invitation to the Middle East. I could see it was working in a lot of different cultural contexts. Then some of the participants in training we did in the Middle East who were starting to multiply small groups, joined together with me for a coaching circles series by Zoom. We coached each other while they learned the coaching circle skills. After some time, the fruit of these coaching circles helped two movements develop.  This increased my confidence that I should use part of my time to train and coach outside our country, helping other teams implement the fruitful practices God was teaching us. 

We’ve been pleasantly surprised by the spread of the gospel into more places and people groups in our country, and also glad we can help ministries advance their fruit in other countries. I pinch myself at the end of each quarterly evaluation and say: “Am I really in this dream? Lord, what’s to keep it from expanding to the next phase?” When I look at our last five years’ history before COVID, it has multiplied by 13 times, this makes me really excited about the next five years. We keep asking, “What obstacles are preventing growth? How can these be minimized? Let’s keep growing!” 

I think about the parable in Mark 4:26-29, where Jesus talks about the farmer who goes to sleep after he plants his seed. Jesus says, “He’s sleeping, and he doesn’t know how, but the seed sprouts and grows! It grows all by itself!” That is how I have felt many times. It doesn’t mean you don’t plant your seed with diligence as best you know how. But there’s also a sense that after you finish a day’s work and lay down your head on the pillow, you can just sleep, because God is working and he’s going to take the fruit of the gospel forward through other people. 

Since 2008, when we multiplied past 50 groups, I started writing articles after every quarterly retreat. (We have three days of quarterly retreats with the local movement catalysts, and I usually write three or four articles based on our discussions, for these 14 years. That’s lot of articles!) And I’ve been asked to teach a lot of courses for bachelors and masters and doctoral programs. So I have a lot of courses on biblical, mission, and leadership topics related to movements. I’ve sorted these articles into a set of 12 books under development. I’ve partially written each book, and three books are finished so far. They’re available on a website: www.focusonfruit.org. If you want to dig deeper into this, you can download the digital books that have been finished so far. We write first in our national language based on our long dialogs with field leaders. I type while movement catalysts discuss what they have been learning. It is quite a long process: rechecking it, cross-checking, making sure we have triangulation from different church planters in different populations and settings before we become confident that a fruitful practice has emerged. One of our completed books is on fruitful practices, another is the core skills that fruitful catalysts train over and over to their leaders and are reproduced through the generations of groups. Other books are biblical tools that leaders of multiplying sets of believer groups are using.
Categories
حرکات کے بارے میں

The Intangibles of Urgency and Grit – Part 2

The Intangibles of Urgency and Grit – Part 2

By Steve Smith –

In part 1 we focused on the essential characteristic of “urgency.” We now turn our attention to…

GRIT

Grit: tenacious determination and staying power toward a mission, often in the face of insurmountable odds

Rooster Cogburn (epitomized by John Wayne in True Grit), guns ablazin’, conjures up images of someone staring down insurmountable odds to achieve a mission. But in the spiritual realm, tenacious grit has always characterized men and women God has called to launch movements.

Jesus’ one-term mission could not be stopped. His face was set like a flint toward the troubles that awaited him in Jerusalem (Lk. 9:51-53). Along the way, many declared their desire to follow Him. But one by one, He challenged their willingness to count the cost and their determination to stay the course (Lk. 9:57-62). Grit.

Grit characterized our Lord’s wrestling in the wilderness temptations and in Gethsemane’s final hour—the determined staying power to walk through insurmountable odds to reach the goal the Father had set.

Jesus implored His disciples to live with similar grit—an unwillingness to take “no” for an answer. Rather, like the widow beseeching the unrighteous judge, they “ought always to pray and not lose heart” (Lk. 18:1-8).

Thus, the disciples throughout Acts continued their outward kingdom push in the face of amazing odds. When Stephen was stoned and fellow believers were dragged off to prison (Acts 8:3), what did they do? They preached the word as they were scattered! Paul, stoned in Lystra, got right back up to re-enter the city before moving on to the next destination. Paul and Silas, bound fast in a Philippian jail, sang praises to the Most High when circumstances were the most low. Spiritual grit kept them at the mission.

What circumstances can arise that would cause you to quit the mission of God? What is your grit level?

Secrets of grit can be found in Jesus’ determination to face the cross:

Jesus…who for the joy that was set before him endured the cross, despising [lit. counting it as nothing] the shame. (Heb. 12:2)

The joy of what was before Him—pleasing His Father, fulfilling His mission, providing redemption—led him to count the shame of the cross as nothing. The upside far outweighed the downside. 

Paul expressed similar sentiments.

Therefore I endure everything for the sake of the elect, that they also may obtain the salvation that is in Christ Jesus with eternal glory. (2 Tm. 2:10)

The upside for Paul—that God’s chosen people in each place might find salvation—far outweighed the downside of enduring ridicule, beatings, imprisonment, shipwrecks and stoning. Only a vision of the upside of the mission will steel us with the grit we need to endure the downside of difficulty to achieve it.

Our generation has within its means the ability to engage every remaining unreached people group and place with fruitful CPM approaches. We have within our ability the means to overcome every obstacle to fulfillment of the Great Commission and the Lord’s return. But such a generation will only rise up when it is resolved to finish the task with a renewed sense of urgency, steeled by grit to push through every obstacle.

Moses, the man of God, prayed in Psalm 90:12: 

So teach us to number our days that we may get a heart of wisdom.

 

What would happen if the global church recognized that time is limited? What if we set a date for completion of engaging every people group with an effective CPM strategy by a year such as 2025 or 2030? Perhaps we might live with wiser hearts filled with a sense of urgency, making whatever sacrifices are needed to fulfill the mission objective.

Let us live with a sense of urgency and endure with grit till the end is at hand.

Steve Smith, Th.D. (1962-2019) was co-facilitator of the 24:14 Coalition and author of multiple books (including T4T: A Discipleship Re-Revolution). He catalyzed or coached CPMs all over the world for almost two decades.

Edited from an article originally published in the January-February 2017 issue of Mission Frontiers, missionfrontiers.org, pages 40-43, and published on pages 239-247 of the book 24:14 – A Testimony to All Peoples, available from 24:14 or Amazon.

Categories
حرکات کے بارے میں

عجلت اور تحمل کے غیر مادی پہلو-حصہ اول

عجلت اور تحمل کے غیر مادی پہلو-حصہ اول

سٹیو سمتھ –

جیک نے، ( یہ نام جنوب مشرقی ایشیا میں یسوُع کے ایک شاگرد کا فرضی نام ہے)، اپنے قید خانےکی کوٹھڑی کی سلاخیں پکڑ کر  راہداری  میں جھانکا۔  اُس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور پسینہ اُس کے ماتھے پر بہہ رہا تھا۔ کیا وہ بولے یا نہ بولے؟  ایک سابقہ سپاہی ہوتے ہوئے وہ جانتا تھا کہ فوجی قید خانوں میں کس قسم کے خوفناک ظلم کئے جاتے ہیں۔ کلام کی منادی  کرنے کے لئے اُسے قید کر لیا گیا تھا اور اب وہ قید خانہ میں تھا۔

کیا وہ بولے ؟

یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ نہ بولے؟ اُس کے خُداوند نے اُسے اس کا حکم دیا تھا ۔

سلاخوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے اُس نے قریب کھڑے محافظ سے دھیمی آواز میں بات کی۔” اگر تم مجھے جانے نہیں دو گے تو 50000 لوگوں کا خون تمہاری گردن پر ہو گا !”پھر وہ تیزی سے کوٹھڑی کے کونے میں چلا گیا کہ اب اُسے مار پیٹ کا سامنا کرنا ہو گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔

میں نے یہ کر لیا ! میں نے اپنے قید کرنے والوں کے سامنے گواہی دے دی ۔

اگلے دن سلاخوں کو تھامے وہ زیادہ اونچی آوازمیں بولا،” اگر تم نے مجھے نہیں جانے دیا تو 50000 لوگوں کا  خون تمہاری گردن پر ہو گا !” لیکن اس کا بھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔

وہ ہر روز قید کرنے والوں سے یہ ہی بات کہتا رہا اور ہر روز اُس کی آواز اونچی ہوتی رہی جیلر نے اُسے خاموش رہنے کو کہا لیکن اُس نے نہیں سُنا ۔ 

اگلے ہفتے کے ختم ہونے تک جیک اتنی اونچی آواز میں چلایا کہ سب سُن سکیں ،”اگر تم مجھے نہیں جانے دو گے تو 50000 لوگوں کا خون تمہاری گردنوں  پر ہو گا !”کئی گھنٹوں تک وہ یہ کرتا رہا حتیٰ کہ بہت سے سپاہیوں نے جیک کو پکڑ اور اُسے ایک فوجی ٹرک میں لاد دیا ۔

جیک نے یہ سوچتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید اُس کا انجام قریب آ گیا ہے۔ چند گھنٹے چلنے کے بعد ٹرک روک گیا۔ سپاہی اُسے سڑک کے ایک کنارے پر لے گئے اور اُسے کہا ” ہم تمہاری بلند آواز مزید برداشت نہیں کر سکتے !تم اپنے ملک کی سرحد پر ہو ہمارے ملک سے نکل جاؤ اور دوبارہ یہاں کبھی منادی کے لئے واپس نہ آنا !”

