Categories
حرکات کے بارے میں

بادشاہ کا جلال و جمال دیکھنے کی کیا قیمت ہے ؟

بادشاہ کا جلال و جمال دیکھنے کی کیا قیمت ہے ؟

ڈاکٹر پیم آرلینڈ اور ڈاکٹر میری ہو –

دنیا بھر میں بادشاہی کی خوشخبری کی منادی  ہر ایماندار کی اُمید اور التجا اور متی 24 کا نُکتۂ  انتہا ہے ۔دراصل متی 24 ایک ایسے اہم سوال کا جواب دیتا ہے جو خُدا   کے لوگ زمین کی تخلیق کے وقت سے پوچھ رہے ہیں : دنیا بھر کی قوموں میں سورج کے طلوع اور غروب ہونے تک خُدا کے نام کو عظیم  بنانے کی  کیا قیمت ہو گی؟ ( ملاکی 1: 11)

وہ نسل جو متی 24: 14 کی تکمیل کرئے گی اُسے آخری نسل کے طور پر کیا کچھ برداشت کرنا پڑے گا ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ایسی نسل ہونے کا آغاز حاصل ہے جو کہہ سکتی ہے کہ دنیا کے کسی بھی ٹائم زون میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں یسوع کی عبادت نہ ہو رہی ہو۔ تاہم ہر ٹائم زون میں ایسے تاریک مقامات موجود ہیں جہاں یسوع کوئی جانتا نہیں اور اُسکی عبادت نہیں ہو رہی۔  ایسانہیں ہو نا چاہیے ۔

اگرچہ ہمیں متی 24: 14  کی آیت بہت اچھی لگتی ہے لیکن ہم بقیہ باب کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یسوع واضح کرتا ہے کہ جب خُدا کا جلال دنیا کی تمام قوموں میں پھیلے گا تو اُس سے پہلے بہت سی آفتیں بھی آئیں گی  مثال کے طور پر : 

  • ایک عالمگیر جنگ ( آیت 6-7)
  • خشک سالی اور زلزلے ( آیت 8 ) 
  • ایذارسانی اور موت ( آیت 9)
  • تمام قوموں کی نفرت ( آیت 9) 
  • بہت سے لوگ اپنے ایمان سے انکار کر دیں گے ( آیت 10) 
  • جھوٹے نبی ( آیت 11، 22) 
  • بُرائیوں میں اضافہ ( آیت 12) 
  • بہت سوں کی محبت کا سرد پڑ جانا( آیت 12) 
  • لا قانونیت کا بڑھ جانا ( آیت 12) 

یسوع واضح کرتا ہے کہ بادشاہی کا آنا  نہ ہی آسان ہے اور نہ ہی صاف ستھرے طریقے سے ہو سکتا ہے ۔ تاہم اسی باب میں ہمیں 5 ایسے طریقے بتائے گئے ہیں جن کے ذریعے ہم آخر تک مستحکم رہ سکتے ہیں ( آیت 13) 

نمبر 1 یسوع ہمیں متحرک اور چاک و چوبند رہنے کو کہتا ہے وہ بتاتا ہے کہ ہمیں ایک سیکنڈکے نوٹس پر بھاگنے کے لئے تیار رہنا چاہیے ( آیت 16)  بادشاہی کا آنا ہمیں اچانک ہی پکڑ لے گا ۔سو ہمیں اپنی زندگیوں میں تبدیلیوں اور اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کے لئے تیار رہنا ہو گا ۔مہاجرین کا حالیہ بحران ایک ایسا ہی موقع ہے ۔اس صدی میں مسلمانوں کے مسیحی ہونے کی تعداد پچھلی صدیوں سے کہیں زیادہ ہے ۔جن لوگوں نے مہاجرین کے بحران پر کام کیا ہے  اُنہوں نے کئی مسلمانوں کو مسیح میں آتے دیکھا ہے۔ لیکن بہت سوں نے اس بحران سے ملنے والے موقع کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا باقاعدہ کام چھوڑ دیا ہے۔ مستقبل میں بھی ایسے موقعے ملتے رہیں گے اور ہمیں خُدا کی جانب سے آنے والے ان مواقعوں پر ردعمل کے لئے فوری تیار رہنا ہو گا ۔ دراصل ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام آفتیں اور مصیبتیں بادشاہی کی تحریکوں کو مستحکم کرنے کا ایک لاثانی موقع ہیں ۔لیکن اس کے لئے خُد اکی قوم کو متحرک اور چُست رہنے کی ضرورت ہے ۔

نمبر2 یسوع ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں بھاگنا تو پڑے گا لیکن اپنی مصیبت کے دوران ہم اُس سے رحم کی درخواست کر سکتے ہیں ( آیت 20)۔ ہمیں مسلسل دعا کرنے والی قوم بننا ہو گا۔ یہ چند منٹ کی دعا نہیں۔  نہ ہی یہ ایسی ہے جس میں  ہم خُد اسےکچھ کرنے کو کہیں۔  یہ ایسی جنگ ہو گی جس میں خُد اکے بیٹے اور بیٹیوں آسمانی باپ کے ساتھ مل کر دشمنوں کے ساتھ لڑ رہے ہوں گے – ایسے دشمن جو نہ دیکھے جا سکیں اور نہ جن کی چال کا پتہ چل سکے ( افسیوں 6) اس قسم کی دعا مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ خوشی سے بھر پور بھی ہے ۔

نمبر3 یسوع ہمیں تیار رہنے کو کہتا ہے ( آیت نمبر 42) ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خُدا کی حکمت عملیوں کے لئے تیار رہیں ۔ہمیں جھوٹے نبیوں کے خلاف خبردار کیاگیا ہے ہم جھوٹے نبیوں اور اصل نبیوں  میں تمیز کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ صرف بادشاہ کے دل کی مرضی جان کر ہو سکتا ہے۔ وہ ہمارے دل ، روح ، دماغ اور قوت پر اختیار رکھتا ہے۔ اور جب وہ ایسا کرتا ہے تو اُس سے ہم جرأت پاتے ہیں  ، ایک مختلف زندگی گزارتے ہیں ، نفرت کرنے والوں اور دشمنوں سے محبت کرتے ہیں اور تکلیفیں برداشت کرتے ہیں۔ یہ محبت 1 کرنتھیوں باب نمبر 13 جیسی محبت نہیں جو سب کچھ سہہ لیتی ہے، بلکہ ایک  سرگرم مثبت محبت ہے ۔یہ ایک سپاہی کی صبر و برداشت کی محبت ہے جو جنگ کے میدان میں مایوسی کا اظہار نہیں کرتا ۔

نمبر4 یسوع ہمیں دیانتدار نوکر بننے کو کہتا ہے ( آیت 45)  جو ضرورت مندوں کو کھانا دیتا ہے۔ یہ حقیقت میں خوراک کے بارے میں نہیں کہا گیا بلکہ ایک تمثیل ہے ۔قدرتی آفتوں کے برعکس جس میں ہم ضرورت مندوں کو خوراک دیتے ہیں ،ہم خادموں کو ایسے لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں جنہیں روحانی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس تمثیل سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ دنیا کے نظر انداز کئے ہوئے لوگوں اور قوموں کو ترجیح دیں۔  ہمیں ایمانداری سے یہ سمجھنا ہو گا کہ ہمارے ارشاداعظم کے  خادموں کو پورے دل کے ساتھ وہاں کام کرنے کی ضرورت ہے جہاں روحانی کمی سب سے ذیادہ ہے ۔

نمبر 5 یسوع ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے زمینی اسباب سے جُڑے نہ رہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ ہمیں واپس جا کر اسباب لینے کی ضرورت نہیں ( آیات 17-18)۔ یہ طرز زندگی ہمارے پڑوسیوں کے طرز زندگی سے مختلف ہے۔  ہم اپنی جسمانی خواہشات ، دولت اور حسن وجمال کے لئے زندہ نہیں رہتے ( رومیوں 8: 5) ۔اس کی بجائے ہم بادشاہ کا حُسن و جمال دیکھنے کے لئے زندہ ہیں۔ یوں ہمیں اپنی خوشی اور عیش وعشرت  پر کم وقت لگا کر زیادہ تر وقت دوسروں کی بھلائی کے لئے لگانا چاہیے، تاکہ ہمارا وقت اور ہمارے وسائل ایک ان دیکھے جلال کو سامنے لانے کا موجب بنیں ۔

بادشاہ کا حُسنِ جمال دیکھنے کے لئے زندہ رہنا قربانی کا تقاضا کرتا ہے – انتہا درجے کی قربانی ،ایک ایسی قربانی جو بہت تکلیف دیتی ہے ۔تاہم اس قربانی کے ساتھ  ، جیسا کہ ملاکی 1: 11 میں کہا گیا ہے ، کہ ہر جگہ اُس کا نام قوموں میں عزت پائے گا اور اُس کی تمجید ہو گی اور ہماری پاک قربانیوں کا بخور جلے گا۔ اگر اُس کا نام قوموں میں  بلند کرنا ہے تو اُس کے لئے کوئی قربانی بھی دی جا سکتی ہے ۔

متی 24: 14 میں یسوع کا وعدہ یقینا پورا ہو گا بادشاہی کی خوشخبری کی منادی دنیا  کی تمام قوموں میں ہو گی کیا ہم اپنی نسل میں اس مقصد کے  پورے ہونے کے لئے ضروری  قربانیاں دینے کو تیار ہیں ۔

Share on facebook
Share on twitter
Share on linkedin
Categories
حرکات کے بارے میں

چرچز کی تخم کاری سے شاگرد سازی کی تحریکوں تک ایک ایجنسی کی تبدیلی۔حصہ دوم

چرچز کی تخم کاری سے شاگرد سازی کی تحریکوں تک ایک ایجنسی کی تبدیلی۔حصہ دوم

آیلا ٹیسے –

حصہ اول میں ہم نے بتایا تھا کہ خداوند نے لائف وے مشن کے طریقہ ٔ کار کی تبدیلی میں کس طرح رہنُمائی کی۔  اب ہم ہم تبدیلی کی راہ میں آنے والے چیلنجز، تبدیلی سے حاصل ہونے والے پھل اور اُن کلیدی عوامل پر بات کریں گے جنہوں نے ہمیں قائم رکھا اور پھل لانے میں مدد دی۔ 

تبدیلی کی راہ میں در پیش چیلنج

  ہماری اس تبدیلی کے ساتھ ہر کوئی اتفاق نہیں کر رہا تھا۔ کچھ لوگ محسوس کرتے تھے کہ یہ ایک بے کار کام ہے کیونکہ اس میں چرچ کی عمارت یا اُس عمارت کے اندر ہونے والے پروگراموں پر توجہ نہیں دی جا رہی تھی۔ کچھ روایتی مسیحیوں کا خیال یہ تھا کہ ہم چرچ کو بحیثیت ایک ادارہ نظر انداز کر رہے ہیں  ۔کچھ مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے راہنماؤں کا خیال تھا کہ ہم اُس روایت خلاف جا رہے ہیں جس پر چرچ سال ہا سال سے عمل کر رہا ہے۔ شہروں میں کام کرنے والے کچھ لوگوں کو یہ خدشہ تھا کہ شاگرد سازی کا طریقہ کار شہر کے لوگوں تک رسائی کے لئے کام نہیں کرئے گا۔ ہم نے ڈیوڈ واٹسن سے یہ سیکھا تھا کہ چرچز دو قسم کے ہوتے ہیں، ہاتھی نما چرچز بمقابلہ خرگوش نما چرچز ۔ کچھ لوگوں کو اس پر بہت اعتراض تھے کچھ ہم پر یہ الزام لگاتے تھے کہ ہم امریکیوں سے ایسی چیزیں سیکھ رہے ہیں جو افریقہ میں کام نہیں کریں گی۔ کچھ کارکن ایسے بھی تھے جو تبدیل ہونا ہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ وہ وہی کچھ پسند کرتے تھے جو وہ پہلے کر رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا ، ” لائف وے کی تنظیم بڑھ رہی ہے اور ہم مقامی لوگ ہیں خُداوند نے ہمیں ہر قسم کے چیلنجز عبور کرنے  میں مدد دی ہے اور اب ہم اپنی سمت تبدیل کیوں کریں ؟”کچھ کارکنان کو یہ ڈر بھی تھا کہ وہ کچھ کھو نہ دیں ۔اُن کے خیال میں اس عمل کے نتیجے میں  ایسی چیزیں سامنے آ سکتی تھیں جو انہیں پسند نہ ہوں ۔

اُس وقت مجھے بہت  صبر و تحمل کی ضرورت تھی کیو نکہ ہر کوئی چیزوں کو اُس انداز سے نہیں دیکھ رہا تھا جیسے میں دیکھ سکتا تھا۔ میں پہلے ہی ڈیوڈ واٹسن سے اختلاف کر چُکا تھا اس کے علاوہ میں ڈیوڈ ہنٹ پر بھی برہم تھا جنہوں نے مجھے CPM    کے اصولوں کا تجربہ کرنے کی  تربیت دی تھی۔ دیگر لوگ ابھی تک اس تبدیلی کے ساتھ لڑ رہے تھے ،جب کہ میں آگے بڑھتا جا رہا تھا میرے بہترین راہنماؤں میں سے ایک اس نئے انداز کے کام کے بہت خلاف تھے۔ انہیں یہ کام کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی تھی ۔

جب ہم نے 2005 میں CPM    کا طریقہ کار اپنایا تو اُس وقت ہمارے 48 مشنریز مشرقی افریقہ کے دو ملکوں میں کام کر رہے تھے۔ اُن میں سے 24 لوگ کُل وقتی کارکن تھے جبکہ دوسرے جُز وقتی سرگرم کارکنان تھے 2007۔ میں جب ہم اس تبدیلی کو سامنے لا رہے تھے ایک فرقہ آیا اور ہمارے 13 کارکنان کو  ایسے علاقے سے باہر لے گیا جہاں تحریک تیزی سے پھیل رہی تھی۔ انہوں نے انہیں بہتر  تنخواہیں اور عہدے پیش کئے۔ میرے 2 بہترین ساتھی مجھ سے جُدا ہو گئے جس پر مجھے بہت افسوس ہوا ۔میں اس بات پر بھی حوصلہ ہار رہا تھا کہ 2 سالوں میں ایک ایسے علاقے میں کام تقریبا رُک چُکا تھا ،جہاں پہلے بہت سا پھل مل رہا تھا۔ 2008 سے 2010 تک کا دورانیہ خاص طور پر حوصلہ شکن تھا کیونکہ اس تبدیلی کے دوران ہمارے کچھ بہترین کارکنا ن ہم سے الگ ہو گئے ۔

تبدیلی کے بعد سے حاصل ہونے والا پھل

جب سے ہم CPM   اور شاگرد سازی کی طرف آئے ہیں، ہم نے اپنی منسٹری کی بجائے خُداوند کی بادشاہی پر توجہ دینا شروع کی ہے ۔ہم اب یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا کیا ہے – ہمارا مقصد ہماری خدمت وغیرہ، یہ خُدا کی بادشاہی اور اُس کا کام ہے۔ تحریکوں کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم اپنی ضروریات پیچھے چھوڑ کر بادشاہی کی تحریک کو آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔ خُداوند نے گذشتہ چند سالوں میں بہت حیرت انگیز افزائش لائی ہے ۔افریقہ کے ملک کینیا میں ہماری ابتدا سے اب تک ہم مشرقی افریقہ کے 11 ملکوں میں  شاگرد سازی کی تحریکوں کو سر گرم اور متحرک کر رہے ہیں ۔

سال 2005 سے تقریبا  9000 نئے چرچز مشرقی افریقہ کے علاقے میں قائم ہو چُکے ہیں۔ اُن ممالک میں سے ایک میں تحریک چرچز کے قیام کی سولہ نسلیں عبو ر کر چُکی ہے   ایک اور ملک میں مختلف قبیلوں کے درمیان یہ کام   چھٹی ، ساتویں اور نویں نسل تک پہنچ چُکا ہے ۔ خُداوند نے ہمیں اس قابل کیا کہ ہم اُس علاقے میں 90 سے زیادہ قبیلوں اور 9 شہری  وابستگی رکھنے والے گروہوں  میں  سر گرم ہو سکیں ہم حیرت  اور جوش کے ساتھ ہزاروں نئے چرچز اور مسیح کے لاکھوں نئے پیروکاروں کو جنم لیتا دیکھ رہے ہیں ۔

ہم اپنے ابتدائی ہدف میں شامل تمام نارسا قوموں کو سر گرم کر کے اُس سےبہت آگے بڑھ چُکے ہیں ۔اب ہم جوشوا پراجیکٹ  کے مطابق 300 نارسا قبیلوں تک پہنچنے کی بات کر رہے ہیں۔ ہم دن بدن ،ایک سے دوسرے ملک میں اس پر کام کر رہے ہیں ۔ہم دعائیں کر رہے ہیں اور نارسا اور غیر سر گرم لوگوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 

شاگرد سازی کی تحریکیں محض ہمارے مشن کا کوئی ایک پروگرام نہیں ہیں ۔یہ اہم ترین تحریک ہے اور ہماری ہر سر گرمی کا مرکز ہے۔ چاہے خدمت کی تحریک ہو ، قیادت کی تحریک ہو یا چرچ کی خدمت ہو ، شاگرد سازی کی تحریک اُس کے مرکز میں  ہوتی ہے۔ اگر کوئی چیز شاگرد سازی کی تحریک سے ہٹ کر ہو  تو ہم اُسے چھوڑ دیتے ہیں۔ ہماری ترجیحات میں حالیہ کام کو جاری رکھتے ہوئے نئے اور نارسا علاقوں تک پہنچنا  شامل ہے۔ ہم مسلسل ابتدا ، افزائش  اور باتسلسل تحریکیں چلا رہے ہیں ۔کسی نئے علاقے میں خدمت شروع کرنے سے پہلے ہم تحقیق کرتے اور دعا کرتے ہیں کہ خُدا ہمارے لئے دروازے کھولے۔ تحریک کے تسلسل کے لئے ہم ہر چار ماہ کے بعد شاگرد سازی کی تحریک کی حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ پورے مشرقی افریقہ سے ملکی راہنما ان میٹنگز میں شامل ہو کر تربیت اور حوصلہ افزائی فراہم کرتے ہیں ۔

ہمیں قائم رکھنے اور پھل لانے والے کلیدی عناصر

  1. دعا میرے لئے ہمیشہ عظیم ترین وسیلہ رہی ہے ۔
  2. ہر وقت خُدا کے کلام سے جُڑے رہنا – میں جو کچھ کرتا ہوں وہ تب ہی باقی رہ سکتا ہے اگر وہ خُد اکے کلام پر قائم ہو ۔
  3. راہنماؤں کی تربیت – خُداوند نے مجھے اس معاملے میں مدد فراہم کی  اور مجھے یہ واضح کیا کہ میں اکیلا خود کچھ نہیں کر سکتا ۔
  4. میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ میں مقامی لوگوں کو اپنی منسٹری میں شامل کروں ۔اگر انہیں ملکیت کا احساس ہوتا رہے  تو میرے اخراجات بھی کم ہو جاتے ہیں ۔
  5. نیٹ ورکنگ اور رابطہ کاری  -میں ایسے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہوں جو میرے جیسا کام کر رہے ہیں جب تک خُدا شاگرد بنانے میں مدد دے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ منسٹری کس کے نام پر چل رہی ہے ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے ہم شاگرد سازی کے کسی بھی موقع میں شریک ہونے کے لئے ہر وقت  تیار رہتے ہیں – کیونکہ اہم ترین کام اُس ذمہ داری کو پورا کرنا ہے جو یسوع نے ہمیں دی ہے۔

ہم خُداوند کو دوسرے لوگوں اور دوسرےگروپوں کو استعمال کرتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور شراکت داروں کے ساتھ رابطے قائم کرتے ہیں ضروری ہے کہ ہم مسیح کا بدن بن کر کام کریں اور دوسروں سے سیکھ کر انہیں وہ سیکھائیں جو ہم جانتے ہیں ہم خُد اکی تمجید کرتے ہیں کہ اُس نے اپنی بادشاہی کی پیش روی میں ہماری راہنمائی کی تاکہ ہم شاگرد سازی کی تحریکوں کے ذریعے نارسا لوگوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔

 ڈاکٹر آیلا ٹیسے  لائف وے مشن انٹرنیشنل ( www.lifewaymi.org) کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں یہ مشنری 25 سال سے زیادہ عرصے سے نارسا لوگوں میں کام کر رہی ہے ایلا افریقہ اور دنیا بھر میں شاگرد سازی  کی تحریکوں کی تربیت اور نگرانی کرتے ہیں وہ ایسٹ افریقہ CPM    نیٹ ورک کا حصہ اور ایسٹ افریقہ کے لئے نیو جینریشنز کے علاقائی کوآرڈینیٹر ہیں ۔ 

Share on facebook
Share on twitter
Share on linkedin
Categories
حرکات کے بارے میں

چرچز کی تخم کاری سے شاگرد سازی کی تحریکوں تک ایک ایجنسی کی تبدیلی- حصہ اول

چرچز کی تخم کاری سے شاگرد سازی کی تحریکوں تک ایک ایجنسی کی تبدیلی- حصہ اول

– آیلا ٹیسے –

اگست 1989 میں میں نے شمالی کینیا کے کچھ مسلمان گروپوں میں منادی شروع کی  اور 1992 میں میں نے منادی کو وسعت دینا شروع کر دی ۔1994 سے 98 تک میں نے نارسا لوگوں کے گروہوں پر تحقیق شروع کی   اور 1996 میں لائف وے مشن کا قیام ایک مقامی مشن ایجنسی کی حیثیت سے ہو گیا۔ اُس دوران ہمارا گروپ کافی حد تک بڑا ہوا ۔ہمیں وہ لوگ آ ملے جو اُن بہت سے قبیلوں کی زبانیں بول سکتے تھے ،جن تک ہم پہنچنا چاہتے تھے  ۔نارسا گروپوں کے بہت سے لوگ بھی ہماری منسٹری میں شامل ہوکر خدمت انجام دینے لگے ۔ سو میں نے ایک چھوٹاسا مشن سکول قائم کیا اور انہیں تربیت دینا شروع کر دی  ۔چونکہ میں سیمنری جاتا تھا تو میں نے وہاں سے سیکھا ہوا تمام علم اُن تک منتقل کر دیا ۔ہم نے نوجوان لوگوں کو تربیت دی اور انہیں اُن کے علاقوں میں واپس بھیجا ۔لوگوں تک رسائی اور چرچز کی راہنمائی میں یہ ہی لوگ اگلے محاذوں  پر تھے ۔

1998 میں ایک موڑ آیا جب میں نے اپنے بڑے مقصد کے حصول کے لئے کام شروع کر دیا ۔میں نے مقامی لوگوں کوذمہ داریاں دینا شروع کیں جن کو میں تربیت دے رہا تھا۔میں نے کہا  ،” بہترین  طریقہ یہ ہو گا کہ اگر ہم مقامی معاشرے سے ہی لوگ تلاش کریں ” ۔ سو وہ ایک ماہ کے عرصے تک مقامی لوگوں میں  جاکر راہنما تلاش کرتے۔ واپس آ کر وہ اُن راہنماؤں کو ہمارے تربیتی مرکز میں داخل کر دیتے ۔ہم اُن کلیدی راہنماؤں کو دو مہینے کی تربیت دے کر اُن کے علاقے میں واپس بھیج دیتے ۔وہ خادم جنہوں نے اُن سے سب سے پہلے رابطہ کیا ہوتا وہ تربیت کار  کا کردار جاری رکھتے تھے ۔میں نے یہ سب کچھ سیکھا نہیں تھا لیکن جیسے جیسے یہ چیزیں ہوتی گئیں میں  ساتھ ساتھ سیکھتا بھی چلا گیا ۔ ہمارے پاس سیکھنے کو کچھ نہیں تھا، لیکن ہم حالات و واقعات سے سیکھ رہے تھے ۔سو ہمارے منسٹری کے پروگرام عملی میدان میں ضرورتوں کے مطابق تشکیل پاتے تھے  میں ایسی بہت سی چیزیں سکھا رہا تھا جو بعد میں CPM  کے روپ میں بدل گئیں ۔



ایک نئے طریقہ کار پر غور و فکر

2002 اور 2005 کے درمیان میں نے چرچز کی تخم کاری کی تحریکوں کے بارے میں سُننا شروع کیا ۔ لیکن اُس وقت تک میں افریقہ کے دیگر CPM   کے راہنماؤں کے ساتھ تربیت میں شامل نہیں ہوا تھا ۔ہمارے مشنریوں نے ہمارے مرکزی علاقے میں تمام نارسا لوگوں تک رسائی حاصل کر لی تھی لیکن ابھی تک ہم ایک تحریک نہیں بنے تھے۔ میں نے چرچز کی تخم کاری پر ایک مقالہ لکھا تھا اور اس بار ے میں کئی قسم کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں، جس میں ڈیوڈ  گیریزن کی کتاب چرچ پلانٹنگ موومنٹ بھی شامل تھی۔  لیکن میری سوچ کے لئے ایک بڑا چیلنج سال 2005 میں سامنے آیا ۔

میں مغربی افریقہ کے ایک بھائی سے ملا جو ایک تربیت کا آغاز  کر رہے تھے اور ڈیوڈ واٹسن  اُس میں مرکزی تربیت کار تھے ۔یہ ہی وہ وقت تھا جب میں تحریک کے تصور سے پوری طرح آشنا ہوا ۔ لیکن مجھے ڈیوڈ واٹسن کے الفاظ قبول کرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ وہ مجھے کہہ رہے تھے “تمہیں یہ کرنا ہے ،تمہیں وہ کرنا ہے ” اور اُن کی رائے انڈیا میں ہندؤوں کے ساتھ کام کے تجربے پر مبنی تھی ۔

میں نے کہا،” آپ کبھی مسلمان نہیں رہے۔ میں مسلمان پس منظر سے تعلق رکھنے والا ہوں اور مجھے افریقی مسلمانوں میں کام کر کے پھل لانے کرنے کا  تجربہ ہے۔ ہمارے تناظر میں چیزیں ویسے نہیں ہوتیں جیسے آپ کہہ رہے ہیں ” ۔میری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ میں  اپنے کام اور طریقے کا دفاع کرنا چاہتا تھا۔  میں محسوس کرتا تھا کہ میں مسلمانوں کے درمیان چرچز قائم کرنے میں کامیاب ہو ں۔ سو میں پیچھے ہٹ گیا ۔

لیکن سب سے اہم بات یہ تھی ،” اگر میں کسی CPM   جیسا طریقہ اختیار نہ کروں تو میں ان لوگوں  میں کام کی تکمیل کیسے کروں گا ؟” خُدا مجھ سے کہہ چکا تھا ،” اپنی زندگی کی افزئش کر کے اپنے جیسے بہت سے لوگ اور بہت سی زندگیاں پیدا کرو”اور اُسی نے میرے نصب العین کو میرے آبائی علاقے سے بڑھا کر پورے مشرقی افریقہ تک پھیلایا تھا ۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا، لیکن میں اتنا ضرور جانتا تھا کہ خُدا نے اس بارے میں مجھ سے کچھ کہہ رکھا ہے ۔تب ہی تحریکوں کی راہ پر میرا سنجیدہ سفر شروع ہو گیا۔  میں نے محسوس کیا کہ طریقۂ     کار سے زیادہ اہم یہ ذمہ داری تھی۔ میں چاہتا تھا کہ میں بائبلی انداز میں یہ کام کم ازکم وقت میں ختم کروں، تاکہ خُدا کے نام کو جلال ملے ۔ میں نے محسوس کیا کہ میں ایک بڑے فیصلے کے لئے تیار ہوں -اُس آدمی کی طرح  جس نے اپنا سب کچھ بیچ کر وہ کھیت مول لے لیا تھا جس میں خزانہ چُھپا ہوا تھا۔ میں  کسی بھی قیمت پر خُدا کے نام کے جلال کے لئے نارسا لوگوں میں  بہترین خدمات انجام دینا چاہتا تھا ۔

سال 2005 کے آس پاس میں نے نارسا لوگوں تک رسائی کے لئے CPM   کے بارے میں بات کرنا شروع کی۔ میں فرنئٹیر مشن کے بارےمیں بہت پُر جوش تھا  اور میں مزید چرچز قائم کرنا چاہتا تھا ۔میں پہلے ہی CPM   کی طرز کے کام کر رہا تھا ،لیکن 2005 کی تربیت نے مجھے مزید وسائل اور رابطے دے دیئے ۔

ابتدا میں میں اپنی توجہ مرکوز نہیں کر سکا، لیکن اگلے چند سالوں میں میں نے ڈیوڈ ہنٹ کے ساتھ مل کر CPM   کے اصولوں کا استعمال اور تربیت دینا شروع کر دی ۔انہوں نے میری تربیت کرنے اور میرے سوالوں کے جواب دینے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ۔انہوں نے میرے سفر میں میری بہت حوصلہ افزائی کی CPM۔   کے بارے میں کچھ زیادہ جانے بغیر اور اُس پر اعتراضات اُٹھا نے کی بجائے میں نے اپنی طاقت CPM   کے اصول لاگو کرنے پر لگائی اور مجھے پھل ملنا شروع ہو گیا ۔میں نے جانا کہ CPM   کے زیادہ تر اصول تو بائبل میں ہی موجود ہیں ۔ہم نے CPM   کی تربیت کر کے لوگوں کو بھیجنا شروع کیا۔ جب میں نے تحریکوں کے بارے میں  مزید معلومات حاصل کئیں تو اُن کی حکمت عملی مجھ پر واضح ہو تی گئی اور سال 2007 کے شروع میں تحریکیں آغاز پکڑنے لگیں۔ میری سوچ میں ایک تبدیلی اور بھی آئی ،جب میں نے چرچ کو ایک مختلف نظر سے دیکھ کر پوچھا  :” چرچ ہوتا کیا ہے ؟” چرچ کے بارے میں میرا پرانانُکتہ نظر ایسانہیں تھا جو چرچ کی افزائش کر سکے۔  اب میں نے چرچ کو انتہائی سادہ بنیادوں پر استوار دیکھا جو کہ بہت بہترین افزائش کر سکتا تھا ۔

دو اور عوامل نے بھی میری سوچ میں بہت بڑی تبدیلی لائی :

  1.  لوگوں کو سچ بتانے کی بجائے انہیں سچ کی دریافت کرنے میں مدد دینا اور۔
  2. فرمانبرداری شاگردی کا لازمی عنصر ہے ۔

میں نے دیکھا کہ اس بنیادی تبدیلی کے ذریعے میری خدمت اور منادی کی رفتار میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ۔

 

لائف وے مشن کے طریقۂ                      کار میں تبدیلی

یہ تبدیلی میرے دماغ میں تو آئی لیکن میں نے لائف وے کو CPM   کی جانب نہیں دھکیلا۔ میں ایک بڑے سوال پر سوچتا رہا :” ہم بقیہ کام کیسے مکمل کرسکتے ہیں ؟ ہم نے چرچز کی ابتدا ہوتے دیکھی ہے لیکن کیا ہمارے موجودہ طریقہ کار ہمیں منزل تک پہنچا سکتے ہیں ؟ کیا خُد ا نے ہمیں ارشاد اعظم کی تکمیل کے لئے کسی مخصوص طریقۂ           کار پر عمل کرنے کو کہا  ہے؟” میرا خیال ہے کہ خُدا اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی طریقہ استعمال کر سکتا ہے ہمیں صرف اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ وہ سنجیدگی سے اس مقصدکی خاطر کون سے طریقے استعمال کر رہا ہے۔ یسوع نے ہمیں حکم دیا :” شاگر دبناؤ اور انہیں تعمیل کی تربیت دو ” یہ ہی ارشاد اعظم کا مرکزی خیال ہے۔ اسی وجہ سے ارشاد اعظم ایک عظیم  حکم بنتا ہے ۔ جب تک ہم شاگر دنہ بنائیں ہم ارشاد اعظم کو ایک عظیم حکم نہیں کہہ سکتے  ۔  سو چاہے ہم کوئی بھی طریقہ استعمال کریں اُس کا ایسے شاگرد بنانے کے لئے مؤثر ہونا ضروری ہے جو فرمانبردار ہوں ۔

میں نے اپنے ساتھی کارکنوں کو اس سوچ سے آگاہ کرنا شروع کیا۔ میں نے اُن سے ایک قدم آگے بڑھ کر ان طریقوں کے عملی مظاہرے شروع کیے۔ میں نے انہیں عمل کروانے کی بجائے خود ان اصولوں پر عمل کرکے دکھایا  ۔میں چاہتا تھا کہ میں اُن پر دباؤ ڈالنے کی بجائے اُن کے دلوں میں اس مقصد کے لئے کشش پیدا کروں۔ میں  نے قابل افزائش گروپ شروع کر کے انہیں خود اپنی مثال دی۔  میں نے کلام کھول کر انہیں بائبلی اصول دکھائے  ۔جب فرمانبرداری ہماری فطرت بن گئی تو اُس   سے لوگو ں کو بہتر طور پر سمجھ آنے لگی۔ وہ سمجھ گئے کہ آگے بڑھنے کا طریقہ یہ ہی ہے۔ میں نے تنظیمی  دباؤ یا اپنے اختیار کے زور پر تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ اوپر سے نیچے کی جانب جانے والا عمل نہیں تھا۔ ہمارے کچھ ساتھی کارکنان جلد ہی سیکھ گئے اور انہوں نے CPM   کے اصول استعما ل کرنا شروع کئے ۔اور دیگر لوگ اس معاملے میں سُست تھے ۔جو لوگ سُست رفتار تھے اُن سے میں نے یہ کہا :” آئیے شُکر کرتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہیں “۔ یہ عمل سال 2005 میں شروع ہوا اور کچھ سالوں تک جاری رہا ۔اکتوبر 2007 میں ہم نے تنظیم کو مکمل طور پر بدل دیا ۔ہم نے واضح کر دیا کہ ہمارا مقصد صرف نارسا لوگوں تک رسائی حاصل کرنا نہیں بلکہ بادشاہی کے پھیلاؤ کی تحریکوں کو متحرک کرنا ہے۔ لائف وے مشن نے شمالی کینیامیں بادشاہی کی افزائش کے مقصد کا آغاز کر دیا ۔اس میں کلیدی کام یہ تھا کہ نارسا لوگوں کو شامل کرتے ہوئے اُن تک کلام کی خوشخبری پہنچائی جائے ۔

اب یہ واضح ہو چکا تھا کہ ہمارا کام صرف نارسا لوگوں تک خوشخبری پہنچانا نہیں بلکہ اُن کے درمیان خُداوند کی بادشاہی کی تحریکوں کو مؤثر اور متحرک بنانا ہے۔  ہمارا مرکزِ نگاہ آج بھی نارساؤں  تک رسائی ہے لیکن اب اسے ہم شاگرد سازی کی تحریکوں کے ذریعے کر رہے ہیں ۔   اکتوبر 2007 ہماری تما م ٹیموں کے لئے ایک بڑا  موڑ تھا۔ ہم نے اپنی مشن سٹیٹمنٹ بھی بدلی ، اور اُس کے ساتھ ساتھ  اپنی شرکت ، نیٹ ورکنگ اور تعاون کے طریقۂ               کار بھی تبدیل کر دیئے ۔

اب ہم   ایسے شاگرد بناتے ہیں جو مزید شاگر دبنائیں  اور ایسے چرچ قائم کرتے ہیں جو مزید چرچز پیدا کریں۔  شاگرد سازی کی تحریک ہمیں یسوع کی دی ہوئی ذمہ داری  پوری کرنے میں مدد دے سکتی ہے ۔ہم کسی ایک ہی طریقہ کار پر توجہ نہیں دیتے لیکن اگر شاگرد سازی کی تحریکیں ہمیں اپنے مقصد تک پہنچنے میں مدد دے رہی ہیں تو ہمیں بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم نارسا لوگوں کے درمیان بادشاہی کی پیش روی کی تحریکوں کے ذریعے خُدا کے دیئے ہوئے اُس حکم میں  اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں جو ارشاداعظم میں  لکھا ہے  ۔ 2007 میں ہم نے CPM   کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی ۔ CPM   کا کلیدی نُکتہ  شاگرد بنانا ہے۔ سو اُس وقت سے اب تک ہم نے شاگرد بنانے پر زور دیا ہے اور ہم مشرقی افریقہ کے مسلمانوں کو یسوع کے فرمانبردار شاگرد بنا رہے ہیں ۔

حصہ دوم میں ہم تبدیلی کی راہ میں آنے والے چیلنجز، تبدیلی سے حاصل ہونے والے پھل اور اُن کلیدی عوامل پر بات کریں گے جنہوں نے ہمیں قائم رکھا اور پھل لانے میں مدد دی۔

ڈاکٹر آیلا ٹیسے  لائف وے مشن انٹرنیشنل ( www.lifewaymi.org) کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں یہ مشنری 25 سال سے زیادہ عرصے سے نارسا لوگوں میں کام کر رہی ہے ایلا افریقہ اور دنیا بھر میں شاگرد سازی  کی تحریکوں کی تربیت اور نگرانی کرتے ہیں وہ ایسٹ افریقہ CPM    نیٹ ورک کا حصہ اور ایسٹ افریقہ کے لئے نیو جینریشنز کے علاقائی کوآرڈینیٹر ہیں ۔

Share on facebook
Share on twitter
Share on linkedin
Categories
حرکات کے بارے میں

CPM ( چرچز کی تخم کاری کی تحریک )کیا ہے ؟ حِصہ اول

CPM ( چرچز کی تخم کاری کی تحریک )کیا ہے ؟ حِصہ اول

سٹین پارکس – 

چرچ کی تخم کاری کی تحریک، CPM دراصل شاگردوں کے مزید شاگرد ،اور راہنماؤں کے مزید راہنما  تیار کرنے کا نام ہے، اس کے نتیجے میں مقامی چرچز مزید چرچز کا بیج بوتے ہیں ۔یہ چرچز بہت تیز رفتاری کے ساتھ کسی قوم کے گروہ، یا آبادی کے مخصوص حصے میں پھیلنے لگتے ہیں ۔ یہ نئے شاگرد اور چرچز ،اپنی اپنی قوم کو مسیح کے نئے بدن میں تبدیل کر دیتے ہیں، جو  خُدا کی بادشاہی کی اقدار پر مبنی زندگیاں جینے لگتے ہیں ۔ 

جب چرچز باتسلسل انداز میں چوتھی نسل تک افزائش پا جاتے ہیں، تو یہ عمل ایک باتسلسل تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اس کی ابتدا میں کئی سال لگ سکتے ہیں ۔ لیکن جب پہلے چرچ کا آغاز ہو جاتا ہے، تو ہم عموما 3 سے 5 سال میں اس تحریک کو چوتھی نسل تک جاتاہوا دیکھتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ تحریکیں خود ہی اکثر نئی تحریکوں کو جنم دیتی ہیں ۔ اور ہوتے ہوتے چرچز کی تخم کاری کی یہ تحریکیں دوسری قوموں اور آبادی کے دیگر حصوں میں بھی چرچز کی تخم کاری کی نئی تحریکوں کے آغاز کا سبب بنتی ہیں ۔

خُدا کا روح دنیا بھر میں CPM کی  کئی تحریکوں کا آغاز کر رہا ہے، جیسا کہ وہ تاریخ میں کئی موقعوں پر کر چکا ہے۔ 1990 کی دہائی کی ابتدا میں چند ایسی جدید تحریکوں کے آغاز کے بعد اُن تحریکوں  کا آغاز کرنے والے خُدا کے ان عجائب پر گفتگو کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے۔ تب انہوں نے خُدا کے اس کام کو ایک نام دیا ” چرچز کی تخم کاری کی تحریکیں ” (CPM) ۔ یہ اُن کی توقعات سے کہیں بڑھ کر تھا ۔

ان جدید تحریکوں کے ابھرنے کے ساتھ ساتھ خُدا کا روح CPM کے آغاز کے لئے کئی قسم کے نمونے اور حکمت عملیاں استعمال کر رہا ہے ان نمونوں کے بیان کے لئے عمومی طور پر یہ اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں ۔ تربیت کاروں کی تربیت ( T for T ) دریافتی بائبل سٹڈی ( DBS) شاگرد سازی کی تحریکیں( DMM) ، فور فیلڈز ، ریپڈلی ایڈوانسنگ ڈِسا ئپل شِپ ( RAD) اور زیوم  ۔بہت سی تحریکیں ان مختلف قسم کے اسالیب کا مرکب ہیں۔ ایسی کئی اور تحریکیں بھی ہیں جو ان تربیتی  نمونوں سےالگ، مقامی طور پر ابھری ہیں ۔ 

24:14     کا اتحاد تشکیل  دینے والے عالمی راہنُماؤں نے ،    CPM  کی اصطلاح کو سب سے بڑھ کر با معانی اور وسیع   مفہوُم رکھنے والی اصطلاح پایا ہے ۔” 24:14     ، دنیا بھر میں سر گرم CPM کی تحریکوں اور  تنظیموں کا ایک اتحاد ہے جو فوری ضرورت کی بنیاد پر  باہمی تعاون کر رہا ہے ،اور عالمی چرچ کو اس سے ملتی جُلتی کاوشوں میں شریک ہونے کی دعوت دے رہا ہے ” 

اکثر ” خُدا کی بادشاہی کی تحریک “کی اصطلا ح  بھی استعمال کی جاتی ہے جو کہ درحقیقت CPM  ہی ہے  ۔ ” ہم 31 دسمبر 2025 تک تمام نارسا قوموں اور علاقوں کو  خُدا کی بادشاہی کی ایک مؤثر تحریک (CPM) کے ذریعے سر گرم کرنا چاہتے ہیں “۔ خُدا کی بادشاہی کی یہ تحریکیں اُن تحریکوں سے مشابہت رکھتی  ہیں جنہیں ہم  نئے عہد نامےمیں دیکھتے ہیں ۔

لیکن جب رُوحُ القُدس تُم پر نازِل ہو گا تو تُم قُوّت پاؤ گے اور یروشلِیم اور تمام یہُودیہ اور سامر یہ میں بلکہ زمِین کی اِنتِہا تک میرے گواہ ہو گے“( اعمال 8: 1)  

