عجلت اور تحمل کے غیر مادی پہلو-حصہ اول
– سٹیو سمتھ –
جیک نے، ( یہ نام جنوب مشرقی ایشیا میں یسوُع کے ایک شاگرد کا فرضی نام ہے)، اپنے قید خانےکی کوٹھڑی کی سلاخیں پکڑ کر راہداری میں جھانکا۔ اُس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور پسینہ اُس کے ماتھے پر بہہ رہا تھا۔ کیا وہ بولے یا نہ بولے؟ ایک سابقہ سپاہی ہوتے ہوئے وہ جانتا تھا کہ فوجی قید خانوں میں کس قسم کے خوفناک ظلم کئے جاتے ہیں۔ کلام کی منادی کرنے کے لئے اُسے قید کر لیا گیا تھا اور اب وہ قید خانہ میں تھا۔
کیا وہ بولے ؟
یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ نہ بولے؟ اُس کے خُداوند نے اُسے اس کا حکم دیا تھا ۔
سلاخوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے اُس نے قریب کھڑے محافظ سے دھیمی آواز میں بات کی۔” اگر تم مجھے جانے نہیں دو گے تو 50000 لوگوں کا خون تمہاری گردن پر ہو گا !”پھر وہ تیزی سے کوٹھڑی کے کونے میں چلا گیا کہ اب اُسے مار پیٹ کا سامنا کرنا ہو گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔
میں نے یہ کر لیا ! میں نے اپنے قید کرنے والوں کے سامنے گواہی دے دی ۔
اگلے دن سلاخوں کو تھامے وہ زیادہ اونچی آوازمیں بولا،” اگر تم نے مجھے نہیں جانے دیا تو 50000 لوگوں کا خون تمہاری گردن پر ہو گا !” لیکن اس کا بھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔
وہ ہر روز قید کرنے والوں سے یہ ہی بات کہتا رہا اور ہر روز اُس کی آواز اونچی ہوتی رہی جیلر نے اُسے خاموش رہنے کو کہا لیکن اُس نے نہیں سُنا ۔
اگلے ہفتے کے ختم ہونے تک جیک اتنی اونچی آواز میں چلایا کہ سب سُن سکیں ،”اگر تم مجھے نہیں جانے دو گے تو 50000 لوگوں کا خون تمہاری گردنوں پر ہو گا !”کئی گھنٹوں تک وہ یہ کرتا رہا حتیٰ کہ بہت سے سپاہیوں نے جیک کو پکڑ اور اُسے ایک فوجی ٹرک میں لاد دیا ۔
جیک نے یہ سوچتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید اُس کا انجام قریب آ گیا ہے۔ چند گھنٹے چلنے کے بعد ٹرک روک گیا۔ سپاہی اُسے سڑک کے ایک کنارے پر لے گئے اور اُسے کہا ” ہم تمہاری بلند آواز مزید برداشت نہیں کر سکتے !تم اپنے ملک کی سرحد پر ہو ہمارے ملک سے نکل جاؤ اور دوبارہ یہاں کبھی منادی کے لئے واپس نہ آنا !”
ٹرک دھول سے اٹی ہوئی سڑک پر واپس گیا اور جیک نے حیرت سے آنکھیں جھپکائیں۔ وہ پوری وفاداری سےایک ایسے ملک میں خوشخبری کی منادی کر رہا تھا جہاں یسوع کا نام کبھی سُنا نہیں گیا تھا ۔خُد انے اُسے بُلایا تھا اور خُدا نے ہی اُس کی حفاظت کی تھی ۔کچھ ہفتوں کے بعد عجلت کی ضرورت سے نڈر ہو کر جیک اور ایک اور بھائی اُسی ملک میں ایک اور بھیس میں تاریکی کا فائدہ اٹھا کر داخل ہوئے تاکہ عظیم بادشاہ کے حکم کی تعمیل کر سکیں۔ جلد ہی وہ پہلے شخص کو ایمان کے دائرے میں لے آئے- ایک ایساشخص جس کے ذریعے چرچز کے قیام کی تحریک کا آغاز ہو نا تھا ۔
CPM کے ثمر آور محرکین کے غیر مادی پہلو
CPM کے ثمر آور محرکین اور بہت سے دیگر مزدوروں کے درمیان دو واضح فرق ہیں، جیسا کہ جیک کے ساتھ ایشیا کے اُس قیدخانے میں ہوا ۔یہ عناصر یسوع اور اعمال کی کتاب میں موجود شاگردوں کی زندگیوں میں واضح ہیں۔ یہ وہ عوامل ہیں جو یسوع کے روحانی خادموں کو پھل لانے میں مدد دیتے ہیں ۔اگر چہ ان کو واضح طور پر بیان کرنا مشکل ہے ، میں انہیں عجلت اور تحمل کا نام دیتاہوں۔ اس مقصد کے لئے میں عجلت کی تعریف ان الفاظ میں کروں گا کہ مشن کے میدان میں اس خبرداری کے ساتھ رہنا کہ وقت محدود ہے۔ تحمل سے مراد مشن کے میدان میں ہر قسم کے مسائل کا سامنا اور انہیں برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا ہے ۔