ٹرک دھول سے اٹی ہوئی سڑک پر واپس گیا اور جیک نے حیرت سے آنکھیں جھپکائیں۔ وہ پوری وفاداری سےایک ایسے ملک میں خوشخبری کی  منادی کر رہا تھا جہاں یسوع کا نام کبھی سُنا نہیں گیا تھا ۔خُد انے اُسے بُلایا تھا اور خُدا نے ہی اُس کی حفاظت کی تھی ۔کچھ ہفتوں کے بعد عجلت کی ضرورت سے نڈر ہو کر جیک اور ایک اور بھائی اُسی ملک میں ایک اور بھیس میں تاریکی کا فائدہ اٹھا کر داخل ہوئے تاکہ عظیم بادشاہ کے حکم کی تعمیل کر سکیں۔ جلد ہی وہ پہلے شخص کو ایمان کے دائرے میں لے آئے-  ایک ایساشخص  جس  کے ذریعے چرچز کے قیام کی تحریک کا آغاز ہو نا تھا ۔

CPM کے ثمر آور محرکین کے غیر مادی پہلو

CPM کے ثمر آور محرکین اور بہت سے دیگر مزدوروں کے درمیان دو واضح فرق ہیں، جیسا کہ جیک کے ساتھ ایشیا کے اُس قیدخانے میں ہوا ۔یہ عناصر یسوع اور اعمال کی کتاب میں موجود شاگردوں کی زندگیوں میں واضح ہیں۔ یہ وہ عوامل ہیں  جو یسوع کے روحانی خادموں کو پھل لانے میں مدد دیتے ہیں ۔اگر چہ ان کو واضح طور پر بیان کرنا مشکل ہے ، میں انہیں  عجلت اور تحمل کا نام دیتاہوں۔ اس مقصد کے لئے میں عجلت کی تعریف ان الفاظ میں کروں گا کہ مشن کے میدان میں اس خبرداری کے ساتھ رہنا کہ وقت محدود ہے۔ تحمل  سے مراد مشن کے میدان میں ہر قسم کے مسائل کا سامنا اور انہیں برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا ہے ۔

یہ دو چیزیں ہمیں چرچ قائم کرنے والوں اور مشنریوں میں تلاش کرنا مشکل ہے، کیو نکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عجلت مسائل کو جنم دیتی ہے اور تحمل لوگوں کو ضدی اور سخت بنا دیتا ہے ۔

کم ازکم مغربی دنیا میں بادشاہی کے مزدور نظر آنا کم ہو گیا ہے۔ ایسے مزدور جو عجلت اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے راتوں  کو جاگتے رہتے ہیں ۔ ہمیں ایسے لوگ چاہیے ہوتے ہیں جو ان کے درمیان کی راہ نکالیں۔ یسوع اور پولوس ان لوگوں کے معیار پر نہیں تھے۔ وہ ان سے بہت مختلف تھے ۔آج ہم اکثر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اپنے کا م میں توازن رکھیں اور رفتار کم رکھیں ۔پھر بھی خُد اکی بادشاہی کے لئے کام کرنے والے لوگ اسے نظر انداز کرتے جاتے ہیں ۔

اُس کے شاگِردوں کو یاد آیا کہ لِکھا ہے۔ تیرے گھر کی غَیرت مُجھے کھا جائے گی۔“(یوحنا 2: 17)

شاگردوں کو یسوع کے بارے میں یاد تھا کہ غیرت ایک اہم صفت تھی۔ جب جان ویزلے گھوڑے پر بیٹھے ایک سے دوسری جگہ جا کر  وعظ کرتے تھے تو کیا انہوں نے بھی یہ ہی توازن رکھا؟  اگر توازن ہوتا تو کیا ایک تحریک جنم لیتی؟ یہ ہی کچھ ہم انگلینڈ میں ولیم کیری کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کیا ہیڈسن ٹیلر ، مدر ٹریزہ یا مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اس تعریف پر پورا اترتے ہیں ؟

جیم ایلیٹ شہید نے کہا 

وہ اپنے خادموں کو آگ کا شعلہ بناتا ہے ۔کیا میں جل سکتا ہوں؟ وہ میرے اندر ایک ایسی غیرت پیدا کر دیتا ہے جو مجھے شعلہ بنا دیتی ہے ۔ اے خُدا مجھے اپنا ایندھن بنا ۔مجھے اپنا شعلہ بنا۔  میری زندگی کی ان لکڑیوں کو آگ لگا کہ میں تیرے لئے جلوں۔  اے میرے خُدا میری زندگی لے  لے،کیو نکہ یہ تیری ہے۔ مجھے لمبی نہیں بلکہ بھر پور زندگی چاہیے ،جیسے خُداوند یسوع، تو نے گزاری ۔

آج CPM  کے محرکین سے مل کر ایسے ہی جذبات دیکھنے میں آتے ہیں :جوش ، جذبہ ، عزم ، بے چینی ، متحرک ہونا ، غیرت ، ایمان ، مستقل مزاجی اور کسی بھی صورت میں انکار کو قبول نہ کرنا۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم عجلت اور تحمل کو ایسے مقام پر لے جائیں جیسے ہمیں نئے عہد نامے میں نظر آتا ہے

 کیا یہ توازن خراب ہو سکتا ہے؟ یقینا ہو سکتا ہے۔ لیکن پینڈلم کا گولہ مخالف سمت میں کچھ زیادہ ہی چلا گیا ہے ۔

عجلت

عجلت کا مطلب ہے کہ ایک مقصد کے ساتھ ایک مشن پر رہا جائے اور خبردار رہا جائے کہ وقت محدود ہے 

یسوع بھی عجلت کے احساس کے ساتھ جیا کیونکہ وہ جانتاتھا کہ اُس کی خدمت کا عرصہ 3 سال تک محدود ہے ۔یوحنا کی انجیل کی ابتدا سے اختتام تک یسوع نے باربار کہا  کہ اُس کے جانے کا وقت قریب ہے( یوحنا 2: 4، 8: 20، 12 : 27، 13: 1) ۔یسوع جانتا تھا کہ اُس کے دن محدود ہیں اور اُسے اسی محدود وقت میں ہر وہ کام پورا کرنا ہے جس کے لئے اُس کے باپ نے بھیجا تھا ۔

جِس نے مُجھے بھیجا ہے ہمیں اُس کے کام دِن ہی دِن کو کرنا ضرُور ہے۔ وہ رات آنے والی ہے جِس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا۔ “(یوحنا 9: 4)

مثال کے طور پر جب شاگرد کفر نحوم کے باہر ڈیرے ڈالنے کے لئے تیار تھے تو یسوع نے اُس کے برعکس کیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ دنیا سے روانہ ہونے سے پہلے اُسے پورے اسرائیل سے گزرنا ہے ، وہ سفر کے اگلے مرحلے کے لئے نکل پڑا ۔

اُس نے اُن سے کہا آؤ ہم اَور کہِیں آس پاس کے شہروں میں چلیں تاکہ مَیں وہاں بھی مُنادی کرُوں کیونکہ مَیں اِسی لِئے نِکلا ہُوں۔ اور وہ تمام گلِیل میں اُن کے عِبادت خانوں میں جا جا کر مُنادی کرتا اور بدرُوحوں کو نِکالتا رہا۔” (مرقس 1: 38-39، مزید دیکھیے لوقا 4: 43-44)

ہمارے ایک ساتھی اسے ایک معیاد کی عجلت کہتے ہیں کیو نکہ مشنری خدمت کی معیاد عموما3 سے 4 سال ہوتی ہے ۔

اگر یسوع آج موجود ہوتا  تو حکمران اُسے کہتے  کہ وہ بہت تیز چل رہا ہے اور وہ اپنے آپ کو تھکا لے گا ۔ لیکن یسوع کی خواہش تھکنے کی نہیں بلکہ جلنے کی تھی ، خاص اُس وقت پر جو باپ نے اُس کے لئے چُنا تھا ۔اس کے ذریعے اُس کے باپ کی مرضی پوری ہوتی اور اُس کے باپ کو خوشی ملتی – ( یوحنا 4: 34، 5: 30)

تھکا دینے کا مطلب خود کو خراب کرنانہیں بلکہ زندگی کو بھر پور طریقے سے گزارنا ہے آج کل کے دور میں ہر کو ئی مصروف ہے لیکن ہر کوئی کسی مقصد کا حامل نہیں ہے۔ ہم ایک بے مقصد زندگی گزارتے ہیں لیکن اگر زندگی خُدا کے مقصد اور اُس کی حضوری کے لئے ہو تو زندگی بامقصد ہو جاتی ہے۔ یوں ہمیں خُد اکی طرف سے ہر روز شاباش ملتی ہے :” بہت خوب میرے اچھے اور وفادار خادم ” ۔ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگیوں  کو خُدا کے ہاتھ میں دیں کہ وہ اپنی مرضی سے اور اپنے وقت پر انہیں جلائے 

یسوع اپنے شاگردوں کو بھی ایسی  ہی زندگی گزارنے کو کہتا تھا ۔اُس کی تمثیلوں میں بھی عجلت نظر آتی تھی۔ شادی کی ضیافت کی تمثیل میں خادموں نے لوگوں کو کہا کہ وہ ضیافت کے لئے  آئیں، اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے ( متی 24: 1-14) ۔وقت ضائع کرنے کا کوئی امکان نہیں اور خادموں کو تیار رہ کر مالک کے انتظار میں مستعد رہنا ہے ( لوقا 12: 35-48) ۔عجلت کا مطلب یہ جاننا ہے کہ ہم نہیں  جانتے کہ ہمارے پاس وقت کتنا ہے ۔اس لئے ہمیں زندگی کو ایک مقصد کے تحت گزارنا ہے ۔

اعمال کی کتاب میں شاگردوں نے بھی اسی عجلت کے ساتھ مشن مکمل کئے پولوس نے ہزاروں میل کے 3 سفر پیدل کئے اور 10 سے 12 سال کے عرصے میں اتنی جگہوں پر جانا یقینا تھکا دینے والا کام تھا ۔لیکن وہ جانتا تھا کہ اُس کا مشن بڑا ہے اور اُس کے پاس وقت کم ہے ۔ اسی لئے وہ صرف روم میں نہیں رُکا رہا بلکہ سپین کی طرف بھی گیا  تاکہ کوئی ایسی جگہ باقی نہ رہ جائے جہاں کلام کی بنیاد قائم  نہ ہو سکے ( رومیوں 15: 22-24) عجلت کا یہ احساس ہی خُد اکے ایسے خادموں کو متحرک کرتا ہے  جو سب سے زیادہ پھل لاتے ہیں ۔

آدمی ہم کو مسِیح کا خادِم اور خُدا کے بھیدوں کا مُختار سمجھے۔ اور یہاں مُختار میں یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ دِیانت دار نِکلے۔ ( 1 کرنتھیوں 4: 1-2) 

حصہ دوم میں ہم   “تحمل” کی اہم اور ضروری خصوصیت پر  غور کریں گے۔

 سٹیو سمتھ، ڈاکٹر آف تھیالوجی، ( 1962-2019 ) 24:14  اتحاد کے شریک سہولت کار اور متعدد کتابوں،   بشموُل  T4T: A Discipleship Re-Revolution ،کے مصنف تھے ۔ انہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک دُنیا بھر میں چرچز کی تُخم کاری کی تحریکوں کو تربیت دی اور متحرک کیا۔

یہ مضموُن  ابتدائی طور پر   مشن فرنٹئیرز کے جنوری-فروری 2017 کے شمارے میں صفحات 40-43 پر شائع ہُوا۔missionfrontiers.org    

Categories
حرکات کے بارے میں

Learning Fruitful Practices through Experimentation

Learning Fruitful Practices through Experimentation

By Trevor Larsen –

One important way we have learned our ministry principles is through field experimentation, observing what God is doing through our interventions, while reflecting on Scripture. When we found a little bit of fruit (individuals who came to Christ, groups of believers, or other indicators of spiritual growth), we tried to examine: Why was that? What helped us progress? How can we increase those practices that were more fruitful? How can we decrease those practices that were not proving fruitful?

