ایک تحریک کی اقدار – حصہ اول
– سٹیو سمتھ –
اس سے قبل ہم خُدا کی بادشاہی کی تحریک کےآغاز اور نئے شاگردوں کی عہد بندی کے فورا بعد ہی تحریک کے خواص طے کرنے کی اہمیت پر بات کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے سامنے چرچز کی تخم کاری کی تحریکوں (CPM) کے بارے میں ایک بہت بڑا خدشہ بھی سامنے آتا ہے : کہ تحریک میں بدعت اور خلافِ شرع چیزیں ابھرنے لگیں گی ۔کلام واضح کرتا ہے کہ کسی بھی منادی کے دوران مسائل ضرور ابھریں گے ( مثلا ً متی ۔( 13: 24-30, 36-43یہ وہ بنیادی وجہ تھی کہ پولوس نے اپنی کلیسیاؤں کو بدعت، بدکرداری اور دیگر بہت سے گناہوں کے بارے میں خبردار کیا ۔
CPM کی تحریکوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپ کے ذاتی اختیار میں نہیں بلکہ بادشاہ کے اختیار میں ہوتی ہیں۔ تحریک کی ایک انتہائی اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اُسے چلانے کے لئے پوری طاقت صرف کی جائے ،لیکن روح القدس کے استاد ہونے کے اختیار کو نظر انداز نہ کیا جائے ۔
اختیار اپنے ہاتھ میں نہ لینے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بلکہ ہی کنارہ کش ہو جائیں ۔ شاگردی کی بنیاد چند واضح اقدار پر رکھی جاتی ہے جو CPM کے بہتے دریا کو اصولوں اور شریعت کے کناروں تک محدود رکھتی ہیں۔ اگر ہم جانتے ہوں کہ ہم نے بدعت اور خلافِ شرع باتوں سے کیسے نمٹنا ہے تو ہمیں اُن سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔اگر ہم یہ نہ جانتے ہوں تو ہمیں واقعی ان چیزوں سے ڈرنے کی ضرورت ہے ۔
ایک تحریک کی اقدار: صرف اور صرف کلام کے اختیار کی اطاعت
اگر آپ کسی بھی تحریک کو خُدا کی تحریک کے طور پر آگے بڑھتاہوا دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ CPM کی یا کسی بھی اور تحریک کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے ۔اگر تحریک اپنے اصل راستے سے ادھر اُدھر جائے تو آپ اُسے دھکیل کر ایمانداروں اور چرچز کو اصل راستے پر لا سکتے ہیں ۔ یہ وہ حدود ہوتی ہیں جن کے درمیان تحریک کو بہنااور آگے بڑھنا ہوتا ہے ۔ یہ حدود تحریک کو شرعی اصولوں ، راست اعمال اور پاکیزگی کی راہ پر رکھ سکتی ہیں ۔
اس کا دوسرا طریقہ تحریک پر انتہائی سخت گیر کنٹرول ہے۔ لیکن یہ متی 9:14-17 میں بیان کئے گئے پرانے مشکیزوں میں نئی مے رکھنے جیسا ہے۔ یسوع نے مذہبی رسوم کے اُس بھاری بوجھ کی شدید مذمت کی جو یہودی کاہن خُدا کے لوگوں پر ڈالتے تھے۔ وہ اس معاملے میں انتہائی سخت گیر تھے اور لوگوں کو غلام بنا کر چلانا چاہتے تھے۔ ان پرانی مشکوں میں شریعت کے اصول اور اخلاقی اقدار کو قوانین اور ذاتی نگرانی کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ لیکن بالاخر یہ بادشاہی کی ترقی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ CPM میں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ آپ ابھرتےہوئے ایمانداروں ، چرچز اور راہنماؤں کو یہ سِکھائیں کہ وہ خُدا کے کلام ( اختیار ) کو سُنیں اور اپنی رضامندی کے ساتھ اُس پر عمل کر کے اپنی اصلاح کریں ( فرمانبرداری) ،چاہے اُس کے نتائج کچھ بھی کیوں نہ ہوں ۔ تحریک کو بائبل کی حدود کے اندر رکھنے کے لئے کلام کا اختیار اور کلام کی فرمانبرداری دو حدیں ہیں ۔
اختیار : صرف اور صرف خدا کے کلام کا اختیار
