دھ مت کے پیروکاروں کے درمیان تحریکوں کا آغاز
بہترین طریقوں اور اسالیب کی کیس سٹڈی
-سٹیوپر لاٹو –
گلوبل اسمبلی آف پاسٹر ز فور فینشینگ دی ٹاسک کے لئے تیار کی گئی ایک ویڈیو سے تدوین شُدہ ۔
حصہ اول : تاریخ اور چیلنج
میری مشنری ایجنسی ، بیونڈ ، 14: 24 کے ایک عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہے جو دنیا کی ہر قوم اور ہر جگہ پر تحریکیں سرگرم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ میں آپ کو ایسے چند مسائل سے آگاہ کرنا چاہوں گا جو ہمیں بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان شاگرد سازی کی تحریکیں چلانے میں در پیش ہوئے۔ دو صدیوں پر محیط پروٹیسٹنٹ مشنری کوششوں نے بدھوں کے درمیان بہت معمولی تبدیلی اور ترقی لائی۔ دنیا کے اورکسی بھی بڑے مذہب کی مقابلے میں بدھ ازم کی جانب سے انجیل کے پیغام کا بہت کم مثبت جواب ملا ۔اگر بدھوں کی جانب سے یسوع کے پیغام کا اتنا سرد مہر جواب مل رہا تھا تو اُن کے درمیان شاگرد سازی کی تحریک چلانا بہت ہی مشکل نظر آتا تھا ۔میں یہ بات بدھ مذہب کے درمیان شاگرد بنانے کی 30 سالہ کوششوں اور دوسرے لوگوں کی کیس سٹڈیز کی مطالعے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ۔ میں آپ کو بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان شاگرد سازی کی تحریکیں شروع کرنے کے لئے بہترین طور پر تیار کر سکتاہوں۔
بہت سے بدھ حقیقی طور پر روحانیت کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ تو پھر بدھ مت کے پیروکار یسوع کا سچا پیغام قبول کیوں نہیں کرتے؟ میں آپ کو اس معاملے میں سُست پیش رفت کی کم ازکم پانچ وجوہات بتاسکتا ہوں ۔
سب سے پہلے یہ کہ بدھ مت اور مسیحی تعلیمات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں اور اس بارے میں کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ مسیحی انجیل کے پیغام کو اُس ماحول کے تناظر میں پیش کرنے سے قاصر رہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہمارے الفاظ تو درُست ہوتے تھے لیکن ہم پیغام مناسب طور پر نہیں پہنچا سکے تھے ۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ مسیحی زیادہ تر مغربی طریقے استعمال کر کے مغربی طرز کے چرچ قائم کرتے رہے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیائی قوموں میں بدھ مت کی اپنی ایک مخصوص نسلی اور قومی شناخت ہے۔ مثال کے طور پر ” بامر ” یا ” تھائی ” ہونےکا مطلب ہے بدھ مذہب سے تعلق ہونا۔ اس لئے بدھ مت کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے مغربی انداز کے چرچ کا حصہ بننا بہت مشکل ہوتا ہے ۔
اس کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ شاگرد سازی اور چرچز کی تخم کاری میں بائبل کے دیئے ہوئے تحریکوں کے لئے مناسب اصول استعمال نہیں کئے گئے ۔