The earliest churches learned what God wanted them to do, by observing what he was doing, reflecting on how he had used humans to bear fruit, then reflecting on Scripture to obtain insight on God’s intent. We can see in Acts two examples of first observing what God was doing through people, then reflecting on Scripture to confirm new insight. Peter was surprised but compelled to follow, when God used supernatural means to lead him to the home of Cornelius a centurion of the Italian cohort. He was surprised because this advance of the gospel among Gentiles did not fit with Jewish traditions. “You yourselves know how unlawful it is for a Jew to associate with or to visit anyone of another nation, but God has shown me that I should not call any person common or unclean. So when I was sent for, I came without objection. I ask then why you sent for me” (Acts 10:28-29). Clearly sensing God’s leading, both through God’s direct intervention and through the response of unbelievers to God, Peter shared the gospel. Acts records the Jews’ amazement that God was working among. While Peter was still saying these things, the Holy Spirit fell on all who heard the word. And the believers from among the circumcised who had come with Peter were amazed, because the gift of the Holy Spirit was poured out even on the Gentiles (Acts 10:44-45)

They became convinced of God’s unexpected leading, by observing what God was doing. What they saw God doing in unbelievers, helped them understand what they should do: preach the gospel to Gentiles, baptize them, and accept them into their community of believers. When called by the leaders in Jerusalem to give account for this surprising development, Peter added that what he observed gave him new insight on John the Baptist’s words about Jesus’ baptism: “As I began to speak, the Holy Spirit fell on them just as on us at the beginning. And I remembered the word of the Lord, how he said, ‘John baptized with water, but you will be baptized with the Holy Spirit.’ If then God gave the same gift to them as he gave to us when we believed in the Lord Jesus Christ, who was I that I could stand in God’s way?” When they heard these things they fell silent. And they glorified God, saying, “Then to the Gentiles also God has granted repentance that leads to life(Acts 11:15-18). For Peter, and for the Jerusalem leaders, the combination of observing God’s work in unbelievers plus reflecting on Scripture to gain new insight, convinced them of what they should do. 

Acts 15 reflects this same pattern of first observing (or hearing what had been observed by others) what God was doing among believers, followed by reflection on Scripture confirming God’s direction. This convinced all the early church leaders who had gathered, of what they should do. 

In short, we create experimental conditions, and do quarterly assessment, to rigorously promote fruitful practices and extinguish practices that were not fruitful. Of course, we don’t extinguish biblical practices, whether or not they contribute directly to fruitfulness, like helping the poor. We do that too, even though that may or may not create more believer groups, because of God’s commands to help the poor. That’s a different discussion; I’m just talking about those practices that we can modify without violating or ignoring biblical principles. 

Our DNA of experimentation has been fascinating to people who want to learn from us. When they come, they can hardly believe it, because local movement catalysts are telling us, each quarter: a) new experiments they are doing, b) how far they progressed in the three months they were doing an experiment, and c) what they will modify as they go forward in the next three months of the experiment. Our innovation goes forward in small increments each quarter. You can imagine the creative people we’ve attracted, and how their creativity has developed. It’s something I’ve really enjoyed: innovating and finding innovative local workers. 

It’s not that all the fruitful people I oversee are innovative. But I especially work with the 40% to 50% of them who are innovative, because they’re the ones discovering new pathways. The nature of UPG ministry is that there have been no gains for decades. If we keep doing the things other Christians were doing, we can be pretty sure we will still get no gains in the next decades. That’s why innovation is important in reaching UPGs, in areas where there have been no significant fruit gains in the past.

Here’s one example of experimental learning through a comparative case study. I would recruit good local evangelists, then watch them work and compare their stories. Comparing different practices of different people and comparing their fruit, is part of my learning and theirs. 

Our first team leader started three groups. He seemed to provide the model for the rest of the evangelists to follow. But he never got past three groups. Meanwhile the other guys were like a turtle in a race against a rabbit. They were far behind but kept working and eventually started one group. The leader already had three groups, then those who had started more slowly developed two groups each, then three groups each. Suddenly the planters who had started more slowly reported four and five groups, because some of their groups had started others. But the leader was still leading three groups personally, then it reduced to two groups. What was happening?

This comparison of different planters’ fruit created a question. “They’re all graduates of the same Bible College and had the same coaching, and all were working in the same area where 99.6% of the people are from the majority religion. What is happening differently?” Those who were getting to more groups were not forthcoming to share things in meetings for fear of embarrassing the leader who was getting more frustrated. They were not voicing a straightforward analysis. When I investigated it further, I found out that the leader was afraid that if he talked to groups rather than individuals, he would increase the risk for himself and his family. So he was only talking to individuals. That approach was getting a certain measure of fruitfulness, but it was not being reproduced by local people. Meanwhile the other planters who had started more slowly, were all talking with natural groupings of people and seldom with individuals. 

In our country, you almost never find someone alone. It’s so crowded, everybody’s always together. Even if you go to the store, or you go running, no matter where you go, you see people in groupings. They’re with their brother and their uncle and their friend: maybe four or five or six people. I don’t mean formal groups, but groupings. So those evangelists who started more slowly began to talk to groupings of local people. They adjusted their dialog style to fit into groupings. Initially, the sharing of the gospel in groupings came along more slowly than sharing with individuals. But when the people in the groups began to talk about the gospel with each other, and began to come to faith while supporting one another, those first local groupings of believers were not sterile. They reproduced by imitating the pattern. Individuals who were won to the Lord alone were sterile. They couldn’t have babies; they couldn’t copy the same process, because in our country, no one talks to an individual alone. If someone did talk to another person one on one, it seemed to signal that something was illegitimate about the topic being discussed. If something had to be hidden, it was probably shameful. “Why do you need to talk to an individual alone?” You’ve got to hide something. But when you talk in groupings of people who already know each other, it’s a signal that this is something that’s good to talk about with others. 

The people who came to the Lord in natural groupings, have an experience like the people in an Alcoholics Anonymous group: they give and receive support while they share what they are learning. These are people in Unreached People Groups who are doing something different than all the other people. They need each other for support to seek the Lord together through the Bible. They legitimize each other: “It’s okay to open the Bible and discuss it.” They provide protection for each other from being attacked by neighbors and friends. They can come to the Lord together and this is something they can replicate, because the social organization and dynamic supports ongoing interaction. It’s like a ping-pong game enjoyed by a group of friends: the ball is being hit back and forth while they laugh with each other. They dialogue back and forth about the Scripture and how to apply it, and the interaction is part of the fun. They’re fun-loving people; they like to do it together. So now they’re harnessing the social dynamics already present in the culture, and the groups start to multiply.

I shared the previous story as an example of how we learned one of our main principles. We have 15 or 20 fruitful practices. The fruitful practice we learned from this case was “Groups, not Individuals.” They made slogans out of each of the fruitful practices, and this is one of them: “Groups, not Individuals.” This fruitful practice is one of our guiding principles. We discovered it through experimentation, by comparing what was working to what was not working as well. 

When we had been going for 10 years and had 110 groups, I participated in a conference where I was asked to share our case study. I was on the plane thinking “They’re not going to believe it when I tell them there are 110 groups of people from the majority religion, who have come to Christ and are discussing the Bible and applying it. They’re going to think I’m lying!” But all the other case studies presented were from Africa and India, and they all had far more fruit than that!

It was such a good jolt for me, to realize that what had been developing in our country was only a little drop in the bucket, compared to what others had. It was a great encouragement to my faith to reflect: “There aren’t limits on an expandable system. This can keep going.” And during that conference, I received CPM training for the first time, done by David Watson: the DMM model.

Many conference participants didn’t like the CPM training because it jolted the way they’d been doing things in many years of ministry. They raised objections that didn’t need to be raised. I kept thinking: “I should stand up and tell them: ‘Why don’t you leave the room and let me to listen to this speaker?’ This is what we’ve been learning in our country. These principles are the same things God has been teaching us. How did he figure this out, in a different country?” That was my experience in that conference. What we had learned through experimentation in the field for many years, others had also discovered, in other contexts among other kinds of unreached peoples. But most of us don’t want to stop doing what we have been doing and try a new model.

Categories
حرکات کے بارے میں

چرچز کی تخم کاری کی تحریک قیادت اور راہنمائی کی تحریک ہوتی ہے ۔ حصہ دوم

چرچز کی تخم کاری کی تحریک قیادت اور راہنمائی کی تحریک ہوتی ہے ۔ حصہ دوم

سٹین پارکس  –

اِس مضموُن کےپہلےحصے میں   ہم منسٹری کے اُن نمونوں پر نظر ڈالی تھی جو تحریکوں میں  قیادت کی افزائش   کا  ماحول تخلیق کرتے ہیں۔

ذیل میں  سات مزید نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔ 

 

فرمانبرداری : اطاعت پر مبنی، نہ کہ علم پر مبنی ( یوحنا 15     : 14)

CPM) ) میں بائبل کی تربیت اس لئے زیادہ مؤثر ہوتی ہے کہ وہ صرف علم کے حصول پر مرکوز نہیں ہوتی ۔ہر شخص سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیکھے ہوئے علم کی تعمیل  کرے ۔ بہت سے چرچز صرف علم کے حصول پر توجہ دیتے ہیں   اور ایسے راہنما تیار کرتے ہیں جن کے پاس کثیر تعداد میں علم ہو۔ اُن کی کامیابی کا معیار زیادہ سے زیادہ ممبر اکٹھے کرنا اور انہیں زیادہ سے زیادہ معلومات دینا ہے ۔ CPM) ) میں توجہ کا مرکز یہ نہیں ہوتا کہ آپ کتنا جانتے ہیں، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کتنی تعمیل کرتے ہیں ۔بائبل سٹڈی کے دوران گروپ کے لوگ خود سے پوچھتے ہیں ،” میں / ہم کس طرح اس کی فرمانبرداری کریں گے ؟” اگلی دفعہ جب وہ ملتے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں ۔” میں نے کس طرح اس کی فرمانبرداری کی؟” ہر کسی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ  فرمانبرداری کرے اور راہنمااُنہیں تصور کیا جاتا ہے جو فرمانبرداری میں  دوسروں کو مدد دیں۔ بائبل میں خُدا کے احکامات کی تعمیل شاگردوں  اور راہنماؤں کےروحانی طور پر  بالغ ہونے کا تیز ترین راستہ ہے ۔