ایماندار سینکڑوں سالوں سے کلام کو واحد اختیار اور ہدایات کا سر چشمہ مانتے رہے ہیں ۔ لیکن عملی طور پر کلام سے ہٹ کر نئے ایمانداروں اور چرچز کو دیگر عناصر کے اختیار میں دینا آسان ہے۔ اصولی طور پر ہم کہتے ہیں :” کلام اُن کے لئے حتمی اختیار کا سر چشمہ ہے ” عملی طور پر مشنری ، ایمان کے بیانیے ، چرچز کی روایات یا ” الٰہی الفاظ ” کے حتمی اختیار پر غالب آ جاتے ہیں ۔
نئے ایمانداروں کو بائبل حوالے کر کے اور انہیں صرف اُس کا مطالعہ کرنے کو کہہ دینے سے کلام حتمی اختیار نہیں بن جاتا۔ اس کی بجائے آپ کو اُن کے اندر یہ سوچ پُختہ کرنی ہے کہ خُداکا کلام ہی اُن کے لئے حتمی اختیار رکھتا ہے ۔ CPM کے دوران یا نئے چرچ کے آغاز کے ساتھ ساتھ آپ تمام نئے ایمانداروں کی سمجھ بوجھ کے لئے اصول اور خواص طے کر کے اُن کے عمل کے لئے راہ کا تعین کر دیتے ہیں ۔ پہلے ہی روز سے آپ کو لازماً اس بات کا اظہا ر کرنا ہے کہ کلام ہی پوری زندگی کے لئے اختیارات اور احکامات کا سر چشمہ ہے۔
آگے بڑھ کر ہو سکتا ہے کہ تحریک پھیلتے پھیلتے آپ کے ذاتی اثر و نفوذ سے باہر نکل جائے ۔ اگر اختیار کا تنازع ہو تو وہ کس کے اختیار کو مانیں گے ؟ اگرآپ خدا کے کلام کے ساتھ اپنی رائے بھی شامل کر دیں گے تو ایسی صورت میں کیا ہو گا ،جب جھوٹے استاد اُن کے سامنے آ جائیں جو آپ کی رائے سے اختلاف کریں ؟ جب وہ راستے سے بھٹک جائیں تو آپ انہیں واپس کیسے بُلائیں گے؟
اگر آپ نے انہیں یہ بات ذہن نشین نہیں کرائی کہ اصولی طور پر خُدا کا کلام ہی حتمی اختیار ہے تو اُن کے غلط ہونے کی صورت میں آپ کے پاس انہیں بُلانے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا ۔ایسی صورت میں یہ صرف آپ کی اور دوسروں کی رائے کا ٹکراؤ اور اختلاف بن جائے گا ۔ اگر آپ نے اپنے ہی الفاظ اور احکامات کو حتمی اختیار کا درجہ دے رکھا ہے تو آپ تحریک کو ناکا می کی جانب بڑھا رہے ہیں ۔
بائبل سے ایک مثال : 1 کرنتھیوں باب نمبر 5
مسیح کے ایک رسول پولوس نے بھی اپنی رائے کو حتمی اختیار بنانے سے گریز کیا ۔ اس کی بجائے وہ کلیسیاؤں کو کلام کے حوالے دیتا رہا ۔ پولوس کے قائم کردہ چرچز میں شروع سے ہی بدعت اور خلاف ِ شرع چیزیں شامل ہونے لگی تھیں۔ اسے روکنے کا کو ئی طریقہ نہیں تھا ۔ لیکن پولوس نے چرچز میں ایک ایسی چیز شامل کردی جس کی بنا پر وہ اس مسئلہ سے نمٹ سکتا تھا ۔ اس کی مثال کرنتھیوں کے نام پہلے خط کے 5 باب میں نظر آتی ہے
“ کہ تُم اُس میں ہو کر سب باتوں میں کلام اور عِلم کی ہر طرح کی دَولت سے دَولت مند ہو گئے ہو۔ “( 1کرنتھیوں 1:5)
ایساگناہ تحریک کو اصولوں سےدُور کر دے گا ۔ایک حقیقت پسند شخص ہوتے ہوئے پولوس کو احساس تھا کہ شیطان کڑوے دانے ضرور بو دے گا لیکن اس حقیقت کی وجہ سے منادی میں آگے بڑھنے کا اُس کا جذبہ کمزور نہیں پڑا ۔
ایسی صورت حال میں یہی حل تھا کہ ایسے شریر آدمی کو اُن کے درمیان سے نکال دیا جائے جب تک کہ وہ نہ پچھتائے ( 1کرنتھیوں 5: 5) ۔اس موقع پر پولوس ایک روحانی باپ کی حیثیت سے اپنا اختیار استعمال کر سکتا تھا ۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مستقبل میں سامنے آنے والی کسی بھی اسی صور ت حال سے نمٹنے کے لئے پولوس موجود نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک اور مسئلہ یہ ہو سکتا تھا کہ پولوس کی رائے کے خلاف کسی اور شخص کی رائے بھی سامنے آ سکتی تھی ( مثلا 2 کرنتھیوں 11:3-6) .