اور آخر میں ، بدھ لوگوں تک پہنچنے کے لئے چند ایسے روحانی مسائل ہیں جن سے نمٹنے کے لئے بین التہذیبی کارکن پوری طرح سے تیار نہیں ہیں۔ اوپر دیئے گئے پہلےنُکتے، بدھ مت اور مسیحیت کی تعلیمات میں بڑے فرق کےسوا، ہم مسیح کے رسول ہوتے ہوئے دیگر وجوہات کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں ۔
بدھ مت اور مسیحیت کے طرزِ فکر میں تضاد
آئیے دیکھتے ہیں کہ مسیحی اور بدھ تعلیمات میں کتنا بڑافرق ہے ۔ سب سے پہلے بدھ مت میں کوئی خدا نہیں ہے۔ کسی خُدا کو جواب نہیں دینا پڑتا ، کوئی خُدا خفا یا ناراض نہیں ہوتا۔ لیکن خُدا کے ساتھ کوئی رشتہ قائم ہونے کا تصور بھی نہیں ہے۔زندگی میں راہنمائی کے لئے کوئی الہیٰ احکامات کا سر چشمہ بھی نہیں ہے ۔اچھائی اور برائی کرنے میں آپ صرف اور صرف اپنی ذات پر انحصار کرتے ہیں۔ بدھ مت پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ آپ کا انفرادی اور ذاتی سفر ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ بدھ مت کے پیروکار “کارما” پر یقین رکھتے ہیں آسان ترین الفاظ میں کارما کا مطلب ہے عمل۔ تاہم مغربی لوگ جب یہی لفظ کارما استعمال کرتے ہیں تو اُس کا مطلب اصل میں کارما کا قانون ہوتا ہے۔ کارما کا قانون انسان کے اچھے اور برے اعمال کے نتائج کا خلاصہ ہے۔ کارما کا قانون ایک ایسی قوت ہے جو انسان کی موجودہ زندگی اور مستقبل کی تمام زندگیوں کا تعین کرتا ہے ۔
ایک تیسری مشکل یہ ہے کہ بدھ مذہب دیگر مذاہب کے ساتھ آسانی سے مل جُل جاتا ہے۔ اکثر دیگر مذاہب سے عقائد لے کر اپنے مذہب میں شامل کر لئے جاتے ہیں اور بدھ مت کی ایک مقامی شکل تخلیق کر لی جاتی ہے۔ اس کے برعکس مسیحیت میں تحریری صحائف موجود ہیں اور ایمان اور عمل کے لئے پہلے سے موجود خُدا کا کلام دیگر مذاہب سے کچھ لینے کو روکتا ہے ۔
تاریخ میں بدھ مت کا پھیلاؤ اور دوسرے مذاہب کے بدھ مت پر اثرات
بدھ مت کا جنم ہندوستان میں تقریبا 2560 سال پہلے ہوا ۔لیکن بدھ مت کے مشنری اُس کے طویل عرصے بعد ہندوستان کے شہنشاہ اشوکا ( 268سے 232 قبل مسیح ) کے دور میں دنیا بھر میں نکلے۔ بدھ مت کے پھیلاؤ کو دیکھ کر ہی سمجھ آ جاتی ہے کہ اُس پر دیگر مذاہب کا اثر کس طرح سے ہوا ۔
بدھ مت کے کچھ مشنری وسطی ایشیا کے علاقوں مثلا پاکستان اور ایران گئے جہاں انہوں نے بدھ مت کے ایک نئے فرقے ، مہایانہ بدھ ازم کا آغاز کیا ۔آج کل اس علاقے میں بدھ مت صرف آثار قدیمہ میں باقی رہ گیا ہے۔ جب بدھ مذہب چین میں داخل ہوا تو وہ اُ ن کی عبادت کے قدیم طور طریقوں اور تاؤ فلاسفی کے ساتھ مل گیا۔ بدھ مشنری جو سری لنکا گئے انہوں نے بدھ ازم کے تھیراوادہ فرقے کی ابتدا کی ۔اس فرقے نے سن 30 عیسوی میں پہلی مرتبہ گوتم بدھ کی تعلیمات تحریر کرنا شروع کیں۔ تھیراوادہ فرقے کا پہلا عبادت خانہ میانمار میں 228 قبل مسیح قائم کیا گیا۔ سری لنکا سے تھیرا وادہ فرقہ تھائی لینڈ ، کمبوڈیا اور پھر لاؤس تک پھیلا۔آخر میں اشوکا نے بدھ مشنریوں کو نیپال بھیجا جو بعد میں بُھوٹان ،تبت، منگولیا اور سائبریا میں بورائیت قوموں تک بھی پہنچے ان علاقوں میں بدھ مت بُت پرستی کے ایک عقیدے ، بون مذہب کے ساتھ مل جل گیا اس کے نتیجے میں ویجریانہ یا تبتی فرقے نے جنم لیا ۔
جب تاریخ میں بدھ مت پھیلا تووہ پہلے ہی سے موجود تہذیبوں، فلسفوں اور مذاہب کے ساتھ ملتا چلا گیا اور اُن پر غالب آتا گیا ۔یہ ایک کپڑے کی طرح تھا جیسے کسی چیز پر ڈال دیا جائے تو اُس کی شکل اُس چیز جیسی بن جاتی ہے ۔ تصویر میں کپڑے سے ڈھانپی ہوئی چیز دیکھ کر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے نیچے ایک کُرسی موجود ہے۔ چونکہ بدھ مت ہر قسم کے عقائد کو قبول کرتا ہے اس لئے ایک بدھ کے لئے مسیحیت کی انفرادی تعلیم کو قبول کرنامشکل ہے ۔
اب میں آپ کو ایک ذاتی مثال دیتا ہوں۔ میں نے تھائی لینڈ کے ایک پولیس افسر کے ساتھ دو سال تک کام کر کے اُسے مسیح کے بارے میں آگاہ کیا ۔وہ میرا اچھا دوست بن گیا۔ ایک دن وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا ، ” ہیلو سٹیو، اب میں تمہارے جیسا ایک مسیحی ہوں ” ۔
کچھ حد تک مشکوک ہو کر میں نے پوچھا ،” اس کا کیا مطلب ہے ؟”۔ اُس نے اپنا ہار دکھایا جس پر طرح طرح کے دیوی دیوتاؤں کی شبیہ اور تعویز بندھے ہوئے تھے وہ کہنے لگا ،” دیکھو میں نے اس کے ساتھ صلیب بھی لگا دی ہے۔ اب یہ مجھے تحفظ دینے والا روحانی تعویز بن گئی ہے ” سو دیکھیے کہ ایک بدھ کے لئے یہ کہنا کتنا آسان ہے ، ” ہاں میں ایمان لایا”۔ لیکن درحقیقت وہ آپ کی دی گئی تعلیم کو پہلےکی تعلیم کے ساتھ گڈمڈ کر کے رکھ دیتے ہیں ۔
مناظروں اور بحث و مباحثوں کا مسئلہ
جب مسیحی مشنری پہلی مرتبہ بدھ مت کے پیروکاروں کے پاس گئے تو انہوں نے بحث و مباحثے اور مناظروں کا طریقہ اپنایا ۔ انہوں نے بدھ مت کے نظام میں موجود خامیوں پر حملہ کر کے بدھوں کو سچائی کی طرف لانے کی کوشش کی ۔ مثال کے طور پر ایک مشنری کہتا ،” تم بدھ لوگ دوبارہ زندہ ہونے پر یقین رکھتے ہو لیکن ساتھ ہی یہ کہتے ہو کہ انسان کچھ بھی نہیں ہے ۔سو اگر انسان کچھ نہیں ہے تو وہ اگلی زندگی میں دوبارہ کیسے جنم لے گا ؟”مشنری خادم مسیحی تعلیمات کو بہترانداز میں پیش کرنے کی بجائے اُن کے مذہب میں کیڑے نکالنےمیں مصروف رہے ۔ یہ ہماری بہت بڑی تاریخی ناکامی رہی ہے اور اس کی وجہ سے ہمیشہ اختلافات جنم لیتے رہے ہیں ۔
نظریہ ِ ٔزندگی کی خلیج