حکمت عملی: حکمت عملی اور نمونے کے لئے انجیل اور اعمال  سر چشمہ ہیں ۔

بائبل میں نہ صرف احکامات درج ہیں بلکہ اُس میں احکامت کی تعمیل کے لئے نمونے بھی دیئے گئے ہیں۔  1990 کی دہائی میں خُدا نے نارسا لوگوں میں کام کرنے والے بہت سے خادموں کی راہنمائی کی کہ وہ نئے علاقوں میں مشن شروع کرنے کے لئے لوقاکے  10   ویں باب سے نمونہ حاصل کریں 1 ۔ ہر CPM) ) جسے ہم جانتے ہیں، وہ اسی نمونے کی کوئی صورت استعمال کرتے ہوئے دو دو کر کے خادموں کو میدان میں  بھیجتے ہیں۔ وہ جا کر سلامتی کا فرزند تلاش کرتے ہیں جو اُن کے لئے اپنے گھر کے دروازے کھولتا ہے اور اپنے خاندان یا جماعت میں انہیں خوش آمدید کہتا ہے۔ وہ سچائی اور خُدا کی قوت سے خاندان کو آگاہ کرتے ہوئے اُن کے ساتھ ٹھہرتے ہیں اور اُنکی کوشش ہوتی ہے کہ پوری جماعت کو یسوع کے ساتھ عہد میں باندھ لیں ۔ چونکہ یہ ایک فطری طور پر قائم گروپ ہوتا ہے ( ادھر اُدھر سے اکٹھے کئے ہوئے اجنبیوں کا گروپ نہیں ہوتا  )، اس لئے اس میں راہنما پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے اور اُسے متعین کرنے کی بجائے  محض اُسے تربیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

اختیار دینا : لوگ راہنمائی کر کے راہنما بنتے ہیں 

یہ بات انتہائی واضح ہے لیکن اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہے ۔اس کی ایک مثال CPM) ) کی دریافتی بائبل سٹڈی میں نظر آتی ہے ، جہاں دلچسپی رکھنے والے گھرانے بائبل کا مطالعہ شروع کرتے ہیں۔ پیدائش سے یسوع تک  خُدا کی کہانی کا مطالعہ کرنے والوں سے  سوالات کا ایک سلسلہ پوچھ کر شاگرد بنائے جاتے ہیں2 ۔ CPM) ) کے ان سلسلوں میں سے کچھ میں باہر سے آنے والا کبھی سوال نہیں پوچھتا۔ اس کی بجائے وہ گھرانے کے کسی فرد سے ہی وہ سوال پوچھنے کو کہتا ہے ۔ جواب بائبل سے آتے ہیں لیکن سوال پوچھنے والا علم کے حصول اور فرمانبرداری کے عمل کی سہولت کاری سیکھ جا تا ہے ۔ اس کی ایک مثال ہم تربیت کاروں کی تربیت ( T4 T) میں دیکھتے ہیں ہر نیا شاگرد نئے حاصل شدہ علم سے دوسروں کو آگاہ کرنا سیکھتا ہے ۔اس طرح وہ دوسروں کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ خود راہنمائی کی تربیت بھی حاصل کرتا ہے ۔راہنماؤں کی افزائش اور باتسلسل ترقی کے لئے بھی یہی اصول استعمال ہوتاہے۔ اس سے ایمانداروں کو عمومی اور روایتی  چرچ کے تناظر سے ہٹ کر تیز رفتار انداز میں عمل  کرنے اور تربیت حاصل کرنے کا موقع ملتاہے ۔

بائبل کی بنیاد پر راہنمائی : کلام کے معیار کے مطابق 

راہنماؤں کے ابھرنے اور اُن کے تقرر کرنے کے لئے بائبل سے حاصل شدہ معیار استعمال کیے جاتے ہیں ۔ یہ معیار چرچ کے نئے راہنماؤں کے لئے ططس کے پہلے باب کی 5 ویں   سے  9  ویں آیت میں ہیں اور پہلے سے قائم چرچز کے راہنماؤں کے لئے تیمتھیس کے نام پہلے خط  کے  تیسرے باب کی آیت نمبر 1 سے 7 میں ہیں۔ ایماندار ان حوالوں کا گہرا مطالعہ کر کے راہنماؤں کے کردار اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ ایسا کرنے کے دوران انہیں ایسے بہت سے عناصر اور مہارتوں کا پتہ چلتا ہے جو چرچ کو استحکام دینے کے ہر مرحلے پر ضروری ہوتی ہیں ۔ اس طرح وہ اُن اصولوں پر عمل کرنے سےبھی بچ جاتے ہیں جن کی بنیاد بائبل کے معیار پر نہیں ہے ۔

غیر جانبداری : پھل لانے پر توجہ ( متی 18: 1-13)

راہنماؤں کا انتخاب اُن کی صلاحیت ، شخصیت یا انداز کی بنیاد پر نہیں بلکہ اُن کے پھل لانے کی صلاحیت کی بنیاد پر  کیا جاتا ہے ۔جب کوئی CPM) )  کے تربیت کاروں  سے پوچھتا ہے کہ وہ پہلی تربیت کے دوران کیسے جان سکتا ہے کہ کون پھل لائے گا، تو ہم اکثر ہنستے ہیں ۔ ہمیں   کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون پھل لائے گا۔ ہم سب کو تربیت دیتے ہیں او راکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جن سے ہم توقع نہیں کر رہے ہوتے ،سب سے زیادہ پھل لاتے ہیں ۔اور جن سے ہم زیادہ توقع کر رہے ہوتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں کرپاتے۔ راہنما تب راہنما بنتے ہیں جب وہ لوگوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں ،جو بعد میں اُن کے پیچھے چلنے لگتے ہیں۔ ایسے راہنماؤں کے ابھرنے کے بعد اُن کو  زیادہ وقت دیا جاتا ہے جو زیادہ پھل لاتے ہیں تاکہ وہ مزید پھل لائیں ۔ہفتے کے اختتام پر خصوصی تربیتی سیشنز  ، سالانہ تربیتی کانفرنسوں ، انتہائی نوعیت کےعموماً گشتی تربیتی پروگراموں جیسے وسائل کے ذریعے پھل لانے والے راہنماؤں کو مزید ترقی اور تربیت دی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد وہ دوسروں کو ان مہارتوں سے آراستہ کرتے ہیں ۔

دوسروں کی شمولیت: کثیر تعداد میں راہنما ( اعمال 1 : 13)

CPM) )  کی زیادہ تر تحریکوں میں چرچز کے پاس کافی تعداد میں راہنما ہوتے ہیں تاکہ تحریک کا استحکام اور مزید راہنماؤں کی تیاری کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کا ایک بنیادی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ راہنما اپنی اپنی نوکریاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے عام لوگ تحریک کے پھیلاؤمیں کردار اداکر سکتے ہیں اور راہنماؤں کا تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بیرونی مالی امداد پر انحصار ختم ہو جاتا ہے ۔ زیادہ تعداد میں راہنماؤں کے ہونے سے راہنمائی کی ذمہ داریاں بہتر طور پر ادا ہوتی ہیں ۔اُن کی مجموعی دانش بھی زیادہ ہوتی ہے اور ایک دوسرے کو بہتر انداز میں باہمی تعاون فراہم کر سکتے ہیں ۔ کثیر تعداد میں چرچز کی باہمی تربیت اور تعاون بھی انفرادی راہنماؤں اور چرچز کو نشوونما دینے میں اہم کردار ادا کرتاہے ۔

 

چرچز: نئے چرچز پر توجہ 

راہنماؤں کے تقرر اور ترقی سے باقاعدہ بنیادوں پر نئے چرچز کا قیام ممکن ہو جاتا ہے ۔اور یہ فطری طور پر ہوتا ہے۔ جب ایک نئے چرچ کا آغاز ہوتا ہے  اور وہ اپنے نئے خُداوند کے لئے جوش وجذبے سے بھرپور ہوتے ہیں، تو اُن سے کہا جاتا ہے کہ وہ اُسی نمونے کو دوہرائیں جو اُن کی نجات کا باعث بنا۔ سو وہ اپنے رابطوں کے نیٹ ورک میں بھٹکے ہوئے لوگوں کی تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ اور منادی اور شاگرد سازی کے اُسی عمل کو دوہراتے ہیں  جس سے گزر کر انہیں افزائش کی تربیت دی گئی تھی۔ اس عمل میں وہ یہ بات بھی سمجھ جاتے ہیں کہ کچھ راہنماؤں کو چرچ کے اندرکام کرنے کی صلاحیت دی گئی ہے  ( پاسٹر، استاد وغیرہ ) اور کچھ کو چرچ سے باہر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت دی گئی ہے ( مناد،  نبی، رسول، وغیرہ )۔ اندر کے راہنما چرچ کی قیادت کرنا سیکھتے ہیں، تاکہ وہ چرچ وہ سب کچھ کرنے لگ جائے جس کی اُس سے توقع کی جا سکتی ہے  ( اعمال  2: 37-47) ۔ باہر کے راہنما نئے لوگوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اُس پورے چرچ کا نمونہ پیش کرتے ہیں اور لوگوں کو ضروری وسائل اور مہارتوں سے آراستہ کرتے ہیں ۔ 

حاصلِ کلام 

خُدا نے جن نئی تحریکوں کو جنم دیا ہے، اُن سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ کیا ہم تیار ہیں کہ مروجہ فرقوں اور تہذیبوں کے تعصبات چھوڑ کر  راہنماؤں کی تیاری اور ترقی کے لئے بائبل کو معلومات اورہدایات کا بنیادی سر چشمہ بنا لیں ؟ اگر ہم بائبل سے باہر کے معیار کو چھوڑ کر صرف بائبل کی ہدایات پر عمل کریں تو ہم بہت سے راہنماؤں کو ابھرتا ہوا دیکھیں گے۔ ہم بہت سے بھٹکے ہوئے لوگوں تک رسائی ہوتی دیکھیں گے۔  کیا ہم بھٹکے ہوؤں کی نجات اور ہمارے خُدا کے نام کو جلال دینے کے لئے  یہ قربانی دینے کو تیار ہیں ؟

یہ مضمون  24:14 – A Testimony to All Peoples   کے صفحات 104 -100سے لیا گیا ہے    اور مشنز فرنٹٔیرز  www.missionfrontiers.org  کے  جولائی-اگست 2012  کے شمارے میں شائع ہونے والے مضمون کی مصنف کی جانب سے نظرِ ثانی شدہ  شکل ہے ۔ 