اور وہ سب رُوحُ القُدس سے بھر گئے اور غَیر زُبانیں بولنے لگے جِس طرح رُوح نے اُنہیں بولنے کی طاقت بخشی۔  اور سب حَیران اور متعجُّب ہو کر کہنے لگے دیکھو! یہ بولنے والے کیا سب گلِیلی نہیں؟۔ پِھر کیوں کر ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے وطن کی بولی سُنتا ہے؟۔ حالانکہ ہم پارتھی اور مادی اورعِیلامی اور مسوپتامِیہ اور یہُودیہ اور کپَّدُکیہ اور پُنطُس اور آسِیہ۔ اور فرُوگیہ اور پمفیِلیہ اور مِصر اور لِبوآ کے عِلاقہ کے رہنے والے ہیں جو کرینے کی طرف ہے اور رُومی مُسافِر خَواہ یہُودی خَواہ اُن کے مُرِید اورکریتی اور عَرب ہیں۔ مگر اپنی اپنی زُبان میں اُن سے خُدا کے بڑے بڑے کاموں کا بیان سُنتے ہیں “( اعمال2:4, 7-11) 

مگر کلام کے سُننے والوں میں سے بُہتیرے اِیمان لائے ۔ یہاں تک کہ مَردوں کی تعداد پانچ ہزار کے قرِیب ہو گئی“( اعمال 4: 4) 

اور خُدا کا کلام پَھیلتا رہا اور یروشلِیم میں شاگِردوں کا شُمار بُہت ہی بڑھتا گیا اور کاہِنوں کی بڑی گروہ اِس دِین کے تحت میں ہو گئی”( اعمال 6:7) 

پس تمام یہُودیہ اور گلِیل اور سامریہ میں کلِیسیا کو چَین ہو گیا اور اُس کی ترقّی ہوتی گئی اور وہ خُداوند کے خَوف اور رُوحُ القُدس کی تسلّی پر چلتی اور بڑھتی جاتی تھی”( اعمال  9:31) 

مگر خُدا کا کلام ترقّی کرتا اور پَھیلتا گیا”( اعمال  12:24) 

اور اُس تمام عِلاقہ میں خُدا کا کلام پَھیل گیا۔ مگر یہُودِیوں نے خُدا پرست اور عِزّت دار عَورتوں اور شہر کے رئِیسوں کو اُبھارا اور پَو لُس اور برنبا س کو ستانے پر آمادہ کر کے اُنہیں اپنی سرحدّوں سے نِکال دِیا۔ یہ اپنے پاؤں کی خاک اُن کے سامنے جھاڑ کر اکُنیُم کو گئے۔ مگر شاگِرد خُوشی اور رُوحُ القُدس سے معمُور ہوتے رہے”( اعمال13:49-52) 

اور وہ اُس شہر میں خُوشخبری سُنا کر اور بُہت سے شاگِرد کر کے لُستر ہ اور اکُنیُم اور انطاکِیہ کو واپس آئے۔ اور شاگِردوں کے دِلوں کو مضبُوط کرتے اور یہ نصِیحت دیتے تھے کہ اِیمان پر قائِم رہو اور کہتے تھے ضرُور ہے کہ ہم بُہت مُصِیبتیں سہہ کر خُدا کی بادشاہی میں داخِل ہوں”( اعمال (14:21-22

اُن میں سے بعض نے مان لِیا اور پَولُس اور سِیلا س کے شرِیک ہُوئے اور خُدا پرست یُونانِیوں کی ایک بڑی جماعت اور بُہتیری شرِیف عَورتیں بھی اُن کی شرِیک ہُوئِیں۔  پس اُن میں سے بُہتیرے اِیمان لائے اور یُونانِیوں میں سے بھی بُہت سی عِزت دار عَورتیں اور مَرد اِیمان لائے”( اعمال17: 4, 12) 

اور عِبادت خانہ کا سردار کرِسپُس اپنے تمام گھرانے سمیت خُداوند پر اِیمان لایا اور بُہت سے کُرِنتھی سُن کر اِیمان لائے اور بپتِسمہ لِیا۔  اور خُداوند نے رات کو رویا میں پَولُس سے کہا خَوف نہ کر بلکہ کہے جا اور چُپ نہ رہ۔ اِس لِئے کہ مَیں تیرے ساتھ ہُوں اور کوئی شخص تُجھ پر حملہ کر کے ضَرر نہ پُہنچا سکے گا کیونکہ اِس شہر میں میرے بُہت سے لوگ ہیں۔ “( اعمال 18:8-11) 

دو برس تک یِہی ہوتا رہا ۔ یہاں تک کہ آسِیہ کے رہنے والوں کیا یہُودی کیا یُونانی سب نے خُداوند کا کلام سُنا”( اعمال 19:10) 

ان جدید تحریکوں میں ہم وہی اصول کار فرما دیکھتے ہیں جنہیں خُدا نے ابتدائی چرچ میں استعمال کیا۔

اِس تحریر کے دُوسرے حصے میں  CPM  کی ان خُصوصیات اور  محرکات پر تفصیل  سے بات کی جائے گی۔

سٹین پارکس    24:14 اتحاد کی سہولت کاری کی ٹیم  کے رُکن، بییانڈ تنظیم    کی گلوبل سٹریٹیجی کے نائب صدر اور ایتھنی کی لیڈرشپ ٹیم  کے رُکن ہیں۔ وہ دُنیا بھر میں CPM       کی کئی تحریکوں کے تربیت کار اور کوچ ہیں۔ 1994 سے نا رسا  قوموں کے درمیان خدمات انجام دے رہے ہیں۔

یہ مواد    ۔     24:14 – A Testimony to All Peoples کے صفحات 38-35  سے لیا گیا ہے۔    24:14 یا Amazon   پر دستیاب ہے۔ مشن فرنٹیٔرز، www.missionfrontiers.org  کے جولائی-اگست 2019  کے شُمارے  میں دوبارہ شائع کیا گیا۔

Share on facebook
Share on twitter
Share on linkedin
Categories
حرکات کے بارے میں

24:14 – ایک جنگ، جو بالآخر ختم ہوتی نظر آتی ہے

24:14 – ایک جنگ، جو بالآخر ختم ہوتی نظر آتی ہے

– سٹین پارکس اور سٹیو سمِتھ – 

گذشتہ 30 سال سے زائد عرصے سے ایک نئے انداز کی  جنگ خاموشی سے جاری رہی ہے ۔ اس کی ابتدا تب ہوئی جب کچھ ناقابلِ تسخیر”حریت پسندوں “نے  خاموشی سے ایک جنگ کا آغاز کیا ۔یہ وہ لوگ تھے جو اربوں کی تعداد میں لوگوں کو انجیل تک رسائی حاصل کئے بغیر جیتا اور مرتا نہیں دیکھ سکتے تھے ۔یہ ایسے انتہاپسند تھے جو اتنی تعداد میں زندگیوں کو اس دنیا کے حاکم کی قید میں دیکھنا قبول نہیں کر رہے تھے  ۔اور انہوں نے اس مقصد کے لئے اپنی زندگیاں قربان کر دیں  کہ یسوع ان قیدیوں کو آزاد کرائے۔

یہ جنگ اُن صلیبی جنگوں کی طرف اشارہ نہیں کرتی ،جو دنیاوی مقاصد  کے حصول کی خاطربے جا طور پر یسوع کا نام استعمال کرتی رہیں۔ یہ بادشاہی نظر نہ آنے والی ہے جیسا کہ یسوع  نے کہا : 

یِسُوع نے جواب دِیا کہ میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں ۔ اگر میری بادشاہی دُنیا کی ہوتی تو میرے خادِم لڑتے تاکہ مَیں یہُودِیوں کے حوالہ نہ کِیا جاتا ۔ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔ “(یوحنا18:36 )

یہ جنگ لوگوں کی روحوں کو بچانے کی جنگ ہے۔ اس جنگ کے سپاہیوں کواس بات پر یقین ہے  کہ چرچز ،راہنمااور تحریکیں، روح القدس کی تحریکیں بن کر افزائش در افزائش پا سکتی ہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے ابتدائی کلیسیا میں ہوا ۔انہیں اس بات کا یقین ہے کہ یسوع کے احکامات آج بھی اُتنے با اختیار اور روح القدس کی قوت سے معمور ہیں ،جیسے 2000 سال پہلے تھے ۔

چرچز کی تخم کاری کی تحریکیں(CPM)  آج بھی اُسی طرح پھیل رہی ہیں جیسے اعمال کی کتاب کے دور میں پھیلیں اورپھر اُس کے  بعد تاریخ میں مختلف ادوار میں پھیلتی رہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ صدیوں پرانی بات ہے ۔ان تحریکوں کی جڑیں بائبل میں موجود شاگردی کے اصولوں میں  ہیں ۔یعنی یسوع کے تمام شاگرد یسوع کے پیچھے چلتے ہیں اور آدم گیربنتے ہیں ۔( مرقس ٍ1:17) ۔ ہر براعظم میں، جہاں پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ  (CPM) کی تحریک یہاں نہیں چل سکتی ، ایسی تمام جگہوں پر تحریکیں پھیل اور پھل پُھول رہی ہیں ۔ 

بائبل کے اصولوں کا اطلاق عملی طور پر کئی قسم کے تہذیبی تناظروں میں ہو رہا ہے اور یہ اصوُل افزائش کے نمونے بن رہے ہیں۔ خُدا کے خادم بھٹکے ہوؤں کو ڈھونڈ رہے ہیں ، شاگرد بنا رہے ہیں ،مضبوط بنیادوں پر استوار چرچز قائم کر رہے ہیں اور مقدس راہنما تیار کر رہے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں نسل درنسل افزائش ہوتی ہے اور بالآخر پورا معاشرہ تبدیل ہونے لگتا ہے ۔

خُدا کی بادشاہی کے پھیلاؤ کی رفتار آبادی کی افزائش کی  رفتار سے زیادہ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے – اور یہ طریقہ تحریکوں کا ہے جنہیں ہم پوری تاریخ میں پھلتا پھولتا دیکھتے ہیں۔ ان کے بغیر خدمت اور منادی کی بہترین کوششیں بھی ناکام ہو جاتی ہیں ۔ 

نئے انداز کی اس کوشش کی لہر بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور کوئی بھی اسے روک نہیں پا رہا  ۔یہ جنگ کوئی وقتی جنون نہیں ہے ۔ 20 سال کے عرصے میں (CPM) کی کئی تحریکوں نے  بہت سے چرچز کی افزائش کی ہے۔ یہ تحریکیں جوکہ 1990 میں  صرف تھوڑی  سی تعداد پر مشتمل تھیں، اب مئی 2020 تک   1360 کی تعداد عبور کر چکی ہیں ۔ہر ماہ نئی تحریکوں  کے آغاز کی رپورٹ  ملتی چلی جاتی ہے ۔ ہر تحریک کی پیش روی کے پیچھے بے حد صبر وتحمل اور قربانی کار فرما  ہوتی ہے ۔

خُد اکی بادشاہی کے کلام کو تما م نارسا  اور کم  رسائی والی  قوموں تک  لے جانے کے مشن کی راہ میں بہت زیادہ تکلیفوں اور ایذارسانیوں کا سامنا ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسی جدوجہد ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ یسوع کے نام کو ہر جگہ جلال ملے اور ساری قومیں اُس کی عبادت کریں۔ اس مشن کی تکمیل کے لئے  سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے، اور یہ کوئی بڑی قیمت نہیں۔ یسوع کی خاطر یہ بہت چھوٹی سی قیمت ہے ۔

جدید دور میں ایسی تحریکوں کی ابتدا سے اب تک تقریبا 3 دہائیاں گذرنے کے بعد ایک ایسااتحاد ابھرا ہے ،جو محض سوچ بِچار اور گفت وشنید کی بنیاد پر  قائم نہیں ،  بلکہ یہ اُن راہنماؤں کے ہاتھوں پروان چڑھا ہے  جو  خُودتحریکوں میں شامل رہے ہیں۔ یہ لوگ مل کر ایک بہت بڑے  مقصد کی تکمیل کے لئے کوشش کر رہے ہیں ۔

اور بادشاہی کی اِس خُوشخبری کی مُنادی تمام دُنیا میں ہو گی تاکہ سب قَوموں کے لِئے گواہی ہو ۔ تب خاتِمہ ہو گا۔ “(متی 14: 24)

جو اِن باتوں کی گواہی دیتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ بیشک مَیں جلد آنے والا ہُوں ۔ آمِین ۔اَے خُداوند یِسُوع آ۔” ( مکاشفہ 20: 22)

پھر ہم پکار اٹھتے ہیں :

تیری بادشاہی آئے !( تحریکیں ) 

کوئی جگہ رہ نہ جائے !(  سب تک مکمل رسائی ) 

جو دوسروں نے شروع کیا اُس کی تکمیل ! ( اُن لوگوں کو خراجِ تحسین کے لئے جو ہم سے پہلے گُزر چکے ) 

دعا کے وسیلے سے، ہمارے اتحاد نے محسوس کیاکہ خُدا نے ہمیں اپنی کاوشوں کی رفتار بڑھانے کے لئے ایک حتمی تاریخ دے دی ہے : ہمارا مقصدہے کہ خُدا کی بادشاہی کی پیش روی کی موثر تحریکوں ، CPM کی حکمت عملی کے ذریعے 31دسمبر 2025 تک تمام نارسا قوموں اور علاقوں تک رسائی حاصل کر کے سرگرمی شروع کر دی جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہم نے  تنظیموں اور فرقوں کی تفریق کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہم سب کو رکن بننے کی کُھلی دعوت دیتے ہیں، تاکہ ہم مل کر ایک رضا کار فوج بن جائیں ، اُس آیت کے اثر کے تحت جو ہماری کاوشوں کا مرکز ہے : 24:14

ہماری تحریک، مغربی انداز کی مشنری کوششوں پر قائم نہیں ہے۔ ہم میں جنوبی ایشیا کے گھریلو چرچز کی تحریکوں لے کر ، 40/10  ونڈو کی مسلمان پس منظر کی تحریکیں ،مشن پربھیجنے والی ایجنسیاں ، جدید علاقوں میں چرچ قائم کرنے والے نیٹ ورکز ، پہلے سے قائم شدہ معروف چرچز اور بہت سے ادارے شامل ہیں ۔

ہم اُن سب تنظیموں  اور اداروں کے لئے ایک شراکتی جماعت ہیں جو ہنگامی  ضرورت کے تحت تمام نارسا قوموں اور دنیا کے تمام علاقوں میں  تیز رفتاری کے ساتھ چرچز کی تخم کاری کی تحریکوں  کی افزائش کے لئے تعاون چاہتے ہیں۔ 

ہماری بلاہٹ جنگی اور ہنگامی نوعیت کی بلاہٹ ہے۔( www.missionfrontiers.org  کی ویب سائٹ پر ڈیبیوس کا مضمون ملاحظہ کریں ) تاکہ ہم اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مل کر قربانیاں دیں اور پوری دنیا میں تمام قوموں کے لئے انجیل کی منادی کے  گواہ بنیں ۔

 

 کیا یہ انقلابی تحریک اُن سینکڑوں منصوبوں سے مختلف ہے جو گذشتہ کئی صدیوں میں سامنے   آتے رہے ؟ ہمارا خیال ہے کہ بالکُل ایسا ہی ہے۔ (  یہ تحریر ملاحظہ کیجئے:http://www.missionfrontiers.org/issue/article/why-is-2414-different-than-previous-efforts) ہم رابطوں کے نیٹ ورکز کی ایسی جماعت ہیں جو خود تحریکوں کی جڑوں سے ابھرے ہیں۔ ہمارا مقصد ایک ہی ہے اور ہم اس مقصد کے حصول کے لئے مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ 24:14 کا یہ نصب العین اُن تمام تاریخی اور حالیہ کاوشوں کا نکتہ ِ ِ انتہا ہو سکتا ہے کیو نکہ ہم تمام کوششوں اور کاوشوں کی مدد کر کے اُنہیں مقصد کے حصول میں  کامیاب  بنا سکتے ہیں ۔

ایک آخری نسل ہو گی۔ اس نسل میں خُدا کی بادشاہی پوری دنیا میں پھیلے گی ۔ اور دنیا کی مزاحمت اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجودآگے بڑھتی جائے گی۔ایک انوکھے سے انداز میں دیکھنے سے لگتا ہے کہ متی کے  24 ویں باب میں ہماری ہی نسل کا ذکر کیا گیا ہے۔   

ہم 2000 سال پر پھیلی ایک رُوحانی جنگ کا خاتِمہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں دُشمن کی شکست واضح نظر آ رہی ہے۔ ” کوئی جگہ باقی نہیں رہی جہاں یسُوع کا نام نہیں لیا گیا ہو”، ( رومیوں 23: 15  )   ،کا پیغام اُفق پر اُبھرتا دکھائی دے رہا ہے۔  خُدا ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ ہم  قیمت چُکا کر اور قربانیاں دے کر وہ  نسل بن جائیں  جو متی   14: 24    کی تکمیل کرے۔ کیا آپ ہمارے ساتھ  ہیں؟

مشن فرنٹئیرز        www.missionfrontiers.orgکے جنوری-فروری 2018  کے شمارے میں صفحات 12 -7 پر شائع ہونے والے مضمُون سے   تدوین اور تلخیص شدہ،اور   24:14 – A Testimony to All Peoples  کے صفحات 181-174 پر بھی شائع ہُوا۔          24:14     یا           Amazonپر بھی دستیاب ہے۔ 

Categories
حرکات کے بارے میں

وسیع تر احاطے کے لئے یسوع کے اصول اور حکمت عملیاں: قابلِ انتقال اور قابلِ افزائش

وسیع تر احاطے کے لئے یسوع کے اصول اور حکمت عملیاں: قابلِ انتقال اور قابلِ افزائش

– شو ڈنکے جانسن – 

گلوبل اسمبلی آف پاسٹرز فور فنشنگ  دی ٹاسک کی ایک ویڈیو سے تدوین شدہ

میں مغربی افریقہ کے ملک سیٔرالیون میں قائم نیو ہارویسٹ  گلوبل منسٹریز کا ٹیم لیڈر ہوں۔ میں نیوجنیریشنزکے ساتھ بھی منسلک ہوں اور امریکہ میں قائم نیو جنیریشنز کے لئے عالمی سطح پر تربیت بھی فراہم کرتا ہوں۔ میں اپنی ساری عملی زندگی کے دوران شاگرد سازی اور چرچز کے قیام کی تحریکوں میں شامل رہا ہوں اور میں خُدا کا شکر کرتا ہوں جس نے مجھے موقعے اور تجربہ عطا کیا ۔

میں آپ کو وسیع تر احاطے کے لئے یسوع کے اصولوں اور حکمت عملیوں سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جو قابلِ انتقال اور قابلِ افزائش ہیں۔ یسوع کی ان حکمت عملیوں کو استعمال کر کے مقامی چرچز کئی تحریکوں کی افزائش کر سکتے ہی۔ں یسوع نے اپنی پوری منادی کے دوران چند بنیادی حکمت عملیاں اوراصول استعمال کیے۔ ان اصولوں کو جاننے اور اُن پر عمل کرنے سے ہمیں ارشادِاعظم کی تعمیل اور دنیا بھر میں نارسا اور غیر سر گرم قوموں تک رسائی حاصل کرنے میں بہت زیادہ مدد ملتی ہے ۔

جب یسوع منادی کے میدان میں ایک مشن لے کر اتراتو یہ اُس کے باپ کی جانب سے ایک حکم کی بنیاد پر تھا ۔ابتدا کرنے سے پہلے ہی اُس کے ذہن میں ایک نصب العین تھا ۔اُس نے وسیع تر احاطے اور قابلِ افزائش حکمت عملیوں  کے لئے بہت دانش مندی سے سوچ رکھا تھا ۔اُس کی سوچ میں خُدا کی بادشاہی اور فصل کی کٹائی کا مقصد بھی شامل تھا۔ خُد ا کی بادشاہی کے بارے میں اُس نے کہا “توبہ کرو                       کیو نکہ خُدا کی بادشاہی نزدیک ہے “( متی 17: 4) یسوع کی منادی میں آسمان کی بادشاہی کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس کے شاگرد اس بادشاہی کو واضح طور پر سمجھ لیں۔ اس لئے اُس نے اس بادشاہی کا ذکر بار بار کیا   ۔

یہ کسی ایک چرچ  یا کسی ایک فرقے کا مشن نہیں تھا۔ یہ آسمانی بادشاہی کا مشن تھا۔ اس لئے یسوع نے اس بادشاہی سے وابستہ  اصول  واضح طور پر سمجھائے۔ اگر ہم چاہیں کہ غیر سر گرم اور نارسا قوموں میں کئی تحریکیں چل نکلیں، تو ہمیں یقینی طور پر خُدا کی بادشاہی کی تعلیم، تربیت اور منادی کرنا ہو گی ۔لوگوں کو یہ سمجھانا ہو گا کہ خُدا کی بادشاہی کیا ہے ۔ آسمانی بادشاہی کا تصور سمجھ لینے کے بعد کام آسان ہو جاتا ہے ۔ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضروررت ہے کہ اس کام کے لئے انہیں پیسے یا شہرت کا جذبہ نہیں، بلکہ خُد اکی بادشاہی کا جذبہ دل میں رکھنا ہے ۔سو ضروری ہے کہ ہم آسمانی بادشاہی کی تعلیم بہت واضح انداز میں دیں ۔

یسوع نے فصل کے بارے میں بھی بات کی۔ اُس نے کہا  ،” فصل تو بہت ہے لیکن مزدور تھوڑے ہیں۔ پس فصل کے مالک کی منت کرو کہ وہ اپنی فصل کاٹنے کے لئے مزدور بھیج دے “( متی 38-37: 9)

اگر ہم غیر سرگرم اور نارسا قوموں تک رسائی چاہتے ہیں  تو ہمیں بادشاہی اور فصل کے تصور کو واضح طور پر سمجھنا اور پیش کرنا ہو گا ۔ ہمیں تعلیم اور تربیت دینے والے لوگوں کے دلوں میں بادشاہی اور فصل کے تصور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ذریعے بہت سے لوگ آزمائش میں پڑنے اور غلط راستے پر چل کر پھندوں میں گھِر جانے سے بچ جائیں گے۔ ایسی باتیں مثلاً ” یہ میرے فرقے ، یا میرے چرچ  یا میرے اپنے حلقے کی بات ہے ” نہیں ہونی چاہئیں ۔یہ صرف خُدا کی بادشاہی اور فصل کی کٹائی کی بات ہے ! 

یسوع کا بتایا ہوا دوسرا  اصول بار باردعا کا ہے۔ دعا ،یسوع کی منادی کا اہم ترین حصہ تھی ۔وہ جانتا تھا کہ دعا ایک ایسا انجن ہوتی ہے جو تحریکوں کو چلائے رکھتی ہے۔ دعا کے بغیر چرچ صرف رینگ رہا ہوتا ہے ۔یسوع نے منادی شروع کرنے سے پہلے بھی بہت ذیادہ دعا کی (لوقا 2-1: 4) اُس نے اپنے بارہ شاگردوں کا انتخاب کرنے سے پہلے دعا کی ( لوقا 13-12: 6)۔ وہ ہر روز دن کا آغاز کرنے سے پہلے دعا کرتا تھا ( مرقس 35: 1)۔ اور وہ بار بار دعا کرتا رہا ( لوقا  16: 5) ۔یسوع نے اپنے شاگردوں کو بھی دعا کرنا سکھایا ( لوقا 4-1: 11) ۔ یسوع دعا کرنے والا شخص تھا۔ اُس نے لعزر کو زندہ کرنے سے پہلے دعا کی ۔اُس نے اپنے شاگردوں کے لئے دعا کی   ( یوحنا 25-1: 17) ۔ وہ معجزے کرنے سے پہلے دعا کرتا تھا۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے دشمنوں کے لئے بھی دعا کریں ( متی 44: 5)۔ اُس نے موت کا سامنا کرنے سے پہلے بھی دعا کی۔ صلیب پر اُس کے پہلے اور آخری الفاظ بھی دعا ئیہ تھے ۔

یسوع دعا کرنے والا شخص تھا۔ منادی کے وسیع تر احاطے اور اثر کے لئے وہ دعا کرتا رہا۔ یہ طریقہ کار کسی بھی تہذیب میں  آسانی سے قابلِ انتقال اور قابلِ افزائش ہے۔ اس طرح یہ کسی بھی معاشرے میں کئی چرچز کے قیام میں مدد دے سکتا ہے۔ خُد اکے لوگوں کو دعا اور روزے میں وقت لگانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے شاگردوں کو دعا کرنے کی تعلیم اور تربیت دیں ۔ضروری ہے کہ ہم اپنے شاگردوں کو یہ پیغام دیں کہ وہ یسوع کی طرح دعا کریں اور روزہ رکھیں۔ اگرچہ  یسوع مجسم خُدا تھا، اُس نے منادی شروع کرنے سے پہلے دعا کی۔ اگر یسوع نے اتنی زیادہ دعا کی تو ہمیں بھی بہت زیادہ دعا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم غیر سر گرم اور نارسا قوموں میں کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں دعائیہ منسٹری کی ضرورت ہے۔ ہمیں دعا کرنے والے شاگردوں کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم دعا کرتے رہیں اور دعا کرنے اور روزہ رکھنے والے شاگرد بناتے رہیں، تو ہم کثیر تعداد میں تحریکوں کو پھلتا پھولتا دیکھیں گے۔  یاد رکھیے کہ دعا کسی تحریک کو چلانے کے لئے انجن کا کام کرتی ہے۔ جس طرح یسوع کے ذہن میں خُد اکی بادشاہی اور فصل کا تصور واضح تھا اسی طرح اُس کے ذہن میں باربار متواتر دعا   کا تصور بھی مستحکم تھا ۔

منادی کے وسیع تر احاطے اور اثر کے اصولوں میں یسوع کا ایک اور اصول عام لوگوں کے استعمال کا اصول تھا یسوع نے لوگوں کو اختیار دیا اُس نے ہر ایماندار کو اختیار دیا اسی طرح منادی عام لوگوں کے ذریعے افزائش پاتی ہے۔ جب  ہم متی  18: 4، متی 4-2: 10اور اعمال 13: 4 دیکھتے ہیں ،تو ہم جان جاتے ہیں کہ یسوع نے کس طرح عام لوگوں کے استعمال پر زور دیا ۔عام لوگوں کو استعمال کرنے کا منصوبہ اُس کا واحد منصوبہ تھا ۔آج بھی عام لوگ ہی یسوع کے اس منصوبے  کے لئے واحد وسیلہ ہیں  ۔عام لوگ ہی یہ ذمہ داری پوری کریں گے ۔  ضروری ہے کہ تربیت دیتے اور شاگرد بناتے ہوئے ہم لوگوں کو عام افراد کی تلاش کرنے پر زور دیں۔ یہ طریقہِ کار قابلِ  افزائش اور قابلِ انتقال ہے ۔آپ دنیا میں  جہاں بھی جائیں ،آپ کو عام لوگ ملیں گے ۔ عام  سے لوگ  کثیر تعداد میں چرچ کے بینچوں پر بیٹھے ہوتے ہیں ۔

یسوع جانتا تھا کہ اُسے پیشہ ور منُادوں یا مبلغوں کی تلاش نہیں ہے ۔ وہ عام لوگوں کی تلاش میں تھا ۔یسوع کے اردگرد  موجود تمام لوگ عام سے لوگ تھے ۔اُس نے عام لوگوں کے استعمال پر زور دیا۔  اُس نے انہیں تربیت دے کر انہیں ویسا بنایا ،جیسا وہ چاہتا تھا۔ سو اگر ہم دنیا بھر میں تحریکیں چلتے دیکھنا چاہیں ، اگر ہم غیر سر گرم اور نارسا قوموں تک رسائی چاہیں، تو آیئے عام لوگوں کے ساتھ مل کر کام کریں ۔جہاں بھی جائیں – ہر معاشرے ہر تہذیب میں – یسوع کی طرح عام لوگ تلا ش کریں۔ یہ یسوع کی منادی کا بنیادی اصول تھا اور یہ دنیا بھر میں بڑی تعداد میں تحریکوں کو چلانے کا باعث بن سکتا ہے ۔

 

یسوع کا ایک اور اہم اصول یہ تھا کہ ایسے شاگرد بنائے جائیں جو آگے چل کر مزید شاگرد بنائیں ۔یسوع نے کہا ،” پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو بپتسمہ دو اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تم کو حکم دیا “( متی 20-19: 28)۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو واضح طور پر بتایا کہ انہیں دنیا میں جانا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ جائیں ! لیکن کب جائیں ، کس اصول کے تحت جائیں ، کلیدی حکمت عملی کیا ہو ؟ جب آپ جائیں تو شاگرد بنائیں۔ شاگرد بنانا یسوع کی حکمت عملی اور اصولوں کا بنیادی نُکتہ ہے۔ اُسے آرام اور سکون میں نہیں،  بلکہ شاگرد بنانے میں دلچسپی تھی ۔کیو نکہ وہ جانتا تھا کہ شاگرد بنانا قابلِ انتقال اور قابلِ افزائش طریقہ ہے۔ شاگرد آگے چل کر مزید شاگرد بناتے ہیں جو نئی تحریکوں کو جنم دیتے ہیں ۔وہ صر ف تعلیم کی بنیاد پر شاگرد سازی نہیں چاہتا تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ شاگرد سازی کی بنیاد فرمانبرداری پر ہو۔ اسی لئے پولوس نے تیمتھیس کو لکھا :” جو باتیں تو نے بہت سے گواہوں کے سامنے مجھ سے سُنی ہیں  اُن کو ایسے دیانتدار آدمیوں کے سپرد کر جو اوروں کو بھی سِکھانے کے قابل ہوں ۔”( 2 تیمتھیس 2: 2) ۔میں چاہتا ہوں کہ آپ پولوس کے اُن الفاظ پر غور کریں جو اُس نے تیمتھیس کو لکھے ۔جو کچھ میں نے آپ کو بتایا ، سِکھایا اور پڑھایا  آپ دوسروں کو سِکھائیں ۔اب آپ کو شاگرد بنانے والے  شاگرد تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔ اب آپ جائیں اور ایسے پُر خلوص شاگر دبنائیں جو مزید لوگوں کو منادی کی مہارتیں دیں ۔ تیمتھیس کو دی ہوئی  پولوس کی یہ تربیت، نسل در نسل تربیت ہے، جس کے نتیجے میں پُر خلوص شاگرد بنتے ہیں۔ یسوع نے فرمانبرداری کی بنیاد پر شاگرد بنائے ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم کثیر تعداد میں تحریکیں چلتے دیکھیں تو ہمیں فرمانبرداری کی تعلیم ،تربیت اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ اس کا نمونہ بھی پیش کرنا ہے  –    بالکل اُسی طرح جیسے یسوع نے کیا اور اپنے شاگردوں کو سِکھایا ۔

اگلا اصول سلامتی کے فرزند کا ہے، جو ہمیں متی 14-11: 10 میں نظر آتا ہے ۔جب یسوع نے شاگردوں کو بھیجا تو اُس نے کہا : ” جس شہر یا گاؤں میں داخل ہو دریافت کرنا کہ اُس میں کون لائق ہے اور جب تک وہاں سے روانہ نہ ہو اُسی کے ہاں رہنا۔ اور گھر میں داخل ہوتے وقت اُسے دعائے خیر دینا اور اگر وہ گھر لائق ہو تو تمہارا سلام اُسے پہنچے، اور اگر لائق نہ ہو تو تمہارا سلام تم پر پھیر آئے۔ اور اگر کوئی تم کو قبول نہ کرے  اورتمہاری باتیں نہ سُنے تو اُس گھر یا اُس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاؤں کی گرد جھاڑ دینا ” اُس نے انہیں  کہا : ” جاؤ اور ایسا شخص تلاش کرو  جو لائق ہو “۔ ایسے شخص کو ہم سلامتی کا فرزند کہتے ہیں ،جِسے خُدا نے آپ سے پہلے ہی اُس علاقے میں تیار کر رکھا ہوتا ہے۔ سلامتی کا فرزند اُس علاقے میں ایک پُل کی طرح کام کرتا ہے۔ سلامتی کا فرزند آپ کو خوش آمدید  کہنے اور آپ کا پیغام سُننے کے لئے تیار ہوتا ہے ۔وہ اکثر مسیح کا پیروکار بھی بن جاتا ہے۔ یسوع بہتر طور پر جانتا تھا کہ اُس کی تحریک ایسے لوگو ں کی تحریک ہو گی جو پہلے سے ہی اُس معاشرے میں موجود ہیں ۔سلامتی کا فرزند آج کے دور کی تمام رکاوٹوں کو ہٹا دیتا ہے۔ اگر ہم نارسا اور غیر سر گرم قوموں میں  تحریکیں چلتے دیکھنا چاہیں، تو ہمیں سلامتی کے فرزند کا اصول استعمال کرنا ہو گا۔ یہ کم خرچ اور  بالانشین اصول ہے۔ جب آپ کے پاس اندر کا ایک آدمی موجود ہو تو آپ کو جا کر اُس علاقے کی زبانیں سیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ پہلے سے ہی زبان جانتے ہیں ۔آپ کو اُس اندر کے آدمی پر زیادہ وقت لگانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی کیو نکہ وہ پہلے سے ہی  اُ س تہذیب سے وابستہ ہیں۔ تو اُن میں ایک جذبہ ہوتا ہے   وہ اُس علاقے اور لوگوں کے نظریہ ِزندگی سے آگاہی رکھتے ہیں ۔اندر کے آدمی کے، اُس معاشرے میں پہلے سے ہی رشتے ناطے ہوتے ہیں ۔اسی لئے یسوع نے سلامتی کے فرزند کے اصول پرزور دیا ۔ یہ طریقۂ                 کار کسی بھی تہذیب میں قابلِ انتقال اور قابل ِ افزائش ہے ۔

وسیع تر احاطے کے لئے یسوع کا ایک اور اصول روح القدس کا اصول ہے، جو ہمیں یوحنا 26: 14، 22: 20 اور اعمال 8: 1 میں نظر آتا ہے۔ یسوع نے روح القدس کی قوت پر بہت زور دیا۔ روح القدس دنیا بھر میں تحریکوں کو چلانے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ روح القدس شاگردوں اور شاگرد سازوں کے لئے زندگی کا پانی ہے  ،جس کا وعدہ یوحنا 38-37 : 7 میں کیا گیا ۔روح القدس شاگرد سازی کی تحریکوں میں معاون اور استاد کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ ہم یوحنا 26: 14،32، 15-14: 16 میں پڑھتے ہیں کہ روح القدس ہمیں اختیار دے کر آسمانی بادشاہی کا  گواہ بننے کے قابل بناتا ہے۔ اعمال 8: 1 میں یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا :” یروشلیم سے باہر نہ جاؤ جب تک تم روح القدس کی قوت نہ پا لو  اور پھر تم میرے گواہ ہو گے “۔ روح القدس نے غیر معمولی معجزے دِکھائے اور سب سے زیادہ خائف   شاگردوں کو بھی دلیری عطا کی ، جو ہم اعمال 20-18: 4اور 17: 9 میں دیکھ سکتے ہیں۔ روح القدس ایسے لوگوں کے ذریعے بھی تیز تر افزائش کے دروازے کھول سکتا ہے  جن سے ہم کوئی توقع نہیں کر سکتے ہیں ۔اعمال 48-44: 10 میں ہم دیکھتے ہیں کہ روح القدس صرف ماضی کے لوگوں کے لئے نہیں تھا ،بلکہ وہ آج بھی ہمارے لئے موجود ہے ۔روح القدس کی باتسلسل  قوت کے بغیر ہم شاگرد سازی کی تحریکوں کا تسلسل نہیں دیکھ سکتے۔ یسوع نے اس اصول پر بہت زور دیا کیو نکہ وہ جانتا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ دنیا میں کہاں موجود ہیں ۔آپ جہاں بھی ہوں ،روح القدس آپ تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ اصول قابلِ انتقال ہے اور آپ اسے کہیں بھی اِستعمال کر کے اس سے افزائش حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اس کام میں  کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اسے آپ کو یسوع کے طریقے سے کرنا پڑے گا۔ اس کام کے لئے روح القدس لازمی ہے۔ روح القدس ہر مقامی چرچ ، ہر شاگرد اور ہر شاگرد ساز کے لئے لازمی ہے ۔

اگلا اصول کلام کو سادہ رکھنے کا ہے ۔متی 30-28: 11 اور لوقا 32: 4 میں ہم دیکھتے ہیں کہ یسوع نہ صرف سب کو خوش آمدید کہتا تھا بلکہ وہ سادہ انداز میں تعلیم دیتا تھا۔  بھیڑ اُس کی تعلیم کی  سادگی  پسند کرتی تھی ۔یسوع الجھےہوئے تصورات کو سادہ اور سادہ تصورات کو سادہ ترین بنا دیتا تھا ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ غیر سر گرم اور نارساقوموں میں کامیابی حاصل کریں تو ہمیں یسوع کے سادگی کے اصول کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔

یسوع کا اگلا اصول محبت اور ہمدردی کے ساتھ لوگوں  تک رسائی کا اصول تھا ۔یہ اصول ہمیں متی 35: 9، 17: 14 ، لوقا 11: 9، 1: 11، مرقس 44-39: 6 میں نظر آتا ہے ۔یسوع نے متی کےباب 9 آیت 35 میں یہ طریقۂ              کار استعمال کر کے شفا دی ۔لوقا 11: 9 میں یسوع نے پھر اسی طریقۂ       کار کا استعمال کر لیا۔ اس نے محبت اور ہمدردی کے ذریعے رسائی حاصل کرنے کے لئے لوگوں کو کھانا بھی کھلایا ۔                 ضروری ہے کہ ہم یسوع سے یہ طریقہ سیکھیں اور خُدا کی دی ہوئی نعمتیں  دوسروں کو دے کر خُدا کی بادشاہی کے لئے آگے بڑھیں ۔

ایک اور اصول جو یسوع نے اپنے شاگردوں کو سِکھایا وہ وسائل کے لئے خُد اپر انحصار کرنا تھا ۔( متی 10-9: 10زبور 12-10: 50) ۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس اصول کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔یہ اصول بھی قابلِ انتقال اور قابل ِ افزائش ہے۔ اس پر عمل کرنا تحریکوں کو چلانے کا سبب بنتا ہے ۔یسوع کا پیغام بالکل واضح تھا :” اپنے ساتھ کچھ نہ لے کر جاؤ اور وسائل کے لئے خُدا پر بھروسہ رکھو ” ہم جانتے ہیں کہ خدا نے ماضی میں اپنے کام کے لئے ہر طرح کی مدد فراہم کی اور اگر اُسی کے طریقۂ  کار پر عمل کیا جائے تو وہ مستقبل میں بھی ہر طرح کی مدد ہمیشہ کرتا رہے گا۔  عالمی چرچ کسی طرح سے بھی خُد اکا خزانہ خالی نہیں کر سکتا ۔اُس کے خزانوں کی کوئی حد نہیں ۔ہم ہر قسم کے وسائل کے لئے اُس پر بھروسہ کر سکتے ہیں ۔جب ہم اُس سے دعا کریں تو وہ ہمیں سب کچھ فراہم کرتا ہے۔ یسوع جانتا تھا کہ اگر ہم یہ اصول استعمال کریں تو ہم حیرت انگیز نتائج دیکھیں گے ۔ہمیں افزائش در افزائش نظر آنے لگے گی  ۔یہ طریقہ  ہر قسم کی تہذیب میں ،   کسی بھی مقامی چرچ میں استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر ہم یہ کام یسوع کے انداز میں کریں تو ہم رسولوں  کے اعمال کی تاریخ دوہرا سکتے ہیں ۔ جو کچھ چرچ کے ابتدائی دنوں میں ہوا، وہ ہمارے چرچز میں بھی ہو سکتا ہے۔ یہ  سب کچھ غیر سرگرم اور نارسا قوموں میں بھی ہو سکتا ہے۔   لیکن اگر ہم یہ سب کچھ یسوع کے طریقے کے مطابق نہ کریں تو ہم اپنا وقت ہی ضائع کریں گے ۔یہ کام خُد اکا ہے اور کامیابی کے لئے ہمیں یسوع کے طریقے سے ہی کرنا ہے ۔یہ ہی اُس کا اصول ہے ۔یہ اُس کا منصوبہ ہے جو کسی کی خاطر بھی  تبدیل نہیں ہو سکتا ۔

بات کو سمیٹتے ہوئے میں دوبارہ آپ کو یسوع کے فصل اور آسمانی بادشاہی کے تصور کی یاد دلانا چاہتا ہوں۔ اس کا تعلق متواتر دعا اور عام لوگوں سے ہے۔ میں آپ  کو یہ اصول دوبارہ یاد کرانا چاہتا ہوں :شاگردوں کا ایسے شاگرد بنانا جو آگے چل کر مزید شاگرد بنائیں اور سلامتی کے فرزند کی تلاش کرنا ۔میں آپ کو روح القدس اور سادہ کلام کا اصول بھی یاد دلانا چاہتا ہوں ۔اس کے ساتھ ساتھ ہمدردی کے اظہار  کے ذریعے منادی اور وسائل کے لئے خُدا پر بھروسہ کرنا نہ بھولیں۔ ضروری ہے کہ ہم یہ سب باتیں یاد رکھیں ۔

میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر یہ کام ہم خُدا کے طریقے سے کریں، تو وہ ماضی کی طرح آج بھی وفادار ہو گا۔ دنیا بدل رہی ہے اور بدلتی رہے گی ،مگر ہمارا خُدا کبھی نہیں بدلے گا ۔آپ دعا میں کچھ بھی مانگ لیں، خُدا کا خزانہ کبھی خالی نہیں ہو گا ۔مجھے یقین ہے کہ                                                                                                                        خُد اآپ کو تحریکوں میں بڑے بڑے کاموں کے لئے استعمال کر سکتا ہے ۔آیئے فصل کے مالک سے دعا کریں کہ وہ فصل کے کٹائی کے لئے مزدور بھیجے ۔آیئے یہ دعا بھی کریں کہ لوگ کلام لے کر جہاں بھی جائیں اُن کے لئے دروازے کُھلتے جائیں  تاکہ وہ بھٹکے ہوئے اور مرتے ہوئے لوگو ں تک انجیل کی خوشخبری پہنچا سکیں ۔آیئے خُد اسے وسائل کی فراہمی کے لئے دعا کریں۔ آیئے سلامتی کے فرزند کے لئے دعا کریں کہ خُد ادروازے کھولے اور سلامتی کے فرزند کی نشاندہی کرائے ۔

