Categories
حرکات کے بارے میں

شاگرد سازی / چرچز کی تخم کاری کے بائبلی اسلوب

شاگرد سازی / چرچز کی تخم کاری کے بائبلی اسلوب

– نیتھن شینک –

فینشنگ دی ٹاسک کی  گلوبل پاسٹز اسمبلی کی ویڈیو سے ترمیم شُدہ

میں اور میری اہلیہ “کاری” ، سال 2000 سے جنوبی ایشیا میں مقیم ہیں اور خدمت کر رہے ہیں۔ ہمیں کئی نارسا قوموں میں خُدا کی بادشاہی کےاظہار اور چرچز کی افزائش دیکھنے کا اعزازحاصل ہے ۔آپ جانتے ہیں کہ ایمسٹرڈیم  میں سال 2000 کے بعد ہم فینشنگ دی ٹاسک کی کاوشوں  کی وجہ سے ملنے والی 20 سالہ کامیابیوں کا جشن منانے اکٹھے ہوئے ہیں۔ مختلف مشنری تنظیموں، مختلف چرچزاور فرقوں کے پس منظر رکھنے والے سینکڑوں راہنما AD2000  تحریک  اور لوسین کانگریس کے لائے ہوئے پھل کا جشن منانے ایمسٹر ڈیم میں جمع ہوئے تھے۔ لیکن اُنہوں نے اس بات پر بھی غور  کیا کہ ارشادِاعظم کے 2000 سال گزر جانے کے بعد ہم اُس ارشاد کی تعمیل میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں ۔

اُسی میٹنگ میں سب نے اس حقیقت سے بھی اتفاق کیا کہ دنیا کی ہزاروں قومیں ابھی تک انجیل کی خوشخبری سے دورہیں ۔ یقینا یہ بات  ناقابلِ قبول تھی۔ وہاں ہی ایک مقصد نے جنم لیا کہ ہم اپنی ہی نسل میں، ہر قوم، قبیلے اور اہلِ زبان کو خُدا کا پیغام پہنچا کر اُس کےتخت کے  سامنے پیش کریں۔  مجھے اور میری اہلیہ کو جنوبی ایشیا میں چرچز کی افزائش ہوتے دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ ہم اس بات سے بھی واقف ہیں   کہ کئی قومیں ابھی تک نا صرف نارسا ہیں،بلکہ اُن میں  کوئی سر گرمی بھی شروع نہیں کی گئی۔ اُن میں سے چند ایسی بھی ہیں جو ہمارے آس پاس کے علاقوں میں رہتی ہیں ۔

 ایمسٹرڈیم 2000 کے بعد دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ فینشنگ دی ٹاسک(FTT) ارشادِ اعظم کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2500 قوموں کو سر گرم کرنے کا محرک بنی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ مل کر اس پر غور کریں۔ ارشادِ اعظم کی تاریخ کے 2000سالہ تناظر  میں  دودہائیوں پر نظرڈالیں۔ اگر میرا حساب درست ہے تو یہ ارشاداعظم کی تاریخ کا صرف ایکفی صدحصہ ہے۔ سال 2000 سے اب تک کی دو دہائیوں میں FTT  کی تحریک صرف ایک فیصد کوششوں کا اظہار کرتی ہے ( ارشاد اعظم کی تاریخ کے 2000 سالوں میں سے صرف 20 سال )۔ آج ہم 20 سالوں پر محیط FTT  جیسی کوششوں کے پھل کا جشن منا رہے ہیں : اوسط سو سے زیادہ  نارسا قومیں بابل کے برج کے وقت کے بعد سے خوشخبری سُن رہی ہیں۔ انہیں مسیح کو جاننے کا موقع ملا ہے ،جس نے اُن کے گناہوں کی خاطر اپنی جان قربان کی ۔

ہمارے پاس خوشیاں منانے کی کئی وجوہات ہیں۔ ہم کایروس کی نسل میں جی رہے ہیں ۔ جس میں کلام نے پہلی مرتبہ ارشاد اعظم کی تاریخ کے ایک فیصد دورانیے میں دنیا کی 20 فیصد آبادی تک رسائی حاصل کر لی ۔ہمیں اکثر یہ سِکھایا جاتا ہے کہ  رسائی اور سر گرمی کی ابتدا کسی دوڑ کے آغاز کی طرح ہوتی ہے ۔لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس دوڑ کے پورا ہونے کو یقینی بنانا ہے اور ہم اسی بارے میں بات کرنے کے لئے آج یہاں موجود ہیں ۔