Categories
حرکات کے بارے میں

چرچز کی تخم کاری کی تحریک قیادت اور راہنمائی کی تحریک ہوتی ہے ۔ حصہ اول

چرچز کی تخم کاری کی تحریک قیادت اور راہنمائی کی تحریک ہوتی ہے ۔ حصہ اول

سٹین پارکس –

جب ہم اپنے اردگرد آج کی دنیا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ چرچز  کی تخم کاری  CPM) ) کی سب سے متحرک تحریکیں ایسے علاقوں میں  شروع ہوتی ہیں جہاں غربت ، بحران ، بد امنی، ایذارسانی ہوتی ہے اور مسیحیوں  کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔   اس کے بر عکس ایسے علاقوں میں  جہاں امن، دولت ، تحفظ اور کثیر تعداد میں مسیحی موجود ہیں ، چرچز عموما کمزور ہیں اور زوال کا شکار ہیں ۔

کیوں؟ 

بحران کی صورت حال میں  ہم خُدا کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔   جب ہمارے پاس وسائل کم ہوں تو ہم اپنے پروگراموں اور منصوبوں کی بجائے خُدا کی قوت پر انحصار کرنے پر مجبور ہو تے ہیں ۔ مسیحیوں کی قلیل تعداد کا مطلب یہ ہے کہ اُس علاقے میں روایتی  چرچ کچھ خاص مضبوط نہیں ہے ۔ یوں اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ بائبل ہماری حکمت عملی اور عملی  اصولوں کے لئے اہم ترین سر چشمہ بن جائے ۔

موجودہ چرچز خُدا کی ان نئی تحریکوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں ؟1 ہم بہت سے سبق سیکھ سکتے ہیں  اور ہمیں سیکھنے بھی چا ہییٔں ،اُن میں  سے ایک اہم سبق راہنمائی اور قیادت سے متعلق ہے۔ بنجر علاقوں میں ہمیں فصل کے لئے مزدوروں کی تلاش ہوتی ہےجہاں  نئے ایماندار ابھرتے ہیں  اور اپنے نارسا گروہوں میں لوگوں تک رسائی کی راہنمائی کرتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 مشنز فرنٹٔیرز  www.missionfrontiers.org  کے  جولائی-اگست 2012  کے شمارے میں شائع ہونے والے مضمون کی مصنف کی جانب سے نظرِ ثانی۔

2  CPM     تاریخ کی کئی مسیحی تحاریک کا جدید  مظہر ہیں۔  ایسا نہیں کہ اِن کی دریافت میں 2000 سال لگے۔  اِن اصولوں کو کئی بار دریافت کر کے بُھلا یا گیا  اور پِھر دوبارہ دریافت کیا گیا۔  اعمال کی کتاب، چرچ کے اِبتدائی 200  سالوں میں رومی سلطنت کی کئی قومیں، مشرقی چرچ جِس نے  مسیحی معاشروں کو بحیرہِ روم سے چین اور ہندوستان تک پھیلایا، 250 سالوں میں  شمالی یورپ کے زیادہ تر علاقوں میں آئرش قوم کی منادی، موراوین مشن کی تحریک، برما کے پہاڑی قبائل میں پھیلنے والی تحریکیں، میتھڈازم، چین میں گذشتہ 60  سالوں میں چرچ کا پھیلاؤ اور کئی دیگر تحریکیں  تاریخ میں مسیحی تحریکوں کی مثالیں ہیں۔ 

 

دیکھا جائے تو CPM) ) کئی طرح سے دراصل چرچ کے راہنماؤں کی افزائش اور ترقی کی تحریک ہوتی ہے۔ ایسا کیا ہے جو محض چرچز کے قیام اور چرچز کی باتسلسل تحریکوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتاہے ؟ اس کا جواب ہے راہنماؤں کی افزائش اور نشوونما ۔چاہے جتنے بھی چرچ قائم ہو جائیں، جب تک اُسی تہذیب کے اندر کے لوگ راہنما نہ بنیں ،وہ چرچز غیر ملکی چرچ ہی رہیں گے ۔یا تو اُن کی افزائش بہت سُست رفتار ہو گی یا جب ابتدائی راہنما اپنی آخری حدود تک پہنچ جائیں تو اُن کی افزائش رُک جائے گی۔

وکٹر جان CPM) ) کی ایک بہت بڑی تحریک  کے راہنما ہیں جو شمالی ہندوستان کے بوجھ پوری بولنے والے 10 کروڑ سے  زائد لوگوں میں متحرک ہے ۔اس علاقے کو ماضی میں جدید مشنز کا قبرستان کہا جاتا ہے ۔وکٹر جان کہتے ہیں کہ اگرچہ چرچ انڈیا میں توما                   رسول کے وقت سے لے کر اب تک تقریبا 2000 سال سے قائم رہا ہے، 91 فیصد ہندوستانیوں کو انجیل کی خوشخبری تک رسائی حاصل  نہیں تھی۔ اُن کے خیال کے مطابق اس کی بڑی وجہ نشوونما پانے والے راہنما ؤں کی کمی تھی۔

 وکٹر جان کہتے ہیں کہ چوتھی صدی کی ابتدا میں ابتدائی مشرقی چرچ نے مشرق سے راہنما بُلوائے اور عبادت کے لئے سُریانی زبان استعمال کی، جس کی وجہ سے صرف سُریانی بولنے والے لوگ ہی دعا میں راہنمائی کر سکتے تھے۔ کاتھولک کلیسیا نے سولہویں صدی میں  مقامی زبان استعمال کرنا شروع کی۔  لیکن انہوں نے بھی مقامی راہنماؤں  کے استعمال کا نہیں سوچا ۔اٹھارہویں صدی میں پروٹیسٹنٹ فرقے نے مقامی راہنماؤں کا تقرر کیا ،لیکن اُن کی تربیت کا انداز مغربی ہی رہا ۔ اس وجہ سے مقامی راہنما افزائش نہ پا سکے ” مقامی راہنماؤں کی تبدیلی مفادات کے ایک بہت بڑے تضاد کا شکار رہی ۔ کسی بھی مقامی قومی یا علاقائی کارکن کو راہنما نہ کہا گیا ۔ کیونکہ یہ اصطلاح صرف سفید فارم لوگوں کے لئے مخصوص تھی۔ مشنری تنظیموں نے موجودہ قیادت کی تبدیلی پر تو توجہ دی ،لیکن افزائش نشوونما اور ترقی پر توجہ نہیں دی 2“۔

آج کے دور میں بھی ہم عموما  قیادت کی تبدیلی،  نظام اور تنظیم کے چلتے رہنے پر توجہ دیتے ہیں، بجائے اس کے کہ نئے شاگرد اور چرچز کے جنم پر توجہ دیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ نئے چرچ کھوئے ہوئے لوگوں تک پہنچنے کے لئے  زیادہ موثر  ثابت ہوتے ہیں  اس کے باوجود  زیادہ تر چرچ محض اپنے حجم میں بڑھتے رہے، بجائے اس کے کہ وہ نئے چرچز کی ابتدا کرتے۔  سیمنریاں بھی طُلبا کو نئے چرچز کی ابتدا کی تربیت دینے کی بجائے انہیں موجودہ چرچز کا انتظام سنبھالنے کے لئے ہی تیار کرتی رہیں۔ ہم اپنے وقت اور وسائل کا زیادہ تر حصہ اپنی سہولت کے لئے استعمال کرتے رہے اور اُن لوگوں کو نظر انداز کیے رکھا جو دوزخ میں ہمیشہ کی آگ  کی جانب بڑھتے چلے جا رہے تھے ۔ 

(مسیحی دنیا کی آبادی کا 33 فیصد ہیں لیکن دنیا کی سالانہ آمدنی کا 53 فیصد وصول کرتے ہیں، اور اُس کا 98 فیصد حصہ خود اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں3 ۔)

CPM) ) کی جدید تحریکوں پر نظر ڈالنے سے ہم راہنما ؤں کی افزائش اور نشو ونما کے چند واضح اصول دیکھتے ہیں ۔ راہنماؤں کی افزائش اور نشوونما منسٹری کے آغاز سے ہی شروع ہوجاتی ہے ۔CPM) ) میں استعمال ہونے والے منادی ، شاگرد سازی اور چرچز کے قیا م کے نمونے حقیقتاً راہنماؤں کو نشوونما دے رہے ہیں۔ ان نمونوں نے موجودہ قیادت اور رہنماؤں کی ترقی کے لئے بھی ماحول تخلیق کر دیا ہے  ۔         

نصب العین : الٰہی حُجم 

CPM) ) کے کارکنان اس یقین کے ساتھ کام شروع کرتے ہیں  کہ ایک پورے نارسا گروہوں ،شہر ، علاقے اور قوم تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے اور کی بھی جائے گی یہ پوچھنے کی بجائے،” میں کیا کر سکتا ہوں ؟ ” وہ پوچھتے ہیں ،” ایک تحریک کے آغاز کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟” اس طرح اُن کی اور نئے ایمانداروں کی توجہ صرف خُدا پر مرکوز رہتی ہے اس کے نتیجے میں وہ صر ف خُدا پر انحصار

کرتے ہیں  تاکہ ناممکن کو ممکن بنتا ہوا دیکھیں  ۔ابتدائی طور پر باہر سے آنے والے یہ لوگ ممکنہ شراکت داروں کوایک  نصب العین عطا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں جو بعد میں فصل کے مزدوروں کی جماعت میں  شریک ہوجاتے ہیں۔ باہر سے آنے والے ہر راہنما کے لئے ضروری ہے کہ وہ اُسی علاقے اور تہذیب میں سے ایسا راہنما تلاش کرے جو اُس قوم تک پہنچنے کے لئے ابتدائی کوششوں کی راہنما ئی کرے  ۔ جب تہذیب اور علاقے کے اندر سے ہی راہنما ابھرتے اور ترقی کرتے جاتے ہیں تو وہ الٰہی  حجم کے اس نصب العین کو پورا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔ 

 

دعا :   پھل لانے کی بنیاد( یوحنا14-13:   14)

ایک بڑی  CPM) )  کی تحریک کا سروے کرنے سے پتہ چلا کہ چرچزکے مؤثر  تخم کار بہت متنو ع گروپ تھے۔  لیکن اُن میں  ایک بات مشترک تھی ۔وہ روزانہ کم ازکم 2 گھنٹے دعا میں  گزارتے تھے  اور ہفتہ واری اور ماہانہ بنیادوں پر اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر دعاکرتے اور روزے رکھتے تھے ۔ وہ تنخواہ دار کارکنان نہیں تھے۔ اُن کی اپنی اپنی نوکریاں تھیں ۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ اُن کی کوششوں کے پھل کا انحصار اُن کی دعائیہ زندگی پر ہے ۔ چرچز کے ابتدائی تخم کاروں کا دعا پریہ انحصار نئے ایمانداروں  تک بھی منتقل ہوتا ہے ۔