منادی کے وسیع تر احاطے کی یہ حکمت عملیاں کسی بھی تہذیب میں قابلِ انتقال اور قابلِ افزائش ہیں۔ مقامی چرچز ان کا استعمال کر کے کثیر تعداد میں ،وسیع تر تحریکیں چلا سکتے ہیں۔ یہ محض کتابی باتیں نہیں ہیں۔ میں نے انہی اصولوں پر عملی انداز میں زندگی گزاری، میں انہی پر کام کر رہا ہوں اور ضرورت پڑی تو میں ان کے لئے اپنی جان بھی دوں گا۔ میں آپ سب لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔ ان اصولوں کو اپنے دل میں رکھیں اور ان کے لئے دعا کریں۔ شروع میں یہ مشکل ہو سکتا ہے  لیکن یقین رکھیں کہ خُدا آپ کو کامیابی ضرور دے گا۔ اُس نے ہمیں بھی کامیابی دی ہے اور ہم ہر جگہ کثیر تعداد میں چرچز قائم ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہونا آپ کے لئے بھی ممکن ہے۔ سو میں آپ سے کہتا ہوں کہ دل مضبوط رکھیں۔ آمین۔

Categories
حرکات کے بارے میں

بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان تحریکوں کا آغاز

بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان تحریکوں کا آغاز

بہترین طریقوں اور اسالیب کی کیس سٹڈی

– سٹیو پر لاٹو – 

گلوبل اسمبلی آف پاسٹرز فور  فنشنگ دی ٹاسک کے لئے تیار کی گئی ایک ویڈیوسے تدوین شدہ

حصہ دوم: پھل لانے والے وسائل اور طریقۂ          کار

بدھ مت کے پیروکاروں کا نظریہ ٔزندگی حقیقت سے بہت مختلف ہے۔ اُن تک رسائی حاصل کرنے کے لئے میں نے اور دیگر لوگوں نے کچھ وسائل تیار کئے ہیں۔۔ یہ وسائل اُن کے تناظر میں کلام کو ایسے پیش کرتے ہیں جس کے ذریعے بدھ مت کے پیروکاروں کو ایمان کے دائرے میں لانے کے لئے آسانی ہو جاتی ہے ۔ان وسائل میں سے ایک کا عنوان ” پیدائش سے عدالت تک ” ہے۔ انہی میں سے ایک دوسرے وسیلے کو میں “یسوع کی چار عظیم سچائیاں ” کا نام دیتا ہوں۔ اسے میانمار میں موجود بدھ پس منظر رکھنے والے ایمان دار اور ایک غیر ملکی مشنری نے مل کر تیار کیا ۔جنہیں مقامی بامر بدھ   لوگوں کو اُن کی ضرورت کے مطابق انجیل کا مفہوم سمجھانے میں بہت مشکل پیش آ  رہی تھی ۔ ” یسوع کی چار عظیم سچائیاں ” ،بدھ پس منظر سے رکھنے والے بہت سے لوگوں کو ایمان کے دائرے میں لانے کا باعث بنی ہیں۔ پھر یہ ہی طریقہ کا ر تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں استعمال کیا گیا ۔ کمبوڈیا میں ہمیں اس کا مثبت اثر نظر آیا ،لیکن تھائی لینڈ میں کوئی خاص   کامیابی نہیں ملی ( جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اسے زیادہ تعداد میں لوگوں نے استعمال ہی نہیں کیا )۔تھائی لینڈ میں اسے اتنے وسیع پیمانے پر استعمال نہیں کیا گیا کہ اس کے اثرات  حقیقی طور پر نظر آتے۔ لیکن تھائی لینڈ میں میرے اپنے تجربے کے مطابق بہت سے بدھ مت کے پیروکاروں کے ساتھ  بات کرنے ہوئے میں نے جانا کہ وہ اصطلاحات سے واقف نہیں ہو سکے تھے ۔وہ اس وسیلے کے استعمال کے نتیجے میں حقائق کا موازنہ نہیں کر سکتے تھے۔ میں نے ایک مبشر کی حیثیت سے انہیں بدھ مت کے وہ نظریات بھی سمجھائے  جن سے وہ   واقفیت نہیں رکھتے تھے۔

 میانمار میں ایسے دکھائی دیتا تھا  کہ تقریبا سب ہی لوگ بدھ مت کے بنیادی نظریات سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس لئے وہ ہماری بات فوری طور پر سمجھ سکتے تھے ۔ گوتم بدھ کی چار عظیم سچائیوں کے مطابق، مسیحی پوری طرح اتفاق کرتے ہیں کہ زندگی تکلیفوں سے بھرپور ہے۔  نہ صر ف ہم ان تکلیفوں سے واقف ہیں بلکہ ہمیں یہ بھی پوری طرح معلوم ہے کہ یہ تکلیفیں کہاں سے آتی ہیں ۔اس کے لئے آپ پیدائش کے پہلے 3 ابواب کے حوالے دے سکتے ہیں ۔ہم پوری طرح اتفاق کرتے ہیں کہ یہ جسمانی خواہشات کی وجہ سے ہے، جو انسان کے اندر برائیوں کو جنم دے کر معاشروں کو تباہ کرتی ہیں اور مزید تکلیفوں کو جنم دیتی ہیں۔ سو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مصیبتیں اور تکلیفیں، گناہ اور نافرمانی کی وجہ سے آتی ہیں جو ہمارے خالق کے ساتھ ٹوٹے ہوئے رشتے کا نتیجہ ہیں۔  ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسانی زندگیاں گناہ سے بھری ہوئی ہیں ،جس کی وجہ اُن کے لالچ اور ہوس ہیں۔ آخر میں ہم انہیں بتا سکتے ہیں کہ ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں کوئی دکھ اور تکلیف نہیں ۔وہ اُسے نروان کہتے ہیں اور ہم اِسے خُدا کی بادشاہی کہتے ہیں ۔

اگر ہم جنت کا لفظ استعمال کریں تو ہمارے رابطے آگے نہیں بڑھ سکتے ۔بدھ مت کے پیروکار پہلے سے ہی جنت کے سات درجوں سے واقف ہیں ۔سو انہیں مسیحیوں کی جنت کی ضرورت نہیں ہے۔ جنت اُن کے پاس پہلے سے ہی موجود ہے۔ جنت کا ہمارا نظریہ بدھ مت کے نظریے سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے نظریے کے مطابق جنت کا مطلب کارما کے چکر سے نکل کر، گناہ اور اُس کے اثرات سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ آپ مسیح کے پاس آ کر اپنے گناہوں اور کارما سے چھٹکاراپا کر اُس کے ساتھ ابدی زندگی کا لطف اٹھا سکتے ہیں ۔ چار عظیم سچائیوں کا چوتھا نکتہ یہ ہے کہ آپ 8 پہلوؤں والے راستے پر پوری طرح چل کر نجات حاصل کر سکتے ہیں ۔ مسیحیت میں ہمارا ایک ہی راستہ ہے :  یسوع کے پیچھے چلنا ۔یسوع ہی راہ، حق اور زندگی ہے۔ اُس کے پیچھے چلے بغیر کوئی بھی باپ کے پاس نہیں آ سکتا ۔اس راستے کا دروازہ تنگ ہے، اور زندگی تک لے جانے والا راستہ طویل ہے۔ یہ دروازہ اور یہ طویل راستہ یسوع مسیح ہے۔ سو ہمارے پاس 8 راستے نہیں بلکہ ایک ہی راستہ ہے ۔

” پیدائش سے عدالت ” کے وسیلے کو میں نے ذاتی طور پر بدھ مت کے پیروکاروں کے ساتھ رابطہ کاری  کے لئے بہت موثر پایا ہے ۔میں نے سینکڑوں لوگوں کو اس وسیلے کی تربیت دی ہے، جس کے بعد انہوں نے مزید لوگوں کو تربیت دی۔ اُن میں سے بہت سے لوگ پیدائش سے عدالت کا وسیلہ استعمال کر کے کامیابی کی رپورٹ پیش کر رہے ہیں ۔تھائی لینڈ میں پیدائش سے عدالت کے وسیلے کے استعمال میں تقریباساڑھے  3 منٹ لگتے ہیں اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں : 

” ابتدا میں خُد انے آسمان اور زمین پیدا کیے۔ آسمان میں اُس نے بہت سے فرشتے بنائے  جن کاکا م  اُس کی خدمت اور عبادت کرنا تھا ۔ زمین پر اُس نے انسان بنائے۔ اُس نے مرد اور عورت کو اپنی شبیہ پر بنایا۔ انسان اور  خُد اکے درمیان ایک خاندان کے جیسا قریبی رشتہ تھا۔ خُدا نے جو کچھ بنایا وہ بہت اچھا تھا ۔لیکن ایک مسئلہ ہو گیا کہ آسمان پر ایک فرشتے اور اُس کے ساتھیوں نے خُد اکے خلاف بغاوت کر دی ۔وہ خُد اکے جیسا بننا چاہتے تھے ۔اس لئے خُدا نے انہیں آسمان سے اٹھا کر زمین پر پھینک دیا ،جس کے نتیجے میں ایک اور مسئلہ پیدا ہو گیا۔ خُدا کے بنائے ہوئے لوگ خُدا کی نافرمانی کرنے لگے اور اس طرح خُد ااور انسان کے درمیان خاندانی اور قریبی رشتہ ٹوٹ گیا۔ اس موقع پر موت دنیا میں آئی اور تب سے اب تک دنیا میں موجود ہے۔ ہر چیز تباہ ہو کر رہ گئی ۔لیکن چونکہ خُد الوگوں سے محبت رکھتا تھا اُس نے چیزوں کو اس بری حالت میں چھوڑ نہیں دیا ۔اُس نے وعدہ کیا کہ ایک منجی اور مدد گار آئے گا جو انسانوں اور خُد اکے درمیان ٹوٹے ہوئے رشتے کو بحال کرے گا ۔یہ منجی اور مدد گار یسوع ہے ۔یسوع نے ایک کامل زندگی گزاری ۔اُس نے کبھی گناہ نہیں کیا ۔اُس کے پاس بیماروں کو شفا دینے ، اندھوں کو بینائی دینے اور بہروں کو سُننے کی طاقت دینے کا اختیار تھا ۔ وہ لوگوں سے بدروحیں بھی نکال سکتا تھا ۔ اُس نے مردوں کو زندہ بھی کیا۔ اس کے باوجود کہ وہ اتنی اچھی زندگی گزار رہا تھا ،مذہبی راہنما اُس سے حسد کرنے لگے اور انہوں نے اُسے صلیب دے کر مار ڈالنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے اُسے گرفتار کیا اور اُسے صلیب پر جڑ دیا۔ اُ سکے مرنے کے بعد انہوں نے اُس کے جسم کو غار میں بنی ایک قبر میں رکھ دیا ۔خُد انے یسوع کی قربانی دیکھی اور وہ خوش ہوا ۔اس خوشی کے اظہار میں اُس نے تیسرے دن یسوع کو مردوں میں سے زندہ کیا ۔ بائبل کہتی ہے کہ جو کوئی اپنے گناہوں سے منہ موڑ کر اس معاون اور مددگار یسوع پر ایمان اوربھروسہ رکھتا ہے، وہ اپنے گناہوں اور کارما سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔ جو لوگ یہ کریں، انہیں  خُد اکے بچے بننے اور ہمیشہ زندہ رہنے کا حق مل جاتا ہے ۔یہ لوگ روح القدس بھی پائیں گے تاکہ اُس کے اختیار سے وہ ایسی زندگی گزاریں جس سے خُدا خوش ہو ۔مُردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد یسوع نے چالیس دن اپنے شاگردوں کے ساتھ گزارے جس کے بعد وہ آسمان پر چڑھ گیا ۔لیکن یسوع نے کہا کہ وہ واپس آئے گا۔ جب وہ واپس آئے گا تو دنیا کے تمام انسان، چاہے اُن کا تعلق کسی بھی نسل یا کسی بھی جگہ سے ہو ، وہ خُد اکی عدالت میں پیش ہوں گے۔ ہر شخص ایک ایک کر کے آگے آئے گا اور اپنے اچھے اور بُرے اعمال کا حساب دے گا۔ جو لوگ پہلے ہی یسوع پر ایمان اور بھروسہ نہیں رکھتے انہیں ہمیشہ کے لئے اُس سے الگ کر دیا جائے گا ۔میرے دوست میں خُد اکے خاندان کا فرد ہوں خُد اآپ سے محبت کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آپ بھی اُس کے خاندان کا فرد بنیں کیا آج آپ یہ کرنا چاہیں گے ؟ “

فیلڈمیں عملی سر گرمیوں کے دوران ہم یہ معلومات بہت سے لوگوں کو فراہم کرتے ہیں۔ اکثر  ایساہوتا ہے کہ ہم آخر تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔  لوگ ہمیں بیچ  میں روک کر سوال پوچھنے لگتے ہیں۔ انہیں وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے :اس کا کیا مطلب ہے ؟کیا یہ ایسے ہوا ؟کیا یہ کچھ اس طرح سے ہے ؟ ضروری ہے کہ رُک کر اُن کے سوالوں کے جواب دئے جائیں۔ اگر اس پوری تحریر کے بیان میں ڈیڑھ یا دو گھنٹے لگ جائیں تو یہ ایک بہت مثبت علامت ہے ۔

” یسوع کی چار عظیم سچائیاں ” اور ” پیدائش سے عدالت” کے دو وسائل بدھ مت کے پیروکاروں کو اُن کی سوچ کے تناظر میں پیغام دینے کے لئے بہترین ثابت ہوتے ہیں۔ بدھ علاقوں میں چرچ ابھی تک بنیادی طور پر مغربی طریقۂ کار استعمال کرتا رہا ہے اور اُن کی ساخت بھی بہت حد تک مغربی ہے ۔ جہاں  کہیں بدھ دنیا میں چرچز کے قیام کی کوششیں کا میاب ہوئی ہیں  ، اُن کی وجہ اُن کے تناظر کے مطابق پیغام کی پیش کش ہے۔ ہم آسان طریقہ ٔکار استعمال کرتے ہوئے ، مثلا میانمار میں گیزی گھنٹی کے استعمال کے ذریعے، اپنی دعائیں آسمان تک پہنچا سکتے ہیں ،یا آمین کہنے کے لئے کوئی مقامی الفاظ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ان چیزوں سے بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے  ۔ مقامی موسیقی یا  بائبل کی زبانی کہانیاں سُنانا بھی فائدہ مند ہے اور یہ چرچ کی صورت میں اکٹھے ہونے کے لئے بہت اہم عناصر ہیں اس کے نتیجے میں یوں نظر آنے لگتا ہے کہ چرچ اُن کی تہذیبی صورت حال کے مطابق اور انتہائی نارمل اور قابلِ قبول ہے یہ تمام طریقۂ  کار بدھ مت کے پس منظر رکھنے والے ایمانداروں کے ساتھ مشاروت کے بعد طے کیے جانے چاہئیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کلام کے سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے اور جب کبھی وہ کسی غیر ملکی مشنری سے بات کرتے ہیں تو وہ ایسے مشورے دینے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔

ہماری دنیا اور ہماری تہذیبیں بہت تیزی سے بدل رہی ہیں۔ کوئی تہذیب  بھی جامدنہیں ہوتی ۔اس لئے چرچ کو مقامی ساخت کے مطابق قائم کرنے کا مطلب یہ نہیں  کہ آپ  اُس علاقے کی تاریخ  کو محفوظ کر رہے ہیں یا کسی قدیم موسیقی کے صنف کو تحفظ دے رہے ہیں۔ تمام بدھ ممالک میں موسیقی کی  مختلف اقسام ہیں ۔اس لئے آپ ایسی موسیقی منتخب کر سکتے ہیں جو آج کے دور میں مقبول ہو  ۔چرچ کی ساخت لوگوں کی شناخت ، نسل یا اُن کی قومیت کو ختم نہیں کرتی۔ وہ مسیحی ہو کر بھی اپنی قومی شناخت قائم رکھ سکتے ہیں ۔ بدھ مت کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے مقامی ایمانداروں کو اصطلاحات کے انتخاب میں بہت سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ ہو کہ وہ کہیں “او،    یہ تو وہاں استعمال ہو رہا ہے، سو ہم بھی یہاں اسی کو استعمال کریں گے ” یا ” میں نے یو ٹیوب پر اسے دیکھا ہے،تو ہم اسے اسی طرح کریں گے “

غیر ملکی مشنریوں  کی ذمہ داری ہے کہ وہ  مقامی ایمانداروں کو غیر ارادی طور پر مغربی انداز کی طرف نہ لائیں ۔ ایڈو نیرم جٹسن میانمار  میں بدھوں کے درمیان ایک کامیاب مشنری گزرے ہیں۔ اُن کی تحریروں میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے طریقۂ کار اور اُن طریقوں کے پھل لانے پر بات کی ہے۔ سب سے پہلے ، اُن کے دل میں بھٹکے ہوؤں کی تلاش کا گہرا جذبہ تھا ۔ انہوں نے بائبل کا ترجمہ برمی زبان میں کیا اور یہ اُن کی مشنری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ لیکن اُن کا مقصد صرف بائبل کا ترجمہ کرنا ہی نہیں تھا ،بلکہ بھٹکے اور کھوئے ہوؤں تک رسائی حاصل کرنا بھی تھا  ۔اسی لئے ہم انہیں ایسے شخص کے طور پر جانتے ہیں جو بھٹکے ہوؤں کی تلاش کا جذبہ رکھتے تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ پورے ملک کے بدھ لوگ کلام سُنیں اور یسوع کو جانیں ۔” کوئی جگہ رہ نہ جائے ” کا تصور اُن کے دل اور دماغ میں بستا تھا ۔

انہوں نے ابتدائی مراحل میں ہی مقامی لوگوں کو قیادت کی ذمہ داریاں دے دی انہوں نے مقامی راہنماؤں کو بپتسمے دینے اور چرچ کی عبادت کی قیادت کرنے کی اجازت دی ۔ انہوں نے مقامی لوگوں کو چرچز کی قیادت دینے کا ایک مؤثر نظام بنا رکھا تھا ۔وہ پورے خاندانوں کو شاگرد بنانے کا جذبہ بھی رکھتے تھے۔ اُن کی تحریروں میں پتہ چلتا ہے کہ وہ پورے خاندانوں کو اکٹھا کر کے ایک راہنما کی نشاندہی کرتے تھے ،جسے خُدا نے چُھوا ہوتا تھا  ۔ایسے ایک شخص کے ذریعے وہ قریبی خاندانوں اور رشتہ داروں کو اکٹھا کر کے طویل دورانیے کے لئے انجیل پر بات چیت کا انتظام کرتے تھے ۔

آخر میں میں یقین رکھتا ہوں کہ بدھ دنیا کی چند مخصوص روحانی رکاوٹیں ہیں۔ غلط روابط وہ پہلی رکاوٹ تھے جسے مجھے اور میرے ساتھیوں کا سامنا ہوا ۔اکثر ٹیم کا ایک شخص کوئی ایک بات بتاتا اور دوسر ا اُس سے  مختلف یا  برعکس  بات کہتا ۔میں نے یہ بھی دیکھا کہ دنیا کے دیگر حصوں کے برعکس بدھوں کے خاندانوں میں  خاندانی اختلافات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ اختلافات بھی اچھی رابطہ  کاری میں رکاوٹ بنتے ہیں۔     ہم نے رابطہ کاری کے دوران بدھ تناظر کی روشنی میں پیغام واضح طور پر دیتے ہوئے بھی یوں محسوس کیا کہ ہمارے اور اُن کے درمیان کوئی رکاوٹ ہے۔ ہم نے ایک اور چیز بھی دیکھی کہ بدھوں کے درمیان کام کرنے والے غیر ملکی خادموں کو ہولناک خواب دِکھائی دیتے تھے : موت کے خواب !

میری دعا ہے کہ چاہے آپ دنیا میں کہیں بھی ہوں ، شاگرد سازی کے لئے میرے یہ وسائل   بدھوں کے درمیان شاگرد سازی کی تحریکیں شروع کرنے میں  آپ کے لئےمددگار ثابت ہوں ۔جب آپ اُن کے درمیان کام کریں تو ان کے جیسے بھی نظریات ہوں ، انہیں قبول کریں اور اُن سے اختلاف نہ کریں۔ انہیں  یسوع مسیح کی طرف بُلاتے ہوئے محبت کی عالم گیر زبان استعمال کریں تاکہ وہ یسوع میں ملنے والی حقیقی  آزادی اور کامل سچائی سے آگاہ ہوں۔ خود کو کسی اور مذہب کا مناد بنا کر پیش نہ کریں ۔ ہمارا ایمان کامل سچائی ہے جو ہر حقیقت اور ہمارے پورے مستقبل کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ دنیا کے تمام لوگوں کے لئے آخری اُمید ہے اس کے بارے میں شرمندہ ہونے یا پیچھے ہٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔

میں جانتا ہوں کہ کئی وجوہات کی بنا پر بدھ دنیا میں کامیابی کی شرح بہت کم ہے  –  سچائی کی سمجھ میں حائل بہت بڑی خلیجیں ، بدھوں اور مسیحیوں کی تعلیمات کا فرق ، پیغام کو اُن کے تناظر میں  پیش کرنے میں ناکامی، چرچز کی ساخت اور طریقہ کٔار کو بدھ تناظر کے مطابق  ڈھالنے میں ناکامی ، بائبل کے افزائشی اصولوں کے استعمال میں ناکامی  اور بدھوں کے درمیان کام کرنے کے دوران روحانی رکاوٹوں سے عدم آگاہی ہیں ۔ جب آپ اس سفر پر نکلیں تو آپ اپنے پیغام میں یہ سب شامل کر سکتے ہیں ۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسا کر کے آپ بدھ مت کے پیروکاروں تک پہنچ  کر ایک چھوٹی سی بنیاد رکھنے  کے قابل ہو جائیں گے اور اگلی نسل کے لئے اس کام کو آسان کر دیں گے۔ خُدا آپ کو آپ کی تمام کوششوں میں آپ کو فضل عنایت کرے ۔ 

Categories
حرکات کے بارے میں

دھ مت کے پیروکاروں کے درمیان تحریکوں کا آغاز

دھ مت کے پیروکاروں کے درمیان تحریکوں کا آغاز

بہترین طریقوں اور اسالیب کی کیس سٹڈی

-سٹیوپر لاٹو –

 

گلوبل اسمبلی آف پاسٹر ز فور فینشینگ دی ٹاسک کے لئے تیار کی گئی ایک ویڈیو سے تدوین شُدہ ۔

حصہ اول : تاریخ اور چیلنج

میری مشنری ایجنسی ، بیونڈ ،  14: 24  کے ایک عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہے جو دنیا کی ہر قوم اور ہر جگہ پر تحریکیں سرگرم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ میں آپ کو ایسے چند مسائل سے آگاہ کرنا چاہوں گا جو ہمیں بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان  شاگرد سازی کی تحریکیں چلانے میں در پیش ہوئے۔  دو صدیوں پر محیط پروٹیسٹنٹ مشنری کوششوں نے بدھوں کے درمیان بہت معمولی تبدیلی اور ترقی لائی۔ دنیا کے اورکسی بھی بڑے مذہب کی مقابلے میں بدھ ازم کی جانب سے انجیل کے پیغام کا بہت کم مثبت جواب ملا ۔اگر بدھوں کی جانب سے یسوع کے پیغام کا اتنا سرد مہر جواب مل رہا تھا تو اُن کے درمیان شاگرد سازی کی تحریک چلانا بہت ہی مشکل نظر آتا تھا ۔میں یہ بات بدھ مذہب کے درمیان شاگرد بنانے کی 30 سالہ کوششوں اور دوسرے لوگوں کی کیس سٹڈیز کی مطالعے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ۔ میں آپ کو بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان شاگرد سازی کی تحریکیں شروع کرنے کے لئے بہترین طور پر تیار کر سکتاہوں۔

بہت سے بدھ حقیقی طور پر روحانیت کی تلاش میں ہوتے ہیں۔  تو پھر بدھ مت کے پیروکار یسوع کا سچا پیغام قبول کیوں نہیں کرتے؟ میں آپ کو اس معاملے میں سُست پیش رفت کی کم ازکم پانچ وجوہات بتاسکتا ہوں ۔ 

سب سے پہلے یہ کہ بدھ مت اور مسیحی تعلیمات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں اور اس بارے میں کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 

دوسری وجہ یہ ہے کہ مسیحی انجیل کے پیغام کو اُس ماحول کے تناظر میں پیش کرنے سے قاصر رہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہمارے الفاظ تو درُست ہوتے تھے لیکن ہم پیغام مناسب طور پر نہیں پہنچا سکے تھے ۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ مسیحی زیادہ تر مغربی طریقے استعمال کر کے مغربی طرز کے چرچ قائم کرتے رہے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیائی قوموں میں بدھ مت کی اپنی ایک مخصوص نسلی اور قومی شناخت ہے۔ مثال کے طور پر ” بامر ” یا ” تھائی ” ہونےکا مطلب ہے بدھ  مذہب سے تعلق ہونا۔ اس لئے بدھ مت کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے مغربی انداز کے چرچ کا حصہ بننا بہت مشکل ہوتا ہے ۔

اس کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ شاگرد سازی اور چرچز کی تخم کاری میں  بائبل کے دیئے ہوئے تحریکوں کے لئے  مناسب اصول استعمال نہیں کئے گئے ۔

اور آخر میں ، بدھ لوگوں تک پہنچنے کے لئے چند ایسے روحانی مسائل ہیں جن سے نمٹنے کے لئے بین التہذیبی کارکن پوری طرح سے تیار نہیں ہیں۔  اوپر دیئے گئے پہلےنُکتے، بدھ مت اور مسیحیت  کی تعلیمات میں بڑے فرق کےسوا،  ہم مسیح کے رسول ہوتے ہوئے دیگر وجوہات کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور  کر سکتے ہیں ۔

بدھ مت اور مسیحیت کے طرزِ فکر میں  تضاد 

آئیے دیکھتے ہیں کہ مسیحی اور بدھ  تعلیمات میں کتنا  بڑافرق ہے ۔ سب سے پہلے بدھ مت میں کوئی خدا نہیں ہے۔ کسی خُدا کو جواب نہیں دینا پڑتا ، کوئی خُدا خفا یا ناراض نہیں ہوتا۔ لیکن خُدا کے ساتھ کوئی رشتہ قائم ہونے کا تصور بھی نہیں  ہے۔زندگی میں  راہنمائی کے لئے کوئی الہیٰ احکامات کا سر چشمہ بھی نہیں ہے ۔اچھائی اور برائی کرنے میں آپ صرف اور صرف اپنی ذات پر انحصار کرتے ہیں۔ بدھ مت پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ آپ کا انفرادی اور ذاتی سفر ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ بدھ مت کے پیروکار  “کارما” پر یقین رکھتے ہیں آسان ترین الفاظ میں کارما کا مطلب ہے عمل۔ تاہم مغربی لوگ جب یہی  لفظ کارما استعمال کرتے ہیں  تو اُس کا مطلب اصل میں کارما کا قانون ہوتا ہے۔ کارما کا قانون انسان کے اچھے اور برے اعمال کے نتائج کا  خلاصہ ہے۔ کارما کا قانون ایک ایسی قوت ہے جو انسان کی موجودہ زندگی اور مستقبل کی تمام زندگیوں  کا تعین کرتا ہے ۔

ایک تیسری مشکل یہ ہے کہ بدھ مذہب دیگر مذاہب کے ساتھ آسانی سے مل جُل جاتا ہے۔ اکثر دیگر مذاہب سے عقائد لے کر اپنے مذہب میں شامل کر لئے جاتے ہیں اور بدھ مت کی ایک مقامی شکل تخلیق کر لی جاتی ہے۔ اس کے برعکس مسیحیت میں تحریری صحائف موجود ہیں اور ایمان اور عمل کے لئے پہلے سے موجود خُدا کا کلام دیگر مذاہب سے کچھ لینے کو روکتا ہے ۔

تاریخ میں  بدھ مت کا پھیلاؤ اور دوسرے مذاہب کے بدھ مت پر اثرات 

بدھ مت کا جنم ہندوستان میں تقریبا 2560 سال پہلے ہوا ۔لیکن بدھ مت کے مشنری اُس کے طویل عرصے بعد ہندوستان کے شہنشاہ اشوکا ( 268سے 232 قبل مسیح ) کے دور میں دنیا بھر میں نکلے۔ بدھ مت کے پھیلاؤ کو دیکھ کر ہی سمجھ آ جاتی ہے کہ اُس پر دیگر مذاہب کا اثر کس طرح سے ہوا ۔

بدھ مت کے کچھ مشنری وسطی ایشیا کے علاقوں مثلا پاکستان اور ایران گئے جہاں انہوں نے بدھ مت کے ایک نئے فرقے ، مہایانہ  بدھ ازم کا آغاز کیا ۔آج کل اس علاقے میں بدھ مت صرف آثار قدیمہ میں باقی رہ گیا ہے۔ جب بدھ مذہب چین میں  داخل ہوا تو وہ اُ ن کی عبادت کے قدیم طور طریقوں اور تاؤ فلاسفی کے ساتھ مل گیا۔ بدھ مشنری جو سری لنکا گئے انہوں نے  بدھ ازم کے تھیراوادہ فرقے کی ابتدا کی ۔اس فرقے نے سن 30 عیسوی میں  پہلی مرتبہ گوتم بدھ کی تعلیمات تحریر کرنا شروع کیں۔ تھیراوادہ فرقے کا پہلا عبادت خانہ میانمار میں 228 قبل مسیح قائم کیا گیا۔ سری لنکا سے تھیرا وادہ فرقہ تھائی لینڈ ، کمبوڈیا اور پھر لاؤس تک پھیلا۔آخر میں اشوکا نے بدھ مشنریوں کو نیپال بھیجا جو بعد میں بُھوٹان ،تبت، منگولیا اور سائبریا میں  بورائیت قوموں تک بھی پہنچے ان علاقوں میں  بدھ مت بُت پرستی کے ایک عقیدے ، بون مذہب کے ساتھ مل جل گیا اس کے نتیجے میں ویجریانہ یا تبتی فرقے نے جنم لیا ۔

جب تاریخ میں بدھ مت پھیلا تووہ   پہلے ہی سے موجود تہذیبوں،  فلسفوں اور مذاہب کے ساتھ ملتا چلا گیا اور اُن پر غالب آتا گیا ۔یہ ایک کپڑے کی طرح تھا جیسے کسی چیز پر ڈال دیا جائے تو اُس کی شکل اُس چیز جیسی بن جاتی ہے ۔ تصویر میں کپڑے سے ڈھانپی ہوئی چیز دیکھ کر آپ کہہ سکتے ہیں  کہ اس کے نیچے ایک کُرسی موجود ہے۔ چونکہ بدھ مت ہر قسم کے عقائد کو قبول کرتا ہے اس لئے ایک بدھ کے لئے مسیحیت کی انفرادی تعلیم کو قبول کرنامشکل ہے ۔



اب میں آپ کو ایک ذاتی مثال دیتا ہوں۔ میں نے تھائی لینڈ کے ایک پولیس افسر کے ساتھ دو سال تک کام کر کے اُسے مسیح کے بارے میں  آگاہ کیا ۔وہ میرا اچھا دوست بن گیا۔ ایک دن وہ میرے پاس  آیا اور کہنے لگا ، ” ہیلو سٹیو، اب میں  تمہارے جیسا ایک مسیحی ہوں ” ۔

کچھ حد تک مشکوک ہو کر میں نے پوچھا ،” اس کا کیا مطلب ہے ؟”۔ اُس نے اپنا ہار دکھایا  جس پر طرح طرح کے دیوی دیوتاؤں کی شبیہ اور تعویز بندھے ہوئے تھے وہ کہنے لگا ،” دیکھو میں نے اس کے ساتھ صلیب بھی لگا دی ہے۔ اب یہ مجھے تحفظ دینے والا روحانی تعویز بن گئی ہے ” سو دیکھیے کہ ایک بدھ کے لئے یہ کہنا کتنا آسان ہے ، ” ہاں میں  ایمان لایا”۔ لیکن درحقیقت وہ آپ کی دی گئی تعلیم کو پہلےکی تعلیم کے ساتھ گڈمڈ کر کے رکھ دیتے ہیں ۔

مناظروں اور بحث و مباحثوں کا مسئلہ 

جب مسیحی مشنری  پہلی مرتبہ بدھ مت کے پیروکاروں کے پاس گئے تو انہوں نے بحث و مباحثے اور مناظروں کا طریقہ اپنایا ۔  انہوں نے بدھ مت کے نظام میں موجود خامیوں پر حملہ کر کے بدھوں کو   سچائی کی طرف لانے کی کوشش کی ۔ مثال کے طور پر ایک مشنری کہتا ،” تم بدھ لوگ دوبارہ زندہ ہونے پر یقین رکھتے ہو  لیکن ساتھ ہی یہ کہتے ہو کہ انسان کچھ بھی نہیں ہے ۔سو اگر انسان کچھ نہیں ہے تو وہ اگلی زندگی میں دوبارہ   کیسے جنم لے گا ؟”مشنری خادم مسیحی تعلیمات کو بہترانداز میں  پیش کرنے کی بجائے اُن کے مذہب میں کیڑے نکالنےمیں  مصروف رہے ۔ یہ   ہماری بہت بڑی تاریخی  ناکامی رہی ہے اور اس کی وجہ سے ہمیشہ اختلافات جنم لیتے رہے ہیں ۔ 

نظریہ  ِ ٔزندگی کی خلیج   

1960 کی دہائی میں  بدھ مذہب کے پیروکاروں اور مسیحیوں کے درمیان چیانگ مائی  ، تھائی لینڈ میں بین المذاہب مباحثوں  کا ایک سلسلہ  چلا۔ ان میں سے زیادہ تر مباحثے مناظرے کی شکل میں تھے ۔ان مباحثوں کے بعد ایک تھائی راہب نے بدھ مذہب کے پیروکاروں کو مسیحیت کی وضاحت کرنے کے لئے ایک کتاب لکھی۔ اُس کتاب میں  وہ کہتا ہے کہ خُدا جہالت ہے اور ہماری اس ٹوٹی پھوٹی دنیا اور ہماری تکلیفوں کی وجہ بھی خُدا ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ مسیحیوں اور بدھ عالموں کے درمیان تبادلہ ِ خیال کے باوجود بنیادی عقائد کے بارے میں  بہت بڑی غلط فہمیاں موجود رہیں: خُدا کو ن ہے اور انسانی تکلیفوں کی وجہ کیا ہے ؟

آیئے اب بدھ مت اور مسیحی سوچ کے درمیان اس وسیع فرق کو جاننے کے لئے بدھ مت کے فلسفہ زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تھیراوادہ بدھ ازم کے مطابق جنت کے سات درجے اور جہنم کے مختلف درجے ہیں۔ یہاں زمین پر گوتم چھٹی صدی قبل مسیح میں ایک شہزادے کی حیثیت سے پیداہوا اور 29 سال کی عمر میں وہ اپنے محل کی عیش وآرام کی زندگی چھوڑ کر روحانی سچائی کی تلاش میں سفر پر نکل گیا ۔ گوتم نے جانا کہ ہم دُکھ اور تکلیف بھری دنیا میں رہتے ہیں۔ خاص طور پر اُس نے یہ دیکھا کہ لوگ پیدا ہوتے ہیں اور اُس کے بعد جب عمر بڑھتی ہے تو وہ بوڑھے ہونے لگتے ہیں۔ پھر اُس نے یہ دیکھا کہ لوگ بیمار ہوتے ہیں انہیں طرح طرح کی بیماریوں کا سامنا ہوتا ہے اور آخر کار  وہ مرجاتے ہیں ۔وہ یہیں پر رُک نہیں گیا بلکہ اُس نے کہا کہ مرنے کے بعد لوگ نئے سرے سے جنم لیتے ہیں۔ یعنی وہ دوبارہ پیدا ہوتے ہیں ۔اس پورے عمل کو سمسر ا کہا جاتا ہے۔ سمسرا کا لفظی مطلب ہے بھٹکتے ہوئے پھرتے رہنا ۔لوگ پیدا ہونے ، بوڑھے ہونے ، بیمار ہونے اور مرنے کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں ۔وہ بار بار پید اہوتے ہیں لیکن بھٹکی ہوئی روحوں  کی طرح اس نہ ختم ہونے والے چکر میں  پھنسے رہتے ہیں ۔سو ہو سکتا ہے کہ زمین پر آپ کی زندگی اچھی نہ گذرے بدھ مت میں یہ عقیدہ بھی ہے کہ اگر آپ  حرامکاری کرتے ہیں تو آپ کو حرامکاروں کے لئے مخصوص ایک دوزخ میں  جانا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے کہ دوزخ کی اُس زندگی میں آپ کچھ اچھا کریں تو آپ دوبارہ زمین پر ایک انسان کی حیثیت سے پیدا ہو جائیں۔ پھر آپ بوڑھے ہوں، بیمار ہوں اور مر جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے ساتھ کچھ اچھا ہو اور آپ جنت کے کسی درجے میں پہنچ جائیں، اور پھر واپس زمین پر آئیں  ، پھر جنت کے ایک بہتر درجے میں جائیں، پھر زمین پر واپس آئیں اور پھر دوزخ میں  پہنچ جائیں۔ ممکنہ طور پر یہ سلسلہ ہزاروں زندگیوں تک چلتا رہ سکتا ہے ۔

سو بدھ مت میں نہ ختم ہونے والی تکلیف ہے جو ابد تک چلتی چلی جاتی ہے اس سلسلے سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے ۔اور وہ ہے نر وان حاصل کرنا ،جو بدھ مت کے پیروکاروں کے مطابق ایک سنہرا،   آسمانی شہر اور عظیم خوشی کی جگہ ہے۔  نروان کا تصور بدھ مت کے تمام فرقوں میں  موجود ہے۔

بدھ مت کا فلسفۂ زندگی چار حقیقی سچائیوں اور آٹھ راستوں پر مبنی ہے۔ پہلی سچائی یہ ہے کہ زندگی تکلیفوں سے بھری ہوئی ہے ۔پیدائش سے موت تک زندگی تکلیف ہی تکلیف ہے۔ تکلیف کی وجہ دوسری سچائی ،خواہش ہے جو انسان کے اندر موجود ہوتی ہے۔ تیسری سچائی یہ ہے کہ تکلیفوں سے نکلنے کا ایک راستہ موجود ہے۔ چوتھی سچائی یہ ہے کہ اگر لوگ تکلیفوں اور دکھوں کے سلسلے سے نکلنا چاہیں تو انہیں اپنی زندگی آٹھ راستوں کے مطابق گزارنی ہے ۔

راستبازی کی یہ آٹھ راہیں گوتم بدھ نے دریافت کیں ۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ درست کا لفظ لگتا ہے جس کا مطلب کامل یا مکمل بھی ہو سکتا ہے۔ مثلا درست سمجھ بوجھ یا کامل ارادہ ،وغیرہ۔ سب سے پہلا راستہ درست یا کامل سمجھ کا ہے کہ آپ حقیقت کو درست طور پر اور مکمل انداز میں سمجھیں۔ دوسرا راستہ درست نیت کا ہے کہ صحیح راستے پر چلنے کی نیت پوری طرح سے کامل ہو۔ تیسرا راستہ درست اور کامل بات کہنے کا ہے کہ ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کیا جائے ۔ چوتھا راستہ درست اور کامل اعمال ہیں ،یعنی ایک راستباز زندگی گزاری جائے۔   درست بات اور درست اعمال کے معاملے میں مسیحیت اور بدھ مت میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ پانچواں راستہ صحیح روزگار یا پیشہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک بدھ مت کا پیروکار قصاب نہیں بن سکتا،  نہ ہی وہ اسلحہ بیچ سکتا ہے۔ چھٹا راستہ درست کوشش کا ہے کہ ہر کام میں مستقل مزاجی اور دلی جذبے کے ساتھ کوشش کی جائے۔ ساتواں  راستہ کامل سوچ کا ہے، یعنی ہر وقت کامل آگہی اور شعور کے ساتھ زندگی گزاری جائے۔ آخری راستہ کامل توجہ کا ہے یعنی زندگی پر مکمل اور بہترین توجہ مرکوز رکھ کر جیا جائے۔ اگر آپ  کسی طرح سے ان آٹھ راستوں پر پوری طرح چل لیتے ہیں تو آپ کو نروان مل سکتا ہے۔ 

مہایانہ فرقہ گوتم بدھ کے دوبارہ جی اُٹھنے پر یقین رکھتا ہے۔ یہ دوبارہ جی اُٹھنے والے لوگ وہ ہوتے ہیں  جنہیں نروان مل چکا ہوتا ہے اور وہ دنیا میں آ کر لوگوں کو اُن کے سفر کی منزل تک پہنچانے میں مدد دیتے ہیں۔ تھیرا وادہ فرقے میں گوتم بدھ کے جی اُٹھنے کا کوئی تصور نہیں  ہے  اور ہر فرد کو اپنی طور پر ہی زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ یہاں مسیحیت اور بدھ مت کی تعلیمات میں بہت بڑے بڑے فرق ہیں ۔

اب اگر اس صورت حال میں کوئی مسیحی مشنری بدھ مذہب کے پیروکاروں کے پاس جائے تو بہت زیادہ غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں یوحنا 16: 3 ہی کودیکھیے :

کیونکہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی مُحبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بیٹا بخش دِیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے۔”( یوحنا 16: 3)

اگر آپ اپنے کسی بدھ دوست کو یہ آیت سُنائیں تو اس آیت کے ہر لفظ کو مزید وضاحت کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔آپ الفاظ تو بتا دیں گے لیکن آپ کو اُن کا مفہوم بھی سمجھانا پڑے گا ۔ 

