خُدا کا کلام ایمان نہ رکھنے والوں پر اثر انداز ہوتا ہے
– ٹریور لارسن –
” کیا بائبل کی تعلیمات کے مطابق یہ درست ہے کہ کسی ایمان نہ رکھنے والے سے، روح القدس کے وسیلے کے بغیر کہا جائے کہ وہ خُدا کے کلام کی راہ پر چلے ؟”
روح القدس کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ گناہ اور راستبازی کے معاملوں میں ایمان نہ رکھنے والوں کی عدالت اور انصاف کرے ( یوحنا 16: 8)۔ ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ روح القدس غیر ایمانداروں میں اپنا کام کرنے کے لئے خُدا کے کلام کو استعمال کرتا ہے ۔ رومیوں 10: 17 سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ایمان سُننے سے آتا ہے اور سُننا مسیح کے کلام سے ہے ۔
اگر ہم اعمال اور اناجیل کے پیغامات کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اُن میں سے بہت تھوڑے پیغامات صرف شاگردوں کو مخاطب کر کے دیئے گئے تھے۔ کلام کے زیادہ تر پیغامات بیک وقت مختلف لوگوں کے لئے تھے جن میں ایمان نہ رکھنے والوں کی تعداد ایمانداروں سے زیادہ تھی ۔ ان پیغامات میں سے اعمال 20 کے دو پیغامات تو بالکل مخصوص پیغامات تھے جن میں ایک جگہ بزرگوں اور دوسری جگہ بالا خانے میں شاگردوں کو مخاطب کیا گیا ۔ پھر یسوع اور اُس کے شاگرد ایک ملی جُلی بھیڑ کے ساتھ کیسے بات کرتے تھے جن میں زیادہ تر لوگ ایمان نہیں رکھتے تھے ؟
یسوع نے چار مختلف قسم کی مٹی کی تمثیل ( جن سے مراد کلام کے جواب میں چار مختلف ردعمل ہیں ) ملے جُلے سامعین کو سُنائی: جن میں زیادہ تر غیر ایمان دار اور کچھ ایمان دار تھے ۔یہ تمثیل سُناتے ہوئے اُس نے تمام سُننے والوں کو یہ دعوت دی کہ وہ چوتھی قسم کی مٹی بنیں ، یعنی اُن کے دل خُدا کا کلام قبول کر کے اپنی زندگیاں اُس کے مطابق گزاریں اور اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائیں ۔ اس تعلیم کا مقصد خوشخبری دینا نہیں تھا۔ اگرچہ یہ تمثیل سُننے والوں میں سے زیادہ تر لوگ ایمان دار نہیں تھے یسوع پھر بھی چاہتا تھا کہ سُننے والے خُدا کے کلام کا مثبت جواب دینے لگیں ۔
جب آپ چار مختلف قسم کی مٹی کی تمثیل پڑھتے ہیں تو کیا آپ نے ر ُک کر کبھی یہ کہا ،” یسوع کو کوئی توقع نہیں تھی کہ غیر ایمانداروں میں سے کوئی مثبت جواب دے گا ” ؟ یہ یسوع کی منادی کا طریقۂ کار نہیں تھا ۔ وہ تما م سُننے والوں کو یہ چیلنج دیتا تھا کہ وہ خدا کے کلام کو قبول کر کے اپنی زندگیا ں اُ س کے مطابق ڈھالیں اور ایمان کا پھل لائیں ۔ جب وہ کلام کی تعلیم دیتا تھا تو وہ ایمان داروں اور غیر ایمانداروں میں کوئی تفریق نہیں کرتا تھا۔ اُن سب کو ایک جیسا پیغام ملتا تھا ۔ سب کو کلام کی دعوت دی جاتی تھی اور سب سے مثبت جواب کی توقع کی جاتی تھی ۔ لیکن اُن کے جواب سے یہ پتہ چل جاتا تھا کہ کون خُدا کے کلام پر عمل کرنا چاہتا ہے اور کون نہیں ۔ یسوع ان ملے جُلے سامعین سے یہ توقع کرتا تھا کہ وہ چوتھی قسم کی مٹی جیسے بنیں جو پہلی تین قسم کی مٹی سے بالکل مختلف ہے ۔
یسوع نے کہا کہ کچھ لوگ اُ سکے کلام کو قبول نہیں کریں گے ، سو ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ ہر کوئی خُدا کے کلام کو قبول کرے گا ۔یہ اُس وقت بالکل حقیقت بن کے سامنے آتا ہے جب ہم کسی بڑی تعداد میں سامعین کو خُدا کا پیغام سُنائیں یا ایمانداروں اور غیر ایمان داروں پر مشتمل کسی چھوٹے گروپ میں اس پر گفتگو کریں ۔ آج کے زیادہ تر چرچز میں ایسی ملی جُلی مجلس نہیں ہوتی ۔ تمام شُرکا ایماندار ہوتے ہیں (ویسے نہیں ہوتے جیسے اعمال اور انجیل کے دور میں ملے جُلے سامعین ہوتے تھے ۔)