تربیت :ہر کسی کو تربیت دی جاتی ہے 

ہندوستان میں CPM) ) کے راہنماؤں کی تربیت میں شریک ایک خاتون نے کہا ،” میں نہیں جانتی کہ انہوں نے مجھے چرچز کے قیام کے بارے میں بولنے کو کیوں کہا۔ نہ میں لکھ سکتی ہوں نہ پڑھ سکتی ہوں۔ میں تو بس صرف بیماروں کو شفا دیتی ہوں ،مردوں کو زندہ کرتی ہوں ، اور بائبل کی تعلیم دیتی ہوں۔ میں نے تو   ابھی تک صرف 100 چرچز قائم کیے ہیں ” ۔کیا ہم سب کی یہ خواہش نہیں ہو گی کہ ہم اُس خاتون کے جیسے عاجز ہوں ؟ 

CPM) ) کی تحریکوں میں  ہر کوئی یہ توقع کرتا ہے کہ اُسے تربیت دی جائے اور وہ دوسروں کو جتنا جلدی ممکن ہو تربیت دینے لگے ۔ ایک ملک میں جب ہمیں راہنماؤں کی تربیت کے لئے کہا گیا تو سیکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے ہم صرف 30 راہنماؤں  سے ملاقات کر سکے۔ لیکن ہر ہفتے یہ گروپ مزید 150 لوگوں کو ہمارے ہی فراہم کردہ  بائبلی تربیتی وسائل کے ذریعے تربیت دینے لگے ۔

تربیت : تربیتی مینول بائبل ہے ۔

غیر ضروری بوجھ سے بچنے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ صرف بائبل کو تربیتی موادکے طور پر استعمال کیا جائے ۔ CPM) ) کے رہنما تربیت کے دوران خود پر انحصار کرنے کی بجائے بائبل اور روح القدس پر انحصار کرکے رہنماؤں کو تربیت دیتے ہیں۔ جب نئے ایماندار سوال کرتے ہیں تو چرچز کے تخم کار جواب میں کہتے ہیں ،” بائبل اس بارے میں کیا کہتی ہے ؟” پھر وہ اُن کی راہنمائی کرتے ہیں کہ وہ کلام کے کئی حوالوں کا مطالعہ کریں، بجائے اس کے کہ اُن کی پسندیدہ چند آیات  پر ہی نظر ڈالیں۔ یوحنا        6: 45        میں ایک بنیادی سچائی کا ذکر ہے :”وہ سب خُدا سے تعلیم یافتہ ہوں گے جس کسی نے باپ سے سُنا اور سیکھا ہے وہ میرے پاس آتا ہے “۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ مواقع پر چرچز کا تخم کار کچھ نہ کچھ معلومات فراہم کرنے پر مجبور بھی ہو جائے ،لیکن زیادہ تر اُس کی کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ نئے ایماندار خود تمام سوالوں کے جوابات تلاش کریں ۔   شاگرد سازی ، چرچزکے قیام اور راہنماؤ ں کی نشوونما ،ہر ایک کی بنیاد بائبل پر ہوتی ہے اس کے نتیجے میں شاگردوں ، چرچز اور راہنماؤں کی موثر افزائش ممکن ہو جاتی ہے ۔ 

اِس مضموُن کے دوسرے حصے میں   ہم منسٹری کے اُن نمونوں پر نظر ڈالیں گے جو تحریکوں میں  قیادت کی افزائش   کا  ماحول تخلیق کرتے ہیں۔

یہ مضمون  24:14 – A Testimony to All Peoples   کے صفحات 100 -96سے لیا گیا ہے    اور مشنز فرنٹٔیرز  www.missionfrontiers.org  کے  جولائی-اگست 2012  کے شمارے میں شائع ہونے والے مضمون کی مصنف کی جانب سے نظرِ ثانی شدہ  شکل ہے ۔ 

Categories
حرکات کے بارے میں

تحریکوں کے لئے دعا کرنے کے کلیدی نکات

تحریکوں کے لئے دعا کرنے کے کلیدی نکات

– شوڈنکے جانسن –

چرچز کی تخم کاری کی کسی بھی تحریک سے پہلے ایک دعائیہ تحریک کا ہونا لازمی ہوتا ہے جس کے بغیر چرچ کی تخم کاری کی تحریک بیدار ہی نہیں ہو سکتی۔ ضروری ہے کہ اس مقصد کے لئے خُدا کے لوگ دعا اور روزے میں وقت گزاریں ۔ضروری ہے کہ ہم اپنے شاگردوں کو پورے دل سے دعا کرنا سکھائیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں نارسا لوگوں میں کسی  قسم کی کامیابی ملے تو ہمیں ایک دعائیہ منسٹری اور دعا کرنے والے شاگردوں کی ضرورت ہے۔ دعا کسی بھی تحریک کے لئے ایک انجن کی حیثیت رکھتی ہے اور دعا کا مؤثر ہونا اس چیز پر انحصار کرتا ہے کہ ہم اُس دعا میں کیا مانگ رہے ہیں ۔

ذیل میں دعا کرنے کے 12 اہم ترین نکات دئیے جا رہے ہیں، جنہیں ہم مغربی افریقہ میں اپنی تحریکوں کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔

دعا کریں :

  1. کہ خُدا فصل کاٹنے کے لئے مزدور بھیجے ۔کہ شاگرد سازوں اور دعا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو ۔

اور وہ اُن سے کہنے لگا کہ فصل تو بُہت ہے لیکن مزدُور تھوڑے ہیں اِس لِئے فصل کے مالِک کی مِنّت کرو کہ اپنی فصل کاٹنے کے لِئے مزدُور بھیجے۔“(لوقا 10: 2 )

  • کہ خُدا لوگوں کے دلوں کو چُھو لے اور انہیں اپنی طرف کھینچ لے۔ 

اور ساؤُل بھی جِبعہ کو اپنے گھر گیا اور لوگوں کا ایک جتھا بھی جِن کے دِل کو خُدا نے اُبھارا تھا اُس کے ساتھ ہو لِیا۔” ( 1 -سیموئیل 10: 26)

یِسُوعؔ نے جواب میں اُن سے کہا آپس میں نہ بُڑبُڑاؤ۔ کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جِس نے مُجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لے اور مَیں اُسے آخِری دِن پِھر زِندہ کرُوں گا۔ نبِیوں کے صحِیفوں میں یہ لِکھا ہے کہ وہ سب خُدا سے تعلِیم یافتہ ہوں گے۔ جِس کِسی نے باپ سے سُنا اور سِیکھا ہے وہ میرے پاس آتا ہے۔“(یوحنا 6: 43-45)

اور سبت کے دِن شہر کے دروازہ کے باہر ندی کے کنارے گئے جہاں سمجھے کہ دُعا کرنے کی جگہ ہو گی اور بَیٹھ کر اُن عَورتوں سے جو اِکٹّھی ہُوئی تِھیں کلام کرنے لگے۔ اور تھواتِیرؔہ شہر کی ایک خُدا پرست عَورت لُدِیہ نام قِرمز بیچنے والی بھی سُنتی تھی۔ اُس کا دِل خُداوند نے کھولا تاکہ پَولُس کی باتوں پر توجُّہ کرے۔“(اعمال 16: 13- 14)

  • کہ خُدا خوشخبری کی منادی کے لئے دروازے کھولے ۔

اور ساتھ ساتھ ہمارے لِئے بھی دُعا کِیا کرو کہ خُدا ہم پر کلام کا دروازہ کھولے تاکہ مَیں مسِیح کے اُس بھید کو بیان کر سکُوں جِس کے سبب سے قَید بھی ہُوں۔ اور اُسے اَیسا ظاہِر کرُوں جَیسا مُجھے کرنا لازِم ہے۔“(کلسیوں 4: 3-4)

  • کہ سلامتی کے فرزند ملیں ۔

اور جِس گھر میں داخِل ہو پہلے کہو کہ اِس گھر کی سلامتی ہو۔ اگر وہاں کوئی سلامتی کا فرزند ہو گا تو تُمہارا سلام اُس پر ٹھہرے گا نہیں تو تُم پر لَوٹ آئے گا۔ اُسی گھر میں رہو اور جو کُچھ اُن سے مِلے کھاؤ پِیو کیونکہ مزدُور اپنی مزدُوری کا حق دار ہے۔ گھر گھر نہ پِھرو۔“(لوقا 10 : 5-7)

  • دعا کریں کہ دشمن کے سارے قلعے اور جھوٹ ٹوٹ پھوٹ جائیں۔ 

کیونکہ ہم اگرچہ جِسم میں زِندگی گُذارتے ہیں مگر جِسم کے طَور پر لڑتے نہیں۔ اِس لِئے کہ ہماری لڑائی کے ہتھیار جِسمانی نہیں بلکہ خُدا کے نزدِیک قلعوں کو ڈھا دینے کے قابِل ہیں۔ چُنانچہ ہم تصوُّرات اور ہر ایک اُونچی چِیز کو جو خُدا کی پہچان کے برخِلاف سر اُٹھائے ہُوئے ہے ڈھا دیتے ہیں اور ہر ایک خیال کو قَید کر کے مسِیح کا فرمانبردار بنا دیتے ہیں۔“(2 -کرنتھیوں 10: 3-5)

  • کہ خُدا خوشخبری کا پیغام پھیلانے کے لئے ہمت اور جرأت عطا کرے۔

اب اَے خُداوند! اُن کی دھمکِیوں کو دیکھ اور اپنے بندوں کو یہ تَوفِیق دے کہ وہ تیرا کلام کمال دِلیری کے ساتھ سُنائیں۔ جب وہ دُعا کر چُکے تو جِس مکان میں جمع تھے وہ ہِل گیا اور وہ سب رُوحُ القُدس سے بھر گئے اور خُدا کا کلام دِلیری سے سُناتے رہے۔“(اعمال 4: 29،  31) 