سب سے پہلے اُن کا خیال ہے کہ خُدا موجود نہیں ہے۔ سو اگر آپ کہتے ہیں کہ ” خُدا نے دنیا سے اتنی محبت رکھی ” تو آپ کا بدھ دوست آپ کے بارے میں پہلے ہی مشکوک ہو جائے گا کیونکہ اُس کے خیال میں  تو خُدا موجود ہی نہیں  ۔پھر اگر خُدا دنیا کے تمام لوگوں سے محبت رکھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اُس کے اندر ایک خواہش یا ہوس موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خُدا سمسرا کے چکر میں پھنس گیا ہے اور اب وہ زندگی موت اور دوبارہ جنم لینے کے سلسلے کا حصہ بن گیا ہے۔ پھر اس کے بعد ” جو کوئی اُس پر ایمان لائے ” کا مطلب یہ نکل سکتا ہے کہ ایمان کے ذریعے نجات مل سکتی ہے۔ لیکن بدھ مت کے پیروکار تو صرف اور صرف عمل پر یقین رکھتے ہیں ۔سو ابتدا سے ہی یہاں ایک تضاد آجاتا ہے  کہ ایمان نہیں بلکہ انسان کی ذاتی کو ششیں نجات دلاتی ہیں ۔” ہمیشہ کی زندگی پائے ” کے الفاظ اُن نے ذہن میں  سمسرا کا تصور لاتے ہیں ۔ وہ سوچنے لگتے ہیں ،” میں تو یہ چاہتا ہی نہیں۔ ایک بدھ ہوتے ہوئے میں تو سمسرا کے تکلیف بھرے ابدی چکر سے باہر نکلنا چاہتا ہوں۔ سومیں یسوع کے پیچھے کیوں چلوں کہ مجھے پھر سے پیدا ہونے بوڑھا ہونے اور مرنے کے چکر میں پھنسا رہنا پڑے ؟”

اُن میں سے کوئی بھی کھُل کر آپ سے یہ سب کچھ نہیں کہے گا ۔ آپ کو صرف یہ کہا جائے گا ” ان باتوں کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں “یا شاید یہ کہا جائے ،” تمام مذاہب لوگوں کو نیک بننا سکھاتے ہیں “،” میرا اپنا مذہب ہے اور آپ کا اپنا  آپ کا مذہب۔ مجھے نہیں چاہیے۔ بات ختم “بدھ مذہب کے لوگ بہت تحمل مزاج ہوتے ہیں سو وہ نرمی سے کہہ سکتے ہیں ،” جی ہاں یسوع اچھا ہے اور ہم سب بھی بالکل اُسی کی طرح ہیں ” لیکن وہ یہاں یسوع کے بارےمیں کوئی خاص چیز دیکھ ہی نہیں پاتے اس طرح یہ ساری گفتگو  غیر متعلقہ ٹھہرتی اور ختم ہوجاتی ہے ۔

بدھ ازم اور مسیحی تعلیمات اور فلسفۂ زندگی کے درمیان موجود خلیج بدھ مت کے پیروکاروں کی جانب سے انجیل کو قبول نہ کرنے کی بہت بڑی وجوہات ہیں ،لیکن ہمارے دور میں خُدا نے اپنے بچوں کو ایسے طریقہ کار دریافت کرنے میں مدد دی ہے جو کہ اس خلیج کو کم کر سکتے ہیں ہم اس کیس سٹڈی کے دوسرے حصے میں اُن پر نظر ڈالیں گے ۔

Categories
حرکات کے بارے میں

بائبل میں مذ کور تحریکیں

بائبل میں مذ کور تحریکیں

– جے۔ سناڈ گراس –

تحریکیں ۔مشن کی دنیا میں اس لفظ کو سنتے ہی بہت سے ردعمل سامنے آتے ہیں۔ کیا اس کے حامیوں کے خیال کے  مطابق یہ ارشادِاعظم کا مستقبل ہے؟ یا یہ محض ایک  وقتی جنون ہے ؛یا ایک خواب جسے چرچ کی تخم کاری کرنے والے بہت سے لوگ دیکھتے رہے ہیں ۔ سب سے اہم سوال یہ ہے ،” کیا تحریکیں بائبل سے مطابقت رکھتی ہیں “؟

اعمال کی کتاب میں لوقا نے کلام کے حیرت انگیز رفتار سے پھیلاؤکا ذکر کیا ہے۔ لوقا کایہ بیان دراصل تحریکیوں کے لئے ایک معیار طے کر دیتا ہے ۔ اعمال کی کتاب میں لوقا ” یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ  اور زمین کی انتہا تک ” کلام کے پھیلاؤ کا ذکر کرتا ہے۔ جن لوگوں نے پینتکوست کے موقع پر پطرس کی باتیں سن کر اُس کا کلام قبول کیا، انہوں نے بپتسمہ لیا، اور اُسی دن 3000 ہزار آدمیوں کے قریب اُن میں مل گئے ( اعمال41: 2)۔ یروشلیم میں چرچ پھلتا پھولتا رہا کیو نکہ ” جو نجات پاتے تھے اُن کو خُداوند ہر روز اُن میں ملا دیتا تھا ” ( اعمال 2:47)۔ جب پطرس اور یوحنا مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی خوشخبری دے رہے تھے ،”  کلام کے سُننے والوں میں سے بہتیرے ایمان لائے یہاں تک کہ مردوں کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہو گئی ۔” ( اعمال 4:2،4)۔ کچھ  ہی  دیرکے بعد لوقا بتاتا ہے کہ ” ایمان لانے والے مرد اور عورت  خُداوند کی کلیسیا میں اور بھی کثرت سے آ ملے “( اعمال 5:14) اور پھر اُس کے بعد ،” خُدا  کا کلام پھیلتا رہا اور یروشلیم میں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھتا گیا ۔ “( اعمال 7: 6) 

جب کلام یروشلیم سے باہر پھیلا تو یہ ترقی اور افزائش جاری رہی۔ ” تمام یہودیہ اور سامریہ میں کلیسیا کو چین ہو گیا اور اُس کی ترقی ہوتی گئی اور وہ خُداوند کے خوف اور روح القدس کی تسلی پر چلتی اور بڑھتی جاتی تھی “( اعمال 31: 9) جب ستفنس  پر پڑنے والی مصیبت کے بعد بکھر جانے والے لوگ انطاکیہ آئے تو انہوں نے وہاں یونانیوں کو بھی خوشخبری دی۔” اور خُداوند کا ہاتھ اُن پر تھا اور بہت سے لوگ ایمان لا کر خُداوند کی طرف رجوع ہوئے “( اعمال21: 11) اور وہاںپیچھے                   یہودیہ میں ” خُدا کا کلام ترقی کرتا اور پھیلتا گیا ” 

( اعمال 24: 12) ۔

جب روح القدس اور اانطاکیہ کی کلیسیا نے پولوس اور برنباس کو خدمت کے لئے جُدا کیا تو انہوں نے  پسدیہ کے انطاکیہ میں کلام کی منادی کی غیر قوموں  نے کلام خوشی خوشی سُنا اور ایمان لے آئے ” اور اُس تمام علاقہ میں خُدا کا کلام پھیل گیا ” ( اعمال 49: 13)۔ بعد میں پولوس سیلاس کے ساتھ دوسرے سفر کے دوران دربے اور لُسترہ کی کلیسیا ؤں میں دوبارہ آیا ،” پس کلیسیائیں ایمان میں مضبوط اور شمار میں روز بروز زیادہ ہوتی گئیں ” ( اعمال 5 : 16)۔ افسس میں خدمت کے دوران پولوس ہر روز تُرنس کے مدرسہ میں بحث کیا کرتا تھا ،”یہاں تک کہ آسیہ کے رہنے والوں یا یہودی کیا یونانی سب نے خُداوند کا کلام سُنا “( اعمال 10: 19)۔ جب افسس میں کلام کو ترقی ملی تو ،” خُداوند کا کلام زور پکڑ کر پھیلتا اور غالب ہوتاگیا ” ( اعمال 20: 19) ۔آخر میں پولوس کے یروشلیم واپس آنے پر سب بزرگوں نے پولوس کو بتایا “کہ یہودیوں میں ہزار ہا آدمی ایمان لے آئے ہیں اور وہ سب شریعت کے بارے میں سر گرم ہیں “(  اعمال 20: 21) ۔

مشنری سفروں کے اختتام پر ایمانداروں کی تعداد جو ابتدا میں 120 تھی ،اور یروشلیم میں اکٹھی ہوتی تھی ( اعمال 15: 1)، وہ بڑھ کر ہزاروں میں پہنچ چکی تھی جو کہ شمال مشرقی سمندر کے آس پاس ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ یہ ایماندار اب چرچز میں اکٹھے ہوتے تھے اورتعداد اور ایمان میں بڑھتے چلے  جا رہے  تھے ( اعمال        16:5) یہ چرچز منادی اور کلیسیاؤں کی تعمیر کے کام میں پولوس کی مددکے لئے مزدور بھی بھیج رہے تھے ( اعما ل  13: 1-3 ،   1-3 16:، 4: 20) یہ سب کچھ تقریبا 25 سال کے عرصے میں مکمل ہو گیا ۔ 

ایک تحریک یہی  ہوتی ہے۔ اعمال کی کتاب میں کلام کی  اس ابتدائی تحریک کا ذکر موجود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اُن شاگردوں اور کلیسیاؤں کا ذکر بھی ہے جو اس کے نتیجے میں ابھریں ۔ اُس تحریک کے بارے میں اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں اور ہماے آج کے دور میں مشنری کام کے لئے وہ تحریک کیا اہمیت رکھتی ہے ؟ سب سے پہلے یہ روح القدس کا کام تھا جس نے : 

آغاز کیا :  (اعمال   2: 1-4   ) 

تیزرفتاری دی : (اعمال    2:47 ،                            4: 7-8، 4:29-31  ،اعمال    7:55،  ( 10:44-46

راہنمائی کی : (اعمال   8:29 ،  13:2 ، 15:28 ، 16:6-7 ، 20:22 )            اور 

تسلسل اور بقا بخشی: ( اعمال 9:31 ،  13:52،  20:28 ، رومیوں 15:19 )

“دوسری بات یہ کہ یہ تحریک مسیح کے کلام کی منادی اور گنہگاروں کے خُدا کے پاس آنے سے بڑھی۔ (اعمال       2:14- 17، , 21-24 ،3:12-26،       

4:5-12،   7:51-53 ،  8:5-8, 26-39 ،  10:34- 43 ،  13:5 ،  13:16-42 ،  14:1,6-7 ،    16:13,32 ،  17:2,3, 10,11, 17 ،  18:4 ،  19:8-10 )

کلام میں نجات کے لئے خُدا کی قدرت ہے ( رومیوں   1:16) اور ” خُداوند کا کلام زور پکڑ کر پھیلتا اور غالب ہوتا گیا “( اعمال     19:20) 

اور نئے علاقوں میں تحریکوں کو پھیلاتا چلا گیا ۔

تیسری بات یہ کہ اس کے ذریعے نئے علاقوں میں نئے چرچ قائم ہوئے جو کہ ایک بہت بڑے جغرافیائی علا قے پر پھیلے ہوئے تھے (یروشلیم سے لے کر سارے الرکم تک ۔  (اعمال   14:21-22 ، 16:1,40 ،  17:4,12,34 ،  18:8-11 ،  19:10 ،  20:1,17 )

چو نکہ یہ تمام چرچ ایمان میں فرمانبردار رہے ( رومیوں   15:19) تو یہ بہت حدوں تک خُدا کے عظیم کام میں شامل رہے ۔

اعمال کی کتاب سے حاصل ہونے والی تصور کے مطابق ہم بائبل میں مذکور تحاریک کی تعریف کچھ اس طرح سے پیش کر سکتے ہیں: روح القدس کی قوت سے بیک وقت کئی علاقوں اور قوموں میں کلام کا پُرجوش پھیلاؤ اور ترقی۔ اس میں نئے ایمانداروں کا بڑی تعداد میں اکٹھا ہونا ، ایمان کی پُر جوش منتقلی، اور شاگردوں کلیسیاؤں اور راہنماؤں  کی افزائش در افزائش شامل ہے۔

 اب جو تصویر ہمیں یہاں ملتی ہے اُس کے نتیجے میں یہ سوال سامنے آتا ہے :” اب یہاں اور آج کیوں نہیں؟” کیا بائبل میں ایسی وجوہات موجود ہیں  جن کے ذریعے ہم یہ یقین کر لیں کہ ویسی تحریکوں کے عناصر اب ہمارے پاس دستیاب نہیں ؟ یا اعمال میں مذکور تحریکوں جیسی تحریکیں آج پھر سے جنم نہیں لے سکتیں ؟ کلام اور روح القدس تو ہمارے پاس بھی وہ ہی ہے جو اُن کے  پاس تھا ۔ ہمارے پاس اعمال کی کتاب کی تمام  تحریکوں کی روداد موجود ہے اور ہم خُدا کے اس وعدے پر اعتبار کر سکتے ہیں :” کیوں کہ جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں تاکہ صبر سے اور کتاب مقدس کی تسلی سے امید رکھیں” ( رومیوں     15:4)  

کیا ہم یہ امید کرنے کی جرأت کر سکتے ہیں کہ ویسی تحریکیں جن کا ذکر اعمال کی کتاب میں ہے وہ آج بھی زندہ ہوسکتی ہیں ؟ دراصل ایسا ہو چکا ہے ! آج ہم پوری دنیا میں پھیلی ہوئی سینکڑوں تحریکیں دیکھ رہے ہیں !

جے سناڈ گراس  گذشتہ 12 سال سے جنوبی ایشیا  میں چرچز کی تُخم کاری اور اِس کی تربیت دے رہے ہیں۔   اُنہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ مِل کر ہندوؤں اور مسلمانوں میں کئی چرچز قا ئم  کئے اور تربیت دی۔  وہ ایپلائیڈ تھیالوجی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ 

مشن فرنٹئیرز        www.missionfrontiers.orgکے جنوری-فروری 2018  کے شمارے میں صفحہ  نمبر 28-26 پر شائع ہونے والے مضمُون سے   ماخُوذ اور تلخیص شدہ۔   24:14 – A Testimony to All Peoples  کے صفحات 169-156 پر بھی شائع ہُوا۔          24:14     یا           Amazonپر بھی دستیاب ہے۔ 

Categories
حرکات کے بارے میں

خُدا کس تیزی سے جنوبی ایشیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے-حصہ دوم

خُدا کس تیزی سے جنوبی ایشیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے-حصہ دوم

– واکر فیملی کی تحریر –

حصہ، اول میں ہم نے آپ کو جنوبی ایشیا میں  CPM  کی  ایک تحریک کے آغاز کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔  اُس تحریر میں دو نُکتہ ہائے نظر تھے؛ ایک ہم غیر مُلکیوں کا اور دوسرا  ہمارے کلیدی شراکت دار سنجے کا تھا۔

اس سارے عمل میں ہم نے بہت سے سبق سیکھے جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :

  1. متی کے10   ویں   اور لوقا کے 9   ویں اور10 ویں باب میں کھوئے ہوئے لوگوں کے ساتھ رابطے بنانے کے لئے ایک مؤثر حکمت عملی موجود ہے ۔
  2. معجزے ( شفا  اور/ یا      بدروحوں سے نجات ) لوگوں کو خُدا کی بادشاہی کی جانب لانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں ۔
  3. دریافت کا عمل جتنا آسان ہو اتنا ہی مؤثر ہوتا ہے۔ یوں ہم نے دریافتی مطالعے کوباربار نظر ِ ثانی کر کے آسان تر بنایا ۔
  4. انسانوں کے بنائے ہوئے طریقوں  اور اسلوب کی بجائے خُدا کے کلام کی بنیاد پر دی گئی تربیت زیادہ پُر زور،  مؤثر اور قابل تقلید ہوتی ہے ۔
  5. زیادہ  تعداد میں تربیتوں کا انعقاد کرنے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ اُن لوگوں کو اختیار اور تعاون دیا جائے جو CPM کے اصولوں پر عمل کر رہے ہیں ۔
  6. ہر کسی پر لازمی ہے کہ وہ یسوع کی فرمانبرداری کرے اور تربیت میں  سیکھی گئی ہر چیز  آگے کسی کو منتقل کرے۔ 
  7. یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کی نشان دہی کی جائے جو کلام کی بجائے روایتی طریقوں پر عمل کر رہے ہیں ۔لیکن ایسا انتہائی حساس   انداز میں   اور با اعتماد طریقے سے کیا جانا چاہے، نہ کہ جارحانہ انداز میں۔ 
  8. لازمی ہے کہ گھرانوں تک پہنچا جائے،، نہ کہ افراد تک ۔
  9. چرچز کے قیام سے پہلے اکٹھے ہونے والے ایمانداروں اور بعد میں  چرچز کے لئے  بھی دریافتی بائبل سٹڈی( DBS)  کا طریقہ کار استعمال کیا جانا چاہیے  ۔
  10. ناخواندہ اور نیم خواندہ شاگردوں کو زیادہ سے زیادہ پھل لانے کےلئے کام کرنے کی خاطر وسائل مہیا  کرنےضروری ہیں۔ اس مقصد کے لئے ہم انہیں کم قیمت اور آسانی سے چارج ہونے والے سپیکر فراہم کرتے ہیں جن کے میموری کارڈ  میں پہلے سے ہی بائبل کی ایک کہانی موجود ہوتی ہے ۔ یہ اُن لوگوں کے لئے ہے جو لکھ پڑھ نہیں سکتے  ۔ تقریبا نصف سے زیادہ چرچز انہی سپیکروں کے استعمال کے نتیجے میں قائم ہوئے ہیں۔ شاگرد مل کر بیٹھتے ہیں، بائبل کی کہانیاں سُنتے ہیں اور پھر انہیں اپنی زندگیوں پر لاگو کرتے ہیں ۔
  11. راہنماؤں کی باہمی میٹنگز کے نتیجے میں تمام راہنماؤں کو با تسلسل اور قابل تقلید باہمی  تربیت حاصل ہوتی ہے  ۔
  12. دعائیں اور مناجات   کرنا اور سُننا انتہائی لازمی ہے ۔

کئی مقامات پر یہ تحریکیں ایک باتسلسل انداز میں چوتھی نسل سے بھی آگے نکل چکی ہیں ۔چند مقامات پر یہ 29  ویں نسل  تک پہنچ گئی ہیں ۔      دراصل یہ صرف ایک تحریک نہیں ہے بلکہ کئی تحریکوں کا مجموعہ ہے جو 6 سے زیادہ جغرافیائی علاقوں ، کئی قسم کی زبانوں اور کئی قسم کے مذہبی پس منظر رکھنے والے لوگو ں میں جاری ہیں ۔  صرف تھوڑے سے چرچز ایسے ہیں جو کوئی  مخصوص مقام  یا کرایے پر حاصل شدہ عمارت استعمال کر رہے ہیں ۔ تقریبا سب ہی گھریلوُ   چرچز  ہیں جوکسی گھر یا صحن میں یا کسی درخت کے نیچے جمع ہو تے ہیں ۔

غیر ملکی محرکین کی حیثیت سے ہمارا کردار 

  • ہم  انتہائی سادہ ، قابل تقلید ، بائبلی نُکتہ ِنظر پیش کرتے ہیں ۔
  • ایک ٹیم کی حیثیت سے ہم دعا میں انتہائی مضبوط تعاون پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی بیرونِ  ملک سے تزویراتی انداز کی دعا متحرک کرتے ہیں ۔
  • ہم سولات پوچھتے ہیں  ۔ 
  • ہم مقامی لوگوں  کو تربیت کاری کی  تربیت دیتے ہیں کہ وہ دیگر لوگوں کو تربیت     دے سکیں۔ 
  • اگر کسی کو اگلا مرحلہ غیر واضح دِکھائی دے تو ہم مشاورت اور راہنمائی پیش کرتے ہیں۔ 
  • کسی ایسے معاملے میں جہاں ہم سنجے یا جان سے اتفاق نہ کرتے ہوں، تو ہم بہت محتاط انداز اختیار کرتے ہیں ۔ہم انہیں خود سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ وہ ہمارے ملازم نہیں بلکہ ہمارے ساتھی خادِم ہیں ،جو ہمارے ساتھ مل کر خُدا کی فرمانبرداری کر رہے ہیں ۔اس لئے ہم اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ ہماری کہی ہوئی بات کو حکم نہ سمجھیں، بلکہ ذاتی طور پر خُدا کے حکم کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔
  • اکثر ہم شاگرد سازی کی تحریکوں کے ماہر، اپنے ذاتی تربیت کار کو سنجے اور جان سے ملاقات کے لئے دعوت دیتے ہیں ۔  اس طرح سنجےاور جان کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ ایسے شخص سے تربیت حاصل کر سکیں  جو ہم سے زیادہ   مشاہدہ  اور کام  کاتجربہ رکھتا ہے ۔
  • ہماری کوشش ہے کہ ہم اُن کے اندر غیر ملکیوں  پرانحصارکاا حساس کم کریں ۔جہاں ممکن ہوتا ہے ہم میدان سے باہر ہو کر اُنہیں اپنے طور پر کا م کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ 
  • ہم راہنماؤں کی شاگرد سازی کے لئے وسائل فراہم کرتے ہیں  (بائبل اور راہنماؤں کی نشوونما کی تربیت ) ۔اس کے علاوہ ہم چرچز کی شاگرد سازی( دریافتی مطالعہ ) کے وسائل بھی فراہم کرتے ہیں ۔

تحریک میں خواتین کا کردار 

مرد راہنماؤں  کی تربیت  کاری اور سہولت کاری کے نتیجے میں شاگرد سازی کے میدان میں خواتین راہنما بھی ابھری ہیں ۔اِن خواتین راہنماؤں نے مزید خواتین کی نشوونما اور افزائش  کی ہے۔ درحقیقت خواتین راہنما ہمارے کام کا ایک کلیدی حصہ ہیں، جو ہماری تحریکوں کے مرکزی راہنماؤں کا 30 سے 40 فیصد ہیں۔ خواتین ،حتیٰ کہ نوجوان خواتین بھی، گھروں میں چرچز کی راہنمائی کرتی ہیں، نئے چرچز قائم کرتی ہیں اور دیگر خواتین کو بپتسمہ دیتی ہیں ۔

مقامی کلیدی راہنماؤں کا کردار 

حقیقت  یہ ہے کہ اصل کا م مقامی لوگ ہی کرتے ہیں۔ وہ دھول سے اٹی ہوئی سڑکوں پر سفر کرتے ہیں  ، گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور معجزوں اور نجات کے لئے دعا کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو ناخواندہ کسانوں اور اُن کے خاندانوں کے ساتھ بائبل سٹڈی کا آغاز کرتے ہیں ، اُن کے گھروں میں ٹھہرتے ہیں ،اُن کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ ایسے وقت میں بھی کرتے ہیں ، جب گرمی انتہائی شدید ہوتی ہے اور بجلی یا پانی بھی دستیاب نہیں ہوتا ۔ وہ اپنا کام کرتے جاتے ہیں اور اُس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے پھل پر بہت خوش اور پُرجوش ہوتے ہیں !ان کی کہانیاں اور گواہیاں ہی ہم باقی لوگوں کو آگے بڑھنے کے لئے ہمت دیتی ہیں۔ 

 

ترقی اور افزائش کے کلیدی عناصر 

  1. دعاؤں کا سُننا ۔دعا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ خُدا نے دعا کے ذریعہ ہی کئی مرتبہ ہمارے طریقہِ کار کو تبدیل کیا ہے ۔سُننا ،دعا کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس سارے سفر میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ بہت سے سوالات ابھرے ہیں :آگے کیا ہونے والا  ہے ؟ کیا ہم اس شخص کے ساتھ کام کرتے رہیں ؟کیا ہمارے سامنے ایک رکاوٹ آ گئی ہے ،اگلی تربیت کے لئے ہم کلام میں سے کون سے اقتباس استعمال کریں ؟ کیا ہم اپنے فنڈ کو مناسب طور پر استعمال کر رہے ہیں یا نہیں ؟کیا وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے اُس بھائی کو فارغ کر دیں جو ہمارے طریقہ کار کے مطابق عمل نہیں کر رہا یا اُسے مزید کچھ وقت دینے کی ضرورت ہے ؟ کیا ہم اِس شہر میں تربیت جاری رکھیں یا اس کا وقت ختم ہو چکا ہے؟ ہماری پوری ٹیم نے دعا کے بعد بیٹھ کر خُدا کے جواب   کا انتظار کرنا سیکھ لیا ہے۔ سوال کوئی، بھی ہو ہمیں جواب ضرور ملتا ہے ۔
  2. معجزے۔ تحریکوں میں رابطوں کی استواری بنیادی طور پر معجزات کے ذریعے ہوئی ہے ۔ ہم نے اس دوران شفا اور بدروحوں  سے نجات کے بہت سے واقعات دیکھے ہیں۔ معجزوں سے نہ صرف دریافتی بائبل سٹڈی کے دروازےکھُلتے ہیں بلکہ معجزوں کی خبر خاندانوں اور رابطوں میں پھیل کر مزید گھروں کے دروازے کھولتی ہے ۔ مثال کے طور پر کسی شاگرد کو بدروح کے قبضے میں  جکڑے ہوئےکسی شخص کے لئے دعا کرنے کا موقع مل سکتا ہے ۔جب اُس شخص کو نجات مل جاتی ہے  تو یہ خبر اُس کے پورے خاندان ،اور اُس کے رشتے داروں اور گاؤں کے دیگر لوگوں میں  بھی  پھیل جاتی ہے ۔ یہ دور کے رشتے دار پھر اُس شاگرد سے اپنے لئے بھی دعا کرنے کو کہتے ہیں ۔جب شاگرد اور بدروح سے نجات حاصل کرنے والا شخص جا کر دعا کرتے ہیں تو اکثر رشتے داروں کے لئے بھی معجزے رونما ہوتے ہیں اور دریافتی بائبل سٹڈی کا ایک اور گروپ شروع ہو جاتا ہے ۔اس طرح سادہ اور ان پڑھ لوگ، بشمول اُن کے جو ابھی خُدا کی بادشاہی میں داخل  نہیں ہوئے ہوتے ،خُدا کی بادشاہی کو پھلتا  پھولتا  دیکھنے لگتے ہیں ۔
  3. جائزہ کاری۔ ہم بہت سے سوالات پوچھتے ہیں :” ہم کیا کر رہے ہیں ؟ کیا ہمارے حالیہ اقدامات ہمیں اُس سمت میں لے جا رہے ہیں جہاں ہم جانا چاہتے ہیں ؟ اگر ہم ــــــــــ کریں ، تو کیا مقامی لوگ ہمارے بغیر کام چلا سکیں گے ؟ کیا وہ ہمارے کام کی تقلید کر سکیں گے؟ ” 
  4. ہم مالی وسائل کے استعمال کے بارے میں بہت محتاط ہیں ۔
  5. ہم اپنے وسائل کا انتخاب بہت احتیاط سے کرتے ہیں اور ضرورت کے مطابق اُن میں تبدیلی بھی لاتے ہیں ۔اگر کوئی نیا وسیلہ ہماری صورت حال سے مطابقت نہیں رکھتا تو ہم اُس میں ترمیم کرتے ہیں۔ ایسا کوئی فارمولا نہیں ہے جوہر  ایک کےلئے ایک سا کام کرے ۔

6۔ہماری جڑیں خُدا کے کلام میں ہیں۔ ہم بہت سی اچھی تعلیمات دے سکتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی اُتنی متاثر کُن نہیں ہو سکتیں جِتناروح القدس کلام کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو متاثر کرتا ہے ۔اسی لئے ہماری ہر تربیت ،،بہت مضبوط انداز میں، کلام کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے ۔ تربیتوں کے درمیان ہر کوئی مشاہدہ کرتا ہے ، سوالات پوچھتا ہے اور بہت گہرائی میں جا کر کھوج کرتا  ہے  ۔

7۔ ہر کوئی دوسروں  کو اُن چیزوں سے آگاہ کرتا ہے جو اُس نے سیکھی ہوتی ہیں ۔ کوئی بھی محض ایک ر ُکے ہوئے پانی والا تالاب بن کر نہیں رہتا  ۔ ہم سب بہتے دریا ہیں ۔شاگردوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہر تربیت میں سیکھی گئی چیزیں اپنے شاگرد سازی کے سلسلے میں جُڑے ہو ئے شاگردوں اور راہنماؤں کو منتقل کریں۔

ہم خُدا کی تمجید کرتے ہیں کہ اُس نے ہمارے لئے عظیم کام کئے ہیں ، خاص طور پر تب سے، جب سے ہم نے صرف اُس کے اس حکم پر پوری توجہ دینا شروع کی ہے کہ جاؤ اور تمام قوموں میں شاگرد بناؤ۔

“واکر” فیملی نے 2001 میں بین التہذیبی خِدمت کا آغاز کیا۔  انہوں  نے 2006  میں  Beyond (www.beyond.org)  میں شمولیت اختیار کی۔  2013  میں “فیبی” اُن کے ساتھ شامل ہوئی۔  فیبی اور واکر 2016 میں  دُوسرے ممالک میں منتقل ہو گئے اور فاصلے پر رہتے ہوئے تحریکوں کو معاونے پیش کر رہے ہیں۔

یہ  Mission Frontiers  کے جنوری-فروری 2018  کے شمارے  میں شائع ہونے والے مضمون  کی توسیعی صورت ہے۔ اِس میں  آر۔ریکیڈیل  سمتھ  کی کتاب           Dear Mom and Dad: An Adventure in Obedience  کے حصے بھی شامل ہیں۔ 

مُکمل مضمُون   24:14 – A Testimony to All Peoples    کے صفحات 129-121 پر ہے   جو        24:14   یا    Amazon       پر دستیاب ہے۔ 

Categories
حرکات کے بارے میں

خُدا کس تیزی سے جنوبی ایشیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے- حصہ اول

خُدا کس تیزی سے جنوبی ایشیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے- حصہ اول

– واکر فیملی کی تحریر –

ہماری ٹیم ایک شادی شدہ جوڑے، ایک غیر ملکی ، اور دو مقامی ساتھی کارکنوں پر مشتمل ہے ،جن کے نام سنجے اور جان ہیں۔  جان، سنجے کا چھوٹا بھائی ہے ۔ ہم سب مل کر خدمت کرتے ہیں۔  ہمارے لئے ” ہم ” یا ” وہ ” کے الفاظ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ہم سب یسوع کے شاگرد ہیں ۔ہم اُس کا حکم سُننے اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہم میں سے کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ ہمیں اپنے  کام کے طریقہ ِکار میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے، تو ہم بڑی عاجزی کے ساتھ ایک تجویز پوری ٹیم کے سامنے پیش کرتے ہیں، اور پھر خُدا سے درخواست کرتے ہیں  کہ وہ اپنے کلام کے ذریعے تجویز کی تصدیق اور تائید  کرئے۔ 

ہم غیر ملکی شروع سے ہی اس نظریے کے ساتھ میدان ِ عمل میں نہیں آئے تھے ۔ ہم نے خدمت کے میدان میں کئی سال اپنے ہی طریقوں پر عمل کرتے ہوئے گذارے۔ ہم مصروف رہے لیکن نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ سال 2011میں ہم نے شاگرد سازی کی تربیت میں شرکت کی، جس  کے لئے ہماری ایجنسی نے تعاون کیا تھا۔ اس تربیت نے ہماری زندگیاں بدل دیں ۔ ہم نے دو ہفتے تک خدا کے کلام کا گہرا مطالعہ  کیا ۔ہم نے مشنزکے بارے میں کوئی کتابیں پڑھیں اور نہ ہی مشن کے جدید نمونوں کا مطالعہ کیا۔ ہم نے بس اپنی اپنی بائبلیں  کھولیں اور ایسے سوالوں کے جواب تلاش کرنے لگے جیسے ، ” کیا یسوع کے پاس نارسا لوگوں تک پہنچنے کے لئے کوئی خاص حکمت علمی تھی ؟”

تربیت کے ان سِلسلوں کے ذریعے، خُدا نے ہمارا نُکتہ ِنظر تبدیل کر دیا ۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ہمارے سامنے اب ایک سوال تھا :” کیا ہو اگر ہم اپنی اپنی مہارتوں کے میدان  ( انجینئرنگ ، تدریس ، انتظامی مہارتیں  ، مواصلات ) سے ہٹ کر اُن چیزوں پر توجہ دیں جن کے کرنے کی واقعی اشد ضرورت ہے ؟”  خدمت کے میدان میں  گذارنے والے تمام سالوں کے دوران ہم نے اپنی مہارتوں کے استعمال پر توجہ دی تھی۔ سوال ہماری اپنی مہارتوں کے استعمال کا نہیں تھا بلکہ سوال  یہ تھا ،” بھٹکے ہوؤں کو نجات دلانے کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہے ؟” اس سوال کے جواب میں  ہماری مہارتوں کی ضرورت ختم ہو جاتی تھی ، اور اُن مہارتوں کی ضرورت پڑتی تھی جو ہمارے پاس نہیں تھیں، جیسے اجنبیوں کو دوست بنانا،  غیر ایمانداروں کے ساتھ مل کر دعا کرنا،  اور لوقا کے دسویں باب میں دی گئی ہدایات پر عمل کرنا ۔ ہمیں یہ جان کر واقعی اطمینان ہوا کہ متی   28:19 میں دیئے گئے یسوع کے حکم کی تعمیل  کے لئے ہمیں اپنے طریقہ ِکار،  اپنی شخصیات اور سوچ یا ذہانت کے معیار پر انحصار نہیں کرنا تھا ۔ یسوع نے اپنے ابتدائی شاگردوں کو اپنے پیچھے چلنے کے لئے اس نے اس لئے نہیں کہا تھا کہ وہ تمام لوگوں میں  سے بہترین اور ذہین ترین تھے۔  وہ ان پڑھ مچھیرے ، محصول لینے والے گنا ہ گار اور استحصال کا شکار، غریب  لوگ تھے، لیکن انہوں نے یسوع کے حکم کی تعمیل  کی ۔

یہ حقیقتیں جان کر ہمارے دل جوش سے بھر گئے ۔ہماری خدمت   کی زندگی میں پہلی مرتبہ ہم نے خُدا کی اس خواہش پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دی کہ ہمیں اپنی ذاتی مہارتوں کو ایک طرف چھوڑ کر دوسروں کو بچانا ہے۔ ہم نے نئے طریقہِ کار استعمال کرنا شروع کر دیئے جن میں مندرجہ ذیل شامل تھے :

(الف)      ذاتی فرمانبرداری ( ایسے لوگوں کی تلاش جو انجیل کے لئے اپنے گھرانوں کے دروازے کھول دیں ) 

(ب)     زیادہ پُر جوش اور مؤثر دعا ( دعا محض ایک ذاتی سرگرمی نہیں رہی بلکہ دعا ہمارے کا م اور خدمت کا لازمی حصہ بن گئی )

( ج)       موجودہ ایمانداروں کو اس کاوش میں اپنے ساتھ  شراکت کا نصب العین عطا کرنا ۔

(د)        دلچسپی رکھنے والے مسیحیوں کی تربیت 

(ہ)        اُن لوگوں سے تربیت حاصل کرنا جو اس کام میں ہم سے آگے تھے ۔ 

تربیت حاصل کرنے کے چند مہینوں کے بعد ہماری ملاقات سنجے نامی ایک واقف کار سے ہوئی ۔ہم اُسے گذشتہ کئی سالوں سے ملے نہیں تھے۔ ذیل میں  اُس میٹنگ کے بارے میں سنجے کے   تاثرات اُسی کے الفاظ میں پڑھیئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوا ۔ہم مسیحی روایات پر کاربند رہتے تھے۔ جب میں بڑا ہوا تو میں نے بائبل کی چار سالہ تعلیم لی اور پھر میں بائبل کا معلم  بن گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے ملک کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے دیہی علاقوں میں 17 مختلف چرچز کی ابتدا کی ۔ 

دسمبر 2011میں میں دہلی کی ایک سڑک پر واکر بھائی سے ملا ۔انہوں نے مجھے اپنے گھر پر چرچز کی تخم کاری کی تربیت کی دعوت دی۔ اپنی زندگی کے اُس دور میں میں ایک بڑا مغرور شخص تھا۔ میں ایک بہت بڑی منسٹری چلا رہا تھا ۔ میں نے ایک سکول اور بائبل کا تربیتی مرکز بھی قائم کر رکھا تھا۔ میں نے سوچا ،”یہ شخص مجھے کیا سِکھا سکتا ہے ؟” سو میں نے وہاں نہ جانےکا فیصلہ کیا۔

 تاہم، ایک مہینے بعد میں نے   انہیں نئے سال کی مبارک باد دینے کے لئے فون کیا  ۔ انہوں نے مجھ سے کہا ،”میں نے آپ سے چرچ کی تخم کاری کی تربیت کے بارے میں بات کی تھی۔ آپ کیوں نہیں آئے ؟” 

اب کی بار میں انکار نہیں کر سکا اور میں نے کہا کہ میں چند دوستوں کے ساتھ ضرور آؤں گا ۔

جب ہم وہاں پہنچے تو انہوں نے ہمیں  پینے کو پانی دیا اور ہماری آمد کاشکریہ ادا کیا۔ پھر انہوں  نے ہمیں کاغذ اور قلم دیئے اور کہا ،” آج ہم کلام کا مطالعہ کریں گے۔ میں سب کے لئے چائے بنانے جا رہا ہوں اس دوران آپ سب لوگ متی کے باب نمبر 28 کی آیت نمبر 16 سے ،20 بائبل سے اپنے اپنے کاغذ پر نقل کریں ۔اِس کے بعد اُس کے آگے لکھیں کہ آپ ان چیزوں کا اطلاق اپنی زندگیوں پر کیسے کریں گے” ۔

میں  سوچنے لگا،” یہ کس قسم کی تربیت ہے ؟ ہمیں بس اُس نے ایک   ورق اور ایک قلم تھمادیا ہے !”۔ میں اس سے پہلے ہی بائبل کالج میں تربیت حاصل کر چکا تھا ۔میں نے خدمت کے 12 سال کامیابی سے پورے کئے تھے ۔لیکن اگلے 10 منٹ میں مَیں بالکل تبدیل ہو کر رہ گیا ۔ 

میں نے متی کے باب نمبر 28 میں پڑھا کہ یسوع کہتا ہے کہ ہمیں جا کر تمام قوموں میں شاگردبنانے ہیں۔ میں نے یہ لکھ لیا۔ بعد میں جب میں نے انہیں اپنی لکھی  ہوئی چیزوں کے بارے میں  بتایا، تو واکر بھائی نے مجھ سے پوچھا ،” سنجے تمہاری منسٹری بہت بڑی ہے لیکن کیا تمہارے پاس کوئی شاگرد بھی ہیں ؟” 

 میں  نے سوچا ،”  میرے پاس تو ایک بھی شاگرد نہیں ہے۔ 10 سالوں میں  مَیں نے یسوع کے  لئے کچھ بھی نہیں کیا۔  اُس  نے شاگرد بنانے کو کہا تھا لیکن آج تک مَیں کچھ بھی نہیں کر سکا “۔

اگلے ماہ میں دوبارہ واکر کے خاندان سے ملنے آیا ۔ہم مل کر بیٹھے اور خُدا کے کلام کا مطالعہ کیا۔ اُس کے بعد سے مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے کچھ چیزیں پیچھے چھوڑنا پڑیں گی۔ مَیں صرف ایک خواہش لئے واپس گھر آیا کہ مجھے شاگرد بنانے ہیں ۔جس سکول کی میں نے ابتدا کی تھی ، میں نے اُس سے استعفیٰ دے دیا۔  اس کے علاوہ میں  نے ایک عالمی منسٹری کا اچھی تنخواہ والا عہدہ  اور بائبل کے  تربیتی  مرکز کےصدر کی حثییت سے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیا ۔ میں نے سب کچھ چھوڑ دیا۔ تب سے اب تک میری پوری توجہ کسی اور چیز کی بجائے یسوع کے حکم کی تعمیل پر رہی ہے اور خُدا نے میری ہر ضرورت ہر طرح سے پوری کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ہم ایک مہینے میں کم و بیش ایک مرتبہ سنجے اور اُس کے 15 دوستوں سے ملاقاتیں کرنے لگے، جنہیں  اُس نے اپنے صوبے کے مختلف ضلعوں سے دعوت دی تھی۔ اُن میں سے زیادہ تر مسیحی پس منظر اور کچھ ہندو پس منظر سے تعلق رکھنے والے ایماندار تھے ۔اُن میں سے جنہوں  نے CPM کے اصولوں کا  اطلاق شروع کیا ،انہیں جلد ہی پھل آتا نظر آنے لگا ۔سنجے اس گروپ کا ہیڈ کوچ تھا جو اُن کی ہمت بندھاتا رہتا تھا ۔

  • دسمبر 2012 تک 55  دریافتی بائبل گروپ شروع ہو چکے تھے جو سب کے سب کھوئے ہوئے لوگوں پر   مشتمل تھے ۔
  • دسمبر 2013 تک یہ 250 گروپوں تک پہنچ چکے تھے ( چرچز اور دریافتی گروپ ) ۔
  • دسمبر 2014 تک 700 چرچ قائم ہو چکے تھے اور تقریبا 2500 بپتسمے دیئے جا چکے تھے ۔
  • دسمبر 2015 تک 2000 چرچز قائم ہوئے اور تقریبا 9000 بپتسمے دیئے گئے ۔ 
  • دسمبر 2016 میں چرچز کی تعداد 6500 تھی اور بپتسموں کی تعداد تقریبا 25000 تھی ۔
  • دسمبر 2017 میں چرچز 21000 تک بڑھ چکے تھے اور بپتسموں کی تعداد کا شمار رکھنا ممکن نہیں رہا تھا ۔
  • دسمبر 2018 میں چرچز کی تعداد 30000 ہو چکی تھی ۔

 

حصہ دوم میں ہم آپ کو  اِس   عمل کے دوران ہمارے سیکھے ہوئے اسباق،  ہمارے ساتھ شامِل بہت سے لوگوں کے کرداروں  اور ترقی  کے ضامن کلیدی عناصر سے آگاہ کریں گے۔ 

“واکر” فیملی نے 2001 میں بین التہذیبی خِدمت کا آغاز کیا۔  انہوں  نے 2006  میں  Beyond (www.beyond.org)  میں شمولیت اختیار کی۔  2013  میں “فیبی” اُن کے ساتھ شامل ہوئی۔  فیبی اور واکر 2016 میں  دُوسرے ممالک میں منتقل ہو گئے اور فاصلے پر رہتے ہوئے تحریکوں کو معاونے پیش کر رہے ہیں۔