یہ دو چیزیں ہمیں چرچ قائم کرنے والوں اور مشنریوں میں تلاش کرنا مشکل ہے، کیو نکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عجلت مسائل کو جنم دیتی ہے اور تحمل لوگوں کو ضدی اور سخت بنا دیتا ہے ۔
کم ازکم مغربی دنیا میں بادشاہی کے مزدور نظر آنا کم ہو گیا ہے۔ ایسے مزدور جو عجلت اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے راتوں کو جاگتے رہتے ہیں ۔ ہمیں ایسے لوگ چاہیے ہوتے ہیں جو ان کے درمیان کی راہ نکالیں۔ یسوع اور پولوس ان لوگوں کے معیار پر نہیں تھے۔ وہ ان سے بہت مختلف تھے ۔آج ہم اکثر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اپنے کا م میں توازن رکھیں اور رفتار کم رکھیں ۔پھر بھی خُد اکی بادشاہی کے لئے کام کرنے والے لوگ اسے نظر انداز کرتے جاتے ہیں ۔
“ اُس کے شاگِردوں کو یاد آیا کہ لِکھا ہے۔ تیرے گھر کی غَیرت مُجھے کھا جائے گی۔“(یوحنا 2: 17)
شاگردوں کو یسوع کے بارے میں یاد تھا کہ غیرت ایک اہم صفت تھی۔ جب جان ویزلے گھوڑے پر بیٹھے ایک سے دوسری جگہ جا کر وعظ کرتے تھے تو کیا انہوں نے بھی یہ ہی توازن رکھا؟ اگر توازن ہوتا تو کیا ایک تحریک جنم لیتی؟ یہ ہی کچھ ہم انگلینڈ میں ولیم کیری کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کیا ہیڈسن ٹیلر ، مدر ٹریزہ یا مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اس تعریف پر پورا اترتے ہیں ؟
جیم ایلیٹ شہید نے کہا
وہ اپنے خادموں کو آگ کا شعلہ بناتا ہے ۔کیا میں جل سکتا ہوں؟ وہ میرے اندر ایک ایسی غیرت پیدا کر دیتا ہے جو مجھے شعلہ بنا دیتی ہے ۔ اے خُدا مجھے اپنا ایندھن بنا ۔مجھے اپنا شعلہ بنا۔ میری زندگی کی ان لکڑیوں کو آگ لگا کہ میں تیرے لئے جلوں۔ اے میرے خُدا میری زندگی لے لے،کیو نکہ یہ تیری ہے۔ مجھے لمبی نہیں بلکہ بھر پور زندگی چاہیے ،جیسے خُداوند یسوع، تو نے گزاری ۔
آج CPM کے محرکین سے مل کر ایسے ہی جذبات دیکھنے میں آتے ہیں :جوش ، جذبہ ، عزم ، بے چینی ، متحرک ہونا ، غیرت ، ایمان ، مستقل مزاجی اور کسی بھی صورت میں انکار کو قبول نہ کرنا۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم عجلت اور تحمل کو ایسے مقام پر لے جائیں جیسے ہمیں نئے عہد نامے میں نظر آتا ہے
کیا یہ توازن خراب ہو سکتا ہے؟ یقینا ہو سکتا ہے۔ لیکن پینڈلم کا گولہ مخالف سمت میں کچھ زیادہ ہی چلا گیا ہے ۔
عجلت
عجلت کا مطلب ہے کہ ایک مقصد کے ساتھ ایک مشن پر رہا جائے اور خبردار رہا جائے کہ وقت محدود ہے
یسوع بھی عجلت کے احساس کے ساتھ جیا کیونکہ وہ جانتاتھا کہ اُس کی خدمت کا عرصہ 3 سال تک محدود ہے ۔یوحنا کی انجیل کی ابتدا سے اختتام تک یسوع نے باربار کہا کہ اُس کے جانے کا وقت قریب ہے( یوحنا 2: 4، 8: 20، 12 : 27، 13: 1) ۔یسوع جانتا تھا کہ اُس کے دن محدود ہیں اور اُسے اسی محدود وقت میں ہر وہ کام پورا کرنا ہے جس کے لئے اُس کے باپ نے بھیجا تھا ۔
“ جِس نے مُجھے بھیجا ہے ہمیں اُس کے کام دِن ہی دِن کو کرنا ضرُور ہے۔ وہ رات آنے والی ہے جِس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا۔ “(یوحنا 9: 4)