  •  کہ شاگرد بنانے والوں کو نیا مسح ملے اور روح القدس کی قوت حاصل ہو ۔

خُداوند کا رُوح مُجھ پر ہے۔ اِس لِئے کہ اُس نے مُجھے غرِیبوں کو خُوشخبری دینے کے لِئے مَسح کِیا۔ اُس نے مُجھے بھیجا ہے کہ قَیدِیوں کو رِہائی اور اندھوں کو بِینائی پانے کی خبر سُناوُں۔ کُچلے ہُوؤں کو آزاد کرُوں۔“(لوقا 4: 18)

اور دیکھو جِس کا میرے باپ نے وعدہ کِیا ہے مَیں اُس کو تُم پر نازِل کرُوں گا لیکن جب تک عالَمِ بالا سے تُم کو قُوّت کا لِباس نہ مِلے اِس شہر میں ٹھہرے رہو۔“(لوقا 24: 49)

لیکن جب رُوحُ القُدس تُم پر نازِل ہو گا تو تُم قُوّت پاؤ گے اور یروشلِیم اور تمام یہُودیہ اور سامرؔیہ میں بلکہ زمِین کی اِنتِہا تک میرے گواہ ہو گے۔“(اعمال 1: 8)

مگر شاگِرد خُوشی اور رُوحُ القُدس سے معمُور ہوتے رہے۔“(اعمال 13 : 52)

  • کہ نشانوں، حیران کُن کاموں اور معجزوں میں اضافہ ہو۔ 

اور تُو اپنا ہاتھ شِفا دینے کو بڑھا اور تیرے پاک خادِم یِسُوعؔ کے نام سے مُعجِزے اور عجِیب کام ظہُور میں آئیں۔“(اعمال 4: 30)

اَے اِسرائیِلیو! یہ باتیں سُنو کہ یِسُوعؔ ناصری ایک شخص تھا جِس کا خُدا کی طرف سے ہونا تُم پر اُن مُعجِزوں اور عجِیب کاموں اور نِشانوں سے ثابِت ہُؤا جو خُدا نے اُس کی معرفت تُم میں دِکھائے۔ چُنانچہ تُم آپ ہی جانتے ہو۔“(اعمال 2: 22)

مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو مُجھ پر اِیمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہُوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہُوں۔“(یوحنا 14: 12) 

اور میری تقرِیر اور میری مُنادی میں حِکمت کی لُبھانے والی باتیں نہ تِھیں بلکہ وہ رُوح اور قُدرت سے ثابِت ہوتی تھی۔ تاکہ تُمہارا اِیمان اِنسان کی حِکمت پر نہیں بلکہ خُدا کی قُدرت پر مَوقُوف ہو۔“(1-کرنتھیوں 2: 4-5)

  • عملی میدان میں کام کرنے والے خادموں کی حفاظت کے لئے ۔

دیکھو مَیں تُم کو بھیجتا ہُوں گویا بھیڑوں کو بھیڑِیوں کے بیچ میں۔ پس سانپوں کی مانِند ہوشیار اور کبُوتروں کی مانِند بے آزار بنو۔“(متی 10: 16)

اُس نے اُن سے کہا مَیں شَیطان کو بِجلی کی طرح آسمان سے گِرا ہُؤا دیکھ رہا تھا۔ دیکھو مَیں نے تُم کو اِختیار دِیا کہ سانپوں اور بِچّھُوؤں کو کُچلو اور دُشمن کی ساری قُدرت پر غالِب آؤ اور تُم کو ہرگِز کِسی چِیز سے ضرر نہ پہنچے گا۔“(لوقا 10: 18- 19)

  • کام کی تکمیل کے لئے درکار ضروری وسائل کی فراہمی کے لئے ۔

میرا خُدا اپنی دَولت کے مُوافِق جلال سے مسِیح یِسُوع میں تُمہاری ہر ایک اِحتیاج رَفع کرے گا۔“(فلپیوں 4: 19)

اور خُدا تُم پر ہر طرح کا فضل کثرت سے کر سکتا ہے تاکہ تُم کو ہمیشہ ہر چِیز کافی طَور پر مِلا کرے اور ہر نیک کام کے لِئے تُمہارے پاس بُہت کُچھ مَوجُود رہا کرے۔“(2- کرنتھیوں 9: 8)

  • ایسی افزائش کے لئے جس کے نتیجے میں تحریکیں لوگوں کے دلوں کو گرما دیں۔ 

پس تُم جا کر سب قَوموں کو شاگِرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوحُ القُدس کے نام سے بپتِسمہ دو۔ اور اُن کو یہ تعلِیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جِن کا مَیں نے تُم کو حُکم دِیا اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخِر تک ہمیشہ تُمہارے ساتھ ہُوں۔ “(متی 28: 19-20)

اور خُدا کا کلام پَھیلتا رہا اور یروشلِیم میں شاگِردوں کا شُمار بُہت ہی بڑھتا گیا اور کاہِنوں کی بڑی گروہ اِس دِین کے تحت میں ہو گئی۔ “(اعمال 6: 7)

اور خُدا نے اُن کو برکت دی اور کہا کہ پَھلو اور بڑھو اور زمِین کو معمُور و محکُوم کرو اور سمُندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرِندوں اور کُل جانوروں پر جو زمِین پر چلتے ہیں اِختیار رکھّو۔” (پیدائش 1: 28)

  • دنیا بھر میں دیگر تحریکوں اور شاگرد سازوں کے لئے ۔

تُم سب کے بارے میں ہم خُدا کا شُکر ہمیشہ بجا لاتے ہیں اور اپنی دُعاؤں میں تُمہیں یاد کرتے ہیں۔ اور اپنے خُدا اور باپ کے حضُور تُمہارے اِیمان کے کام اور مُحبّت کی مِحنت اور اُس اُمّید کے صبر کو بِلاناغہ یاد کرتے ہیں جو ہمارے خُداوند یِسُوع مسِیح کی بابت ہے۔ “(1- تھسلنیکیوں  1: 2 -3)

Categories
حرکات کے بارے میں

نسلوں کے محرکات اور انہیں درپیش چیلنج – حصہ دوم

نسلوں کے محرکات اور انہیں درپیش چیلنج – حصہ دوم

سٹیو سمتھ اور سٹین پارکس –

حصہ اول میں ہم نے نسلی بُنیادوں پر چرچ کی افزائش کے محرکات اور درپیش چیلنجز پر بات کی تھی۔  حصہ دوم میں انہی موضوعات کو اگلے مزحل کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔

تیسرا مرحلہ : ایک پھیلتا ہوا نیٹ ورک – تیسر ی نسل کے ابتدائی چرچ 

  • G1اور 2 کے چرچز مستحکم ہو کر افزائش کر رہے ہیں ۔
  • G3 کے بہت سے چرچ شروع ہو رہے ہیں  جب کہ G3 کے کچھ گروپ چرچز میں تبدیل ہو رہے ہیں ۔
  • کلیدی راہنماؤں کو شناخت کر کے اُن کی   تربیت اور شاگرد سازی کی جا رہی ہے  کئی نسلوں پر مبنی صحت مند گروپوں اور راہنماؤں کی تیاری پر پوری توجہ دی جا رہی ہوتی ہے۔
  •  ذیادہ تر تحریکیں چرچز کے لئے شجرہ بنانے کا طریقہ استعمال کر رہی ہیں ۔
  • G3 کے چرچز پر بہت زور دیا جا رہا ہے ۔
  • نیٹ ورک کو بڑھاتے ہوئے  واضح تصورات اور قابل افزائش گروپوں کے طریقہ کار استعمال کیے جا رہے ہیں ۔
  • علاقائی راہنما ہر سطح پر کامیابیوں کی گواہیاں پیش کر  رہے ہیں ۔
  • ایک بڑی بُلاہٹ رکھنے والے مقامی راہنما ابھر چکے ہیں اور اب وہ بنیادی محرکین میں شامل ہیں ۔

چیلنجز

  • راہنما اب بھی جوابات کے لئے کلام دیکھنے کی بجائے G0   کے مسیحیوں کے پاس جا تے ہیں ۔
  • پہلی اور دوسری نسل کے چرچز کی کامیابی کا جوش تیسری اور بعد کی نسل کے چرچز کو نظر انداز کرنے کا سبب بنتا ہے۔ 
  • اوپر دیئے گئے کلیدی پہلوؤں میں سے کچھ موجود نہیں ہیں ۔
  • کمزور نصب العین نصب العین مناسب طور پر اگلی نسلوں تک نہیں پہنچا ( ابتدائی نسلوں کا مقصد بہت واضح تھا جب کہ بعد کی نسلوں کا مقصد بہت کمزور پڑ چُکا ہے )
  • تمام شاگر دجو تحریک میں  شامل ہیں انہیں مقصد سے پوری طرح آگاہی نہیں اور نہ ہی وہ اُسے قبول کر رہے ہیں ۔
  • ایذارسانی کا خوف لوگوں کے دلوں میں  بیٹھ گیا ہے ۔
  • قیادت بہتر انداز میں ترقی نہیں کر رہی اور ایسے حالات میں تیمتھیس جیسے لوگ تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔
  • راہنماؤں اور گروپوں میں تحریکوں کے تصور کی کمزوری بھی افزائش کو روک سکتی ہے مثال کے طور پر  گروپ تعداد میں نہ بڑھ رہے ہوں اور مقامی راہنما بھی افزائش نہ پا رہے ہوں اور پچھلی نسل کے راہنماؤں کی دی ہوئی تعلیمات کو نظر انداز کر چُکے ہوں ۔
  • باہر سے آنے والے خادم وقت سے پہلے واپس چلے جائیں ۔

چوتھا مرحلہ:  ایک ابھرتی ہوئی CPM – چوتھی نسل کے ابتدائی چرچ 

  • G3 کے مستحکم چرچ جن کے ساتھ G5، G4 اور G6کے گروپ اور چرچ بھی موجود ہیں ۔
  • مقامی راہنماؤں کا ایک بڑھتا ہوا گروہ تحریک کی نگرانی کر رہا ہے ۔
  • مقامی اور بیرونی راہنما  ارادی طور پرتمام نسلوں میں  تحریکوں کے اصول راسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
  • باہر سے آنے والے کلیدی راہنماؤں کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں ۔
  • قیادت کے نیٹ ورکز کی ارادی تربیت ۔
  • راہنما تعاون اور حصول علم کے لئے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے ہیں ۔
  • اس مرحلے پر نئے علاقوں میں کام کا آغاز کیا جا سکتا ہے ۔
  • اندرونی اور بیرونی چیلنجز راہنماؤں اور چرچز کے لئے استحکام ، صبر و برداشت ، ایمان اور افزائش کا باعث بنتے ہیں ۔
  • اگر تحریکیں G3 کے چرچز تک پہنچ جائیں تو عموما وہ G4 تک بھی پہنچ جاتی ہیں ۔
  • شراکتی راہنمائی کے چیلنجز کو عبور کر کے دیگر راہنماؤں کی حقیقی انداز میں تیاری ہوتی ہے ۔