یہ  Mission Frontiers  کے جنوری-فروری 2018  کے شمارے  میں شائع ہونے والے مضمون  کی توسیعی صورت ہے۔ اِس میں  آر۔ریکیڈیل  سمتھ  کی کتاب           Dear Mom and Dad: An Adventure in Obedience  کے حصے بھی شامل ہیں۔

Categories
حرکات کے بارے میں

شاگرد سازی / چرچز کی تخم کاری کے بائبلی اسلوب

شاگرد سازی / چرچز کی تخم کاری کے بائبلی اسلوب

– نیتھن شینک –

فینشنگ دی ٹاسک کی  گلوبل پاسٹز اسمبلی کی ویڈیو سے ترمیم شُدہ

میں اور میری اہلیہ “کاری” ، سال 2000 سے جنوبی ایشیا میں مقیم ہیں اور خدمت کر رہے ہیں۔ ہمیں کئی نارسا قوموں میں خُدا کی بادشاہی کےاظہار اور چرچز کی افزائش دیکھنے کا اعزازحاصل ہے ۔آپ جانتے ہیں کہ ایمسٹرڈیم  میں سال 2000 کے بعد ہم فینشنگ دی ٹاسک کی کاوشوں  کی وجہ سے ملنے والی 20 سالہ کامیابیوں کا جشن منانے اکٹھے ہوئے ہیں۔ مختلف مشنری تنظیموں، مختلف چرچزاور فرقوں کے پس منظر رکھنے والے سینکڑوں راہنما AD2000  تحریک  اور لوسین کانگریس کے لائے ہوئے پھل کا جشن منانے ایمسٹر ڈیم میں جمع ہوئے تھے۔ لیکن اُنہوں نے اس بات پر بھی غور  کیا کہ ارشادِاعظم کے 2000 سال گزر جانے کے بعد ہم اُس ارشاد کی تعمیل میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں ۔

اُسی میٹنگ میں سب نے اس حقیقت سے بھی اتفاق کیا کہ دنیا کی ہزاروں قومیں ابھی تک انجیل کی خوشخبری سے دورہیں ۔ یقینا یہ بات  ناقابلِ قبول تھی۔ وہاں ہی ایک مقصد نے جنم لیا کہ ہم اپنی ہی نسل میں، ہر قوم، قبیلے اور اہلِ زبان کو خُدا کا پیغام پہنچا کر اُس کےتخت کے  سامنے پیش کریں۔  مجھے اور میری اہلیہ کو جنوبی ایشیا میں چرچز کی افزائش ہوتے دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ ہم اس بات سے بھی واقف ہیں   کہ کئی قومیں ابھی تک نا صرف نارسا ہیں،بلکہ اُن میں  کوئی سر گرمی بھی شروع نہیں کی گئی۔ اُن میں سے چند ایسی بھی ہیں جو ہمارے آس پاس کے علاقوں میں رہتی ہیں ۔

 ایمسٹرڈیم 2000 کے بعد دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ فینشنگ دی ٹاسک(FTT) ارشادِ اعظم کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2500 قوموں کو سر گرم کرنے کا محرک بنی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ مل کر اس پر غور کریں۔ ارشادِ اعظم کی تاریخ کے 2000سالہ تناظر  میں  دودہائیوں پر نظرڈالیں۔ اگر میرا حساب درست ہے تو یہ ارشاداعظم کی تاریخ کا صرف ایکفی صدحصہ ہے۔ سال 2000 سے اب تک کی دو دہائیوں میں FTT  کی تحریک صرف ایک فیصد کوششوں کا اظہار کرتی ہے ( ارشاد اعظم کی تاریخ کے 2000 سالوں میں سے صرف 20 سال )۔ آج ہم 20 سالوں پر محیط FTT  جیسی کوششوں کے پھل کا جشن منا رہے ہیں : اوسط سو سے زیادہ  نارسا قومیں بابل کے برج کے وقت کے بعد سے خوشخبری سُن رہی ہیں۔ انہیں مسیح کو جاننے کا موقع ملا ہے ،جس نے اُن کے گناہوں کی خاطر اپنی جان قربان کی ۔

ہمارے پاس خوشیاں منانے کی کئی وجوہات ہیں۔ ہم کایروس کی نسل میں جی رہے ہیں ۔ جس میں کلام نے پہلی مرتبہ ارشاد اعظم کی تاریخ کے ایک فیصد دورانیے میں دنیا کی 20 فیصد آبادی تک رسائی حاصل کر لی ۔ہمیں اکثر یہ سِکھایا جاتا ہے کہ  رسائی اور سر گرمی کی ابتدا کسی دوڑ کے آغاز کی طرح ہوتی ہے ۔لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس دوڑ کے پورا ہونے کو یقینی بنانا ہے اور ہم اسی بارے میں بات کرنے کے لئے آج یہاں موجود ہیں ۔

اس سیشن کا بنیادی مقصد کلام سے ان سوالوں کے جوابات  حاصل کرنا ہے :” اس معاملے میں سب سے ذیادہ پیچیدہ اور نازک عناصر کیا ہیں ؟ رسائی شروع ہونے کے بعد دوڑ کے وہ چکر جو ہمیں مکمل کرنے ہیں کون سے ہیں ؟” ہمارا مقصد صرف یہی نہیں ہے کہ پوری دنیا کی  تمام علاقائی تہذیبوں  میں چرچز قائم ہو ں اور خُدا کی بادشاہی کا مقامی طور پر اظہار ہو ۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ چرچز تعداد میں بڑھیں ،اس ذمہ داری کو قبول کریں اور  ہر قوم اور ہم ہر مقام پر ارشاد اعظم کی تکمیل کی کوششوں کی ذمہ داری قبول کریں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ چرچز مزید چرچز کو جنم دیں اور پھر چرچز کی نسلیں  ، نسل در نسل بڑھتی جائیں ۔ اس کے نتیجے میں ہر قوم اور قبیلے ، علاقے اور زبان سے خُدا کے تخت کے اردگرد لوگوں کی بڑی بھیڑ نظر آئے ۔ہمیں ایک بہت بڑا کام در پیش ہے : کرہ ِزمین کی تمام قومیں !اگرچہ ہم کایروس کی نسل میں ہیں جس میں پہلی مرتبہ اتنے ذیادہ لوگ سر گرم ہو چکے ہیں، لیکن اگر ہم یہ سوچنے لگیں کہ ہمارے منصوبے حکمت عملی اور قابلیتیں اس مقصد کے لئے کافی ہیں ، تو ہم غلط ہوں گے ۔ہم میں سے کوئی بھی نہ ہی اکیلے یہ کر سکتا ہے اور نہ ہی یہ فرض کر سکتا ہےکہ ہماری قابلیتیں ہمارے مقاصد حتی ٰکہ ہمارے منصوبے اور حکمت عملیاں بھی اس مقصد کوپورا کرنے کے لئے کافی ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ خُدا کی تمجید ہو ، اگرچہ ہم کچھ نہیں کر سکتے لیکن ہم اُس کا کلام اُٹھا کر پوچھ سکتے ہیں:” کہ جو دوڑ ہم نے شروع کی ہے ہم اُسے کیسے مکمل کریں ” ۔

کیا آپ  میرے ساتھ بائبل سٹڈی میں شامل ہونا پسند کریں گے ؟ جب ہم پورے خلوص کے ساتھ 100 فیصد نئے عہد نامے کے عقائد سے جُڑے رہتے ہیں  تو اس کے لئے اکثر “آرتھوڈاکس یا قدامت پرست ” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنے عقائد خُدا کے کلام سے براہ راست اخذ کرتے ہیں جو کہ نئے عہد نامے کی تعلیمات کی ابتدا میں ہیں ۔ اسی طرح ہم اپنے مشن کو بھی اسی اصول پر استوار کرتے ہیں، خاص طور پر جب ہمیں بہت سی نئی قوموں  اور نئے علاقوں میں پہلی مرتبہ تہذیبی رکاوٹیں عبور کرکے جانے کی ضرورت ہو۔ہمارے لئے بہترین  طریقہ یہی ہے کہ ہم نئے عہد نامے سے رجوع کریں ۔اور جب ہم اس مقصد کے لئے مل کر بیٹھتے ہیں  تو میں چاہوں گا کہ آپ بائبل میں اعمال کی کتاب کھولیں ۔  

جب آپ اعمال کی کتاب کا 13   واں باب کھولیں اور ہم اسے مل کر پڑھیں تو ہم جان جاتے ہیں کہ اعمال کی پوری کتاب میں لوقا چرچ کے پھیلاؤ کا جتنا بھی ذکر کرتا ہے وہ اعمال کے باب نمبر 1 کی آیت نمبر 8 میں دیئے گے خاکے پر مبنی ہے ۔جس روز ہمارا منجی آسمان پر چلا گیا ، اُس نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ وہ یروشلیم میں ٹھہرے رہیں اور روح القدس کا انتظار کریں ،جس کا وعدہ کیا گیا تھا ۔کیو نکہ اُس نے کہا کہ جب وہ نازل ہو گا تو، ” تم قوت پاؤ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے “

اعمال کی کتاب کے پہلے نصف حصے میں ہم فلپس اور پطرس جیسے منادوں کو یروشلیم اور پھر یہودیہ اور سامریہ کے علاقوں میں منادی کرتا دیکھتے ہیں۔ پھر جب ہم اعمال کے      13ویں  باب تک پہنچتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ برنباس اور ساؤل کو انطاکیہ کی کلیسیا میں بھیجا جاتا ہے۔ یہ وہ  مرحلہ ہے جہاں  کلام کو دنیا کی انتہاؤں تک بھیجنے کا آغاز ہوتا ہے۔ میرے ساتھ مل کر اعمال کا13  واں باب پڑھیے ۔ میں پہلی آیت سے آغاز کروں گا ۔” انطاکیہ میں اُس کلیسیا کے متعلق جو وہاں تھی کئی نبی اور معلم تھے ” اور اُس کے بعد پانچ ناموں کی فہرست دی گئی ہے۔  دوسری آیت کہتی ہے ” جب وہ خُداوند کی عبادت کر رہے اور روزے رکھ رہے تھے تو روح القدس نے کہا کہ میرے لئے برنباس اور ساؤل کو اُس کام کے واسطے مخصوص کر دو جس کے واسطے میں نے اُن کو بُلایا ہے۔ تب اُنہوں نے روزہ رکھ کر اور دعا کر کے اور اُن پر ہاتھ رکھ کر انہیں رخصت کیا ” ۔اس واقعہ کو عام طور پر پولوس کی منادی کے پہلے سفر کی ابتدا کہا جاتا ہے ۔یقینا ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صرف پولوس نہیں تھا بلکہ برنباس اور ساؤل تھے،  جو کہ اُس وقت تک پولوس کا نام تھا۔ اُن کا چناؤ اور اس مقصد کے لئے علیحدہ کیا جانا روح القدس کی بلاہٹ پر تھا۔

ہمارے ان آیات کے انتخاب اور انہیں خادموں منادوں اور رسولوں کو بھیجنے کی بنیاد بنانے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ لوقا ان آیات میں پہلی مرتبہ ارادی طور پر رسولوں کے بھیجنے کا واقعہ بیان کرتا ہے۔ اس کی ابتدا انطاکیہ کے چرچ سے ہوئی ۔ پھر ایمان دار اور کلیسیا  کے راہنما اکٹھے ہوکر دعا اور روزے میں مشغول ہو گئے، جو کہ فرمانبرداری کا اظہار ہے ۔اس طرح وہ روح القدس کی آواز سُن کر رسولوں کو منادی کے لئے بھیجنے کے قابل ہو گئے ۔ ان آیات کہ اہمیت کی ایک اوربڑی وجہ یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ بائبل کی اُن چند آیات میں سے ہیں جہاں تثلیث کی تیسری شخصیت یعنی روح القدس کا ذکر ہے۔ یہی وہ روح تھا جو پیدائش  کے پہلے باب میں پانیوں کے اوپر تیرتا تھا ،جب خُدا نے کہا ” روشنی ہو جا “۔ یہی روح تھا جس نے پطرس کے پہلے خط کے مطابق پرانے عہد نامے کے پیغمبروں کو منتخب کیا اور اُن کی راہنمائی کی۔ اُن پیغمبروں نے ہمیں خُدا کے کلام کے ذریعے راستبازی کی راہ دِکھائی۔ یہ روح القدس عموما خاموش رہتا ہے اور اُس کے کہے گئے الفاظ بائبل میں بہت کم جگہوں پر لکھے نظر آتے ہیں ۔

یہ آیات اس لئے بھی خاص ہیں کہ کلام میں پہلی مرتبہ،                                      پنتیکوست  کے بعد ، خُدا کا روح بول رہا ہے اور کلیسیا کو ہدایات دے رہا ہے۔ ہدایات کیا ہیں ؟” میرے لئے برنباس اور ساؤل کو اُس کام کے واسطے مخصوص کر دو جس کے واسطے میں نے ان کو بُلایا ہے ” ۔لوقا کلام کے اس حصے میں روح القدس کے الفاظ بیان کرتا ہے۔ ہم جان جاتے ہیں کہ روح القدس نے اپنے اختیار کے ذریعے اس مشن کی ابتدا کی اور اس مشنری  سفر کے ہر قدم پر وہ ہدایت اور راہنمائی دیتا رہے گا ۔ لیکن ہم اعمال کے 14  ویں باب میں ان آیات کا انجامِ کار بھی دیکھتے ہیں۔ کیا آپ میرے ساتھ مل کر بائبل کا اگلا صفحہ اُلٹیں گے ؟

اعمال کے 14  ویں باب کی 26  ویں آیت میں لوقا ایک بار پھر روح القدس کے شروع کئے گے اس کام کا ذکر کرتا ہے۔ اعمال 14:26 کہتی ہے ،” اور اطالیہ سے بربناس اور ساؤل، جِسے اب پولوس کہا جاتا تھا  ،جہاز پر اُس انطاکیہ میں آئے جہاں اُس کام کے لئے جو انہوں نے اب پورا کیا خُدا کے فضل کے سپُرد کئے گئے تھے “،یہاں لوقا، بین السطور کی ایک ادبی  اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ اعمال 13:2 میں روح القدس برنباس اور ساؤل کو اُس کام کے لئے علیحدہ کرنے کا کہتا ہے ،جس کے لئے اُس نے انہیں بُلایا اور اعمال 23   : 14  میں لوقا بین السطوراُ س کام کی  انجام دہی کا ذکر کرتا ہے۔ وہ وہاں واپس پہنچے جہاں خُدا نے انہیں اپنے فضل سے اُس کام کی ذمہ داری بخشی تھی اور جو اب وہ مکمل کر چکے تھے ۔ دراصل لوقا چاہتا ہے کہ پہلے مشنری سفر کے تناظر میں ہم ان دونوں بابوں کو ملا کر ایک ساتھ پڑھیں۔

اگر ہمیں مشنری بن کر زمین کی انتہاؤں تک قوموں میں سر گرم ہونا ہے ، اور اگر ہم اس مقصد کے ساتھ مخلص ہیں تو ضروری ہے کہ ہم اعمال کی کتاب کا جائزہ لیں اور خود کو اُسی منظر نامے میں رکھیں جو اعمال کی کتاب میں ہے۔ یہ وہ منظر نامہ ہے   جو کہ مشن کے لئے ماحول تخلیق کرتا ہے۔ پھر اگر ہم خُدا کی دی ہوئی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس کام کو  انجام تک پہنچانا ہے تو یہی مناسب ہے کہ ہم ان آیات سے رجوع کریں اوربس  یہ سوال پوچھیں ،” پولوس اور برنباس نے کس کام کے کرنے کی ذمہ داری اُٹھائی ؟” دوسری بات یہ کہ  ،” اُن کے کام کو مکمل اور پوری طرح سے انجام دیا گیا کس بنا پر کہا جا سکتا ہے ؟” یقینا اُنہوں نے وہ کام پوری دیانت داری اور خلوص کے ساتھ مکمل  کیا ۔

اب یہ آیات ہم میں سے کسی کے لئے بھی نئی نہیں ہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے پہلے مشنری سفر کے بارے میں ان آیات کو سینکڑوں مرتبہ پڑھا ہو گا۔جب ہم برنباس اور ساؤل ( جسے بعد میں پولوس کہا گیا ) کے کام پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ بات دلچسپی کی حامل نظر آتی ہے کہ اُن کے اس کام کی ابتدا روح القدس نے کی اور اُسی نے انہیں اختیار اور ہدایات دیں ۔ ہم اعمال 14: 14 میں ان دو رسولوں کو مشن پر جاتے ہوئے دیکھتے ہیں نارسا صوبوں اور شہروں میں پہنچنے والے یہ اولین لوگ تھے ان اولین لوگوں کو منادی کے دوران نہ صرف لسترہ میں ایک اجنبی زبان کی رکاوٹ کا سامنا تھا بلکہ طرح طرح کے بت پرستوں سے بھی نمٹنا تھا ۔کئی مقامات پر مثلاً پسدیہ کے انطاکیہ میں یہودی عبادت خانے میں اور کُپرس کے پورے جزیرے میں اور پافس میں ہم اُنہیں اُس بلاہٹ کا جواب دیتے ہوئے دیکھتے ہیں جو روح القدس کی طرف سے تھی ۔ ہم سر گیُس پولوس  صوبہ دار  کو خُدا کا کلام سُن کر ایمان لاتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ پھر اُس کے بعد انہیں پسدیہ کے انطاکیہ، اکُنیم ،لُسترہ اور دربے میں مزید بہت سے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔

ان قوموں اور علاقوں میں منادی کے دوران ہم بار بار اُن کے منہ سے یہ ہی الفاظ سُنتے جاتے ہیں “خُدا کا کلام ” ،”خُدا کا کلام ” ” خُدا کا کلام ” دراصل اعمال کے دو ابواب میں ہمیں نو مرتبہ یہ لکھا نظر آتا ہے کہ بھیجے ہوئے مشنریوں نے خُدا کا کلام سُنای۔ا خوشخبری کی گواہی کا بیج بوتے ہوئے وہ پوری طرح مخلص تھے۔ اعمال کے 13  ویں باب میں لوقا پسدیہ کے انطاکیہ کے وعظ پر 25 آیات لکھتا ہے۔ جب پولوس اور برنباس کلام کی منادی کرنے کو نکلے تو ہر جگہ اُس خوشخبری کو قبول نہیں کیا گیا ۔درحقیقت ہم       13  ویں  باب کی 46   ویں آیت میں دیکھتے ہیں کہ پسدیہ کے انطاکیہ میں یہودی عبادت خانے میں موجود  بہت سے یہودی کلام سُن کر حسد سے بھر گئے۔ آیت نمبر46 کہتی ہے ،” پولوس اور برنباس دلیر ہو کر کہنے لگے کہ ضرور تھا کہ خُدا کا کلام پہلے تمہیں سُنا یا جائے ،لیکن چو نکہ تم اُس کو  رد کرتے ہو اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی زندگی کے ناقابل ٹھہراتے ہو تو دیکھو ہم غیر قوموں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں “۔                    یسعیاہ نبی کا حوالہ دیتے ہوئے پولوس کہتا ہے ،” میں نے تجھے غیر قوموں کے لئے نوُر مقرر کیا تاکہ تو زمین کی انتہا تک نجات کا باعث ہو ”  آیت نمبر 48 ”  غیر قوم والے یہ سُن کر خوش ہوئے اور خُدا کے کلام کی بڑائی کرنے لگے اور جتنے ہمیشہ کی زندگی کے لئے مقرر کئے گئے تھے ایمان لے آئے ”   آیت نمبر 49 ، ” اور اُس تمام علاقہ میں خُدا کا کلام   پھیل گیا ” 

سو یہاں  پسدیہ کے انطاکیہ میں ہم صرف اولین مشنریوں کو قوموں میں خُدا کے کلام کی منادی کرتے نہیں دیکھتے ۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اُن قوموں  میں  جتنے ہمیشہ کی زندگی کے لئے مقرر کئے گئے تھے  وہ فورا ایمان لے آئے ،اور اُس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پورے علاقے میں پھیل گئے اور کلام کا بیج بونے کے کام میں شامل ہوگئے ۔یہ ایک بہت اہم تبدیلی  ہے ۔ پہلے مشنری سفر میں باب نمبر 13 کے اختتام سے پہلے 52   ویں آیت میں ہم ” شاگرد” کا لفظ دیکھتے ہیں۔ وہاں پسدیہ کے انطاکیہ  میں خوشی اور روح القدس سے معمور ہوتے رہے جہاں جہاں کلام کی منادی ہوئی ،جہاں جہاں بیج بویا گیا وہاں وہاں ہم کھیت میں نئی زندگی کا ظہور شاگردوں کی صورت میں  ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔   باب نمبر 13 میں اس سفر کے اختتام سے پہلے شاگرد کا لفظ مزید تین مرتبہ سامنے آتا ہے۔ گلتیہ کے شہروں اکنیم ،لُسترہ اور دربے میں نئے ایماندار پولوس کے ساتھ رہے، یہاں تک کہ لسترہ میں جب اُسے سنگسار کرکے  موت کے دہانے پر پہنچا دیا گیا اور اُس کے جسم کو کھینچ کر شہر سے باہر لے جایا گیا، تب بھی نئے ایمان دار اُس کے ارد گرد اکٹھے تھے۔  نئے ایماندار جمع ہوئے اور جب اُنہوں نے دعا کی تو پولوس اُٹھ کھڑا ہوا اور شہر میں واپس چلا گیا ۔ دربے لسترہ اور اکُنیم کے شاگردوں کو پولوس اور برنباس نے کہا ،” ضرور ہے کہ ہم بہت مصیبتیں سہہ کر خُدا کی بادشاہی میں داخل  ہوں “پولوس اور برنباس  نہ صرف اولین مشنری بنے ، نہ صرف انہوں نے خوشخبری کا پیغام  پھیلایا بلکہ انہوں نے اُن شہروں میں سے ہر ایک میں نئے شاگردوں کی نگہداشت اور نشوونما بھی کی ۔ یہاں تک کہ وہ اُن شہروں میں بھی واپس گئے جہاں اُنہیں ایذارسانی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ( پولوس کو تو سنگسار کرکے مردہ سمجھ لیا گیا تھا لیکن اُس نے یہ سب کچھ نئے ایمانداروں کی نشوونما اور ایمان میں ترقی کی خاطر برداشت کیا) ۔

اگر آپ کی بائبل کھُلی ہے تو اعمال  14:23پر نظر ڈالیں ۔واپسی کے سفر میں وہ اُن شہروں میں واپس گئے جہاں انہوں  نے خُدا کے کلام کا بیج بویا تھا اور جہاں شاگرد بنے تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کلیسیا میں اُن کے لئے بزرگوں کو مقرر کیا ۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہیں مقامی پاسبانوں اور نئے گلے کے لئے راہنماؤں کے تقرر کی بہت فکر تھی اس مشنری ذمہ داری اور پہلے سفر کو لوقا ” کام ”    کا نام دیتا ہے ۔ اس کام کے بہت سے پہلو ہیں ہمارے لئے اس کام کے تکمیل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اولین بنیں ۔یہ کام سرگرمی کا آغاز کرنے سے شروع ہوتا ہے لیکن یاد رکھیے کہ سرگرمی شروع کر لینا محض دوڑ کا آغاز ہے ۔ ہمیں دوڑ کے سارے چکر پورے کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جب ہم خالی کھیتوں میں جاتے ہیں تو ہمارا مقصد کلام کا بیج بونا  ہوتا  ہے ۔ جب کلام کا بیج بو دیا جاتا ہے تو یہ قدرتی سی بات ہے کہ روح القدس کی شراکت ہونے کے باوجود شاگرد سازی کی صورت میں نئے حاصل ہونے والے ایمانداروں کی نگہداشت اور نشوونما  کی جائے۔ اسی طرح کھیتی بڑھتی اور کاٹنے کے قابل ہوتی ہے ،تاکہ چرچز کا قیام عمل میں  آ سکے ۔ 

نئے راہنما نہ صرف مقامی گلہ کی پاسبانی کرنے کے لئے ابھرتے ہیں بلکہ ( جیسا کہ ہم اعمال 1 : 16 میں لسترہ کی کلیسیا میں تیمتھیس کو ابھرتا دیکھتے ہیں) وہ اگلے خالی کھیت میں کلام کا بیج بونے والوں کے ساتھ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ کیا آپ کو یہاں ایک نمونہ نظر آتا ہے ؟ کیا آپ اعمال کی کتاب میں مشن کے کام کا مقصد سمجھ سکتے ہیں ؟ یہ کام صرف پہلے سفر تک محدود نہیں ۔جو کچھ پہلے سفر میں ہوتا ہے وہ  دوسرے اور تیسرے سفر میں دوہرایا جاتا ہے۔ جب پولوس اور برنباس ( اور بعد میں پولوس، سیلاس اور تیمتھیس ) مقدونیہ کی بلاہٹ پر وہاں چلے تو اُن لوگوں نے پیچھے رہ جانے والی کلیسیا کی نگہبانی سنبھال لی ۔ یہی نمونہ ہمیں کرنتھیوں اور آسیہ کے صوبے میں افسس کی کلیسیا میں بھی نظر آتا ہے ۔

یہاں ہمیں ہر جگہ ،کلام کی منادی ، شاگرد سازی اور نئی کلیسیاؤں کو جنم دینے والی کلیسیاؤں میں افزائش کا عنصر نظر آتا ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ نئی کھیتی میں سے ہی وہ لوگ ابھرتے ہیں جو مزید فصل تیار کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس نمونے کا ہر پہلو اپنی جگہ بہت اہم ہے ۔               جہاں ہم ابتدا کئے ہوئے کام کو مکمل کرتے ہیں تو وہاں ہم دوڑ  دوڑتے نظر آتے ہیں۔ ہر نئی جگہ پر کلام کا بیج بوتے ہوئے ،شاگرد بناتے ہوئے ، چرچ قائم کرتے ہوئے اور راہنماؤں کا تقرر کرتے ہوئے ہم اسی عمل کو دوہراتے چلے جاتے ہیں ۔

آیئے اپنی زندگیوں اور اپنے دنوں کو بہترین انداز میں گزاریں  جیسا کہ زبور نمبر 90 میں ہے کہ ہم خُدا سے دعا کریں کہ وہ ہم کو اپنے دن گننا سِکھائے ،تاکہ ہم وہ ذمہ داری پوری کریں جو ہمیں دی گئی ہے :کا م ،کام اور کام ۔ ہماری سب سے پہلی ترجیح یہی  ہونی چاہیے کہ ہم اُس کام کو پورا ہوتے اور خُداوند کو واپس آتا دیکھیں۔ جیسا کہ متی کے باب نمبر 25 میں ہے کہ جب وہ آئے اور ہمیں اپنا کا م کرتے دیکھے  تو کہے ” شاباش اچھے اور مخلص خادم ”  ۔اُس کام کو یاد رکھیں جس کی تکمیل کے لئے وہ ہمیں بُلا رہا ہے – اپنے چرچز ، اپنی تنظیموں اور اداروں میں  ایمانداروں  کو متحرک کرنا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ پوچھیں کہ میں کلام کسے سُناؤں ؟ میں کلام کی منادی میں کسے اپنے ساتھ شریک کروں ؟   FTT  آپ کے ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے تیار ہے۔  جب آپ اپنے لئے کوئی ہدف مقرر کرتے ہیں ،جب آپ کو  قوموں کی طرف جانے کی بلاہٹ ہوتی ہے یا آپ زمین کی انتہاؤں تک جانا چاہتے ہیں تو ایک اور سوال ابھرتا ہے ،” میں کیا کہوں ؟ میں اُن لوگوں کےدرمیان  کلام کی سچائی کو کیسے قائم رکھوں جنہوں نے ابھی تک سُنا نہیں ہے ؟ ”  پھر ایک تیسرا سوال ہے ،” اگر وہ ہاں کہہ دیں تو میں کیا کروں ؟ میں شاگرد کیسے بناؤں ؟” اگر آپ کے شاگردوں کے دلوں اور  ذہنوں میں ان سوالوں کے جوابات واضح ہوں تو انہیں متحرک کر کے نئے شاگرد بنانے کے لئے   بھیجا جا سکتا ہے۔ ایک چوتھا سوال ،” ہم چرچ کیسے قائم کر یں گے ؟ ہماری ذاتی پسند یا نا پسند ، ہمارے تہذیبی تناظر  اور فرقے کی روایات سے ہٹ کر خُدا کا کلام مسیح کی دُلہن کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟ ہم انہیں مسیح کا بدن کیسے بنائیں ؟ ” اگر آپ اس سوال کا جواب خُدا کے کلام میں تلاش کر لیں تو آپ کے شاگرد چرچز کا قیام کرنے والے اولین لوگ بن سکتے ہیں ۔اور آخر میں ، ” ہم ایسے راہنما ؤں کی افزائش کس طرح کریں جو یہ ہی سب کچھ باربار کر سکیں -نئی جگہوں پر جا کر پوری سچائی کے ساتھ کلام کا بیج بونا ، کلام قبول کرنے والےلوگوں کو شاگرد بنانا ،  اُس فصل سے حاصل ہونے والے لوگوں کو چرچ کی شکل دینا اور پھر ایسے راہنماؤں کی تلاش اور تقرر کرنا جو بار بار یہ عمل دوہرا سکتے ہیں ۔ ہر قوم قبیلے امت اور زبان تک پہنچنے کے لئے یہ بڑا پیچیدہ راستہ ہے ۔

مکاشفہ کے 7  ویں باب میں جس بے شمار بھیڑ کا ذکر ہے اُسے حاصل کرنے کے لئے ضرورت ہے کہ ہم افزائش در افزائش کریں ۔کیا آپ اپنے شاگردوں کو یہی کا م حوالے کرنے کے لئے تیار ہیں ؟ کیا آپ تیار ہیں کہ انہیں قوموں کے درمیان بھیجیں – دنیا کی انتہاؤں تک ؟ اور شاید اس سے پہلے پوچھا گیا سوال دوبارہ سامنے آئے – کیا آپ خُدا کے روح کی آواز سُن سکتے ہیں جو آپ کو بُلا رہا ہے اور فصل کے لئے مزدور بھیجنے کو کہہ رہا ہے ؟ 

کام کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ مشن کا آغاز کیا جائے اور مشنریوں کو بھیجا جائے۔ رومیوں  باب نمبر 10 کے مطابق جس پر وہ ایمان نہیں لائے اُس سے کیوں کر دعا کریں ؟ اور جس کا ذکر انہوں نے سُنا نہیں اُس پر ایمان کیوں کر لائیں ؟ اور بغیر منادی کرنے والے کے کیوں کر سُنیں ؟ ہر جگہ خُدا کی بادشاہی کی جانب پہلا قدم مزدوروں کے بھیجنے کا قدم ہے اور ہم کایروس کی نسل کے درمیان زندہ ہیں ۔

ایک سو سال پہلے جے او فریزر نامی ایک مشنری ،جنہیں میں مشنری ہیرو مانتا ہوں ، جنوب مغربی چین میں لیسو نامی قوم  کے درمیان خدمت کر رہے تھے اپنے مشنری کام کے بارےمیں انہوں نے کہا :

مشن کے میدان میں کسی شخص کا جانا ایسا ہے جیسے کوئی اپنے ہاتھ میں جلتی ہوئی تیلی لئے ایک نم اور تاریک وادی میں پہنچے جہاں وہ کسی بھی جل سکنے والی چیز کو آگ لگا نا چاہتا ہو لیکن وہاں ہر گیلی ہو ۔ اور جتنی بھی کوشش کر لے وہ کسی چیز کو جلا نہیں سکتا دوسری صورت حال ایسی ہو سکتی ہے کہ خُدا نےہوا اور دھوپ کے ذریعے پہلے سے ہی وادی کو خشک کر رکھا ہو ۔ اور جس چیز کو بھی وہ آگ لگائے ،چاہے وہ جھاڑی ، درخت ، چند ٹہنیاں  یا پتوں کا ڈھیر ہو جلنے لگیں اور جلانے والے کے چلےجانے کے بعد بھی دیر تک روشنی اور حرارت دیتے رہیں ۔ خُدا ہم سے یہی چاہتا ہے: پوری دنیا میں جگہ جگہ جلتی ہوئی چھوٹی چھوٹی آگ ۔

فینشنگ دی ٹاسک کی کوششوں کا شکریہ کیونکہ اُن کی وجہ سے ہماری نسل کی دو دہائیوں میں دنیا میں کئی جگہ  ہزاروں مقامات پر حقیقتاً ایسی آگ جل رہی ہے ۔ ارشاداعظم کی تاریخ کے آخری ایک فیصد دورانیے میں دنیا کے 20 فیصد لوگ اور قومیں سرگرم ہو چکے ہیں ۔ اگر سر گرمی کی ابتدا دوڑ کے آغاز کی طرح ہے تو دوڑ کے چکر ابھی باقی ہیں۔ یہ چکر ہیں – کلام کا بیج بونا ، شاگرد سازی کرنا اور چرچز کا قیام کرنا ۔ فریزر  کے الفاظ کے مطابق لکڑیوں کو جلا کر چھوٹی سی آگ جلانا ۔

بھائیو  اور بہنو! اس دوڑ میں آگے بڑھتے ہوئے اس بات کا یقین کر لیں کہ     FTT اور اُس جیسی دیگر تنظیموں کی جلائی ہوئی آگ کے الاؤ  ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ میری بات کا یقین کیجیے   کہ یہ آگ ہم تک پہنچ رہی ہے۔ ہماری نسل میں ہی خُدا کی بادشاہی کا ظہور ہونے والا ہے۔ کیو ں نہ ہو کہ ہم وہ نسل بن جائیں جو اس کام کی تکمیل کرے ؟  FTT   نہ صرف آپ کو یہ مقصد دے رہی ہے ، نہ صرف آپ کو نارسا قوموں کی شناخت اور نشاندہی کرنے کو کہہ رہی ہے، بلکہ آپ کو تربیت دینے کے لئے بھی موجود ہے ۔ یہ تنظیم آپ کے ذریعے آپ کے چرچ اور آپ کی مشنری تنظیم کو متحرک کرنے  کے لئے تیار ہے ۔ تاکہ کلام کا بویا ہوا بیج شاگرد سازی اور چرچز کی تخم کاری کا مقصد اور پھل حاصل کر سکے ۔ جب یہ چرچز پھل لائیں گے تو ہم دیکھیں گے کہ مزدورں کی ایک بہت بڑی اور بڑھتی ہوئی تعداد مشن  کی ذمہ داری میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گی ۔

آیئے دعا کریں۔    اے خُدا ،تو نے پہلی صدی میں اپنے روح ،اپنے اختیار اور اپنی ہدایت کے ذریعے جو کچھ کیا ، ہمیں یقین ہے کہ تو ہماری نسل میں بھی وہی کچھ کر رہا ہے۔ بلاہٹ کاکام کر۔ اے خُداوند ہمارے اُن بھائیوں اور بہنوں کو نارسا قوموں میں  بھیج جو تیری بلاہٹ کا جواب ہاں میں  دیتے ہیں ۔ اپنی قوت کا اظہار کر۔ اپنی دانش کا اظہار کر۔  اے خُدا تیرا کلام ہمارے دلوں میں ہے۔ ہم کبھی تیرے روح کے راستے سے نہ ہٹیں بلکہ تیرے قدموں کے ساتھ قدم ملا کر چلیں۔ اے خُداوند ہم کام کے مکمل ہوجانے تک تیری مرضی  سمجھتے اور اُس پر چلتے رہیں  ۔ہم تجھ سے پیار کرتے ہیں اور تیری تمجید کرتےہیں ۔مسیح کے نا م میں، آمین ۔خُدا  کا فضل آپ سب کے ساتھ ہو ۔

Categories
حرکات کے بارے میں

خُدا کے لئے جذبہ، لوگوں کے لئے ہمدردی

خُدا کے لئے جذبہ، لوگوں کے لئے ہمدردی

– شوڈانکے جانسن 

خُدا کی محبت کا عملی اظہار چرچز کی تخم کاری کی تحریکوں میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف خوشخبری دینے کے لئے دروازے کھُلتے ہیں بلکہ لوگوں کی زندگیوں   اور اُن کے معاشروں میں خُدا کی بادشاہی کا پھل نظر آنے لگتا ہے ۔

ایکسیس منسٹریز،نیو ہارویسٹ منسٹریز(NHM) کا ایک ستون ہے ۔اپنی ابتدا سے ہی نیوہارویسٹ نے 12 ممالک میں 4000 سے زائد آبادیوں کے درمیان خُدا کی محبت کے اظہار ، شاگرد سازی اور چرچز کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جوش، جذبے اور محبت سے بھرپوران سر گرمیوں نے نہ صرف لاکھوں لوگوں کو شاگرد بنایا ہے، بلکہ دس ہزار سے زائد نئے مسیحی راہنما تخلیق کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ 

ہمدردی، خُدا کی بادشاہی کی اقدار میں سے ایک لازمی قدر ہے ،جو شاگرد سازی کی ہر تحریک کا بنیادی اصول ہے ۔ہم لوگوں تک رسائی کے لئے مختلف قسم کی درجنوں  منسٹریاں چلا رہے ہیں ۔ان میں سے ہر ایک ،افریقہ میں خُدا کی بادشاہی کی پیش روی کے لئے اپنے اپنے مخصوص کردار میں  ہماری معاون ہے۔ ان میں سے زیادہ تر منسٹریوں   پر کچھ خاص خرچہ نہیں اُٹھتا  ،لیکن خُدا کی مدد کے ساتھ اُن کا اثر بہت زیادہ ہے۔ ہم ہر منسٹری میں مقامی افراد کے ساتھ شراکت کرتے ہیں۔ عام طور پر وہ ہمیں قیادت ، کارکن اور وسائل مہیا کرتے ہیں –   یہ بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے اُس علاقے میں موجود ہوتی ہیں ۔

دلیر انہ جذبہ

نیو ہارویسٹ  سیرا  لیؤن میں ہمارے  ہیڈ کوارٹر کے ذریعے  کئی ممالک میں خدمات انجام دے رہی ہے ۔جب 2014 میں   ایبولا کی وبا پھیلی تو ہم سے یہ نا ہو سکا،  کہ  ہم محفوظ مقامات پر بیٹھے رہیں اوراپنے  اردگرد پھیلی ہوئی آفت سے نہ نمٹیں ۔ اس وبا نے خاص طور پر کئی مسلمان دیہاتوں کو شدت سے متاثر کیا تھا، کیو نکہ تدفین کے اسلامی طریقوں پر عمل کی وجہ سے وہاں یہ وبا بہت بُری طرح پھیل رہی تھی ۔ ایبولا کی وجہ سے لوگ ، ناگہانی  مرتے ہُوئےاپنے    والدین یا بچوں کو بھی چھونے سے گریز کرنے لگے تھے ۔ اس تناظر میں نیو ہارویسٹ کے کئی راہنماؤں نے رضا کارانہ طور پر خطرناک ترین مقامات پر اپنی خدمات پیش کیں۔ اُن میں سے کچھ بچ گئے لیکن بہت سے اپنی جان گنوا بیٹھے – زیادہ تر مسلمانوں کی خدمت کرتے ہوئے ۔

ایک گروہ کا مسلمان سردار اپنے قرنطینہ میں بند گاؤں سے لوگوں کو بھاگتے دیکھ کر  بہت مایوسی کا شکار  تھا ۔وہ مسیحیوں کو وہاں خدمت کے لئے آتے دیکھ کر بہت حیران تھا۔ اُس نے تنہائی میں جا کر  خُدا سے یہ دعا کی :” اَے خُدا اگر تو مجھے  اور میرے خاندان کو اس وبا سے بچا لے تو ہم سب اُن لوگوں کی طرح ہو جائیں گے  جو ہم سے محبت کااظہار کرتے ہیں اور ہمارے لئے خوراک لاتے ہیں “۔ اُس سردار اور اُس کے خاندان کی زندگی بچ گئی اور اُس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔  بائبل کی آ یتیں یاد کر کے ،وہ اُس مسجد میں جاکر سُنانے لگا جہاں  کا وہ امام تھا ۔     اُس گاؤں میں ایک چرچ نے جنم لیا اور اب وہ سردار گاؤں گاؤں جا کر خُدا کی محبت کی خوشخبری پھیلاتا ہے ۔

ممکنہ ضروریات جاننا ، بھٹکے ہوؤں تک رسائی حاصل کرنا

NHM کے لئے ، رسائی کی منسٹریاں ایک گروہ کے لئے بنیادی ضروریات کا تعین کرنے  کےجائزے سے ابتد ا کرتی ہیں ۔ جب ہم ضروریات کے تعین کاجائزہ لیتے ہیں تو اُس گروہ کے ساتھ باہمی احترام اور اعتماد کی بنیاد پر شراکت قائم ہو جاتی ہے ۔ کچھ وقت کے بعد یہ تعلق بائبل کی کہانیاں سُنانے اور دریافتی بائبل سٹڈی تک پہنچ جاتا ہے۔ رسائی کی منسٹریاں انہیں خُدا کی محبت دیکھنے کے قابل بناتی ہیں اور پوری قوت سے اُن کے دلوں کو چھُو لیتی ہیں ۔

خُدا کی بادشاہی کی تحریکوں کی جانب بلندی کی سمت میں سفر

دعا ہمارے ہر کام کی بنیاد ہوتی ہے  ۔سو جب جائزہ مکمل ہو جاتا ہے تو دعا میں شریک ہمارے ساتھی دعا کرتے ہیں کہ خُدا :

٭دروازے اور دل کھولے 

٭پراجیکٹ کے راہنماؤں کے انتخاب میں  مدد دے

٭مقامی لوگ باہیں کھولیں ۔

٭خُدا کی جانب سے معجزے سامنے آئیں 

٭روح القدس کی راہنمائی ملے 

٭خُدا ضروری وسائل مہیا کرے 

دعا میں شریک تمام مراکز اُن علاقوں کے بارے میں جانتے ہیں  جہاں ہم خدمت کے لئے جا رہے ہوتے ہیں ۔وہ اُن میں سے ہر ایک کے لئے روزے رکھتے اور دعا کرتے ہیں ۔ اور خُدا ہمیشہ صحیح وقت پر، صحیح وسائل کے ساتھ ،صحیح دروازہ کھولتا ہے ۔ 