1960 کی دہائی میں بدھ مذہب کے پیروکاروں اور مسیحیوں کے درمیان چیانگ مائی ، تھائی لینڈ میں بین المذاہب مباحثوں کا ایک سلسلہ چلا۔ ان میں سے زیادہ تر مباحثے مناظرے کی شکل میں تھے ۔ان مباحثوں کے بعد ایک تھائی راہب نے بدھ مذہب کے پیروکاروں کو مسیحیت کی وضاحت کرنے کے لئے ایک کتاب لکھی۔ اُس کتاب میں وہ کہتا ہے کہ خُدا جہالت ہے اور ہماری اس ٹوٹی پھوٹی دنیا اور ہماری تکلیفوں کی وجہ بھی خُدا ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ مسیحیوں اور بدھ عالموں کے درمیان تبادلہ ِ خیال کے باوجود بنیادی عقائد کے بارے میں بہت بڑی غلط فہمیاں موجود رہیں: خُدا کو ن ہے اور انسانی تکلیفوں کی وجہ کیا ہے ؟
آیئے اب بدھ مت اور مسیحی سوچ کے درمیان اس وسیع فرق کو جاننے کے لئے بدھ مت کے فلسفہ زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تھیراوادہ بدھ ازم کے مطابق جنت کے سات درجے اور جہنم کے مختلف درجے ہیں۔ یہاں زمین پر گوتم چھٹی صدی قبل مسیح میں ایک شہزادے کی حیثیت سے پیداہوا اور 29 سال کی عمر میں وہ اپنے محل کی عیش وآرام کی زندگی چھوڑ کر روحانی سچائی کی تلاش میں سفر پر نکل گیا ۔ گوتم نے جانا کہ ہم دُکھ اور تکلیف بھری دنیا میں رہتے ہیں۔ خاص طور پر اُس نے یہ دیکھا کہ لوگ پیدا ہوتے ہیں اور اُس کے بعد جب عمر بڑھتی ہے تو وہ بوڑھے ہونے لگتے ہیں۔ پھر اُس نے یہ دیکھا کہ لوگ بیمار ہوتے ہیں انہیں طرح طرح کی بیماریوں کا سامنا ہوتا ہے اور آخر کار وہ مرجاتے ہیں ۔وہ یہیں پر رُک نہیں گیا بلکہ اُس نے کہا کہ مرنے کے بعد لوگ نئے سرے سے جنم لیتے ہیں۔ یعنی وہ دوبارہ پیدا ہوتے ہیں ۔اس پورے عمل کو سمسر ا کہا جاتا ہے۔ سمسرا کا لفظی مطلب ہے بھٹکتے ہوئے پھرتے رہنا ۔لوگ پیدا ہونے ، بوڑھے ہونے ، بیمار ہونے اور مرنے کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں ۔وہ بار بار پید اہوتے ہیں لیکن بھٹکی ہوئی روحوں کی طرح اس نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنسے رہتے ہیں ۔سو ہو سکتا ہے کہ زمین پر آپ کی زندگی اچھی نہ گذرے بدھ مت میں یہ عقیدہ بھی ہے کہ اگر آپ حرامکاری کرتے ہیں تو آپ کو حرامکاروں کے لئے مخصوص ایک دوزخ میں جانا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے کہ دوزخ کی اُس زندگی میں آپ کچھ اچھا کریں تو آپ دوبارہ زمین پر ایک انسان کی حیثیت سے پیدا ہو جائیں۔ پھر آپ بوڑھے ہوں، بیمار ہوں اور مر جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے ساتھ کچھ اچھا ہو اور آپ جنت کے کسی درجے میں پہنچ جائیں، اور پھر واپس زمین پر آئیں ، پھر جنت کے ایک بہتر درجے میں جائیں، پھر زمین پر واپس آئیں اور پھر دوزخ میں پہنچ جائیں۔ ممکنہ طور پر یہ سلسلہ ہزاروں زندگیوں تک چلتا رہ سکتا ہے ۔