مثال کے طور پر جب شاگرد کفر نحوم کے باہر ڈیرے ڈالنے کے لئے تیار تھے تو یسوع نے اُس کے برعکس کیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ دنیا سے روانہ ہونے سے پہلے اُسے پورے اسرائیل سے گزرنا ہے ، وہ سفر کے اگلے مرحلے کے لئے نکل پڑا ۔
“ اُس نے اُن سے کہا آؤ ہم اَور کہِیں آس پاس کے شہروں میں چلیں تاکہ مَیں وہاں بھی مُنادی کرُوں کیونکہ مَیں اِسی لِئے نِکلا ہُوں۔ اور وہ تمام گلِیل میں اُن کے عِبادت خانوں میں جا جا کر مُنادی کرتا اور بدرُوحوں کو نِکالتا رہا۔” (مرقس 1: 38-39، مزید دیکھیے لوقا 4: 43-44)
ہمارے ایک ساتھی اسے ایک معیاد کی عجلت کہتے ہیں کیو نکہ مشنری خدمت کی معیاد عموما3 سے 4 سال ہوتی ہے ۔
اگر یسوع آج موجود ہوتا تو حکمران اُسے کہتے کہ وہ بہت تیز چل رہا ہے اور وہ اپنے آپ کو تھکا لے گا ۔ لیکن یسوع کی خواہش تھکنے کی نہیں بلکہ جلنے کی تھی ، خاص اُس وقت پر جو باپ نے اُس کے لئے چُنا تھا ۔اس کے ذریعے اُس کے باپ کی مرضی پوری ہوتی اور اُس کے باپ کو خوشی ملتی – ( یوحنا 4: 34، 5: 30)
تھکا دینے کا مطلب خود کو خراب کرنانہیں بلکہ زندگی کو بھر پور طریقے سے گزارنا ہے آج کل کے دور میں ہر کو ئی مصروف ہے لیکن ہر کوئی کسی مقصد کا حامل نہیں ہے۔ ہم ایک بے مقصد زندگی گزارتے ہیں لیکن اگر زندگی خُدا کے مقصد اور اُس کی حضوری کے لئے ہو تو زندگی بامقصد ہو جاتی ہے۔ یوں ہمیں خُد اکی طرف سے ہر روز شاباش ملتی ہے :” بہت خوب میرے اچھے اور وفادار خادم ” ۔ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو خُدا کے ہاتھ میں دیں کہ وہ اپنی مرضی سے اور اپنے وقت پر انہیں جلائے
یسوع اپنے شاگردوں کو بھی ایسی ہی زندگی گزارنے کو کہتا تھا ۔اُس کی تمثیلوں میں بھی عجلت نظر آتی تھی۔ شادی کی ضیافت کی تمثیل میں خادموں نے لوگوں کو کہا کہ وہ ضیافت کے لئے آئیں، اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے ( متی 24: 1-14) ۔وقت ضائع کرنے کا کوئی امکان نہیں اور خادموں کو تیار رہ کر مالک کے انتظار میں مستعد رہنا ہے ( لوقا 12: 35-48) ۔عجلت کا مطلب یہ جاننا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے پاس وقت کتنا ہے ۔اس لئے ہمیں زندگی کو ایک مقصد کے تحت گزارنا ہے ۔
اعمال کی کتاب میں شاگردوں نے بھی اسی عجلت کے ساتھ مشن مکمل کئے پولوس نے ہزاروں میل کے 3 سفر پیدل کئے اور 10 سے 12 سال کے عرصے میں اتنی جگہوں پر جانا یقینا تھکا دینے والا کام تھا ۔لیکن وہ جانتا تھا کہ اُس کا مشن بڑا ہے اور اُس کے پاس وقت کم ہے ۔ اسی لئے وہ صرف روم میں نہیں رُکا رہا بلکہ سپین کی طرف بھی گیا تاکہ کوئی ایسی جگہ باقی نہ رہ جائے جہاں کلام کی بنیاد قائم نہ ہو سکے ( رومیوں 15: 22-24) عجلت کا یہ احساس ہی خُد اکے ایسے خادموں کو متحرک کرتا ہے جو سب سے زیادہ پھل لاتے ہیں ۔
“ آدمی ہم کو مسِیح کا خادِم اور خُدا کے بھیدوں کا مُختار سمجھے۔ اور یہاں مُختار میں یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ دِیانت دار نِکلے۔ ( 1 کرنتھیوں 4: 1-2)
حصہ دوم میں ہم “تحمل” کی اہم اور ضروری خصوصیت پر غور کریں گے۔
سٹیو سمتھ، ڈاکٹر آف تھیالوجی، ( 1962-2019 ) 24:14 اتحاد کے شریک سہولت کار اور متعدد کتابوں، بشموُل T4T: A Discipleship Re-Revolution ،کے مصنف تھے ۔ انہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک دُنیا بھر میں چرچز کی تُخم کاری کی تحریکوں کو تربیت دی اور متحرک کیا۔
یہ مضموُن ابتدائی طور پر مشن فرنٹئیرز کے جنوری-فروری 2017 کے شمارے میں صفحات 40-43 پر شائع ہُوا۔missionfrontiers.org