دریافتی بائبل سٹڈی کے گروپوں میں کیا ہوتا ہے ؟ کلا م کو رد کرنے والا کوئی شخص( جو پتھریلی زمین کی طرح ہوتا ہے )مشکل سے ہی بائبل سٹڈی میں شامل ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نارسا قوموں کے مسلم گروپوں میں لوگ بائبل پر گفتگو کی دعوت کو فوری طور پر رد ہی کر دیتے ہیں ( یا انہیں دعوت ہی نہیں دی جاتی – تاکہ جو بائبل سُننا چاہتے ہیں اُن کے لئے کو ئی خطرہ پیدا نہ ہوجائے ) ۔گروپ میں شامل ہونے والے بڑے ہمت اور حوصلے کے ساتھ بائبل سٹڈی کے گروپ میں داخل ہوتے ہیں ۔
ہماری گروپوں کی گفتگو میں دیگر تین قسم کی مٹی کی صفات رکھنے والے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں ۔مسیح کا کلام وہ پڑھتے ضرور ہیں اوراُس پر گفتگو کر کے چیلنج بھی لے لیتے ہیں لیکن ہر ایک کا جواب مختلف ہوتا ہے ۔ نارسا مسلم گروپوں میں زیادہ تر لوگ جو کلام سُن کر اپنی زندگیوں کو اُس کے مطابق نہیں ڈھالتے ،وہ بائبل سٹڈی گروپوں میں آنا ہی چھوڑ دیتے ہیں یا دوسروں کو بھی دھمکاتے ہیں ۔
خطرہ زیادہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں پر مشتمل گروپوں میں لوگوں کو بڑے محتاط طریقے سے منتخب کیا جاتا ہے ، اور یہ ہمیں کینڈا یا امریکہ کے چرچز میں نظر نہیں آتا ۔ اگر وہ یسوع کے پیچھے چلنے کی قیمت اد اکرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو انہیں اس سے کیا حاصل ہو گا ؟ انہیں نوکری کھو دینے ، گھر سے نکالے جانے یا تشدد کا شکار ہونے کا خطرہ بھی رہتا ہے ۔ ایک طرح سے یہ حیرت انگیز بات ہے کہ ان خطرات کے باوجود بہت سے مسلمان بائبل سٹڈی کے گروپوں میں شامل ہو بھی جاتے ہیں ۔ چرچ کی عمارت میں داخل ہونے کی نسبت آپس میں ایک محفوظ ماحول میں بیٹھ کر کلام سُننا نسبت کم خطرے کا باعث ہوتا ہے ۔ہر سہ ماہی میں ایسے بہت سے مسلمان جو بائبل سٹڈی گروپ میں شامل ہونے کا حوصلہ کر لیتے ہیں ، وہ مسیح پر ایمان لے آتے ہیں ۔ انہی گروپوں میں شامل دیگر لوگوں کو ہو سکتا ہے کہ مزید ایک اور سہ ماہی کا عرصہ درکار ہو ۔
روح القدس ایمان نہ رکھنے والوں میں نہیں اترتا ۔ لیکن انہیں خُدا کے روح تک رسائی ضرور ہوتی ہے جو بیرونی طور پر کام کرتے ہوئے انہیں ایمان کی طرف لاتا ہے ۔ یسوع نے اس بات کی وضاحت یو حنا 16: 8 میں کی۔ روح القدس گناہ راستبازی اور انصاف کی عدالت کرتا ہے ۔روح القدس کا یہ کردار ایمانداروں میں اُس کے کردار سے مختلف ہے ۔ روح القدس اکثر ایمانداروں کو استعمال کرتا ہے کہ وہ ایمان نہ رکھنے والوں کو خُدا کا کلام سُنا کر ایمان کے دائرے میں لے آئیں ۔ سو ایمان داروں کو چاہیے کہ وہ خُد اکا کلام سُنا کر غیر ایمانداروں کی مدد کریں کہ وہ ایمان کے دائرے میں آ جائیں یہ طریقہ دراصل اناجیل اور اعمال کی کتاب کے طریقے کی تقلید ہے۔ اس طریقے سے روح القدس ایسے ایمان نہ رکھنے والوں کے دلوں کو کھولتا ہے جو اُس کے کلام کا جواب دینے کو تیار ہیں ۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم ایمان نہ رکھنے والوں تک خُدا کا کلام پہنچائیں ۔ اگر انہیں کسی گروپ میں شامل ہو کر خُد اکا کلام پڑھنے اور اُس پر گفتگو کرنے کی عادت ہو جائے ۔ (اس سے پہلے کہ وہ ایمان لائیں )، تو ہم دیکھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایمان لے ہی آتے ہیں ۔