سو بدھ مت میں نہ ختم ہونے والی تکلیف ہے جو ابد تک چلتی چلی جاتی ہے اس سلسلے سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے ۔اور وہ ہے نر وان حاصل کرنا ،جو بدھ مت کے پیروکاروں کے مطابق ایک سنہرا، آسمانی شہر اور عظیم خوشی کی جگہ ہے۔ نروان کا تصور بدھ مت کے تمام فرقوں میں موجود ہے۔
بدھ مت کا فلسفۂ زندگی چار حقیقی سچائیوں اور آٹھ راستوں پر مبنی ہے۔ پہلی سچائی یہ ہے کہ زندگی تکلیفوں سے بھری ہوئی ہے ۔پیدائش سے موت تک زندگی تکلیف ہی تکلیف ہے۔ تکلیف کی وجہ دوسری سچائی ،خواہش ہے جو انسان کے اندر موجود ہوتی ہے۔ تیسری سچائی یہ ہے کہ تکلیفوں سے نکلنے کا ایک راستہ موجود ہے۔ چوتھی سچائی یہ ہے کہ اگر لوگ تکلیفوں اور دکھوں کے سلسلے سے نکلنا چاہیں تو انہیں اپنی زندگی آٹھ راستوں کے مطابق گزارنی ہے ۔
راستبازی کی یہ آٹھ راہیں گوتم بدھ نے دریافت کیں ۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ درست کا لفظ لگتا ہے جس کا مطلب کامل یا مکمل بھی ہو سکتا ہے۔ مثلا درست سمجھ بوجھ یا کامل ارادہ ،وغیرہ۔ سب سے پہلا راستہ درست یا کامل سمجھ کا ہے کہ آپ حقیقت کو درست طور پر اور مکمل انداز میں سمجھیں۔ دوسرا راستہ درست نیت کا ہے کہ صحیح راستے پر چلنے کی نیت پوری طرح سے کامل ہو۔ تیسرا راستہ درست اور کامل بات کہنے کا ہے کہ ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کیا جائے ۔ چوتھا راستہ درست اور کامل اعمال ہیں ،یعنی ایک راستباز زندگی گزاری جائے۔ درست بات اور درست اعمال کے معاملے میں مسیحیت اور بدھ مت میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ پانچواں راستہ صحیح روزگار یا پیشہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک بدھ مت کا پیروکار قصاب نہیں بن سکتا، نہ ہی وہ اسلحہ بیچ سکتا ہے۔ چھٹا راستہ درست کوشش کا ہے کہ ہر کام میں مستقل مزاجی اور دلی جذبے کے ساتھ کوشش کی جائے۔ ساتواں راستہ کامل سوچ کا ہے، یعنی ہر وقت کامل آگہی اور شعور کے ساتھ زندگی گزاری جائے۔ آخری راستہ کامل توجہ کا ہے یعنی زندگی پر مکمل اور بہترین توجہ مرکوز رکھ کر جیا جائے۔ اگر آپ کسی طرح سے ان آٹھ راستوں پر پوری طرح چل لیتے ہیں تو آپ کو نروان مل سکتا ہے۔
مہایانہ فرقہ گوتم بدھ کے دوبارہ جی اُٹھنے پر یقین رکھتا ہے۔ یہ دوبارہ جی اُٹھنے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں نروان مل چکا ہوتا ہے اور وہ دنیا میں آ کر لوگوں کو اُن کے سفر کی منزل تک پہنچانے میں مدد دیتے ہیں۔ تھیرا وادہ فرقے میں گوتم بدھ کے جی اُٹھنے کا کوئی تصور نہیں ہے اور ہر فرد کو اپنی طور پر ہی زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ یہاں مسیحیت اور بدھ مت کی تعلیمات میں بہت بڑے بڑے فرق ہیں ۔
اب اگر اس صورت حال میں کوئی مسیحی مشنری بدھ مذہب کے پیروکاروں کے پاس جائے تو بہت زیادہ غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں یوحنا 16: 3 ہی کودیکھیے :
“کیونکہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی مُحبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بیٹا بخش دِیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے۔”( یوحنا 16: 3)
اگر آپ اپنے کسی بدھ دوست کو یہ آیت سُنائیں تو اس آیت کے ہر لفظ کو مزید وضاحت کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔آپ الفاظ تو بتا دیں گے لیکن آپ کو اُن کا مفہوم بھی سمجھانا پڑے گا ۔
سب سے پہلے اُن کا خیال ہے کہ خُدا موجود نہیں ہے۔ سو اگر آپ کہتے ہیں کہ ” خُدا نے دنیا سے اتنی محبت رکھی ” تو آپ کا بدھ دوست آپ کے بارے میں پہلے ہی مشکوک ہو جائے گا کیونکہ اُس کے خیال میں تو خُدا موجود ہی نہیں ۔پھر اگر خُدا دنیا کے تمام لوگوں سے محبت رکھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اُس کے اندر ایک خواہش یا ہوس موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خُدا سمسرا کے چکر میں پھنس گیا ہے اور اب وہ زندگی موت اور دوبارہ جنم لینے کے سلسلے کا حصہ بن گیا ہے۔ پھر اس کے بعد ” جو کوئی اُس پر ایمان لائے ” کا مطلب یہ نکل سکتا ہے کہ ایمان کے ذریعے نجات مل سکتی ہے۔ لیکن بدھ مت کے پیروکار تو صرف اور صرف عمل پر یقین رکھتے ہیں ۔سو ابتدا سے ہی یہاں ایک تضاد آجاتا ہے کہ ایمان نہیں بلکہ انسان کی ذاتی کو ششیں نجات دلاتی ہیں ۔” ہمیشہ کی زندگی پائے ” کے الفاظ اُن نے ذہن میں سمسرا کا تصور لاتے ہیں ۔ وہ سوچنے لگتے ہیں ،” میں تو یہ چاہتا ہی نہیں۔ ایک بدھ ہوتے ہوئے میں تو سمسرا کے تکلیف بھرے ابدی چکر سے باہر نکلنا چاہتا ہوں۔ سومیں یسوع کے پیچھے کیوں چلوں کہ مجھے پھر سے پیدا ہونے بوڑھا ہونے اور مرنے کے چکر میں پھنسا رہنا پڑے ؟”
اُن میں سے کوئی بھی کھُل کر آپ سے یہ سب کچھ نہیں کہے گا ۔ آپ کو صرف یہ کہا جائے گا ” ان باتوں کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں “یا شاید یہ کہا جائے ،” تمام مذاہب لوگوں کو نیک بننا سکھاتے ہیں “،” میرا اپنا مذہب ہے اور آپ کا اپنا آپ کا مذہب۔ مجھے نہیں چاہیے۔ بات ختم “بدھ مذہب کے لوگ بہت تحمل مزاج ہوتے ہیں سو وہ نرمی سے کہہ سکتے ہیں ،” جی ہاں یسوع اچھا ہے اور ہم سب بھی بالکل اُسی کی طرح ہیں ” لیکن وہ یہاں یسوع کے بارےمیں کوئی خاص چیز دیکھ ہی نہیں پاتے اس طرح یہ ساری گفتگو غیر متعلقہ ٹھہرتی اور ختم ہوجاتی ہے ۔
بدھ ازم اور مسیحی تعلیمات اور فلسفۂ زندگی کے درمیان موجود خلیج بدھ مت کے پیروکاروں کی جانب سے انجیل کو قبول نہ کرنے کی بہت بڑی وجوہات ہیں ،لیکن ہمارے دور میں خُدا نے اپنے بچوں کو ایسے طریقہ کار دریافت کرنے میں مدد دی ہے جو کہ اس خلیج کو کم کر سکتے ہیں ہم اس کیس سٹڈی کے دوسرے حصے میں اُن پر نظر ڈالیں گے ۔