لوگوں تک رسائی کے لئے سب سے زیادہ قوی اور موثر منسٹری یا خدمت کا انداز ، دعا ہے۔ اس سے تحریک کو پھیلاؤمیں بہت مدد ملی ہے ہمیں بلا کسی شک کے یہ یقین ہے  کہ باتسلسل اور تزویراتی انداز سے کی گئی دعا اور روزے تاریکی کی قوتوں کو شکست دیتے ہیں۔ اکثر بیماروں کے لئے دعا سے بھی رسائی کا ایک دروازہ کُھل جاتا ہے ۔ ہم نے مسلسل دعاؤں کے نتیجے میں  دشمنوں کے دروازے کُھلتے دیکھے ہیں ، سلامتی کے فرزند حاصل کیے ہیں اور پورے کے پورے خاندان بچائے ہیں۔ سب جلال باپ کے لئے ہے جو ہماری دعائیں سُنتا اور اُن کا جواب دیتا ہے ۔

دعا ہمارے ہر کام کی بنیاد ہے میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ رسائی کی منسٹریوں کے تین اہم عناصر یہ ہیں : پہلا  دُعا  ،دوسرا  دُعا اور  تیسرا  دُعا ۔

ہر پراجیکٹ خُدا ،ہمارے بادشاہ کی مقبولیت کا باعث بنتا ہے

ہم لوگوں تک کلام لے جانے کے لئے سب کچھ کر گذرتے ہیں  تاکہ مسیح  کو جلال حاصل ہو۔  ہمارا کام ہمارے لئے نہیں ہوتا۔ یہ خُداوند کے لئے ہوتا ہے ۔ہم نارسا لوگوں اور قوموں تک تزویراتی حکمت عملی کے ساتھ پہنچ کر انہیں خُداوند خُدا سے روشناس کراتے ہیں ۔

تعلیمی ٹیم

جہاں ہم سمجھتے ہوں  کہ تعلیم بنیادی ضرورت نظر آ رہی ہے، تو ہمارے لئے دعا میں شریک ساتھی اس مقصد کو دعا کے ذریعے خُدا تک لے جاتے ہیں ۔ جب ہم دعا کر رہے ہوتے ہیں تو ہم مقامی لوگوں کے ساتھ  مل کر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہا ں موجود وسائل کیا ہیں ۔ہم یہ معلوم کرتے ہیں کہ وہ اپنی ہی ضرورت پورا کرنے کے لئے ہمیں کیا مہیا کر سکتے ہیں ۔اکثر وہ گروہ ہمیں زمین ،مشترکہ استعمال کی کوئی عمارت یا ایک عارضی عمارت بنانے کے لئے تعمیراتی سازوسامان  فراہم کرتے ہیں ۔

عموما ہم مقامی لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اساتذہ کی تنخواؤں کی ادائیگی   بھی کچھ حصہ ڈالیں ۔ اساتذہ پوری طرح سے سند یافتہ ہوتے ہیں ۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ   تجربہ کار شاگرد ساز اورچرچ کے  تخم کار بھی ہوتے ہیں ۔سکول تھوڑے سے بینچوں،پینسلوں اور پینوں ، چاک کے ایک ڈبے اور ایک تختہِ سیاہ کے ساتھ شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس سکول کی ابتدا کسی درخت کے نیچے، مشترکہ استعمال کی کسی عمارت میں یا کسی پرانے گھر میں ہو سکتی ہے ۔ہم دھیرے دھیرے آغاز کرتے ہیں ۔ اور سکول کو تعلیمی اور روحانی اعتبار سے ترقی دیتے جاتے ہیں ۔ 

جب کوئی سلامتی کا فرزند اپنے گھر کے دروازے کھول دیتا ہے تو وہ دریافتی بائبل سٹڈی کی میٹنگز اور بعد ازاں ایک چرچ کے لئے ابتدا کا مقام بن جاتا ہے ۔ہم نے سو سے زائد پرائمری سکولوں کا آغاز کیا ہے، جن میں سے زیادہ تر اب مقامی لوگو ں کی ملکیت میں ہیں ۔

اس سادہ سے پروگرام کے نتیجے میں خُدا نے اب تک 12  ثانوی سکول، 2ٹیکنیکل سکول اور ایوری نیشن کالج بھی قائم کر دئے ہیں ۔ یہ کالج ،  سکول آف بزنس اور سکول آف تھیالوجی کے ساتھ الحاق شدہ ہے۔ چند لوگوں کی توقع کے برعکس شاگرد سازی کی تحریکوں کو بھی مضبوط تعلیمی اداروں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ 

طبی امداد ، دانتوں کا علاج ، صحت و صفائی

صحت سے متعلقہ کسی ضرورت کی  شناخت کے بعد ہم دوائیوں ، ساز وسامان اور وسائل سے لیس، اعلی ٰ تربیت یافتہ طبی عملے  کی ٹیمیں بھیجتے ہیں۔ ہماری ٹیم کے تمام ممبران تجربہ کار شاگرد ساز ہیں، اور دریافتی بائبل سٹڈی کے عمل کی سہولت کاری کے ماہر ہیں ۔ اُن میں سے بہت سے لوگ چرچز کے قیام کی مہارت بھی رکھتے ہیں ۔ٹیم کے افراد  بیماروں کے علاج کے ساتھ  ساتھ، سلامتی کے فرزند کی تلاش بھی جاری رکھتے ہیں۔ اگر انہیں اپنے دورے میں  سلامتی کا فرزند نہ ملے تو وہ دوبارہ وہاں جاتے ہیں۔، جب سلامتی کا فرزندمل جائے تو وہ ایک پُل کا کام کرتے ہوئے مستقبل میں دریافتی بائبل سٹڈی کا میزبان بنتا ہے ۔ اگر سلامتی کا فرزند نہ ملے تو وہ ٹیم کسی اور علاقے میں چلی جاتی ہے، لیکن پچھلے علاقے  میں دروازے کھولنے کے لئے دعا جاری رکھتی ہے ۔ 

چرچز کے قیام کے دس ماہرین کو دانتوں کے ڈاکٹر وں کے طور پر تربیت دے دی گئی ہے۔  انہیں صحت کے ادارے کے حکام کی جانب سے دانت نکالنے اور فیلنگ کرنے کی اجازت بھی مل گئی ہے ۔ اُن میں سے ایک  چشمہ سازی کا ماہر بھی ہے۔ وہ لوگوں کی نظر کا معائنہ کرتا ہے اور مناسب چشمے فراہم کرتا ہے۔ وہ فیسیں بھی وصول کرتا ہے، تاکہ یہ عمل کسی پر انحصار کرنے کی وجہ سے ر ُک نہ جائے ۔ صحت کی ٹیم کے دیگر ممبران صحت و صفائی ،بچوں کو دودھ پلانے ، غذا اور غذائیت ، بچوں کے لئے حفاظتی ٹیکوں اور حاملہ عورتوں کی دیکھ بھال کی تربیت دیتے ہیں ۔ 

رسائی کی سب سے غیر معمولی منسٹری

ہم یہ سب کچھ مسیح کے انداز میں کرتے ہیں  اور ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ خُدا کی بادشاہی واضح طور پر نظر آئے ۔خُدا اپنا کام کرتا ہے اور اپنی موجودگی کا اظہار کرتا ہے۔ اس عمل کا آغاز عموما ایک خاندان یا  غیر متوقع مقامی راہنما کے ذریعے ہو تا ہے۔ اس طریقے سے ہم شاگردوں کی مسلسل جاری افزائش ، دریافتی بائبل سٹڈی گروپ اور چرچز کا پھلنا پھولنا دیکھ سکتے ہیں ۔

سیرا لیؤن کے جنوبی حصے میں ایک بہت بڑے علاقے میں داخلہ ہمارے لئے مشکل ثابت ہو رہا تھا ۔وہاں کے مقامی لوگ ،مسیحیوں سے بہت زیادہ عداوت کا برتاؤ کرتے تھے۔ مسیحیوں کی حیثیت سے شناخت کر لئے جانے والے لوگوں کے لئے وہاں داخل ہونا ہی مشکل تھا۔  سو ہم نے اُس شہر کے لئے دعا کی، لیکن وقت گذرتا رہا اور ہماری کوئی بھی حکمت عملی کامیاب نہ ہوئی ۔ 

پھر اچانک ہی کچھ ہو گیا ! قومی خبر رساں ادارے نے اُس شہر  میں صحت کے ایک  مسئلے کی رپورٹ پیش کی۔ نوجوان بیمار ہو کر مر رہے تھے۔ یہ بات سامنے آئی کہ انفیکشن اس وجہ سے پھیل رہا تھا کہ اُس گاؤں میں لڑکوں کا ختنہ کبھی نہیں کیا جاتا تھا ۔جب میں نے اس مسئلے کے لئے دعا کی تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ خُدا مجھے بتارہا ہے کہ اُس گاؤں میں خدمت کے لئے بالآخر ایک دروازہ کھول چکا تھا ۔ 

ہم نے رضا کاروں کی ایک طبی ٹیم تیار کی جو مناسب سازوسامان اور ادویات کے ساتھ اُس علاقے میں گئی۔ ہم نے پوچھا کہ کیا وہ ہمیں اس بات کی اجازت دیں گے کہ ہم اُن کی مدد کریں ۔ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی جب مقامی سردار وں نے رضامندی کا اظہار  کر دیا ۔ پہلے ہی روزہماری ٹیم نے 300 سے زائد نوجوانوں کا ختنہ کیا ۔

اگلے چند روز میں وہ نوجوان  صحت یابی کے عمل سے گذر رہے تھے ۔ اس سے ہمیں اُن فراغت کے دنوں میں دریافتی بائبل سٹڈی گروپ کا آغاز کرنے کا موقع ملا ۔ہمیں بہت مثبت ردعمل ملا    ۔ جلد ہی چرچز کے قیام کے ساتھ ساتھ خُدا کی بادشاہی کی پیش روی شروع ہو گئی ! چند سالوں میں اُس مقام پر، جہاں مسیحی داخل بھی نہیں ہو سکتے تھے ، اب خُدا کے جلال کا نور پوری شدت سے چمک رہا ہے ۔ خُدا کے لوگوں کے لئے محبت ، مسلسل دعا کی قوت اور خُدا کے با اثر کلام نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ۔

زرعی ٹیم

رسائی کی منسٹری کی ہماری پہلی ٹیم زراعت کے شعبے سے تھی  ۔ایسے علاقوں میں جہاں کھیتی باڑی زندگی کا لازمی حصہ ہو ،زراعت کے ذریعے لوگوں کی مدد، بہت آسانی سے دروازے کھولتی ہے ۔وہاں زراعت کا دائرہ زیادہ تر چھوٹے پیمانے کی کھیتی باڑی تک محدود ہے جس کی پیدا وار صرف خاندان کی ضرورت کے لئے ہی کافی ہوتی ہے ۔ اکثر اوقات اگلی فصل شروع کرنے کے لئے بیج بھی سنبھال کر نہیں رکھا جاتا ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہم نے کسانوں کے لئے بیجوں کے بینک تیار کئے ۔اپنی دیگر ٹیموں میں سے ہم نے  زراعت  کے  9ماہر ین تیار کئے جو چرچ کے تربیت یافتہ تخم کار بھی تھے ۔ زراعت کے یہ ماہرین / شاگرد ساز  کسانوں کو تربیت دیتے ہیں ۔ اس تربیت اور راہنمائی کے نتیجے میں ایسا تعلق پیدا ہوا ہے  جس سے دریافتی بائبل سٹڈی گروپ ، بپتسموں اور بالآ خر چرچز کا قیام ممکن ہو گیا ہے۔ آج بہت سے کسان مسیح کے پیروکار بن چکے ہیں ۔

چرچزکی تخم کاری

ہماری 90 فیصد کاوشوں کے نتیجے میں چرچز قائم ہوئے ہیں۔ اکثر ایک سر گرمی کے نتیجے میں کئی چرچز قائم ہوتے ہیں۔ جب ہم اُن علاقوں میں دوبارہ جاتے ہیں تو ہم افراد  خاندانوں اور پورے علاقے کے گروہوں کی تبدیلی کی گواہیاں سُنتے ہیں ۔لوگوں کے لئے ہمدردی اور محبت کے نتیجے میں خُدا  کو مقبُولیت حاصل ہو رہی ہے !

شوڈانکے جانسن، سانتا کے شوہر اور سات بچوں کے  والد ہیں۔ وہ سیرا لیئون میں نیو ہارویسٹ منسٹریز(NHM) کے رہنُما ہیں۔  خُدا کی مدد اور شاگرد سازی کے جذبے کی وجہ سے  NHM  نے   گذشتہ 15  سالوں میں سیرا لیئون مییں سینکڑوں سادہ چرچز، 70 سکوُل اور بہت سی ایکسس منسٹریز قائم کی ہیں۔  اِن میں مسلمان  علاقوں میں قائم کردہ  15 چرچز بھی ہیں۔  انہوں نے ساحل اور مغرب سمیت افریقا  کے 14  ممالِک میں  طویل مدتی خادم بھیجے ہیں۔ شوڈانکے  افریقا، ایشیا، یورپ اور امریکہ میں  شاگرد سازی کی تحریکوں  کی تربیت اور  دُعاؤں  کو  تحریک دے چُکے ہیں۔  وہ  Evangelical Association of Sierra Leone   کے صدر ا ور   New Generations    کے افریقن ڈائریکٹر کے طور پر بھی خِدمات انجام دے چُکے ہیں۔  آج کل وہ  New Generations      کے لئے  عالمی تربیت اور  دعاؤں کی تحریک  کے ذمہ دار ہیں۔  وہ افریقا اور دُنیا بھر میں  24:14   کے اِتحاد  کے کلیدی رہنُما ہیں۔ 

Mission Frontiers, www.missionfrontiers.org    کے نومبر-دسمبر کے شمارے  کے صفحہ نمبر 35-32  پر شائع کردہ مضموُن  کے اقتباسات جو  24:14- A Testimony to All Peoples  نامی  کتاب کے صفحہ نمبر 33- 26  پر بھی شائع ہوا۔  24:14  یا        Amazon     پر دستیاب ہے۔ 

Categories
حرکات کے بارے میں

نارساؤں تک رسائی کے مقصد کی خاطر موجودہ چرچز کے لئے دوہری پٹڑی کا ماڈل- حصہِ دوم

نارساؤں تک رسائی کے مقصد کی خاطر موجودہ چرچز کے لئے دوہری پٹڑی کا ماڈل- حصہِ دوم

– ٹریور لارسن اور ثمرآور  بھائیوں کا ایک گرو 

اِس تحریر کے حصہ ِ اول میں ہم نے آپ کو  دوہری پٹڑی کے ماڈل کے ارتقاء اور پائلٹ پراجیکٹ  کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔  اب ہم آپ کو بتاتے ہیں  کہ اس نمونے کے اطلاق کے چار سالوں میں خُدا نے  کیا کام دِکھائے  ہیں۔

3۔ پہلا سال : شرکا کی تربیت اور چھانٹی 

پہلے سال میں ہم نے سولہ مختلف موضوعات پر تربیت فراہم کی۔ اس تربیت کے لئے ہر دوسرے ہفتے ایک پورا  دن مخصوص تھا۔میں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تربیتی موضوعات میں سے نصف، پہلی پٹڑی کے چرچ کی افزائش کریں گے ۔ اس سے اُنہیں یہ جاننے میں مدد ملی کہ ہم پہلی پٹڑی کےظاہری طور پر  موجود چرچ کی خدمت بھی  کرنا چاہتے ہیں لیکن میری ترجیح تربیتی موضوعات میں سے اگلا نصف تھی جسے دوسری پٹری کے گروپ کے لئے تشکیل دیا گیا تھا ۔ اس کا مرکز نگاہ چرچ سے باہر کے مسلمانوں  کی خدمت اور چھوٹے چھوٹے گروپوں میں  خاموشی سے اُن کی شاگرد سازی کرنا تھا ۔

تربیت کا پہلا سال کردار سازی اور قیادت  کی آٹھ بنیادی مہارتوں کی تربیت پر مرکوز تھا ۔ان میں سے ایک مہارت ” دائروی انتظام” کہلاتی ہے۔ ہم اسے اپنی رپورٹوں میں دائرے کی صورت میں استعمال کر کے چھوٹے گروپوں کی افزائش دِکھاتے ہیں ۔ہماری رپورٹ  محض سر گرمی پر نہیں بلکہ اُس کے نتیجے میں آنے والے پھل پرمبنی ہوتی ہے۔ عملی میدان کے لئے ہمیں ایسے کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف قسم کے اسلوب اور حکمت عملیاں استعمال کر سکیں ۔ لیکن سب سے بڑھ کر ہم اُس پھل کا تخمینہ لگانا چاہتے ہیں جو ان سر گرمیوں  کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔ سو ہم عملی میدان میں کام کرنے والوں کو ترقی کے عملی اشاریوں کی نشاندہی کرنا سکھاتے ہیں۔  جب وہ ان نشانات اور علامات سے متفق ہو جاتے ہیں تو ہم باقاعدہ طور پر مشترکہ  تجزیہ کاری کا آغاز کر دیتے ہیں ۔

"انڈے کا انتظام"

مسلمانوں تک پہنچنے والے عملی میدان کے کارکنان کے لئے یہ آٹھ مہارتیں بہت اہم ہیں ۔ ہر تجزیے میں ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کن زیرتربیت کارکنان نے  تمام آٹھ مہارتیں استعمال کی ہیں ۔ ان آٹھوں مہارتوں کا استعمال کرنے والے زیرتربیت  کارکنوں کو ہم سر گرم قرار دیتے ہیں۔ اگر ان کا استعمال نہیں کیا گیا، تو کیوں نہیں ؟ ہم نے زیر تربیت کارکنوں کی نگرانی کی ، انہیں حوصلہ افزائی فراہم کی اور ان آٹھ مہارتوں کی بنیاد پر اُن کا جائزہ لیا ۔

چرچ کے 50 بالغ ممبران میں سے 26 کو دونوں قسم کے چرچز کی تربیت دی گئی جو کہ سولہ موضوعات پر مبنی تھی۔ کچھ ماہ کے بعد صرف دس نے چرچ کے دائرے سے باہر  مسلمانوں  تک پہنچنے اور انہیں شاگرد بنانے کی بلاہٹ محسوس کی ۔ ان دس افراد نے ( جو چر چ کے کُل بالغ ممبران کا بیس فیصد تھے ) خود کو مسلمانوں  کی شاگرد سازی کے لئے منتخب کیا۔

ہمارے سہ ماہی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ اُن دس میں سے 6 نے پہلی پٹڑی کے چرچ میں خدمت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اُن کی توجہ چرچ  کی منادی، اُس کے ممبران کی تربیت اور دیگر چرچز کے ساتھ رابطہ  کاری پر تھی۔ 10 میں سے صرف 4 تھے جو اکثریتی عوام تک پہنچنے کے لئے سر گرم تھے۔ یہاں کچھ تربیت کاروں کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی ہوگی، لیکن یہ چار لوگ چرچ کے 8 فیصد کی ترجمانی کرتے تھے جو بہت سے چرچوں کے لئے ایک کافی بڑی تعدادہے ۔یہ 4  افراد،مسلمانوں کی اکثریتی آبادی میں شاگرد سازی کے عمل کو انجام دینے کے لئے ایک خاص بلاہٹ کے حامل تھے ۔

 

4۔ دوسرے سے چوتھے سال تک : ابھرتے ہوئے عملی کارکنان کے لئے کوچنگ اور تعاون ۔

ہم نے صرف اُن 4 افراد کی کوچنگ کی جو منادی کے لئے سر گرم نظر آتے ہوئے ابھرے تھے ۔ ان چاروں کی تربیت ہماری مشن ٹیم نے تیسری نسل کے ایک چھوٹے گروپ میں کی ۔ یہ ایسے مسلمان تھے جو ایمان لا چکے تھے  اور آس پاس کے علاقوں میں رہتے تھے ۔

ان چاروں کو قریبی علاقوں میں مسلمانوں کے درمیان منادی کے لئے بھیجا گیا اُن میں سے ہر ایک نے چرچ کے 25 سے 30  کلو میٹر کے آس پاس کے علاقوں میں سے ایک ایک علاقہ منتخب کیا جہاں اُنہوں  نے اس کا م کی ابتدا کرنی تھی۔ چرچ کے 25 ممبران خاندان نے اُن چاروں خاندانوں کی کفالت کا ذمہ لے لیا جنہوں نے مسلمانوں  میں خدمت کے لئے خود کو وقف کر دیا تھا ۔ اپنے چندوں اور نذرانوں کے علاوہ  چرچ کے ممبران نے اس مقصد کے لئے چرچ سے باہر کے عطیہ دہندگان سے بھی فنڈ  ز حاصل کئے ۔اُنہوں نے چرچ کے سابقہ ممبران سے بھی رابطہ کیا جو دیگر شہروں میں منتقل ہو گئے تھے اور اب اچھی خاصی آمدنی حاصل کر رہے تھے۔

 ہماری توجہ کا مرکز ان چار وں کی تربیت تھی۔ اس قسم کی خدمت میں  ابتدائی تربیت اہم نہیں ہوتی کیو نکہ زیادہ تر  لوگ اس ابتدائی تربیت کو استعمال کرنے سے پہلے ہی بھول جاتے ہیں۔ ابتدائی تربیت دراصل لوگوں کی چھانٹی کرنے اور ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنے کے کام آتی ہے جو مسلمانوں تک جانے کے لئے سر گرم ہوں اور اُس کی اہلیت رکھتے ہوں ۔ثمر آور کوچنگ کا تقاضا  ہوتا ہے کہ تربیت کاروں  اور خدمت میں عملی طور پر سرگرم  کارکنان کے مابین  باقاعدگی سے بات چیت ہو ۔ تربیت کار، زیر تربیت کارکنان کے ساتھ اُن مسائل پر گفتگو کرتے ہیں جن کا سامنا وہ میدان ِ عمل میں کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اُن بار آور طریقہ کاروں کا جائزہ بھی لیتے ہیں جن پر تربیت کے دوران بات کی گئی ہوتی ہے ، اور اُن کے اپنے اپنے تناظر میں اُن کے اطلاق پر بھی بات کرتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کو عملی میدان میں اپنی تربیت کے اصولوں کے اطلاق کے لئے باقاعدہ اور رواں دواں تربیت اور کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے ۔

ان چار افراد کے جذبے کو دیکھتے ہوئے اُس چرچ نے بھی دوسری پٹڑی کے پراجیکٹ کی جانب اپنی توجہ میں اضافہ کر دیا ۔انہوں نے اُس علاقے میں ترقیاتی پراجیکٹس کے لئے اُن چاروں کو مزید فنڈ مہیا کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ۔ ترقیاتی پراجیکٹس ایسے مسلمانوں کا دل جیتنے کے لئے بہت اہم ثابت ہوتے ہیں جن کا تعلق کم آمدنی والے طبقے سے ہوتا ہے ۔ ہم نے چرچ اور میدان میں سر گرم اُن چار افراد کے سیکیورٹی کے مسائل پر گفتگو پر بھی بہت سا وقت صرف کیا ۔اس سے تمام لوگوں کو محتاط رہنے میں بھی مدد ملی ۔

5۔ چار سالوں میں بہت سا پھل 

اب چار سال بعد ان چار ممبران کی جانب سے شروع کی گئی منادی  500 ایمانداروں تک پہنچ چکی ہے۔ دوسری پٹڑی کے زیر زمین چرچ کا یہ پھل جوکہ  چھوٹے  گروپوں کی صورت میں سامنے آیا، پہلی پٹڑی کے ظاہری چرچ کے  50 ممبران سے کہیں بڑھ کر ہے جو کہ ایک عمارت میں دعا کے لئے جمع ہوتے تھے ۔

انہوں نے شاگرد سازی کے لئے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی    تشکیل بھی کی ہے جن میں آ کر مسلمان ایمان لاتے ہیں۔ یہ مسلمان اس کے بعد مزید چھوٹے گروپ  تشکیل دے کر  اُن مسلمانوں  کی راہنمائی کرتے چلے جاتے ہیں  جو ابھی ابھی ایمان لائے ہوتے ہیں۔ پاسٹر صاحب نے اس پھل کے نتیجے میں حاصل ہونے والی خوشی کو دبا کر رکھا ہوا ہے ۔ 

6۔ راہ میں آنے والی رکاوٹیں اور مقصد کی تجدید۔

یہ چار عملی کارکنان اب اُن چار علاقوں میں بہت سا پھل آتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور اُس کی نگرانی کر رہے ہیں ۔ حال ہی میں  میں اُن چاروں کے ساتھ ساتھ پہلے چرچ کے ایک نئے پاسٹر سے بھی ملا ۔ہم نے ISIS سے متاثر ہو کر تعداد میں بڑھنے والے بنیاد پرستوں کے ساتھ تصادم کی صورت میں ہنگامی صور ت حال ابھرنے کے بارے میں گفتگو کی ۔ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان چھوٹے گروپوں میں شامل ایماندار اپنے طور پر ایسی صورت حال سے نمٹیں گے اور کسی دوسرے چھوٹے گروپ کے ساتھ اپنے روابط کو ظاہر نہیں کریں گے ۔ لیکن اگر صورتحال بہت ہی مشکل ہو جائے اورکسی کی قربانی دینی ہی پڑے تو وہ پہلے چرچ کے ساتھ اپنے رابطوں کا انکشاف کر کے اُس کی قربانی دیں گے۔ یہ ایثار کی ایک بہت شاندار مثال ہے، ایک ایسے ملک میں جہاں چرچز مسلمانوں تک پہنچنے سے محض اس لئے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ اُن کا اپنا چرچ خطرے کی زد میں آ سکتا ہے ۔پہلے چرچ کی قربانی کی صورت میں یہ خطرہ اُسی چرچ تک محدود رہے گا ۔ اور اس سے کہیں بڑی تعداد میں زیر زمین ( دوسری پٹڑی کے چرچ ) تک نہیں پہنچے گا ۔ حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ شدہ چرچ کو شاید  قانون کا تحفظ بھی حاصل ہو ،لیکن زیر زمین چرچ کو ایسا کوئی تحفظ  حاصل نہیں ہو سکے گا ۔

سو جہاں تک ممکن ہوا چھوٹے گروپ تصادم کے ساتھ انفرادی طور پر ہی نمٹیں گے تاکہ دوسروں کو خطرے میں نہ ڈالا جائے ۔عملی میدان کے یہ چار راہنما چھوٹے گروپوںمیں موجود نئے ایمانداروں کو  ایسی صورت حال سے اسی انداز میں نمٹنے کی تربیت دیں گے ۔ اُن کی نشان دہی  پہلے سے موجود چرچ کی حیثیت سے نہیں کی جائے گی۔ اس طرح وہ خطرے کی زد میں نہیں آئیں گے ۔ زیر زمین چرچ کی تحفظ کی خاطر سابقہ پاسٹر کی جگہ لینے والے نوجوان پاسٹر نے بھی یہ خطرہ مول لینا قبول کر لیا۔

 جن دوسری پٹڑی کےنمونے کے  چرچز کی ہم تربیت کرتے ہیں، اُن کے ساتھ ہم بہت ایمانداری سے چلتے ہیں ۔ اُن کے لئے مسلمانوں میں منادی کے فوائد ہی نہیں  بلکہ اُس سے منسلک خطرات جاننا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ لازمی ہے کہ جس چرچ کی ہم تربیت کر رہے ہوں وہ ہماری رپورٹوں کو خفیہ رکھنے پر اتفاق کریں۔ یہ رپورٹیں چرچ کے ممبران یا دیگر مسیحیوں کو نہیں دکھائی جا سکتیں۔ اس وجہ سے ہم تربیت دینے  کے لئے چرچ اور اُس کے ممبران کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں ۔

ان دو پٹڑیوں کے اسلوب میں سیکیورٹی کے خدشات تو سامنے آتے ہی ہیں، لیکن ہمارا سب سے بڑا چیلنج چر چ کےکچھ  راہنماؤں  کی جانب سے منفی تنقیدی حملے ہیں۔ وہ ہم پر یہ سمجھتے ہوئے تنقید کرتے ہیں کہ اگر ہماراگلہ چرچ کی عمارت میں نہیں جاتا تو ہم اُس کی حفاظت نہیں کریں گے۔ در حقیقت ہم   ایسے بہت سے پاسبانوں کی تربیت کرتے ہیں جو گلے کی نگہبانی کرنے کے اہل ہوتے ہیں ۔ ہم چھوٹے گروپ کے ہر راہنما کو اس بات کی تربیت دیتے ہیں کہ وہ اپنے گروپ کے ممبران کے ساتھ باہمی محبت اور دیکھ بھال کی فضا قائم کرے تاکہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھ سکیں ۔ چرچ کے کچھ راہنما اس بات پر بھی تنقید کرتے ہیں کہ ہم اپنے لائے ہوئے پھل کو پولیس کی نظر میں کیوں نہیں لاتے، جس کے نتیجے میں ہمیں سرکاری طور پر چرچ کی حیثیت سے شناخت مل سکتی ہے ۔ تاہم ہم سرکاری طور پر شناخت کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔  ہماری توجہ کا مرکز نئے ایمانداروں کو ایک جسم کی صورت میں ایمان میں مضبوط کرنا ہے تاکہ وہ ایسا چرچ بن جائیں جو ہمیں نئے عہد نامے میں نظر آتا ہے۔ اُن چرچز کی کوئی سرکاری شناخت نہیں تھی، لیکن وہ تعداد میں بائبلی اصولوں کے مطابق بڑھتے چلے گئے یہ ہی ہمارا نصب العین ہے ۔

دو پٹڑیوں کے اس نمونے کے تین کلیدی عناصر ہیں :

1۔ تربیت کے ذریعے چھانٹی کر کے محتاط انداز میں منتخب  کئے گئے لوگوں کا ایک چھوٹا گروہ ۔

2۔ ان افراد کی تربیت اور نشوونما کے لئے ابتدا ہی سے  چرچ کے ساتھ شرائط و ضوابط طے کر لینا تاکہ چرچ نئے انداز کی منادی اور خدمت میں مداخلت نہ کرے ۔

3۔ ایسے لوگوں کی مسلسل تربیت اور تعاون جو مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں خدمت اور منادی کے لئے داخل ہوتے ہیں ۔

ٹریور لارسن ایک معلم، کوچ اور محقق ہیں۔ وہ خُدا کے چُنے ہوئے رسولوں کو تلاش  کر کے خوش ہوتے ہیں  اور اُنہیں ثمر آور  طریقہ ہائے کار سکھا کر  بھائیوں-رہنماؤں  کی کاوشوں کو مزید بار آور بناتے ہیں۔ وہ 20  سال سے ایشیائی منادوں اور رسولوں کے ساتھ شراکت کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں  نا رسا قوموں تک کئی تحریکوں کو رسائی حاصل ہوئی  ہے۔

Focus on Fruit! Movement Case Studies & Fruitful Practices نامی کتاب سے ماخوذ اور تلخیص شدہ۔ یہ کتاب    www.focusonfruit.org کی  ویب سائیٹ سے قیمتاً حاصل کی جا سکتی ہے۔

Categories
حرکات کے بارے میں

دعا کے بارے میں دو اہم اسباق

دعا کے بارے میں دو اہم اسباق

“دی کنگڈم اَن لیشڈ” نامی کتاب سے اقتباسات

مصنفین  جیری ٹروس ڈیل  اور گلین سن شائن کی اجازت سے

ہم نے دنیا کے نسبتاً پس ماندہ جنوبی حصے میں موجود ساتھی ایمانداروں سے دو اہم سبق سیکھے ہیں ۔ پہلا یہ کہ ترقی یافتہ ،شمالی حصے کے چرچ اُتنی دعائیں نہیں کرتے جتنی ضروری ہوتی ہیں ۔ دوسرا یہ، کہ جب ہم دعا کرتے ہیں تو عموما ًہماری ترجیحات وہ نہیں ہوتیں جو خُدا کی ترجیحات ہوتی ہیں ۔ آئیے اس باب میں ان دو اہم  اسباق پر گفتگو کریں ۔ دعا ،یسوع کی زندگی اور خدمت کا مرکز تھی ۔ ایک ربّی ہوتے ہوئے ،یسوع ایک دن میں کم ازکم 3 مرتبہ دعا کرتا تھا، جس کی بنیاد رسمی مناجاتوں پر ہوتی تھی ۔لیکن انجیل ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ وہ اکثر دعا کے لئے بیابان میں جاتا تھا  ،جہاں وہ اکثر پوری رات دعا میں گذاردیتا تھا۔اس کی مثال ہمیں مرقس  1: 35-39میں ملتی ہے     ، جب اُسے اپنی منادی کی سمت متعین کرنے کے لئے فیصلہ کرنا تھا ۔ ایک اور ایسی ہی مثال بارہ شاگردوں کا تقرر کرتے وقت کی ہے ۔ اس سے فوری طور پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ یسوع ،جو   خُدا باپ کے ساتھ مکمل اور بے روک ٹوک رفاقت کے رشتے میں بندھا ہو ا تھا ، اگر اُسے دعا میں اتنا زیادہ وقت گذارنے کی ضرورت تھ،ی تو ہمیں روح القدس کی راہنمائی اور  قوت حاصل کرنے  کے لئے  کتنی زیادہ دعا ؤں کی ضرورت ہو گی ؟

عمیدہ کی دعا

یسوع مسیح کے دور میں راسخ العقیدہ یہودی دن میں تین مرتبہ   عمیدہ کی دعا پڑھتے تھے، جسے اٹھارہ مناجاتیں بھی کہا جاتا تھا ۔ وہ اسے ایک مقدس فریضہ جانتے تھے اور ایسا نہ کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا ۔ تاہم یہ دعائیں بہت طویل وقت لیتی تھیں ۔ ربّیوں اور دیگر پیشہ و ر کاہنوں کے لئے تو باقاعدگی سے یہ دعا پڑھنا ممکن تھا، لیکن پوری عمیدہ دن میں تین مرتبہ پڑھنا، ایک ایسے شخص کے لئے بڑا بوجھ تھا جو کوئی نوکری یا کام بھی کرتا ہو، اور جس پر خاندان کی ذمہ داریاں   بھی ہوں ۔اس لئے شاگرد ربّیوں سے درخواست کرتے تھے کہ وہ انہیں ان دعاؤں کا ایک جامع خلاصہ دے دیں، تاکہ اس مذہبی فریضے پر عمل کرنا اُن کے لئے ممکن ہو جائے ۔ 

اس تناظر کو جانتے ہوئے ہم وہ صورت حال سمجھ سکتے ہیں جب لوقا کے11  ویں باب میں شاگرد اُس کے پاس آئے اور اُس سے درخواست کی کہ وہ انہیں دعا کرنا سِکھائے،  جیسے یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اپنے شاگردوں کو سِکھایا تھا۔  شاگرد دراصل  عمیدہ کے مرکزی نکات جاننا چاہتے تھے تاکہ وہ دن میں تین مرتبہ دعا پڑھ سکیں  ۔یسوع نے اس کے جواب میں انہیں  خُداوند کی دعا دی ،جو بہت حد تک عمیدہ کے اُس خلاصے سے ملتی ہے، جو اُس دور کے بعد سے مروج رہا ۔ تو یسوع کے لئے خُداوند کی دعا دراصل ایک عرق یا لُب لُباب تھی، اُس طویل دعا کا،  جو کہ کی جانی چاہیے ۔نہ صر ف اُس نے یہ دعاپڑھنے کی ہدایت کی بلکہ اس  دعا میں اُس کی دعائیہ ترجیحات کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ اور اس طرح ہمیں ایک نمونہ مل جاتا ہے  کہ ہمیں ہر وقت کیسی دعا کرنی چاہیے۔ یہ دعا دراصل اُس کی ساری خدمت، منادی اور پیغام کا بھی خلاصہ ہے۔

 بہت سے مسیحی  اکثر خُداوند کی دعا کے الفاظ د ہراتے رہتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی جب ہم یہ دعا اپنے الفاظ میں  کرتے ہیں تو ہم اس دعا کے کلیدی نکات کو نظر انداز کر جاتے ہیں ۔یہ بات حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ شرمناک  بھی ہے ۔ پھر بھی اگر ہم یسوع کے الفاظ کا گہرائی میں جائزہ لیں تو ہمیں یہ جاننے  میں مدد مل سکتی ہے   کہ اُس کا زور کس بات پر تھا ۔آیئے خُداوند کی دعا کا باریک بینی سے جائزہ لیں ۔ تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ دعا کے بارے میں یسوع کی تین اہم ترین ترجیحات کیا تھیں :

  • یہ کہ باپ کے نام کو ہمارے آس پاس کی دنیا میں جلال ملے ۔
  • یہ کہ اُس کی بادشاہی پوری قوت اور اختیار کے ساتھ  آئے ۔
  • یہ کہ دنیا کے سارے لوگ خصوصا اُس کے پیروکار، خُدا کی مرضی اور کلام کی فرمانبرداری کریں ۔

اےَ ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے ۔

یسوع کی سب سے پہلی ترجیح خُدا کو جلال دینا ہے۔ ان الفاظ کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے : خُدا کی پاکیزگی اور جلال جیسا کہ آسمان پر ہے یہاں بھی نظر آئے جہاں میں رہتا ہوں !

تیری بادشاہی آئے ۔

دوسری چیز جس کے بارے میں یسوع  ہمیں دعا کرنے کو کہتا ہے ، وہ یہ ہے کہ زمین پر خُدا کی بادشاہی کا پھیلاؤہو ۔ یعنی خُدا کی بادشاہی میری دنیا میں قائم ہو !

تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو ۔ 

” جیسے آسمان پر ” کے الفاظ کا تعلق نہ صرف خُدا کی مرضی پوری ہونے سے ہے ، بلکہ اس سے پہلے کہی گئی تین باتوں سے بھی ہے : ” تیرا نام زمین پر پاک مانا جائے جیسے کہ آسمان پر ہے، تیری بادشاہی زمین پر بھی آئے جیسی کہ آسمان پر ہے، اور میرے اندر بھی خُدا کی بادشاہی ویسا ہی استحکام پکڑے جیسی آسمان پر ہے ۔اور نہ صرف مجھ میں، بلکہ دنیا کی تمام قوموں میں “۔ کیا آپ کو پہلی تین دعاؤں میں  ایک مشترکہ بات نظر آتی ہے ؟ یہ ایک شُکر گزار دل سے نکلنے والی آوازیں ہیں کہ :

  • خُدا کا جلال اُن لوگوں پر آشکار ہو جن کے درمیان میں رہتا ہوں ۔
  • خُدا کی بادشاہی کی سلطنت اور اختیار وہاں پھیلے جہاں میں رہتا ہوں ۔
  • خُدا کی مرضی پر پوری فرمانبرداری سے عمل ہو جہاں  میں رہتا ہوں۔

اگلی تین دعاؤں پر جانے سے پہلے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ ہماری پہلی تین دعائیں یسوع کی دُعائیہ ترجیحات کے ساتھ کتنی مطابقت رکھتی ہیں ۔کیا ان کا تعلق خُدا کے جلال، خُدا کی بادشاہی اور  خُدا کی مرضی سے ہے، یا اس کا تعلق خُدا کی بجائے زیادہ تر ہمارے ساتھ ہے ؟

ہماری روز کی روٹی ہر روز ہمیں دیا کر ۔

خُدا کی بادشاہی کے وسائل اور خزانوں سے ہماری روز مرہ ضروریات پوری ہوتی رہیں ۔ 

اور ہمارے گناہ معاف کر کیو نکہ ہم بھی اپنے ہر قرض دار کو معاف کرتے ہیں ۔

خُدا مجھ گناہ گار پر رحمت کرے اور میں بھی اُس کی دی ہوئی معافی دوسروں تک فیاضی سے پھیلاؤں ۔

اور ہمیں  آزمائش میں نہ لا ۔

خُدا کا روح ہمارے دلوں، ہمارے پاؤں، ہماری آنکھوں اور ہمارے کانوں کو بُرائیوں اور آزمائشوں کی جگہوں سے دور رکھے۔ 

بلکہ برائی سے بچا ۔

روح القدس مجھے شیطان کی جانب سے لائی جانے والی آزمائشوں سے بچائے اور مجھے طاقت دے کہ میں لوگوں کو تاریکی کی سلطنت سے نجات دلا کر خُدا کے پا س لاؤں۔ خُدا کرئے کہ جہاں میں رہتا ہوں وہاں برائی کی قوتوں کو شکست ہو ۔

کیو نکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں ۔ آمین 

یہ حصہ یقینی طور پر یسوع کی اصل دعا کاحصہ نہیں رہا ہو گا ،لیکن یہ اس دعا کی روح سے مطابقت رکھتا ہے ۔ یہ الفاط دراصل اس دعا، بلکہ تمام  دعاؤں کی اصل وجہ ہیں۔ دعا کا مقصد خدا کے جلال کو لانا ہے۔ جدید  انگریزی زبان کے مطابق  اس آخری جملے کا مفہوم اردو میں کچھ اس طرح ہے : ” ہم یہ سب کچھ اس لئے مانگتے ہیں کیو نکہ جب تو یہ دعائیں قبول کرے، تو تیری بادشاہی کی تعمیر ہوتی ہے، اور صرف اور صر ف تیری قدرت ہے  جو یہ سب کچھ ممکن بنا سکتی ہے ،اور جب تو ان دعاؤں کو قبول کرے تو ہمیشہ سے ہمیشہ تک تیرے نام کو جلال ہو گا “

دعا کے بارے میں یسوع کی تعلیمات صرف اسی دعا تک محدود نہیں ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ خُدا کی بادشاہی کے موضوع کے علاوہ، اُس کی تعلیمات دیگر کسی بھی موضوع سے بڑھ کر دعا کے موضوع پر ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اور ابتدائی چرچ کے لوگ زبور اور وہ عظیم دعائیں پڑھتے تھے، جو صدیوں کے عرصے میں لکھی گئیں  اور جو زبور کے الفاظ کا ہی نچوڑ ہیں۔ ہمیں کلام میں کئی اور مقامات پر بھی  گہری اور موثر دعائیں  نظر آتی ہیں، جیسا کہ پولوس کے خطوط میں  بھی ہے ، لیکن ہر دعا دراصل اُنہی دعاؤں اور  ترجیحات کا عکس ہے ۔ جن کا ذکر خُداوند کی دعا میں ہے ۔

Categories
حرکات کے بارے میں

شاگرد سازی کے مواد اور وسائل کی ترتیب و تشکیل – قابلِ منتقلی اور قابلِ افزائش ہونا

شاگرد سازی کے مواد اور وسائل کی ترتیب و تشکیل – قابلِ منتقلی اور قابلِ افزائش ہونا

– ایلا ٹیسے –

 میں نیروبی کینیامیں واقع لائف وے مشن کا صدر ہوں۔ میں نیو جنریشنز ،ایسٹ افریقہ ریجن کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتا ہوں۔ میں شاگرد سازی کے وسائل اور مواد کی ترتیب و تشکیل کی اہمیت کے بارے میں کچھ باتیں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ جب آپ شاگرد بناتے ہیں تو آپ کے پاس وہ مطلوبہ مواد اور وسائل ہونا ضروری ہیں جو اس عمل میں آپ کی مدد کریں ۔بہت سے چرچز اور مشنری تنظیموں نے یسوع  کےاس حکم کی تعمیل   کرنے کی کوشش کی ہے  کہ “جاؤ اور شاگرد بناؤ” ۔لیکن ان میں سے کچھ تنظیمیں شاگرد بنانے میں غیر مؤثر رہی ہیں ،کیو نکہ اُن کے پاس دوسرے لوگوں کو یسوع کے شاگرد بنانے کے لئے ضروری وسائل کی کمی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم مل کر شاگرد سازی کے مواد کی ترتیب وتشکیل کے عمل پر تحقیق کریں، جو ہمیں لوگوں کو یسوع کے شاگرد بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔

 میرے خیال کے مطابق شاگرد سازی  کے مواد کی ترتیب کے تین  مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ تیاری کا ہے۔ اس مرحلے پر اُن چیزوں کو دیکھا جاتا ہے جنہیں شاگرد سازی کے مواد کی ترتیب کا آغاز کرنے سے پہلے جاننا ضروری ہے۔ دوسرا مرحلہ اپنے وسائل اور تربیتی مواد کو سیشنز اور موضوعات میں ترتیب دینا ہے، جو کہ نئے شاگردوں کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو ۔تیسرا مرحلہ  مواد کی تیاری اور ترتیب ہے۔ ہم شاگرد سازی کے مواد کی ترتیب وتشکیل کے اصولوں پر نظر ڈالیں گے اور ہماری توجہ کا مرکز اُس کی تیاری ہو گا ۔

تیاری میں چار کام کرنے ضروری ہیں ،جو کہ ہر اُس شخص کو کرنے ہوتے ہیں جو شاگرد سازی کا  مواد ترتیب دے رہا ہو۔ سب سے پہلا کام ہے دعا۔ شاگرد ساز کے لئے ضروری ہے کہ وہ خُدا سے دعا کرے کہ وہ نئے شاگردوں کی ضروریات کے مطابق مواد کی تشکیل میں اُس کی راہنمائی کرے۔ ہمیں خُدا کے دل کو جاننا ہے اور روح القدس کی راہنمائی  کے لئے دعا کرنی ہے۔ روح القدس، بہترین مواد تیار کرنے میں ہماری راہنمائی کرے گا ،اور یہ مواد اُتنا ہی ا ہم ہے جیسے ایک نو مولود بچے کو اُس کے لئے موزوں غذا دینا ۔ یہ اس لئے ہے کہ نئے شاگرد کو بہت سی نئی چیزیں سیکھنی ہوتی ہیں ۔ اگر ہم موثر طور پر دعا نہیں کر سکیں گے  تو ہم اس معاملے میں نہ ہی خُدا کی مرضی جان سکیں گے، اور نہ ہی روح القدس کی راہنمائی حاصل کر سکیں گے۔ سو سب سے پہلا مرحلہ دعا کے ذریعے خُدا کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہے ۔  

دوسرے نمبر پر اہم بات یہ ہے کہ ہم اُن لوگوں کے بارے میں بہترین طور پر معلومات حاصل کریں جنہیں ہم تعلیم دینا چاہتے ہیں ۔ نارسا قوموں اور گروہوں تک رسائی کی ابتدا  میں،  ہم انہیں ٹھوس غذا نہیں کھلا سکتے ۔ جب   وہ مسیح کے ایمان میں نئے نئے داخل  ہوئے ہوں، ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنے روحانی سفر میں کس مقام پر ہیں؟ وہ کیا کچھ جانتے ہیں ؟ وہ کیا نہیں جانتے ؟ اُن کی تعلیمی استعداد کیا ہے ؟ اُن کی معاشی صورت حال کیا ہے ؟ انہیں کیسے چیلنجز کا سامنا ہے ؟ کیا اُن کا تعلق ایک مسلمان پس منظر سے ہے یا ہندو  پس منظر سے ؟ اُن کی عمر کیا ہے ؟ شاگرد سازی کے تربیتی مواد کی تیاری سے پہلے ہمارے لئے یہ سب کچھ جاننا بہت ضروری ہے ۔ اسی لئے کوئی بھی شاگرد ساز  جو کہ شاگردسازی کا تربیتی مواد تیار کرنا چاہے ، اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ممکنہ شاگردوں کو بہترین طور پر جان لے میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ  جو ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاتے ہوئے ایک ہی مواد اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مختلف قسم کے علاقوں اور قوموں میں ایک ہی طرح سے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ یہ طریقہِ کار مؤثر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو کہ صرف زبانی تربیت حاصل کرنے کے قابل ہوں ۔اور دوسرے ایسے ہوں گے جن کا اچھا خاصہ تعلیمی میعار ہو ۔اگر آپ اپنے ممکنہ شاگردوں کی استعداد کو صحیح طور پر نہ سمجھیں، تو آپ کے لئے شاگرد سازی کا مؤثر تربیتی مواد تیار کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اسی لئے تیاری کا دوسرا مرحلہ بہت ہی اہم ہے ۔ یہ کہ ہم اپنے ممکنہ شاگردوں سے واقف ہوں چاہے وہ گروپ کی حیثیت میں ہوں یا انفرادی حیثیت میں ۔ لازمی ہے کہ ہم انہیں بہت اچھی طرح جان لیں ۔ 

تیسری  سرگرمی ایک ایسی ٹیم کی تیاری ہے جو شاگرد سازی کے تربیتی  مواد کی تیاری اور تشکیل پر کام کرے ۔ ضروری ہے کہ اس ٹیم میں  ایسے لوگ موجود ہوں جنہیں اُس قوم یا گروہ کےلوگوں کے  درمیان کام کرنے کا تجربہ ہو، جنہیں آپ شاگرد بنانا چاہتے ہیں۔ یہ ٹیم مل کر مختلف خیالات جمع کر سکتی ہے ، سوچ و بچار سکتی ہے اور دعا کر سکتی ہے ۔ وہ ممکنہ شاگردوں کے گروپ کے بارے میں تفصیلات بھی حاصل کر سکتی ہے۔ اس عمل کے لئے ایک ٹیم کا ہونا بہت زیادہ اہم ہے، کیو نکہ کوئی شخص اکیلا بیٹھ کر اُن مسائل کا ادراک نہیں کر سکتا  جو ممکنہ شاگردوں کے گروپ کی شاگرد سازی کے وقت سامنے آ سکتے ہیں ۔ 

میں نے دیکھا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ آن لائن  تربیتی مواد ڈاؤن لوڈ کرتے رہتے ہیں ، جو کہ عموما ً   اُن لوگوں کی ضروریات کے مطابق بھی نہیں ہوتا ،جن کی وہ شاگرد سازی کرنا چاہتے ہیں ۔ ہاں یہ ضروُر ہو سکتا ہے کہ ہم دوسرے قبیلوں یا دوسری قوموں سے کچھ خیالات اور نکات مُستعار لے لیں  ۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ کسی ایک علاقے کے لوگوں کے ویسے ہی مسائل ہوں گے  جیسے دوسرے علاقے کےہیں ۔ اس لئے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اس ٹیم کو کسی مخصوص گروہ  کے بارے میں  مکمل معلومات اور سمجھ بوجھ حاصل ہو ۔

چوتھی سر گرمی تجزیہ کرنا ہے۔ یہ ٹیم مل کر اُن مسائل کا تجزیہ کر سکتی ہے   جنہیں کسی مخصوص گروہ کی شاگرد سازی کے عمل کے دوران حل کرنا ضروری ہو۔ ٹیم ضروری معلومات اکٹھی کرے گی   اور ممکنہ شاگرد وں کے گروہ کو در پیش مسائل اور چیلینجز کو نظر میں رکھے گی ۔ ایسے کون سے دنیاوی مسائل ہیں جن کا کلام کی روشنی میں حل کیا جانا ضروری ہے ؟ اُن کے مذہبی اعتقادات کیا ہیں، جن پر  شاگرد سازی کے عمل کے دوران کام کر نا ضروری ہے ؟ 

مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں آپ شاگرد سازی کے مواد  میں سے اپنے موضوعات  کا انتخاب کر کےسیشنز ترتیب دے سکتے ہیں۔ اگر آپ ممکنہ شاگردوں کے گروہ کے بارے میں معلومات  کا حصول اور تجزیہ کرنے سے قاصر ہوں تو آپ کو اندازےکی بنا پر چلنا پڑتا ہے کہ کو ن سی چیز اُن کے لئے موزوں ہو سکتی ہے۔ لیکن  عین ممکن ہے کہ آپ کا خیال غلط ہو ۔ آج کے دور میں استعمال ہونے والے شاگرد سازی کے بہت سے وسائل، ممکنہ شاگردوں کی روحانی اور مادی ضروریات پوری نہیں کرتے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس ایک ٹیم موجود ہو جو کہ ہر قبیلے اور ہر قوم کی ضروریات کے مطابق تجزیہ کر کے موضوعات  ترتیب دے ۔شاگرد سازی کے  تربیتی مواد کی تیاری کے پہلے مرحلے میں  یہ سر گرمیاں بہت اہم ہیں ۔ ہمیں اس میں جلد بازی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ جتنا وقت لگائیں گے ،اتنا ہی بہتر طور پر آپ کسی گروہ کی ضروریات سمجھ سکیں گے ۔اس سے آپ اس قابل بن جائیں گے کہ آپ لوگوں کو اُن کے اپنے تہذیبی اور معاشرتی تناظر کے مطابق  مؤثر طور پر یسوع کے شاگرد بنا سکیں ۔

Categories
حرکات کے بارے میں

نارساؤں تک رسائی کے مقصد کی خاطر موجودہ چرچز کے لئے دوہری پٹڑی کا ماڈل

نارساؤں تک رسائی کے مقصد کی خاطر موجودہ چرچز کے لئے دوہری پٹڑی کا ماڈل

– ٹریور لارسن اور ثمرآور  بھائیوں کا ایک گروہ 

ہمارا ملک بہت تنوع کا حامل ہے ۔ کئی علاقوں میں مسیح پر ایمان رکھنے والا کوئی بھی نہیں ملتا  اور پھر بھی دیگر علاقوں میں  قائم دائم چرچز موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ چرچز مسلمانوں تک رسائی کی  اہلیت رکھتے ہیں، تاہم زیادہ تر چرچز نے جو 90 سے 99 فیصد مسلم اکثریتی آبادی کے علاقوں میں موجود ہیں ،کئی سالوں سے مسلمانوں کو ایمان کے دائرے میں داخل  نہیں کیا ہے ۔وہ اُس ردعمل سے خوف زدہ ہیں جو مسلمانوں کے ایمان لانے کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ مسلمان اکثریت کے زیادہ تر علاقوں میں موجود چرچز  مسیحی تہذیبی روایات قائم رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے علاقوں میں نارسا قوموں  تک رابطے قائم نہیں کرتے ۔ ظاہری طور پر موجود اور نظر آنے والے چرچز کی تہذیبی روایات اور اُن کے خلاف ردعمل مسلمانوں کے ساتھ رابطے منسلک  کرنے کو مشکل بنا دیتے ہیں ۔ ایسے ظاہری طور پر موجود چرچز ( جنہیں ہم پہلی پٹڑی کے چرچز کہیں گے ) ایک ایسی تہذیب کےنمائندہ ہوتے ہیں جو اُن کے آس پاس کے مسلمانوں  سے یکسر مختلف ہوتی ہے ۔ اس وجہ سے روحانی پیاس رکھنے والے مسلمانوں اور ان چرچز کے درمیان دیوار حائل ہو جاتی ہے ۔ہم ایک مختلف نمونہ تجویز کرتے ہیں :ایک دوسری پٹڑی کا چرچ:  یہ ایک ایسا چرچ ہو گا جو کہ اُسی سٹیشن سے منسلک ہے جس سے پہلا چرچ منسلک ہے لیکن اس چرچ کے ممبران چھوٹے چھوٹے گروہوں  میں خفیہ انداز میں ملتے ہیں ، اور آس پاس کا معاشرہ  اُن سے بے خبر رہتا ہے ۔کیا مسلمان اکثریت کے علاقوں میں موجود روایتی چرچ ایک دوسری پٹڑی کا (زیرزمین) چرچ شروع کر سکتے ہیں ؟ کیا وہ پہلی پٹڑی یعنی ظاہری چرچ کی خدمت کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں مسلمانوں کی شاگرد سازی کر سکتے ہیں ۔ 

کئی تجرباتی پراجیکٹس ” دوہری پٹڑی” کے ماڈل کی آزمائش کر رہے ہیں

ملک کے مسلم اکثریتی علاقوں میں زیادہ تر فرقوں کے چرچ یا تو سُست رفتاری اور یا گذشتہ دس سالوں میں زوال کا شکار ہو گئے ہیں ۔  ان ہی دس سالوں میں زیر زمین چرچ کا نمونہ ابھراہے جس نے چھوٹے چھوٹے گروہوں کی بہت تیز رفتاری سے افزائش کر کے  نارسا قوموں اور گروہوں تک رسائی کا مقصد حاصل کر لیا ہے ۔ 

کچھ چرچز ہم سے درخواست کرتے ہیں  کہ ہم انہیں مسلمانوں تک رسائی کے لئے چھوٹے گروہوں کی افزائش کے لئے تربیت دیں ۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ پہلی پٹڑی کے ظاہری چرچز کو بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم نے مختلف علاقوں میں دوسری پٹڑی کے  نمونے پر مبنی 20 مختلف چرچز کا تجرباتی آغاز کیا۔ ان میں سے چار تجرباتی پراجیکٹس ابتدائی تجربے کا چار سالہ عرصہ گزار چکے ہیں۔ اس باب میں دوسری پٹڑی کے نمونے کی بنیاد پر کئے  گئےپہلے چار تجربات  پیش کئے جاتے ہیں ۔ ان تجربات کے بارے میں مزید آگاہی اور دیگر 3 تجربات کے بارے میں معلومات” فوکس آن فروٹ” نامی کتاب میں مل سکتی ہیں ۔جس کی تفصیل اس باب کے اختتام پر درج ہے ۔

    کیس سٹڈی : ہمارا دوسری پٹڑی کا  پہلا چرچ

زاؤل نے 90 فیصد مسلم اکثرتی علاقے میں دوسری پٹڑی کا ایک تجرباتی پراجیکٹ  چار سال کے عرصے میں مکمل کر لیا ہے ۔ یہ علاقہ مسلم اکثریت کا ہے اور اُن میں سے زیادہ تر بنیاد پرست ہیں زاؤل بتاتا ہے کہ انہوں نے دوسری پٹڑی کے اس پہلے نمونے سے کیا کچھ سیکھا 

1۔ چرچز اور شاگردوں کا محتاط انتخاب 

ایک اچھے نمونے کے لئے بہترین انتخاب  کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہم چاہتے تھے کہ ہمارا چرچ کامیاب ہو اس لئے ہم نے بہت محتاط طریقے سے انتخاب کیا ۔ میں نے اس تجرباتی پرجیکٹ کے لئے چرچ Aکا انتخاب کیا کیو نکہ اُن کے معمر پاسٹر نے مسلمانوں کے لئے خدمت کے پُل قائم کرنے میں بہت گہری دلچسپی ظاہر کی تھی ۔ چرچ A یورپ کے ایک فرقے کا حصہ ہے لیکن اُس میں مقامی تہذیب کے کچھ پہلو بھی شامل ہیں  ۔ وہ عبادت کے لئے مقامی زبان استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ یورپ میں موجود  اپنے جیسے دیگر چرچز سے گہری مشابہت رکھتے ہیں ۔اپنے آغاز سے  51 سال بعد اس چرچ کے باقاعدہ ممبران خاندانوں  کی تعداد  25 ہے 

چر چ اA کے پاسٹر کو میں کئی سال سے جانتا تھ۔اس چرچ کے آس پاس ہم نے کئی چھوٹے گروہوں کی افزائش کی تھی ۔ جنہیں ہماری مقامی مشن ٹیموں کے ارکا ن نے شروع کیا تھا  ۔پاسٹر صاحب کو ہماری منسٹری کے پھل لانے پر  خوشی تھی اور وہ ہم سے سیکھنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں تک رسائی کیسے کی جائے۔

2۔ شراکت کے قواعد و ضوابط 

ان پاسٹر صاحب کی دلچسپی دیکھنے کے بعد ہم نے اپنی شراکت کی شرائط پربات چیت  شروع کی ہم نے ان تمام شرائط کو ایک ایم ۔ او ۔ یو کی صورت میں تحریر کرنا شروع کیا ۔ میرا خیال تھا کہ تحریری معاہدے کی صورت میں غلط فہمیاں کم ہو جائیں گی اور کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ سو ہم نے اپنی مشن ٹیم اور چرچ کے پاسٹر کے درمیان ایک ایم ۔ او۔ یو  دستخط کیا جس میں شریک  فریقین کے کردار کی وضاحت کی گئی تھی ۔

سب سے پہلے چرچ نے رضامندی ظاہر کی کہ وہ دس زیرتربیت کارکنان فراہم کرے گا جو اُس علاقے کے مسلمانوں تک منادی کرنے کے لئے رضامند ہوں۔ ہم نے زیرتربیت  شاگردوں کے انتخاب کے میعار کے اصول بھی طے کئے تاکہ مسلمانوں کو منادی کا مقصد کامیاب ہو سکے چرچ نے تربیت کے لئے مقام، کھانے پینے کے لئے بجٹ اور پاسٹر صاحب کی جانب سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ پاسٹر صاحب نے دوسرے علاقوں کے کچھ پاسٹر صاحبان کو بھی  تربیت کے لئے دعوت دی ۔ 

دوسری بات یہ کہ چرچ اس بات پر متفق ہوا کہ میدان میں جا کر  کام کرنے کے لئے ہدایات ہماری ٹیم ہی کی جانب سے ملیں گی۔  پاسٹر صاحب کا کردار زیرتربیت کارکنان کی مجموعی نگرانی تک محدود تھا ۔ انہوں  نے وعدہ کیا کہ وہ میدانِ عمل میں ہماری مشن ٹیم  کے فیصلوں میں مداخلت نہیں کریں گے ۔ انہوں نے اس بات پر بھی رضا مندی ظاہر کی کہ موجودہ چرچ کی منادی کے طریقے   مسلمانوںمیں منادی کرنے کے لئے استعمال نہیں کئے جائیں گے ۔ یہ بات بھی طے ہو گئی کہ دوسری پٹڑٰ ی کے نمونے کا مرکز مسلمان ہو ں گے جو موجودہ چرچ کے دائرے سے باہر ہیں ۔ زیر زمین چرچ حالات کے تناظر میں کام کرنے اور تبدیلیاں لانے کے لئے خود مختار ہو گا ۔

چرچ رضامند تھا کہ اس شراکت کے نتیجے میں ایمان لانے والے مسلمانوں کو دوسری پٹڑی کے چرچ میں چھوٹے گروہوں میں الگ الگ رکھا جائے گا ۔ نئے ایمانداروں کو ظاہری اور پہلی پٹڑی کے چرچ کے ساتھ شامل نہیں کیا جائے گا ۔اس کا مقصد یہ تھا کہ نئے ایمان لانے والوں کو مغرب کے اثرات سے بچایا جا سکے اور بنیاد پرستوں کے ردِعمل کے خلاف بھی محفوظ کیا جا سکے ۔ 

تیسری بات یہ تھی کہ ہم ،یعنی مشن ٹیم نے ایک سال  کے لئے تربیت دینے  کا وعدہ کیا۔ ہم نے خدمت میں سر گرم ارکان کی تربیت اور کوچنگ کی ذمہ داری لی ۔خود میں نے اس تربیت کی سہولت کاری کی ذمہ داری لی۔ ہم نے تربیتی مواد اور وسائل کے لئے بجٹ فراہم کیا ۔ ہم نے سر گرم ترین زیرتربیت کارکنوں کو مزید چار سال تک تربیت دینے کا معاہدہ بھی کیا ۔ 

چوتھی بات یہ کہ ہماری مشن ٹیم نے زیر زمین چرچ کو مقامی ترقیاتی منسٹریوں کے لئے کچھ فیصد فنڈدینے پر بھی رضامندی ظاہر کی جو ایک سال کے لئے دیئے جانے تھے ۔ہم نے اُس علاقے میں  ترقیاتی کاموں کو چھوٹے  گروپوں میں ایمانداروں کی افزائش کے ساتھ مربوط بھی کیا۔ چرچ نے میدان میں کام کرنے والے کارکنان کے لئے روز مرہ کے اخراجات اور سفر خرچ دینے کا وعدہ کیا ۔اس  کے علاوہ انہوں نے علاقے میں ترقیاتی کاموں کے بجٹ میں کچھ حصہ ڈالنے پر بھی رضامندی ظاہر کی ۔

پانچواں  نُکتہ یہ  طے ہُواکہ ہر تین ماہ بعد ایک رپورٹ مرتب کی جائے گی ۔ اس رپورٹ میں اخراجات منسٹری  کی  ثمر باری اور زیر تربیت کارکنان کی کردار سازی کے پہلوؤں کو اجاگر کیا جانا تھا ۔

اس شراکت کی ابتدا اور اسے مضبوط کرنے میں پاسٹر صاحب کے ساتھ  میری طویل مدت کی دوستی ایک  بڑی وجہ تھی ۔ دو مختلف پٹڑیوں کا نمونہ اس لئے تخلیق کیا گیا تھا کہ دو مختلف اور الگ چرچز قائم کئے جائیں جو دیکھنے میں  ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوں  لیکن اُن کی قیادت مشترکہ ہو ۔ چرچ نے رضامندی کا اظہار کیا کہ زیرتربیت کارکنان ایک سہولت کار کی حیثیت سے اپنے اپنے لائے گئے پھل کے اعداد وشمار مجھے فراہم کریں گے   اور چرچ اُس میں مداخلت نہیں کرے گا ۔سہولت کار کی حیثیت سے مجھے ان اعدادوشمار کا خلاصہ چرچ کے راہنماؤں کو فراہم کرنا تھا ۔ اس کے جواب میں انہوں نے طے کیا کہ وہ ان اعدادوشمار کو چرچ یا علاقے میں مشتہر نہیں کریں گئے 

3۔ پہلا سال : شرکا کی تربیت اور چھانٹی 

پہلے سال میں ہم نے سولہ مختلف موضوعات پر تربیت فراہم کی۔ اس تربیت کے لئے ہر دوسرے ہفتے ایک پورا  دن مخصوص تھا۔میں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تربیتی موضوعات میں سے نصف، پہلی پٹڑی کے چرچ کی افزائش کریں گے ۔ اس سے اُنہیں یہ جاننے میں مدد ملی کہ ہم پہلی پٹڑی کےظاہری طور پر  موجود چرچ کی خدمت بھی  کرنا چاہتے ہیں لیکن میری ترجیح تربیتی موضوعات میں سے اگلا نصف تھی جسے دوسری پٹری کے گروپ کے لئے تشکیل دیا گیا تھا ۔ اس کا مرکز نگاہ چرچ سے باہر کے مسلمانوں  کی خدمت اور چھوٹے چھوٹے گروپوں میں  خاموشی سے اُن کی شاگرد سازی کرنا تھا ۔

تربیت کا پہلا سال کردار سازی اور قیادت  کی آٹھ بنیادی مہارتوں کی تربیت پر مرکوز تھا ۔ان میں سے ایک مہارت ” دائروی انتظام” کہلاتی ہے۔ ہم اسے اپنی رپورٹوں میں دائرے کی صورت میں استعمال کر کے چھوٹے گروپوں کی افزائش دِکھاتے ہیں ۔ہماری رپورٹ  محض سر گرمی پر نہیں بلکہ اُس کے نتیجے میں آنے والے پھل پرمبنی ہوتی ہے۔ عملی میدان کے لئے ہمیں ایسے کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف قسم کے اسلوب اور حکمت عملیاں استعمال کر سکیں ۔ لیکن سب سے بڑھ کر ہم اُس پھل کا تخمینہ لگانا چاہتے ہیں جو ان سر گرمیوں  کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔ سو ہم عملی میدان میں کام کرنے والوں کو ترقی کے عملی اشاریوں کی نشاندہی کرنا سکھاتے ہیں۔  جب وہ ان نشانات اور علامات سے متفق ہو جاتے ہیں تو ہم باقاعدہ طور پر مشترکہ  تجزیہ کاری کا آغاز کر دیتے ہیں ۔ 

مسلمانوں تک پہنچنے والے عملی میدان کے کارکنان کے لئے یہ آٹھ مہارتیں بہت اہم ہیں ۔ ہر تجزیے میں ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کن زیرتربیت کارکنان نے  تمام آٹھ مہارتیں استعمال کی ہیں ۔ ان آٹھوں مہارتوں کا استعمال کرنے والے زیرتربیت  کارکنوں کو ہم سر گرم قرار دیتے ہیں۔ اگر ان کا استعمال نہیں کیا گیا تو کیوں نہیں ؟ ہم نے زیر تربیت کارکنوں کی نگرانی کی ، انہیں حوصلہ افزائی فراہم کی اور ان آٹھ مہارتوں کی بنیاد پر اُن کا جائزہ لیا ۔

چرچ کے 50 بالغ ممبران میں سے 26 کو دونوں قسم کے چرچز کی تربیت دی گئی جو کہ سولہ موضوعات پر مبنی تھی۔ کچھ ماہ کے بعد صرف دس نے چرچ کے دائرے سے باہر  مسلمانوں  تک پہنچنے اور انہیں شاگرد بنانے کی بلاہٹ محسوس کی ۔ ان دس افراد نے ( جو چر چ کے کُل بالغ ممبران کا بیس فیصد تھے ) خود کو مسلمانوں  کی شاگرد سازی کے لئے منتخب کیا۔

ہمارے سہ ماہی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ اُن دس میں سے 6 نے پہلی پٹڑی کے چرچ میں خدمت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اُن کی توجہ چرچ  کی منادی، اُس کے ممبران کی تربیت اور دیگر چرچز کے ساتھ رابطہ  کاری پر تھی۔ 10 میں سے صرف 4 تھے جو اکثریتی عوام تک پہنچنے کے لئے سر گرم تھے۔ یہاں کچھ تربیت کاروں کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی ہوگی، لیکن یہ چار لوگ چرچ کے 8 فیصد کی ترجمانی کرتے تھے جو بہت سے چرچوں کے لئے ایک کافی بڑی تعدادہے ۔یہ 4  افراد،مسلمانوں کی اکثریتی آبادی میں شاگرد سازی کے عمل کو انجام دینے کے لئے ایک خاص بلاہٹ کے حامل تھے 

4۔ دوسرے سے چوتھے سال تک : ابھرتے ہوئے عملی کارکنان کے لئے کوچنگ اور تعاون 

ہم نے صرف اُن 4 افراد کی کوچنگ کی جو منادی کے لئے سر گرم نظر آتے ہوئے ابھرے تھے ۔ ان چاروں کی تربیت ہماری مشن ٹیم نے تیسری نسل کے ایک چھوٹے گروپ میں کی ۔ یہ ایسے مسلمان تھے جو ایمان لا چکے تھے  اور آس پاس کے علاقوں میں رہتے تھے ۔

ان چاروں کو قریبی علاقوں میں مسلمانوں کے درمیان منادی کے لئے بھیجا گیا اُن میں سے ہر ایک نے چرچ کے 25 سے 30  کلو میٹر کے آس پاس کے علاقوں میں سے ایک ایک علاقہ منتخب کیا جہاں اُنہوں  نے اس کا م کی ابتدا کرنی تھی۔ چرچ کے 25 ممبران خاندان نے اُن چاروں خاندانوں کی کفالت کا ذمہ لے لیا جنہوں نے مسلمانوں  میں خدمت کے لئے خود کو وقف کر دیا تھا ۔ اپنے چندوں اور نذرانوں کے علاوہ  چرچ کے ممبران نے اس مقصد کے لئے چرچ سے باہر کے عطیہ دہندگان سے بھی فنڈ  ز حاصل کئے ۔اُنہوں نے چرچ کے سابقہ ممبران سے بھی رابطہ کیا جو دیگر شہروں میں منتقل ہو گئے تھے اور اب اچھی خاصی آمدنی حاصل کر رہے تھے۔

 ہماری توجہ کا مرکز ان چار وں کی تربیت تھی۔ اس قسم کی خدمت میں  ابتدائی تربیت اہم نہیں ہوتی کیو نکہ زیادہ تر  لوگ اس ابتدائی تربیت کو استعمال کرنے سے پہلے ہی بھول جاتے ہیں۔ ابتدائی تربیت دراصل لوگوں کی چھانٹی کرنے اور ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنے کے کام آتی ہے جو مسلمانوں تک جانے کے لئے سر گرم ہوں اور اُس کی اہلیت رکھتے ہوں ۔ثمر آور کوچنگ کا تقاضا  ہوتا ہے کہ تربیت کاروں  اور خدمت میں عملی طور پر سرگرم  کارکنان کے مابین  باقاعدگی سے بات چیت ہو ۔ تربیت کار، زیر تربیت کارکنان کے ساتھ اُن مسائل پر گفتگو کرتے ہیں جن کا سامنا وہ میدان ِ عمل میں کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اُن بار آور طریقہ کاروں کا جائزہ بھی لیتے ہیں جن پر تربیت کے دوران بات کی گئی ہوتی ہے ، اور اُن کے اپنے اپنے تناظر میں اُن کے اطلاق پر بھی بات کرتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کو عملی میدان میں اپنی تربیت کے اصولوں کے اطلاق کے لئے باقاعدہ اور رواں دواں تربیت اور کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے ۔

ان چار افراد کے جذبے کو دیکھتے ہوئے اُس چرچ نے بھی دوسری پٹڑی کے پراجیکٹ کی جانب اپنی توجہ میں اضافہ کر دیا ۔انہوں نے اُس علاقے میں ترقیاتی پراجیکٹس کے لئے اُن چاروں کو مزید فنڈ مہیا کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ۔ ترقیاتی پراجیکٹس ایسے مسلمانوں کا دل جیتنے کے لئے بہت اہم ثابت ہوتے ہیں جن کا تعلق کم آمدنی والے طبقے سے ہوتا ہے ۔ ہم نے چرچ اور میدان میں سر گرم اُن چار افراد کے سیکیورٹی کے مسائل پر گفتگو پر بھی بہت سا وقت صرف کیا ۔اس سے تمام لوگوں کو محتاط رہنے میں بھی مدد ملی ۔

5۔ چار سالوں میں بہت سا پھل 

اب چار سال بعد ان چار ممبران کی جانب سے شروع کی گئی منادی  500 ایمانداروں تک پہنچ چکی ہے۔ دوسری پٹڑی کے زیر زمین چرچ کا یہ پھل جوکہ  چھوٹے  گروپوں کی صورت میں سامنے آیا، پہلی پٹڑی کے ظاہری چرچ کے  50 ممبران سے کہیں بڑھ کر ہے جو کہ ایک عمارت میں دعا کے لئے جمع ہوتے تھے ۔

انہوں نے شاگرد سازی کے لئے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی    تشکیل بھی کی ہے جن میں آ کر مسلمان ایمان لاتے ہیں۔ یہ مسلمان اس کے بعد مزید چھوٹے گروپ  تشکیل دے کر  اُن مسلمانوں  کی راہنمائی کرتے چلے جاتے ہیں  جو ابھی ابھی ایمان لائے ہوتے ہیں۔ پاسٹر صاحب نے اس پھل کے نتیجے میں حاصل ہونے والی خوشی کو دبا کر رکھا ہوا ہے ۔ 

6۔ راہ میں آنے والی رکاوٹیں اور مقصد کی تجدید

یہ چار عملی کارکنان اب اُن چار علاقوں میں بہت سا پھل آتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور اُس کی نگرانی کر رہے ہیں ۔ حال ہی میں  میں اُن چاروں کے ساتھ ساتھ پہلے چرچ کے ایک نئے پاسٹر سے بھی ملا ۔ہم نے ISIS سے متاثر ہو کر تعداد میں بڑھنے والے بنیاد پرستوں کے ساتھ تصادم کی صورت میں ہنگامی صور ت حال ابھرنے کے بارے میں گفتگو کی ۔ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان چھوٹے گروپوں میں شامل ایماندار اپنے طور پر ایسی صورت حال سے نمٹیں گے اور کسی دوسرے چھوٹے گروپ کے ساتھ اپنے روابط کو ظاہر نہیں کریں گے ۔ لیکن اگر مسئلہ بہت ہی مشکل ہو جائے اورکسی کی قربانی دینی ہی پڑے تو وہ پہلے چرچ کے ساتھ اپنے رابطوں کا انکشاف کر کے اُس کی قربانی دیں گے۔ یہ ایثار کی ایک بہت شاندار مثال ہے، ایک ایسے ملک میں جہاں چرچز مسلمانوں تک پہنچنے کے لئے محض اس لئے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ اُن کا اپنا چرچ خطرے کی زد میں آ سکتا ہے ۔پہلے چرچ کی قربانی کی صورت میں یہ خطرہ اُسی چرچ تک محدود رہے گا ۔ اور اس سے کہیں بڑی تعداد میں زیر زمین ( دوسری پٹڑی کے چرچ ) تک نہیں پہنچے گا ۔ حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ شدہ چرچ کو شاید  قانون کا تحفظ بھی حاصل ہو ،لیکن زیر زمین چرچ کو ایسا کوئی تحفظ  حاصل نہیں ہو سکے گا ۔

سو جہاں تک ممکن ہوا چھوٹے گروپ تصادم کے ساتھ انفرادی طور پر ہی نمٹیں گے تاکہ دوسروں کو خطرے میں نہ ڈالا جائے ۔عملی میدان کے یہ چار راہنما چھوٹے گروپوںمیں موجود نئے ایمانداروں کو  ایسی صورت حال سے اسی انداز میں نمٹنے کی تربیت دیں گے ۔ اُن کی نشان دہی  پہلے سے موجود چرچ کی حیثیت سے نہیں کی جائے گی۔ اس طرح وہ خطرے کی زد میں نہیں آئیں گے ۔ زیر زمین چرچ کی تحفظ کی خاطر سابقہ پاسٹر کی جگہ لینے والے نوجوان پاسٹر نے بھی یہ خطرہ مول لینا قبول کر لیا۔

 جن دوسری پٹڑی کےنمونے کے  چرچز کی ہم تربیت کرتے ہیں، اُن کے ساتھ ہم بہت ایمانداری سے چلتے ہیں ۔ اُن کے لئے مسلمانوں میں منادی کے فوائد ہی نہیں  بلکہ اُس سے منسلک خطرات جاننا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ لازمی ہے کہ جس چرچ کی ہم تربیت کر رہے ہوں وہ ہماری رپورٹوں کو خفیہ رکھنے پر اتفاق کریں۔ یہ رپورٹیں چرچ کے ممبران یا دیگر مسیحیوں کو نہیں دکھائی جا سکتیں۔ اس وجہ سے ہم تربیت دینے  کے لئے چرچ اور اُس کے ممبران کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں ۔

ان دو پٹڑیوں کے اسلوب میں سیکیورٹی کے خدشات تو سامنے آتے ہی ہیں، لیکن ہمارا سب سے بڑا چیلنج چر چ کےکچھ  راہنماؤں  کی جانب سے منفی تنقیدی حملے ہیں۔ وہ ہم پر یہ سمجھتے ہوئے تنقید کرتے ہیں کہ اگر ہماراگلہ چرچ کی عمارت میں نہیں جاتا تو ہم اُس کی حفاظت نہیں کریں گے۔ در حقیقت ہم   ایسے بہت سے پاسبانوں کی تربیت کرتے ہیں جو گلے کی نگہبانی کرنے کے اہل ہوتے ہیں ۔ ہم چھوٹے گروپ کے ہر راہنما کو اس بات کی تربیت دیتے ہیں کہ وہ اپنے گروپ کے ممبران کے ساتھ باہمی محبت اور دیکھ بھال کی فضا قائم کرے تاکہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھ سکیں ۔ چرچ کے کچھ راہنما اس بات پر بھی تنقید کرتے ہیں کہ ہم اپنے لائے ہوئے پھل کو پولیس کی نظر میں کیوں نہیں لاتے، جس کے نتیجے میں ہمیں سرکاری طور پر چرچ کی حیثیت سے شناخت مل سکتی ہے ۔ تاہم ہم سرکاری طور پر شناخت کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔  ہماری توجہ کا مرکز نئے ایمانداروں کو ایک جسم کی صورت میں ایمان میں مضبوط کرنا ہے تاکہ وہ ایسا چرچ بن جائیں جو ہمیں نئے عہد نامے میں نظر آتا ہے۔ اُن چرچز کی کوئی سرکاری شناخت نہیں تھی، لیکن وہ تعداد میں بائبلی اصولوں کے مطابق بڑھتے چلے گئے یہ ہی ہمارا نصب العین ہے ۔

دو پٹڑیوں کے اس نمونے کے تین کلیدی عناصر ہیں :

1۔ تربیت کے ذریعے چھانٹی کر کے محتاط انداز میں منتخب  کئے گئے لوگوں کا ایک چھوٹا گروہ ۔

2۔ ان افراد کی تربیت اور نشوونما کے لئے ابتدا ہی سے  چرچ کے ساتھ شرائط و ضوابط طے کر لینا تاکہ چرچ نئے انداز کی منادی اور خدمت میں مداخلت نہ کرے ۔

3۔ ایسے لوگوں کی مسلسل تربیت اور تعاون جو مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں خدمت اور منادی کے لئے داخل ہوتے ہیں ۔

Categories
حرکات کے بارے میں

ہتھیار ڈالنے والے :مشرق وسطی ٰمیں تحریکیں نئی تحریکوں کی ابتداکر رہی ہیں ۔

ہتھیار ڈالنے والے :مشرق وسطی ٰمیں تحریکیں نئی تحریکوں کی ابتداکر رہی ہیں ۔

– “ہیرلڈ” اور ولیم جے ڈبیوس 

جب مجھے میرے فون پر ایک خفیہ پیغام موصول ہوا تو میں اُس کے سادہ اور جرات مندانہ انداز پر حیران رہ گیا۔ اور ساتھ ہی میرے دوست اور مشرق وسطیٰ میں میرے شراکت دار ” ہیرلڈ ” کے الفاظ نے میرے اندر شکرگزاری کے جذبات پیدا کر دیئے۔اگر چہ وہ ایک سابق امام، القاعدہ کا          دہشتگرد اور طالبان کا راہنما رہا ہے ، یسوع کی معافی کی قوت سے اُس کا کردار کُلی طور پر تبدیل ہو گیا ہے۔  میں اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی کے معاملے میں ہیرلڈ پر مکمل اعتماد کر سکتا ہوں ، اور میں ایسا کر بھی چکا ہوں ۔ہم مشترکہ طور پر دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں گھریلو چرچز کی تحریک کے ایک  نیٹ ورک کی قیادت کر رہے ہیں ،جسے انطاکیہ کے خاندان کے چرچ کہا جاتا ہے۔ 

اُس سے دو دن قبل میں نے ہیرلڈ کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں مَیں نے پوچھا تھا کہ کیاسابقہ مسلمان اور اب مسیح کے پیچھے چلنے والے بہن  اور بھائی جو عراق میں رہ رہے ہیں اُن میں  سے کوئی یذیدیوں کی مدد کرنے کے لئے تیار ہو گا یا نہیں۔ اُس نے جواب دیا :

” میرے بھائی، خُدا پہلے ہی کئی مہینوں سے اس بارے میں ہم سے بات کر رہا ہے ۔ اور اُس کا حکم عبرانیوں 3: 13 کی بنیاد پر ہے: ” اور جن کے ساتھ بد سلوکی کی جاتی ہے اُن کو بھی یہ سمجھ کر یاد رکھو کہ ہم بھی جسم رکھتے ہیں ” ۔کیا آپ ایذارسانی کی شکار مسیحی اور یزیدی اقلیتوں کو ISIS سے بچانے کے لئے ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کے لئے  تیار ہیں ؟ “

میں اس کا کیا جواب دے سکتا تھا؟  گذشتہ کئی سالوں سے ہماری دوستی ایک مضبوط عہد میں بندھ گئی تھی کہ ہم مل کر یسوع کے ساتھ ایک ہی راستے پر چلیں گے اور ارشادِاعظم  کی تکمیل کے لئے مل کر  کام کریں گے۔ ہم مل کر ایسے راہنماؤں کی تربیت پورے جوش وجذبہ سے کر رہے تھے جو خود کو مسیح کے حوالے کر کے مزید شاگردوں کی افزائش کریں اور پھر قوموں تک اُس کی محبت کا پیغام لے کر جائیں ۔ اب ہیرلڈمجھے ایک اور بڑا قدم اٹھانے کو کہہ رہا تھا کہ میں لوگوں کو گناہ کی غلامی اور ISIS کے خوفناک جرائم سے بچانے میں اُس کی مدد کروں میں نے جواب دیا : ” ہاں میرےبھائی میں تیار ہوں۔ اب دیکھتے ہیں  کہ خُدا کیا کرتا ہے ”   

چند ہی گھنٹوں میں مشرق وسطیٰ میں چرچز قائم کرنے والی تربیت یافتہ اور تجربہ کار ٹیمیں تیار ہو گئیں جو اپنی اپنی کام کی جگہ چھوڑ کر ISIS سےلوگوں کو نجات دلانے کے  لئے سب کچھ کرنے کے لئے  رضا مند تھیں ۔ یہ جان کر ہمارے دلوں میں ایک دائمی تبدیلی آ گئی۔