اس سیشن کا بنیادی مقصد کلام سے ان سوالوں کے جوابات  حاصل کرنا ہے :” اس معاملے میں سب سے ذیادہ پیچیدہ اور نازک عناصر کیا ہیں ؟ رسائی شروع ہونے کے بعد دوڑ کے وہ چکر جو ہمیں مکمل کرنے ہیں کون سے ہیں ؟” ہمارا مقصد صرف یہی نہیں ہے کہ پوری دنیا کی  تمام علاقائی تہذیبوں  میں چرچز قائم ہو ں اور خُدا کی بادشاہی کا مقامی طور پر اظہار ہو ۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ چرچز تعداد میں بڑھیں ،اس ذمہ داری کو قبول کریں اور  ہر قوم اور ہم ہر مقام پر ارشاد اعظم کی تکمیل کی کوششوں کی ذمہ داری قبول کریں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ چرچز مزید چرچز کو جنم دیں اور پھر چرچز کی نسلیں  ، نسل در نسل بڑھتی جائیں ۔ اس کے نتیجے میں ہر قوم اور قبیلے ، علاقے اور زبان سے خُدا کے تخت کے اردگرد لوگوں کی بڑی بھیڑ نظر آئے ۔ہمیں ایک بہت بڑا کام در پیش ہے : کرہ ِزمین کی تمام قومیں !اگرچہ ہم کایروس کی نسل میں ہیں جس میں پہلی مرتبہ اتنے ذیادہ لوگ سر گرم ہو چکے ہیں، لیکن اگر ہم یہ سوچنے لگیں کہ ہمارے منصوبے حکمت عملی اور قابلیتیں اس مقصد کے لئے کافی ہیں ، تو ہم غلط ہوں گے ۔ہم میں سے کوئی بھی نہ ہی اکیلے یہ کر سکتا ہے اور نہ ہی یہ فرض کر سکتا ہےکہ ہماری قابلیتیں ہمارے مقاصد حتی ٰکہ ہمارے منصوبے اور حکمت عملیاں بھی اس مقصد کوپورا کرنے کے لئے کافی ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ خُدا کی تمجید ہو ، اگرچہ ہم کچھ نہیں کر سکتے لیکن ہم اُس کا کلام اُٹھا کر پوچھ سکتے ہیں:” کہ جو دوڑ ہم نے شروع کی ہے ہم اُسے کیسے مکمل کریں ” ۔

کیا آپ  میرے ساتھ بائبل سٹڈی میں شامل ہونا پسند کریں گے ؟ جب ہم پورے خلوص کے ساتھ 100 فیصد نئے عہد نامے کے عقائد سے جُڑے رہتے ہیں  تو اس کے لئے اکثر “آرتھوڈاکس یا قدامت پرست ” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنے عقائد خُدا کے کلام سے براہ راست اخذ کرتے ہیں جو کہ نئے عہد نامے کی تعلیمات کی ابتدا میں ہیں ۔ اسی طرح ہم اپنے مشن کو بھی اسی اصول پر استوار کرتے ہیں، خاص طور پر جب ہمیں بہت سی نئی قوموں  اور نئے علاقوں میں پہلی مرتبہ تہذیبی رکاوٹیں عبور کرکے جانے کی ضرورت ہو۔ہمارے لئے بہترین  طریقہ یہی ہے کہ ہم نئے عہد نامے سے رجوع کریں ۔اور جب ہم اس مقصد کے لئے مل کر بیٹھتے ہیں  تو میں چاہوں گا کہ آپ بائبل میں اعمال کی کتاب کھولیں ۔  

جب آپ اعمال کی کتاب کا 13   واں باب کھولیں اور ہم اسے مل کر پڑھیں تو ہم جان جاتے ہیں کہ اعمال کی پوری کتاب میں لوقا چرچ کے پھیلاؤ کا جتنا بھی ذکر کرتا ہے وہ اعمال کے باب نمبر 1 کی آیت نمبر 8 میں دیئے گے خاکے پر مبنی ہے ۔جس روز ہمارا منجی آسمان پر چلا گیا ، اُس نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ وہ یروشلیم میں ٹھہرے رہیں اور روح القدس کا انتظار کریں ،جس کا وعدہ کیا گیا تھا ۔کیو نکہ اُس نے کہا کہ جب وہ نازل ہو گا تو، ” تم قوت پاؤ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے “

اعمال کی کتاب کے پہلے نصف حصے میں ہم فلپس اور پطرس جیسے منادوں کو یروشلیم اور پھر یہودیہ اور سامریہ کے علاقوں میں منادی کرتا دیکھتے ہیں۔ پھر جب ہم اعمال کے      13ویں  باب تک پہنچتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ برنباس اور ساؤل کو انطاکیہ کی کلیسیا میں بھیجا جاتا ہے۔ یہ وہ  مرحلہ ہے جہاں  کلام کو دنیا کی انتہاؤں تک بھیجنے کا آغاز ہوتا ہے۔ میرے ساتھ مل کر اعمال کا13  واں باب پڑھیے ۔ میں پہلی آیت سے آغاز کروں گا ۔” انطاکیہ میں اُس کلیسیا کے متعلق جو وہاں تھی کئی نبی اور معلم تھے ” اور اُس کے بعد پانچ ناموں کی فہرست دی گئی ہے۔  دوسری آیت کہتی ہے ” جب وہ خُداوند کی عبادت کر رہے اور روزے رکھ رہے تھے تو روح القدس نے کہا کہ میرے لئے برنباس اور ساؤل کو اُس کام کے واسطے مخصوص کر دو جس کے واسطے میں نے اُن کو بُلایا ہے۔ تب اُنہوں نے روزہ رکھ کر اور دعا کر کے اور اُن پر ہاتھ رکھ کر انہیں رخصت کیا ” ۔اس واقعہ کو عام طور پر پولوس کی منادی کے پہلے سفر کی ابتدا کہا جاتا ہے ۔یقینا ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صرف پولوس نہیں تھا بلکہ برنباس اور ساؤل تھے،  جو کہ اُس وقت تک پولوس کا نام تھا۔ اُن کا چناؤ اور اس مقصد کے لئے علیحدہ کیا جانا روح القدس کی بلاہٹ پر تھا۔

ہمارے ان آیات کے انتخاب اور انہیں خادموں منادوں اور رسولوں کو بھیجنے کی بنیاد بنانے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ لوقا ان آیات میں پہلی مرتبہ ارادی طور پر رسولوں کے بھیجنے کا واقعہ بیان کرتا ہے۔ اس کی ابتدا انطاکیہ کے چرچ سے ہوئی ۔ پھر ایمان دار اور کلیسیا  کے راہنما اکٹھے ہوکر دعا اور روزے میں مشغول ہو گئے، جو کہ فرمانبرداری کا اظہار ہے ۔اس طرح وہ روح القدس کی آواز سُن کر رسولوں کو منادی کے لئے بھیجنے کے قابل ہو گئے ۔ ان آیات کہ اہمیت کی ایک اوربڑی وجہ یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ بائبل کی اُن چند آیات میں سے ہیں جہاں تثلیث کی تیسری شخصیت یعنی روح القدس کا ذکر ہے۔ یہی وہ روح تھا جو پیدائش  کے پہلے باب میں پانیوں کے اوپر تیرتا تھا ،جب خُدا نے کہا ” روشنی ہو جا “۔ یہی روح تھا جس نے پطرس کے پہلے خط کے مطابق پرانے عہد نامے کے پیغمبروں کو منتخب کیا اور اُن کی راہنمائی کی۔ اُن پیغمبروں نے ہمیں خُدا کے کلام کے ذریعے راستبازی کی راہ دِکھائی۔ یہ روح القدس عموما خاموش رہتا ہے اور اُس کے کہے گئے الفاظ بائبل میں بہت کم جگہوں پر لکھے نظر آتے ہیں ۔

یہ آیات اس لئے بھی خاص ہیں کہ کلام میں پہلی مرتبہ،                                      پنتیکوست  کے بعد ، خُدا کا روح بول رہا ہے اور کلیسیا کو ہدایات دے رہا ہے۔ ہدایات کیا ہیں ؟” میرے لئے برنباس اور ساؤل کو اُس کام کے واسطے مخصوص کر دو جس کے واسطے میں نے ان کو بُلایا ہے ” ۔لوقا کلام کے اس حصے میں روح القدس کے الفاظ بیان کرتا ہے۔ ہم جان جاتے ہیں کہ روح القدس نے اپنے اختیار کے ذریعے اس مشن کی ابتدا کی اور اس مشنری  سفر کے ہر قدم پر وہ ہدایت اور راہنمائی دیتا رہے گا ۔ لیکن ہم اعمال کے 14  ویں باب میں ان آیات کا انجامِ کار بھی دیکھتے ہیں۔ کیا آپ میرے ساتھ مل کر بائبل کا اگلا صفحہ اُلٹیں گے ؟