چیلنجز 

  •  اپنی زبان اور قوم کے لوگوں سے ہٹ کر باہر نکلنے کے  تصور کی عدم موجودگی ۔
  • تحریک کے بنیادی راہنماؤں پر ضرورت سے ذیادہ انحصار ۔
  • درمیانی سطح کی تربیت میں تسلسل یا ارتقاض کا فقدان ۔
  • نئے علاقوں اور لوگوں تک پہنچنے کے لئے مقامی لوگوں کو ذمہ داری نہ دینا اور بیرونی امداد پر ہی انحصار کرتے رہنا ۔ 
  • کلیدی راہنماؤں کی تبدیلی۔
  • بنیادی اکائی یعنی خاندانوں کے ختم ہونے کے بعد بھی اُس تہذیب سے نکال کر دوسری تہذیب یا علاقے میں  نہ جانا ۔
  • بیرونی مالی امداد پر مکمل انحصار ۔
  • تحریک سے غیر وابستہ غیر ملکی   مقامی راہنماؤں کو تنخوائیں پیش کرتے ہیں ۔
  • بیرونی مسیحی راہنما بائبل کی حقیقی تعلیم دینے کے لئے تیار  نہیں ہوتے ۔

پانچواں مرحلہ : چرچ کی تخم کاری کی تحریک 

  • چوتھی اور بعد کی نسلوں کے کئی چرچ  افزائش پا رہے ہوتے ہیں ( CPM  کی یہ ہی قابلِ قبول تعریف ہے )
  • یہ مرحلہ پہلے چرچ کی ابتدا کے عموما تین سے پانچ سال کے بعد آتا ہے ۔
  • عموما 100 سے زیادہ چرچ قائم ہو چکے ہوتے ہیں ۔
  • ابھی زیادہ تر افزائش آنا باقی ہے لیکن باتسلسل افزائش کے لئے بنیادی عناصر اور عوامل یا تو مستحکم ہو چکے ہیں یا شروع کر دیئے گئے ہیں ۔
  • چار یا اُس سے ذیادہ مثالی سلسلے ۔
  • مثالی طور پر ایک مستحکم راہنماؤں کی ٹیم جو مقامی راہنماؤں پر مشتعمل ہو ، تحریک کی قیادت کر رہی ہوتی ہے جب کہ باہر سے آنے والے مقامی قیادت کی ٹیم کے ساتھ محض مل کر کا م ہی کر رہے ہوتے ہیں ۔
  • اگرچہ پہلے چار مرحلوں میں پورا سلسلہ تباہی کا شکار ہو سکتا ہے ، یہ تباہی پانچویں مرحلے کے بعد شازو نادر ہی سامنے آتی ہے ۔
  • چو نکہ سب سے ذیادہ افزائش چھٹے اور ساتویں مرحلے میں ہوتی ہے اس لئے یہ انتہائی اہم ہے کہ تمام سطحوں پر راہنماؤں کی تربیت کر کے یہ نصب العین آگے منتقل کیا جائے ۔

چیلنجز 

  • اگر قیادت کی افزائش کمزور ہو تو یہاں CPM کا اوپر کی جانب سفر روک جاتا ہے ۔
  • تما م نسلوں کے گروپوں کی کارکردگی جانچنے کے لئے  ایک واضح طریقہ کار کی عدم موجودگی ۔
  • جوں جوں تعداد اور معیار بڑھے گا عین ممکن ہے کہ باہر سے آنے والے مسیحی گروپ اختیار حاصل کرنے کے لئے مالی امداد پیش کریں ۔
  • نئے سلسلے شروع ہونے یا اُن کے بڑھنے میں رکاوٹیں ۔
  • باہر سے آنے والے فیصلہ سازی میں ضرورت سے ذیادہ شامل ہو رہے ہوتے ہیں ۔

چھٹا مرحلہ :ایک باتسلسل اور  پھیلتی ہوئی CPM

  •  ایک مقصد کے حامل مقامی راہنماؤں کا نیٹ ورک تحریک کی قیادت کرتا ہے اور باہر سے آنے والوں کی ضرورت تقریبا ختم ہو جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ تمام سطحوں پر قیادت افزئش پا رہی ہوتی ہے ۔
  • مقامی راہنماؤں میں  روحانیت زور پکڑتی ہے ۔
  • تحریک تعداد اور روحانی اعتبار دونوں طرح سے بڑھتی ہے ۔
  • مقامی لوگوں کے گروہ میں واضح داخلہ اور وسعت  نظر آتی ہے ۔
  • راہنماؤں اور چرچز کی کافی تعداد موجود ہوتی ہے جو تحریک کی مسلسل افزائش کے لئے بہترین طریقہ کار تلاش کر سکتے ہیں G5، G6اور G7 سے آگے کے چرچ مسلسل بڑھتے چلے جاتے ہیں اور تحریکوں کے اصول تمام نسلوں میں  منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔
  • اس مقام پر تحریک تمام اندرونی اور بیرونی  چیلنجز کے مقابلے میں مستحکم ہو چُکی ہوتی ہے ۔

چیلنجز 

  •  پانچویں مرحلے تک ہو سکتا ہے کہ تحریکیں نظروں سے اوجھل رہیں لیکن چھٹے مرحلے میں سب انہیں دیکھنے لگتے ہیں اور اس کے نتیجے میں چیلنجز سامنے آ سکتے ہیں ۔
  • تحریکوں کے سامنے آنے سے روایتی چرچز اور فرقوں  کی جانب سے مخالفت پیدا ہو سکتی ہے ۔
  • یوں ظاہر ہونے پر ایذارسانی بڑھ سکتی ہے اور کلیدی راہنما نشانہ بن سکتے ہیں ۔
  • راہنماؤں کے نیٹ ورک کو پھیلتے چلے جانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ خدمت کے پھیلتے ہوئے میدان میں کافی انداز سےکام کر سکیں ۔
  • اندرونی اور بیرونی مالی امداد کا دانش مندانہ استعمال کرنے کی ضرورت ۔
  • چھٹے مرحلے کی افزائش کافی اہم ہوتی ہے لیکن یہ کسی ایک قبیلے یا لوگوں کے ایک گروہ تک محدود رہتی ہے ساتویں مرحلے میں جانے کے لئے ایک خاص مقصد اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ تحریک  نئے علاقوں اور لوگوں کے گروہوں تک پہنچ سکے ۔

ساتواں مرحلہ : ایک پھلتی پھولتی CPM

  • CPM عملی اور ارادی طور پر دیگر علاقوں اور قوموں میں بھی نئی  CPM کی تحریکوں کو متحرک کر رہی ہوتی ہے ۔
  • یہ CPM ایک ایسی تحریک بن جاتی ہے جو نئی تحریکوں کو افزائش دیتی ہے اس مرحلے پر باہر سے آنے والے کا کام ختم ہو جاتا ہے اور وہ واپس پہلے مرحلے کے کام پر چلے جاتے ہیں ۔
  • تحریک کے راہنما اپنے پورے علاقے یا مذہبی گروپ میں ارشادِ اعظم کی تکمیل کے لئے ایک بڑا نصب العین اپنا لیتے ہیں ۔
  • تحریک کے راہنما دوسری تحریکوں کے آغاز میں مدد دینے کے لئے تربیت اور وسائل تیار کرتے ہیں ۔

عموما 5000 سے ذیادہ چرچ قائم ہو چکے ہوتے ہیں ۔

چیلنجز 

  •  ضروری ہے کہ ساتویں مرحلے کے راہنما دوسروں کو  موثر طور پر دیگر تہذیبوں  میں بھیجنے کے لئے تیار کرنا سیکھیں ۔
  • ایسے راہنما تیار کرنا بہت اہم ہے جو ابتدائی CPM کے  راہنماؤں پر انحصار نہ کرتے ہوں ۔
  • بڑھتی ہوئی تحریکوں کے ایک پورے نیٹ ورک کی راہنمائی کم ہی سامنے آتی ہے اس کے لئے ساتویں مرحلے کے بیرونِ ملک سے آنے والے راہنماؤں کے ساتھ تعلقات اور باہمی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
  • ساتویں مرحلے کے راہنما عالمی چرچ کو بہت کچھ دے سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ایک  ارادی طور پر کاوش کرنا ضروری ہے کہ عالمی چرچ اُن کی بات سُنے اور اُن سے کچھ سیکھے ۔

بنیادی اصول ( یہ چند اہم ترین اصول ہیں  جن پر CPM کے 38 محرکین اور راہنماؤں کا اتفاق ہے )

  • چھوڑ دینے کی اہمیت تمام گروپ ،شاگرد ، راہنما افزائش نہیں پائیں گے اس لئے اُن میں سے کچھ کو چھوڑ دیں کہ وہ چلے جائیں ۔
  • جن کے ساتھ ہم کام کر رہے ہوں اُن کے ساتھ رابطے قائم  کریں –  خُدا ، خاندان ، کارکنوں کے سا تھ رابطہ ایک دوسرے کے ساتھ ایسے شفاف انداز میں چلیں جیسےزائرین چلتے ہیں ۔
  • تربیت کار نہ صرف دیتا ہے بلکہ معلومات لیتا بھی ہے  اور اُسے اپنے زیر تربیت لوگوں سے کچھ وصول کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے ۔
  • تربیت کی افزائش کریں اس سے بڑھوتری میں سُست رفتاری نہیں ہوتی اگلی نسلوں کے لئے نئے تربیت کاروں کو تربیت دیں (متی 10: 8- ایک حقیقی شاگرد مفت میں پاتا اور مفت میں دیتا ہے )
  • روایتی چرچ پر اعتراضات اُٹھائے بغیر ایک غیر روایتی مسیحی ماحول تخلیق کریں ۔
  • ترقی کے اعداد و شمار رکھنا اور جائزہ  لینا بہت ضروری ہے اس سے افزائش کا تعین ہوتا ہے ۔
  • ہم سب لوگ بڑے اونچے ارادوں کے ساتھ منسٹری کا آغاز کرتے ہیں  لیکن مستقبل میں  ہم اُن میں  کو ئی تبدیلی نہیں  لاتے ہمیں ایسا راسخ انحصار صرف خُد اپر رکھنا چاہیے ہمیں کسی ایسے سسٹم پر انحصار نہیں کرنا چاہیے جو پہلے سے ہی قائم ہو ۔