 خُدا ہم سے پہلے ہی یہ کام کر رہا تھا! ISIS کی درندگی اور ظلم کا شکار ہونے والے یزیدی ہمارے زیر زمین خفیہ مقامات تک پہنچنے لگے تھے۔ ان مقامات کوہم ” کمیونٹی آف ہوپ رفیوجی کیمپس” کہتے ہیں ۔ ہم نے مفت طبی امداد، ذہنی صدمے سے نکالنے کے لئے مشاورت، تازہ اور صاف پانی ، پناہ گاہ اور تحفظ فراہم کرنے کے لئے مقامی مسیحیوں کی ٹیمیں متحرک کر دیں۔ یہ گھریلو چرچز کے مسیحی پیروکاروں کی ایک تحریک تھی جو اپنے ایمان کا عملی اظہار کر کے دوسرے لوگوں کو متاثر کر رہے تھے ۔ 

ہم نے یہ بھی جانا کہ اُن ٹیموں کے بہترین کارکن قریبی گھریلو چرچز سے تعلق رکھتے تھے ۔ وہ زبان اور تہذیب سے واقف تھے اور اُن کے دلوں  میں انجیل کی منادی اور چرچز قائم کرنے کا جذبہ تھا۔ دیگر NGOs جو حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ تھیں اُنہیں ایمان کے پیغامات دینے کی اجازت نہیں تھی ۔ لیکن مقامی چرچز کی جانب سے غیر رسمی کاوشیں دعاؤں ، کلام پڑھنے ، شفا دینے ،محبت اور دیکھ بھال سے بھرپور تھیں ! اورچونکہ ہماری ٹیم کے راہنماؤں کو یسوع کی جانب سے عظیم معافی کا فضل مل چکا تھا ۔ تو اُن کی زندگیاں خود کو یسوع کے حوالے کر دینے اور بے انتہا جرات کے جذبے سے  عملی طور پر بھرپور تھیں ۔

جلد ہی ہمیں خطوط موصول ہونے لگے :

میرا تعلق ایک یزیدی خاندان سے ہے ۔ایک طویل عرصے سے جاری جنگ نے میرے ملک کے حالات بہت خراب کر دیئے ہیں۔ لیکن اب ISIS کی وجہ سے یہ حالات مزید بگڑ گئے ہیں ۔

گذشتہ ماہ اُنہوں نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا ۔انہوں  نے بہت سے لوگوں کو قتل کر دیا اور مجھے کچھ اور لڑکیو ں سمیت اغوا کر لیا ۔ان میں سے بہت سو ں نے میری آبرو ریزی کی میرے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا ۔ حکم نہ ماننے پر مجھے کئی مرتبہ مارا پیٹا گیا۔ میں نے اُن سے التجائیں کیں، ” خُدا کے لئے میرے ساتھ یہ نہ کرو،” لیکن وہ ہنس کر یہ کہتے ” تم ہماری غلام ہو ۔” انہوں نے بہت سے لوگوں پر میرے سامنے تشدد کیا اور بہت سو ں کو قتل بھی کیا ۔

 ایک روز وہ مجھے فروخت کرنے کے لئے کسی دوسری جگہ لے گئے۔میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔  اور جب میں اپنے خریدنے والوں کے ساتھ چلی تو میں چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔  30 منٹ کے بعد   خرید ار نے کہا، ”  میری عزیز بہن، خُدا نے  ہمیں یزیدی لڑکیوں کو ان بدکردار لوگوں سے بچانے کے لئے بھیجا ہے۔ تب میں نے دیکھا کہ انہوں نے 18 لڑکیوں کو خریدا تھا ۔

جب ہم کمیونٹی آف ہوپ کیمپ پہنچے تو ہم سمجھ گئے کہ خُدا نے ہمیں بچانے کے لئے اپنے لوگوں کو بھیجا تھا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان آدمیوں کی بیویوں نے اپنے سونے کے زیورات بیچ کر ہمیں چھڑانے کی قیمت ادا کی تھی۔ اب ہم محفوظ ہیں ، خدا کے بارے میں جان رہے ہیں اور ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں ۔ 

( ہمارے کمیونٹی آف ہوپ رفیوجی کیمپ  کے ایک لیڈر کی جانب سے ایک خط )

 کئی یزیدی خاندانوں نے یسوع مسیح میں ایمان کو قبول کر لیا ہے اور وہ ہمارے راہنماؤں کے ساتھ مل کر اپنے لوگوں کے لئے کام اور خدمت انجام دینا چاہتے ہیں ۔ یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ وہ انہیں اپنے تہذیبی اصولوں اور طریقوں کے مطابق ایمان  کا پیغام دے سکتے ہیں ۔ آج مسیح کے پیروکار متاثرہ لوگوں کے لئے دعاؤں میں مصروف ہیں کہ خُدا  اُن کی ضروریات پوری کرے اور انہیں مسلم انتہا پسندوں سے محفوظ رکھے۔  براہ ِکرم ہمارے ساتھ دعا میں شامِل ہوں  ۔

 ایک معجزے کا آغاز ہو چکا تھا ۔آس پاس کی قوموں میں سے خود کو مسیح کے حوالے کر دینے والوں کی ایک تحریک شروع ہو چکی تھی۔ یہ لوگ جو اس سے قبل اسلام میں پھنسے ہوئے تھے ،انہیں اُن کے اپنے گناہ سے نجات مل چکی تھی اور اب وہ اپنے منجی یسوع کے لئے زندگیاں گزار رہے تھے۔ وہ دوسروں کو بچانے کے لئے  اپنی جانیں قربان کر رہے تھے ۔ اب یزیدیوں کے درمیان مسیح کے پیروکاروں کی ایک دوسری  تحریک کا آغاز ہو چکا ہے۔

 یہ سب کیسے ممکن ہوا ؟ ڈی ایل موڈی کے الفاظ کے مطابق : ” دنیا نے ابھی تک نہیں دیکھا کہ خُدا ایسے شخص کے ساتھ مل کر کیا کچھ کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو پوری طرح اُس کے حوالے کر دے ۔ خُدا کی مدد کے ساتھ میں ایک ایسا شخص بننے کا مقصد رکھتا ہوں ۔”

Categories
حرکات کے بارے میں

مسلمانوں کے درمیان تحاریک کا آغاز: بہترین طریقہ ہائے کارکی کیس سٹڈی – انطاکیہ کے خاندان کے چرچ

مسلمانوں کے درمیان تحاریک کا آغاز: بہترین طریقہ ہائے کارکی کیس سٹڈی – انطاکیہ کے خاندان کے چرچ

– ولیم جے ڈبیوس –

میرا نام ولیم جے ڈبیوس ہے اور میں انطاکیہ کے خاندان کے چرچز کا شریک راہنما ہوں ،جو مقامی چرچز کی تخم کاری کی تحریکوں کا ایک عالمگیر اتحاد ہے۔ گذشتہ 30 سالوں میں ہم نے پہلی نسل کے ایسے مسیحیوں میں قائدین کی تعمیر پر توجہ مرکوز رکھی ہے  جن کا تعلق اُن ممالک سے ہے  جہاں رسائی مشکل ہے ۔  ہم انہیں ایسے علاقو ں میں گھریلو چرچز کی افزائش کی تربیت میں مدد دیتے ہیں۔میرا آج کا موضوع مسلمانوں  میں چرچز کی تحریکوں کا آغاز ہے ۔

ہمارے گزشتہ بیس سال کے کام کے دوران ہماری کوششیں اکثر بے سمتی ، غلطیوں، اور ناکامیوں کا شکار رہی ہیں ۔تاہم اپنی زندگی میں ایک ذاتی بحران سے گذرنے کے بعد میں نے کچھ ایسا سیکھا ،جس سے ہم کامیابی کے راستے پر گامزن ہو گئے ۔ 2004 میں میں زیر زمین ایرانی گھریلوچرچ کے راہنماؤں کو تیمتھیس کے دوسرے باب کی تعلیم دے رہا تھا۔ اس تربیت کے مکمل ہونے کے بعد مجھے القاعدہ  کے ایک ایجنٹ نے زہر دے دیا اور میں قریب المرگ ہو گیا۔ بہت سے لوگ میرے لئے دعائیں کر رہے تھے اور ڈھائی مہینوں تک ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے چکر لگانے کے بعد میں معجزاتی طورپر صحت یاب ہو گیا ۔ میں اس کے لئے خُدا کا بہت شکر گزار ہوں !

لیکن اس کہانی کا سب سے متاثر کُن پہلو بعد میں سامنے آیا۔ دراصل کئی سال کےبعد ،مَیں افغانستان، عراق اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے چرچز کی تخم کاری کے راہنماؤں کی تربیت کی میزبانی میں شریک تھا۔ تربیت کے ابتدائی مرحلے میں ہم ایک دوسرے کو  اپنا تعارف کروا رہے تھے ۔ تب مجھے پتہ چلا کی چرچز کی بنیاد رکھنے والوں میں وہ شخص بھی تھا  جس نے مجھے زہر دیا تھا ۔ 

اُس لمحے میری سمجھ میں آنے لگا کہ تحریکوں کی افزائش کو محض بین التہذیبی زبانیں اور تہذیب اور ثقافت کو سمجھنے کی اہلیت رکھنے سے بڑھ کر بھی کچھ چاہیے ہوتا ہے ۔ نئے جنم کی قوت ملنے کا آغاز لوگوں کی روحوں کو جاننے سے ہوتا ہے اور خاص طور پر اس معاملے میں ایسے لوگوں کو گہرائی میں جاننے سے، جو برائی اور شیطان کی راہ پر چل نکلے ہوں ۔خدا نے مجھے لوگوں کے دلوں کو سمجھنے کے سفر پر ڈال دیا جس سے میں یہ جاننے کے قابل ہونے لگا کہ مسلمانوں میں تحاریک کا آغاز کرنے کے لئے کیا درکار ہو گا ۔

آج انطاکیہ کے خاندان کے چرچ 157 ملکوں میں 1225 تحریکوں میں سر گرم ہیں اور 748 زبانیں  بولنے والے لوگوں تک رسائی حاصل کر چکے ہیں ۔ان علاقوں میں 23 لاکھ گھریلوچرچز ہیں جن کے بالغ ممبران کی تعداد 4 کروڑ 20 لاکھ ہے۔ خُدا نے جو کُچھ ہم میں اور ہمارے درمیان شروع کیا ، اُس کا آغاز غلط فیصلوں ،ٹوٹے ہوئے جذبوں اور غلط فہیموں کے ساتھ ہوا ۔لیکن خُدا نے اپنے فضل سے ہمیں ایسی  با اثر اور قوی صلاحیتیں  اور موثر اصول سیکھنے میں مدد دی جس کے ذریعے بے انتہاکامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ 

ہماری توجہ تین ترجیحات پر مرکوز ہوتی ہے۔ سب سے پہلی یہ کہ لوگوں کو غلامی سے بچا کر بیٹے بننے کی طرف لایا جائے ۔ غلامی چاہے انسانی تجارت کی شکل میں ہو ،لیکن یہ ہر صورت میں گناہ کی غلامی ہوتی ہے۔ غلامی کی زندگی نسلی امتیاز،  تکلیفوں اور ٹوٹے ہوئے دل کے جذبات سے بھری ہوتی ہے ۔لیکن جب یہ لوگ یسوع مسیح کے ذریعے خُدا کے ساتھ ایک ذاتی رشتے میں جُڑ جاتے ہیں تو وہ زندہ خُدا کے بیٹے اور بیٹیاں اور اُس کے وارث بن جاتے ہیں ۔ سو نئے ایمانداروں کے ساتھ ہمارا رشتہ نسلوں کی بنیاد پر نہیں ہوتا ۔یہ ایک خاندان کی  صورت میں ہوتا ہے، کیو نکہ ہم انہیں مسیح میں بپتسمہ لینے کے بعد چرچ میں، اور پھر دنیا میں بپتسمہ لینے کو کہہ رہے ہوتے ہیں ۔ ہم کسی کو بھی منجی کو جان لینے سے پہلے اپنے دائرے میں شامل ہونے کو نہیں کہتے ۔ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سب سے پہلے وہ ہمارے  منجی سے ملاقات کر لیں ۔ پھر ہم مل کر اس بات کا تعین کرتے ہیں  کہ اُن کی اپنی ثقافت میں چر چ کی ساخت کیا ہونی چاہیے ۔ سو سب سے پہلی ترجیح غلامی سے نجات  دلا کر بیٹے بنانے کی ہے ۔ 

 ہماری دوسری ترجیح لوگوں کو یہ اختیار دینا ہے کہ وہ دوسروں کو مسیحی کی جانب لا سکیں ۔آپ نے سلامتی  کے فرزند کی تلاش کی اصطلاح سن رکھی ہو گی ۔ہمارے طریقہ ِکار کے مطابق ہم سب سے  پہلے ایک بااثر مرد یا عورت کی تلاش کرتے ہیں ۔ اس طریقہ کار کو کرنیلیس کا نمونہ کہتے ہیں ۔ جس کا ذکر اعمال کی کتاب کے10 ویں باب میں ہے ۔ ہم خُدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایسے لوگوں سے ملائے جو اپنے گاؤں  ،اپنے معاشرے یا اپنے ملک پر گہرا اثر و نفوذ رکھتے ہوں۔ ہم اُن تک انجیل کا پیغام لے کر جاتے ہیں ،جس کے بعد وہ اپنی پوری قوم یا سماجی رابطوں سے منسلک سب لوگوں میں  خوشخبری پھیلانے لگ جاتے ہیں ۔ اور پھر جس طرح پولس رسول نے ططس سے ہر چرچ میں پاسبان متعین کرنے کو کہا تھا ، ہم بھی اپنے ہر کرنیلیس کو یہ کہتے ہیں کہ وہ ہر گھریلو چرچ میں راہنما تیار کریں۔ اس طرح ہماری خدمت ایک سے دوسرے چرچ تک پھیلتی چلی جاتی ہے ۔یہ کسی تنظیم سے چر چ کا رابطہ نہیں ہوتا بلکہ ایک مقامی چرچ کسی دوسرے مقامی گھریلوچرچ کے ساتھ شراکت کر کے خُدا سے پوچھتا ہے کہ کیا کرنے کی ضرورت ہے، اورپھر دونوں مل کر وہ کام کرتے ہیں ۔ 

پھراس کے بعد ہماری تیسری ترجیح آتی ہے جو کہ  افزئش ہے۔ تیمتھیس 2:2 کے مطابق ہماری ذمہ داری ہے کہ جو باتیں ہم نے بہت سے گواہوں کے سامنے سُنی ہیں اُن کو ایسے دیانت دار آدمیوں کے سپُرد کریں جو اوروں کو بھی سِکھانے کے قابل ہوں۔ یہ تین نسلوں تک کی افزائش ہے۔ ہم نے یہ جان لیا ہے کہ اگر ہم راہنماؤں کی نسل در نسل افزائش کریں تو اُس کے ذریعے ہم تحریکوں کی افزائش کر سکتے ہیں۔ ہماری قیادت کی تربیت محض تعلیم کی بجائے فرمانبرداری پر مبنی ہوتی ہے ۔ میں آپ کو اس کی ایک مثال دوں گا۔ کئی سال پہلے ہم نے ایک بڑے شہر میں ایک نئی خدمت کا آغاز کیا  اور ہمیں ایک ایسا شخص ملا جو روحانی چیزوں میں دلچسپی رکھتا تھا ہمارے ایک کارکن نے اُس کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا اور جلد ہی وہ یسوع کے بارے میں پوچھنے لگا  ۔لیکن اُسے بادشاہی کا تصور گہرائی میں سمجھانے سے پہلے ہم نے اُس سے کہا کہ وہ اپنے پانچ دوست تلاش کر کے لائے۔ 

مقصد یہ نہیں تھا کہ اُن پانچ دوستوں کو گھریلو چرچ کی میٹنگ میں صرف شریک کر لیا جائے۔ بلکہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ اُن میں سے ہر ایک کی راہنمائی  ہمارا یہ کرنیلیس کرے ۔پھر اُس کے بعد وہ  پانچ اس پیغام کو مزید پانچ  دوستوں کو سُناتے اور وہ پانچ اپنے مزید پانچ دوستوں کو یہ خوشخبری دیتے۔ سو ابتدا سے ہی ہماری خدمت افزائش کی بنیاد پر قائم تھی ۔

ان تین ترجیحات – نجات ، اختیار اور افزائش کے ذریعے، ہم نے یہ جانا کہ ہم اُن لوگوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو مسیح کی جانب آ رہے ہوتے ہیں۔ سو انہیں محض ایمان کے بیان سِکھانے کی بجائے ہم اُن سے بڑے موثر  سوالات پوچھنے سے ابتدا کرتےہیں ۔ جو تین سوالات ہم اُن سے پوچھتے ہیں وہ یہ ہیں ، ” کون روح کے لئے پیاسا ہے ؟ وہ روح کی تلاش کب کر رہے ہیں ؟ اور وہ روحانی طور پر کہاں متوجہ ہیں ؟” اس کے ذریعے ہم اُن لوگوں کے تہذیبی اور روحانی پس منظر اور صُورت ِ حال سے آگاہی حاصل کر تے ہیں جن کی ہم خدمت کرنا چاہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ایسٹر کا موقع مسلمانوں کے لئے کوئی  مذہبی حیثیت یا تقدیس کا حامل نہیں ہے  کیو نکہ وہ ابھی تک مسیح کو جان نہیں سکے ہیں ۔ ہم نے یہ جانا کہ دراصل سا ل بھر میں رمضان کا مہینہ ایک ایسا اہم وقت ہے جب ہم مسلمانوں کو خوشخبری سُنا سکتے ہیں۔ کیوں ؟ کیو نکہ یہ وہ مہینہ ہوتا ہے جب وہ خُدا کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں ۔ ماناکہ  وہ کوئی اور خُدا ہے کیو نکہ وہ یسوع مسیح خُدا کے بیٹے کو تلاش نہیں کر رہے ہوتے، تاہم وہ کسی  نہ کسی طرح سے ثواب کمانے کے خواہش مند ہوتے ہیں تاکہ خُدا انہیں قبول کرلے ۔ سو انہیں ایسٹر سے متعارف کروانے کے بجائے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اُن کے ساتھ چلیں، اُن کے روحانی  نظام الاوقات کو سمجھیں اور اُن کے لئے دعا کریں جو روح کی پیاس رکھتے ہیں۔ اس طرح ہم یہ جان جاتے ہیں کہ اُن کی پیاس کس کے لئے ہے اور اُن کی توجہ کا  مرکز کیا ہے۔ پھر روحانی گفتگو کے بعد ہم ایک کرنیلیس کی تلاش کرتے ہیں ۔ ہم اُس سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے دوستوں کو تلاش کرے اورپھر اس طرح سے افزائش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔

ہم اپنے راہنماؤں کو کلام یا کلیدی آیات کے ترجمے فراہم کرتے ہیں۔  اکثر ہم انہیں وائی فائی باکس بھی مہیا کرتے ہیں ۔  تاکہ وہ محض ایک بٹن دبا کر جیزس ( Jesus)فلم یا نئے عہد نامے کے کچھ حصے مخصوص زبانوں میں نشر سکیں   ۔اگر وہ قوم ابھی تک نارسا ہو تو ہم اپنی ٹیموں کو موبائل بیک پیک بھی دیتے ہیں تاکہ اگر وہ کسی گاؤں میں ہوں تو وہ ایک وقت میں لگ بھگ 300 سو لوگوں کو جیزس(Jesus) فلم دِکھا سکیں۔ اور اس کے ساتھ ہم انہیں لوگوں کے ساتھ روحانی گفتگو کرنے کے  آغاز کی بھی بہت زیادہ تربیت دیتے ہیں  تاکہ اُن لوگوں میں یہ خواہش ابھرے کہ وہ اُس خُدا کوجانیں جو انہیں نجات دے سکتا ہے ، انہیں  اختیار حاصل ہو اور پھر وہ اپنے اثر کی افزائش کر سکیں۔ اس طرح وہ خُدا، یسوع سے مل جاتے ہیں جو انہیں اُن کے گناہوں کی  معافی دینے پر قادر ہے۔

یہ سب کچھ کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی پتا چلا کہ اگر ہم مل کر دعا کریں اور مناجات کے لئے ٹیمیں تشکیل دیں تو ایسے لمحات میں بھی بہت بہترین مواقع مل سکتے ہیں ۔ رمضان کے اختتام کے قریب رمضان کی 27 تاریخ کو ایک بہت خاص موقع ملتا ہے جسے شبِ قدر کہتے ہیں ۔       دنیا بھر کے مسلمانو ں کا ایمان ہے کہ اس ایک رات میں کی گئی دعائیں عام دنوں میں کی گئی دعاؤں سے  ہزاروں گنا زیادہ موثر ہوتی ہیں ۔   اُس رات میں وہ خُدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ خود کو اُن پر آشکار کرے۔وہ خُدا سے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں اور وہ اپنی خواہشوں اور ضروریات کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں۔ سو ہم اپنے لوگوں کو اُن لوگوں میں شامل ہونے کے لئے بھیجتے ہیں جو ایسے خدا کو تلاش کر رہے ہیں جسے وہ نہیں جانتے۔ اس طرح ہم انہیں اُس خُدا سے متعارف کرواتے ہیں جسے ہم واقعی جانتے ہیں ۔

19 مئی 2020 کو ایک ارب سے زیادہ مسلمان اپنے گھروں میں روزے رکھنے اور دعا کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ۔سن 622 عیسوی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ مسجدیں کرونا وائرس کی وجہ سے بند تھیں ۔ انہوں نے اُس شبِ قدر میں خُدا سے گناہوں کی معافی کے لئے خاص دعا کی۔ اُسی وقت 57 1ممالک میں 3کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ یسوع کے ماننےوالے، جو اُس سے پہلے مسلمان تھے، یہ آواز بلند کر کے دعا مانگنے لگے کہ واحد سچا زندہ خُدا نشانیوں، معجزوں، نبوتوں اور رویا کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں پر آشکار ہو۔ انہوں نے روح القدس کی قوت سے پہلی مرتبہ یہ دعا کی کہ مسلمان اُس رحم، محبت اور معافی کو سمجھ سکیں جو صرف یسوع مسیح میں ملتی ہے ۔اور معجزے کی اس رات میں خُدا نے ہماری دعائیں سُن لی ۔

جب ہم متفق ہو کر دعا کرنے کے لئے آسمانی تخت تک پہنچتے ہیں ہم یسوع کو اپنی ترجمانی کرنے کے لئے التجا کرتے ہیں –تو اس کے ذریعے ہمیں صحیح وقت اور صحیح مقام پر روحانی گفتگو کرنے کی اہلیت حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے بعد ہم توقع کر سکتے ہیں کہ معجزے رونما ہونے لگیں گے۔میں آپ کو ایک واقعہ سُنانا چاہتا ہوں  جو اس سال رمضان کے مہینے میں پیش آیا ۔ ہم نے اُس دوران کئی گاؤں اور دیہات میں اپنی ٹیمیں بھیجیں اور خُدا سے دعا کی کہ وہ ہمارے لئے دروازوں اور دلوں کو کھولے۔ ایک ٹیم ایک ملک میں گئی ( میں معذرت چاہتا ہوں کہ سیکیورٹی کی  وجوہات کی بنا پر میں اُس ملک کی   تفصیلات سے آپ کو آگاہ نہیں کر سکتا ) اور وہاں وہ ایک ایسے گاؤں میں پہنچے جہاں  کسی نے انہیں قبول نہ کیا  ۔کسی نے اُن کے لئے دروازہ نہ کھولا اور  نہ ہی کسی نے انہیں مہمان بنایا ۔

دن کے اختتام تک ساری ٹیم کا حوصلہ بہت پست ہو چکا تھا ۔ وہ گاؤں سے باہر جا کر ایک درخت کے نیچے بیٹھے اور خود کو گرم رکھنے کے لئے آگ کا الاؤ روشن کر لیا ۔انہوں نے دعا کر کے خُدا سے یہ پوچھنا شروع کیا کہ انہیں اُس گاؤں میں کامیاب آغاز کرنے کے لئے کیا کچھ کرنا ہو گا ۔ پھر رات ڈھلی تو وہ سب سو گئے۔ کچھ دیر بعد وہ سب جاگ اُٹھے اور ایک راہنما نے ایک بھڑکتی ہوئی آگ اپنی جانب آتے دیکھی۔  ہوا یہ کہ 274 لوگ اپنے ہاتھوں میں مشعلیں تھامے اُن کی جانب آ رہے تھے ۔ پہلے تو ساری ٹیم خوف کا شکار ہو گئی۔ حتیٰ کہ  ایک نے کہا ،” دیکھو ہم تو دعا کر رہے تھے کہ ہمیں اس گاؤں میں جا کر یسوع کی خوشخبری دینے کا موقع ملے، پر اب پورا گاؤں ہی ہماری طرف آ رہا ہے !” 

اُن کے قریب پہنچ کر اُن 274 لوگوں میں سے ایک آگے بڑھا اور کہا ،” ہم نہیں جانتےتم کون لوگ ہو ، ہم نہیں جانتے کہ تم کہاں سے آئے ہو  اور آج جب تم ہمارے گاؤں میں آئے تو ہم نے اپنے گھروں کے دروازے تمہارے لئے نہیں کھولے ۔لیکن آج رات ہم سب نے ایک ہی خواب دیکھا ۔ اُس خواب میں ہمیں ایک فرشتہ نظر آیا جس نے ہم سے کہا ” یہ لوگ جو تمہارے گاؤں میں آئے ہیں ان کے پاس سچائی ہے ۔ جاؤ اور اُن سے پوچھو اور جو کچھ وہ کہیں و  ہی کرو”۔

یہ ہی وہ خاص لمحہ تھا :صحیح لوگوں کے ساتھ، صحیح وقت پر اور صحیح مقام پر روحانی گفتگو کا آغاز ہو ا ،اور رات ختم ہونے سے پہلے گاؤں کے تمام گھروں   سے آنے والے 274 سربراہوں نے اپنا مذہب چھوڑ کر ایمان قبول کر لیا اور یسوع کے ساتھ رشتہ جوڑ کر چلنے کا فیصلہ کیا ۔یہ ہوتی ہے دعا اور صحیح  مقام پر روحانی گفتگو کی طاقت ۔

آخر میں مَیں آپ کو مسلمانوں کے درمیان تحریکوں کے آغاز کے بارے میں ایک اور کہانی بھی  سُنانا چاہتا ہوں ۔اس کے پیچھے یہ تصور کار فرما ہے  کہ مسیحی کارکن یا مشنری  اس چیز کا ذمہ دار نہیں ہے کہ وہ چرچ قائم کرے ۔اُس کی ذمہ داری ایک کرنیلیس  کی تلاش کر کے اُسے مہارتوں سے آراستہ کرنا اور تربیت دینا ہے، جو خود اس کام کی افزائش کر سکے ۔کئی مہینے پہلے کچھ راہنما میرے پاس آئے اور کہنے لگے، “کچھ ایسے گاؤں ہیں جہاں تک ہم رسائی حاصل نہیں کر سکے اور عمومی طریقے استعمال کر کے ہم اُن تک کبھی رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ سو ہم نے دعا کی اور ہم نے محسوس ہوا کہ روح القدس ہم سے کہہ رہا ہے کہ ایسی ٹیمیں مخصوص کر لیں جو صحرا کے پار جا کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام نارسا لوگ خوشخبری سُن لیں “۔

میرے اور آپ کے پاس موقع ہے کہ ہم مسلمانوں کے درمیان تحریکوں کا آغاز کریں ۔اس کی ابتدا اُن لوگوں کی تربیت سے ہوتی ہے جو اُس مقام اور اُس تہذیب سے قریب تر ہوں۔ ہم ایک کر نیلیس کی تلاش کرتے ہیں جسے ڈھونڈ کر ہم اُسے وقت اور تربیت دیتے ہیں ۔   پھر یہ شخص یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ ہم کس طرح اُس کے دوستوں کو متحرک کر کےمزید دوستوں کو خوشخبری سُنا سکتے ہیں ۔ یہ مقام  مشرق وسطیٰ کے صحراؤں میں بھی ہو سکتا ہے، جہاں  اونٹوں پر بھی بیٹھ کر جانا پڑےگا۔ اگر ہم خود سامنےآنے کی بجائے مقامی چرچوں کو وہ اختیار دیں کہ وہ خُدا کی دی ہوئی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو سکیں تو ہم ایسے برنباس بن جاتے ہیں جو اُن شاگردوں کو تعاون فراہم کرتے ہیں جو بھیجے جانے والے ہوتے ہیں۔ سو میں یہ کہوں گا کہ ہماری ذمہ داری لوگوں کو تربیت کے ذریعے  وسائل اور مہارتوں سے آراستہ کر کے اعتماد قائم کرنا ہے ۔ وہ راہنما متعین کریںگے اوردوسری قوموں میں  خوشخبری پھیلانے کے لئے  چرچز کی تخم کاری کر کے اُن کی افزائش کریں گے ۔ 

مختصراً یہ ،کہ  میرا خیال   ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تحریکوں کا  آغاز اسی طرح سے  بہترین طور پر ہو سکتا ہے ۔سب سے پہلے اعمال کی کتاب کا ماحول  تخلیق کر کے اعمال  کی کتاب جیسی ابتدائی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے درمیان تحریکوں کے آغاز کے لئے ہمیں اپنے بیانیے میں  ترمیم کرنی چاہیے  تاکہ روح القدس کی راہنمائی میں ہم صحیح لوگوں کو صحیح وقت اور صحیح مقام پر چھو سکیں ۔

اس کی بجائے کہ ہم لوگوں کو اپنے چرچ میں شامل ہونے پر زور دیں، ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں یسوع مسیح میں بپتسمہ دے کر یہ دریافت کرنے کے لئے چھوڑ دیں کہ اُن کا اپنا چرچ کیسا ہونا چاہیے۔ ضرورت ہے کہ ہم  خُدا سے ایک کر نیلیس کے لئے دعا کریں جو کوئی بھی بااثر مرد یا عورت ہو سکتا ہے۔   پھر وہ  اپنے پہلے سے موجود بااثر تعلقات کو استعمال کر کے خُدا کی بادشاہی کی افزائش کرے۔ جب آپ مسلمانوں کے درمیان تحریکوں کے آغاز کا سوچیں تو میں چاہوں گا کہ آپ تربیت کے ذریعے مہارتیں فراہم کریں اور اعتماد کی فضا قائم کریں۔  ایک ہی چرچ ہو جو قریبی چرچوں کے ساتھ منسلک ہو تاکہ مل کر آپ نارسا اور غیر سرگرم قوموں تک پہنچیں اور یہ دیکھیں کہ ایک کرنیلیس آپ کے ساتھ مل کر کس طرح خُدا کی بادشاہی کی افزائش کرتا ہے ۔ خُدا کا فضل آپ پر ہو۔

Categories
حرکات کے بارے میں

عالمگیر وبا کے دوران خُدا کے کام

عالمگیر وبا کے دوران خُدا کے کام

– جان رالز 

وبا اور غیر یقینی صورت حال کے دوران بھی خُدا اپنا کام کر رہا ہے اُس کا روح دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں میں متحرک ہے ۔

لوگ اپنے گھروں میں قید ہیں اور اکثر تنہا بھی ہوتے ہیں ۔اور اُن کے ذہنوں میں بہت سے سوالات ہوتے ہیں ۔ بہت سے لوگ جذباتی دباؤ کی وجہ سے سامنے آنے والے چلینجز کا جواب تلاش کر رہے ہیں ۔ ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کا ایک ذریعہ انٹر نیٹ بھی ہے۔گوگل پر سرچ کرنے والے، یو ٹیوب پر ویڈیو دیکھنے والے ، فیس بُک پر مختلف کمنٹس کرنے والے اور ایسی بہت سی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر آن لائن آنے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے ۔ فیس بُک استعمال کرنے والوں کی تعداد 2 بلین سے زیادہ ہے اور گوگل کے بعد دوسرا بڑ ا سرچ انجن یو ٹیوب ہے ( یو ٹیوب دراصل گوگل ہی کی ملکیت ہے)  سوشل میڈیا کے بڑھتےہوئے استعمال سے  سوشل میڈیا کے ذریعے خدمت اور شاگرد سازی  کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں ۔

خُدا واقعی تلاش کرنے والوں کے لئے  انجیل کے دروازے کھول رہا ہے ۔

ایک کے ساتھ بہت سے چلے آتے ہیں 

خُدا نےسوشل میڈیا پر منادی کے ایک اشتہار کے ذریعے ازیبدین کے ذریعے انجیل کا  دروازہ کھولا ۔اُس نے اشتہار کا جواب دیا اور وہ بیشارہ نامی ایک مقامی شاگرد ساز کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ بیشارہ نے ایک سال قبل ایمان قبول کیا تھا اور وہ ہر سُننے والے کو بڑی گرم جوشی کے ساتھ اپنے ایمان میں شریک کرتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں 300 سے 400 کے قریب افراد ایمان کے دائرے میں آ گئے ہیں، جن کا تعلق ایمان کے 30 مختلف گروہوں سے ہے۔ اپنے ایمان کی وجہ سے بیشارہ کو بے حد ایذارسانی کا سامنا ہے ۔ لیکن اُس نے اپنا ہاتھ نہیں کھینچا اور آج کل وہ اذیبدین کی  شاگرد سازی کر رہا ہے تاکہ وہ خدمت کے کام کے لئے تیار ہو جائے ۔ 

آپ اکیلے نہیں ہیں ۔

ایشیا کے ایک علاقے میں کالج کے طلبا کے لئے خُدا نے جیزس فلم کے  ویڈیو کلپس کے ذریعے انجیل کا دروازہ کھولا ،جنہیں سوشل میڈیا پر ایک اشتہاری مہم میں استعمال کیا گیا تھا ۔ ایک طالب علم نے اشتہار کا جواب دیتے ہوئے کہا ” میرا خیال تھا کہ شاید اس وبا کے دوران صرف میں ہی خود کو اتنا تنہا محسوس کر رہا ہوں۔ اور پھر میں نے آپ مسیحیوں کے بارے میں اور ہمارے لئے آپ کی محبت کے بارے میں سُنا ” یہ طالب علم مسیح کی محبت کے بارے میں سُننے والا واحد فرد نہیں تھا ۔ ان اشتہارات کا جواب دے کر کم از کم 3 لوگوں نے مسیح کو قبول کر لیا ہے ۔ 

ایک اور اشتہاری مہم میں پوچھا گیا ،” آپ خُدا سے کس قسم کی دعا کی قبولیت کی درخواست کریں گے ؟”  سینکڑوں طلبا نے جواب میں مختلف دعائیں لکھیں مثلا “خُدایا مہربانی فرما کر مجھے معاف کر دے ” ،” خُدایا مجھے اُن چیزوں سے نجات دلا جو مجھے خوفزدہ کرتی ہیں ”  ” اے خُدا میری زندگی میں کسی ایسے کو لے آ جو مجھے سمجھتا ہو اور مجھ سے محبت کرتا ہو ” ” اے خُدا مجھے بتا کہ میں درست انتخابات کیسے کروں ” 

نارسا لوگ رسائی کے لئے نکل رہے ہیں 

 سوشل میڈیا کے ذریعے نارسا علاقوں میں بہت سے لوگوں کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ منسلک ہو سکیں جنہیں انجیل کی خوشخبری سُنائی جاسکتی ہے ۔ مثال کے طور پر فیس بُک کے ایک منسٹری کے پیج نے جنوب مشرقی ایشیا کے ایک نارسا گروہ سے 1800 فالورز جمع کر لئے ۔مقامی مسیحی ایسے لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جو انجیل میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کم ازکم ایک شخص کو پہلے ہی بپتسمہ دیا جا چکا ہے ۔

 یہ کوئی اتفاق نہیں ۔

خریدے گئے تشہیری مواد اور بنا ادائیگی کے پوسٹ کئے جانے والے  مواد کے ذریعے لوگ یسوع کے بارے میں سُن رہے ہیں ۔ 99.99 فیصد مسلم آبادی والے ایک ملک میں زرائع ابلاغ استعمال کرنے والی ایک ٹیم کو مندرجہ ذیل پیغام پہنچا کہ جس کے ذریعے وہ متلاشیوں کی تلاش کر سکتے ہیں : ” فیس بُک اور انسٹاگرام اور یو ٹیوب پر ہر جگہ مجھے یسوع کے بارے میں چیزیں نظر آتی ہیں ۔میرے خیال کے مطابق یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ میں یسوع پر ایمان لا سکتا ہوں ۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا ہی اچھا ہو اگر میں ایک معجزہ دیکھ سکوں ۔ 

غیر معمولی دور اور مہارتیں 

چرچ کی ابتدا سے ہی لوگ خوشخبری پھیلاتے رہے ہیں ہم پورے دن میں اپنے کام کی جگہ ، سکولوں اور دیگر جگہوں پر لوگوں سے میل جول کے دوران اپنے اندر موجود اُمید پھیلاتے رہتے ہیں ۔ انٹر نیٹ کی قوت اور وسعت استعمال کرنے کے ذریعے اب ہم اس قابل ہو گئے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی ہمیں 24 گھنٹے دور دراز کے علاقوں تک رسائی دیتی ہے۔ حتیٰ کہ جب ہم سو بھی رہے ہوں تو خُدا کا روح کام کر رہا ہوتا ہے اور اُن متلاشیوں کو ہماری جانب لا رہا ہوتا ہے جن کو ہم خُدا کے بیٹے یسوع مسیح کا پیغام دے سکتے ہیں۔

 ڈیجیٹل وسیلوں کے ذریعے رسائی  ہماری ذاتی مشنری زندگی کا متبادل تو نہیں لیکن وہ ہمیں مسیحی کارکنوں تک پہنچنے کا ایک نیا انداز پیش کرتی ہیں۔ یہ متلاشی ایسے لوگوں سے رابطے کر رہے ہیں جو اُن کے ساتھ آف لائن اور آن لائن دونوں طرح سے گفتگوشروع کر سکتے ہیں ،جس کے نتیجے میں ایک شاگرد بن سکتا ہے جو بعدازاں مزید شاگردوں کو تیارکرنے کے قابل ہوتا ہے ۔

یہ کوئی جادوئی گولی نہیں ۔

ڈیجیٹل طریقوں کے ذریعے رسائی کوئی جادو کی گولی نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم رقم ادا کر کے ایک اشتہار پوسٹ کریں اور اُس کے بعد یہ توقع رکھیں کہ ہزاروں لوگ نجات پائیں گے ۔ ڈیجیٹل  وسیلوں سے بہترین فوائد حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ غور و فکر تربیت اور حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے ۔لیکن وہ لوگ جو پہلے سے ہی اس شعبے میں کام کر رہے ہیں، وہ اس موثر مہارت کو استعمال کر کے خُدا کو جلال دے سکتے ہیں اور اُس کی بادشاہت کی پیش روی کا  سبب بن سکتے ہیں ۔

اگر آپ سماجی رابطوں   کی سائٹ اور زرائع ابلاغ کے ذریعے متلاشیوں کی تلاش کرنے کے بارے میں  تجسس رکھتے ہیں  تو بہت سی منسٹریاں موجود ہیں جو آپ کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے زرائع ابلاغ استعمال کرنے والے مسیحی کارکنوں کے لئےوسائل بھی فراہم کرتی ہیں۔ اُن میں سے چند یہ ہیں :

میڈیا ٹو موومنٹس

میڈیا ٹو موومنٹس شاگرد سازوں کی ٹیموں کو ایسی مہارتیں  فراہم کرتی ہیں جن کے ذریعے روحانی متلاشیوں کی شناخت کر کے، اُنہیں تیزرفتاری کے ساتھ شاگرد ساز بنانے کی تحریکیں شروع کی جا سکتی ہیں ۔یہ تنظیم اس سلسلے میں ابتدائی اقدامات کے لئے کوچنگ اور تربیت فراہم کرتی ہے 

www.Mediatomovments.org

کنگڈم ٹریننگ

یہ گروپ کئی سال سے ڈیجیٹل وسائل کے ذریعے رسائی میں مشغول ہے اور اس کام کی ابتدا کرنے والوں کو بہترین کورسز کے ذریعے معاونت فراہم کرتا ہے ۔ www.kingdom.training 

مشن میڈیا یو 

ایم ایم یو ایک ایسا آن لائن تربیتی پلیٹ فارم ہے جس میں کوچنگ کے ذریعے یسوع کے پیروکاروں کو موثر طور پر شاگرد سازی اور چرچز قائم کرنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔یہ تربیت میڈیا کہانیوں اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر مبنی ہے ۔ 

www.missionmediau.org/foundations-of-media-strategy

کوانا میڈیا 

یہ تنظیم ،مشنری ٹیموں اور چرچز کو اپنے اپنے تناظر میں متلاشیوں کی مدد دینے کی مہارت رکھتی ہے ۔ یہ تربیت، مواد کی تخلیق، اشتہاری مہمات کےانتظام اور تربیت کے ماہر ہیں ۔ یہ تنظیم ہفتہ واری بنیادوں پر میڈیا میں ایک پوڈ کاسٹ بھی چلاتی ہے:” کرسچن میڈیا مارکیٹنگ  ” www.Kavanahmedia.com

میڈیا ٹو موومنٹس، کنگڈم ٹریننگ اور مشن میڈیا یو کے اشتراک نے ایک ویڈیو ترتیب دی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ ٹیمیں کس مقصد کے لئے کام کر رہی ہیں۔ اس ویڈیو کا عنوان what is media out reach ہے اور یہ تعاون اور اشتراک کی ایک بہترین مثال پیش کرتی ہے ۔

جن گروپوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اُن سب کی حکمت عملی ذہن میں ایک مقصد رکھ کر ترتیب دی جاتی ہے :شاگردوں کی افزائش در افزائش ۔تحقیق کی بنیاد پر تیار کئے گئے، تخلیقی اور تہذیبی اقدار سے مناسبت رکھنے والےمواد ، ویڈیو اور سوشل میڈیا کی پوسٹس  کو اگر مارکیٹنگ کی تزویراتی  حکمت عملیوں کے ساتھ استعمال جائے تو اس کے ذریعے لوگ کلام کے متلاشی بن کر اُس کا جواب دینے لگتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ ہم بنی اِشکار کی طرح(  1۔ تواریخ 32: 12 )زمانے کو سمجھیں اور تمام موثر وسائل استعمال کرتے ہوئے سب کو مسیح کی محبت قربانی اور معافی کے بارے میں بتائیں ۔