اس کی بجائے پولوس نے خُدا کے کلام کا حوالہ دیا ۔
شریر آدمی کو اپنے درمیان سے نکال دو۔ ( 1 کرنتھیوں5:11)
پولوس نے اس فیصلے کے لئے راہنمائی کے طور پر استثنا کے باب نمبر 22 کا حوالہ دیا :
“ اگر کوئی مَرد کِسی شَوہر والی عَورت سے زِنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مَرد بھی جِس نے اُس عَورت سے صُحبت کی اور وہ عَورت بھی ۔ یُوں تُو اِسرائیل میں سے اَیسی بُرائی کو دفع کرنا۔” (استثنا 22: 22)
آپ کلام کو حتمی اختیار بنانے کا جذبہ کس طرح پروان چڑھا سکتے ہیں ؟ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی بجائے ایمان داروں کو کلام کے حوالوں سے رجوع کرنے کو کہیں,جو انہیں کسی فیصلے تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
سرگرم اور صحت مند تحریکوں میں ایک طے شدہ جواب ہے :” بائبل اس بارے میں کیا کہتی ہے ؟” جب آپ بار بار یہ سوال پوچھتے ہیں تو ایماندارجلد ہی جان جاتے ہیں کہ انہیں بائبل کو ہی حتمی اختیار کے طور پر قبول کرنا ہے نہ کہ آپ کو بحثیت ایک معلم ،چرچ کے تخم کار یا مشنری کے طور پر حتمی اختیار کا حامل سمجھنا ہے ۔
اس مقصدکے حصول کے لئے سر گرم اور صحت مند تحریکیں نئے ایمانداروں کے لئے ایک آسان سا طریقہ واضح کرتی ہیں تاکہ وہ بائبل سُن یا پڑھ کر صحیح طور پر اُسے سمجھ سکیں۔ شاگرد کھُلے دل اور صاف ذہن کے ساتھ بائبل کھولتے ہیں اور بائبل کی سمجھ بوجھ میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ وہ اپنی روحانی غذا خود حاصل کرنے لگتے ہیں ۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ کبھی بھی کسی سوال کا جواب نہ دیں لیکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ آپ جذبات میں بہہ کر اُن کے سوالوں کے جواب نہ دیتے چلے جائیں، اور ایمانداروں کے گروہ کو کلام سمجھنے کا ایک موثر طریقہ سِکھا دیں ۔ آپ یہ جان کر حیران ہو ں گے کہ روح القدس کی راہنمائی کے تحت مسیح کا بدن بائبل سے سارے جواب حاصل کرنے کا اہل ہے۔ یہ جسم اپنے عارضے حیرت انگیز طور پر خود ہی ٹھیک کرنے کا اہل ہے ( متی 18:20 ) ۔
حصہ دوم میں ایک تحریک کی دیگر لازمی اقدار پر روشنی ڈالی جائے گی۔
مشن فرنٹئیرز www.missionfrontiers.orgکے جنوری-فروری 2014 کے شمارے میں صفحات نمبر 31-29 پر شائع ہونے والے مضمُون کی تدوین شدہ شکل۔