اگر آپ بچپن ہی سے ایمان میں نہیں تھے اور بعد میں ایمان لائے ہیں تو آپ اس معاملے میں اپنے تجربے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں ۔ میں خود ایک آزاد چرچ کے ماحول میں پلا بڑھا اور جب میں ہائی سکول پہنچا تو انہوں نے مجھے یوتھ لیڈر کے طور پر منتخب کر لیا ۔ میں تب تک پوری طرح ایمان نہیں لایا تھا لیکن جب انہوں نے مجھے یوتھ لیڈر منتخب کیا تو مجھے اپنی روحانی حالت کے باعث یہ انتخاب عجیب لگا اور میں پریشان بھی ہوا۔ جو کچھ میں نہیں جانتا تھا ، میں وہ سمجھ نہیں پاتا تھا اور میں یہ بھی نہ جان پایا کہ میں ایمان کیسے لا سکتا ہوں ۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ ایسا کیوں ہے کہ چرچ جانے کے باوجود میں حقیقی طور پر ایمان نہیں لایا تھا ۔ مجھے بس اتنا پتہ تھا : ( اگر مجھے اس گروپ کی قیادت کرنی ہے تو میرے لئے ضروری ہے کہ میں خُدا کے تعلق کا ذیادہ گہرائی میں تجربہ حاصل کروں )۔میں جنگل میں چلا گیا اور وہاں کافی دیر تک بیٹھا رہا ۔ میں نے دعا کرنے کی کوشش کی اور خُدا سے پوچھا :” میں تمہیں کیسے تلاش کروں گا ؟ میں ایمان کیسےحاصل کروں گا ؟” میں وہاں بیٹھا رہا اور اپنی سمجھ کے مطابق خُدا سے باتیں کرتا رہا ۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میں کیا کر رہا تھا ۔ میں صرف خُدا تک پہنچنا چاہ رہا تھا :یہ جاننا چا ہ رہا تھا کہ میں آگے کیسے بڑھوں ؟ پھر خُدا نے ایک ایمان نہ رکھنے والے سے کلام کیا ۔ میں نے بائبل کے کچھ حصے چرچ میں سُنے تھے، اور پھر میں نے بائبل کا باقاعدہ مطالعہ شروع کیا اور کلام میرے دل میں اترنے لگا ۔ کلام نے میری مدد کی کہ میں جان سکوں کہ ایمان لانے سے پہلے میں اس کلام سے بالکل واقف نہیں تھا۔ میں خُد اکے کلام کے معاملے میں بالکل اندھا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب خُدا میرے پاس آیا اور اُس نے میری آنکھوں کو روشنی دی ۔ یہ سب بائبل سٹڈی کے گروپ میں ہوا جب میں پہلی مرتبہ اُس گروپ میں شامل ہوا ۔یہ گروپ ایمانداروں اور غیر ایمانداروں کا ایک ملا جُلا گروپ تھا مجھے یقین ہو گیا کہ خُدا نے میرے ساتھ ایک ذاتی تعلق قائم کر کے میرے گناہ دیکھتے ہوئے بھی مجھے معاف کیا اور مجھے اپنے فضل سے ایمان عطا کیا ۔
ہمیں اس بات پر کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ جب ایمان نہ رکھنے والے خُدا کے کلا م کا مطالعہ کریں تو خُدا اُن سے ضرور کلام کرے گا ۔ زیادہ تر غیر ایمان دار جو خُدا کے کلام کا مثبت جواب دیتے ہیں ، اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسے کام کریں جس سے خُدا خوش ہو ۔ لیکن خُدا اُس سے آگے بڑھ کر انہیں یہ دیکھتا ہے کہ اُن کا اصل مسئلہ اُن کے گناہ ہیں ،اور یہ کہ اُس فضل پر ایمان رکھنا لازمی ہے جو مسیح کے وسیلے سے ملتا ہے ، نہ کہ اُن کے اپنے اچھے اعمال سے ۔
اگر آپ دوبارہ اعمال کی کتاب کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گےکہ خُد انے اعمال میں کتنی مرتبہ لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا؟ خُدا نے ایسے بہت سے کام کئے جن سے ایمانداروں کو حیرت ہوئی ۔ ہمیں آج بھی یقین ہونا چاہیے کہ خُدا کا روح اپنے کلام کے وسیلے سے اُن لوگوں کو نجات تک لے جا سکتا ہے جنہوں نے اس سے پہلے خوشخبری نہیں سُن رکھی ۔ بہت مرتبہ خُد اکا روح ، کلام کو استعمال کر کے غیر ایمانداروں کو نجات اور ایمان کی طرف لے آتا ہے ۔