اعمال کے 14  ویں باب کی 26  ویں آیت میں لوقا ایک بار پھر روح القدس کے شروع کئے گے اس کام کا ذکر کرتا ہے۔ اعمال 14:26 کہتی ہے ،” اور اطالیہ سے بربناس اور ساؤل، جِسے اب پولوس کہا جاتا تھا  ،جہاز پر اُس انطاکیہ میں آئے جہاں اُس کام کے لئے جو انہوں نے اب پورا کیا خُدا کے فضل کے سپُرد کئے گئے تھے “،یہاں لوقا، بین السطور کی ایک ادبی  اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ اعمال 13:2 میں روح القدس برنباس اور ساؤل کو اُس کام کے لئے علیحدہ کرنے کا کہتا ہے ،جس کے لئے اُس نے انہیں بُلایا اور اعمال 23   : 14  میں لوقا بین السطوراُ س کام کی  انجام دہی کا ذکر کرتا ہے۔ وہ وہاں واپس پہنچے جہاں خُدا نے انہیں اپنے فضل سے اُس کام کی ذمہ داری بخشی تھی اور جو اب وہ مکمل کر چکے تھے ۔ دراصل لوقا چاہتا ہے کہ پہلے مشنری سفر کے تناظر میں ہم ان دونوں بابوں کو ملا کر ایک ساتھ پڑھیں۔

اگر ہمیں مشنری بن کر زمین کی انتہاؤں تک قوموں میں سر گرم ہونا ہے ، اور اگر ہم اس مقصد کے ساتھ مخلص ہیں تو ضروری ہے کہ ہم اعمال کی کتاب کا جائزہ لیں اور خود کو اُسی منظر نامے میں رکھیں جو اعمال کی کتاب میں ہے۔ یہ وہ منظر نامہ ہے   جو کہ مشن کے لئے ماحول تخلیق کرتا ہے۔ پھر اگر ہم خُدا کی دی ہوئی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس کام کو  انجام تک پہنچانا ہے تو یہی مناسب ہے کہ ہم ان آیات سے رجوع کریں اوربس  یہ سوال پوچھیں ،” پولوس اور برنباس نے کس کام کے کرنے کی ذمہ داری اُٹھائی ؟” دوسری بات یہ کہ  ،” اُن کے کام کو مکمل اور پوری طرح سے انجام دیا گیا کس بنا پر کہا جا سکتا ہے ؟” یقینا اُنہوں نے وہ کام پوری دیانت داری اور خلوص کے ساتھ مکمل  کیا ۔

اب یہ آیات ہم میں سے کسی کے لئے بھی نئی نہیں ہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے پہلے مشنری سفر کے بارے میں ان آیات کو سینکڑوں مرتبہ پڑھا ہو گا۔جب ہم برنباس اور ساؤل ( جسے بعد میں پولوس کہا گیا ) کے کام پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ بات دلچسپی کی حامل نظر آتی ہے کہ اُن کے اس کام کی ابتدا روح القدس نے کی اور اُسی نے انہیں اختیار اور ہدایات دیں ۔ ہم اعمال 14: 14 میں ان دو رسولوں کو مشن پر جاتے ہوئے دیکھتے ہیں نارسا صوبوں اور شہروں میں پہنچنے والے یہ اولین لوگ تھے ان اولین لوگوں کو منادی کے دوران نہ صرف لسترہ میں ایک اجنبی زبان کی رکاوٹ کا سامنا تھا بلکہ طرح طرح کے بت پرستوں سے بھی نمٹنا تھا ۔کئی مقامات پر مثلاً پسدیہ کے انطاکیہ میں یہودی عبادت خانے میں اور کُپرس کے پورے جزیرے میں اور پافس میں ہم اُنہیں اُس بلاہٹ کا جواب دیتے ہوئے دیکھتے ہیں جو روح القدس کی طرف سے تھی ۔ ہم سر گیُس پولوس  صوبہ دار  کو خُدا کا کلام سُن کر ایمان لاتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ پھر اُس کے بعد انہیں پسدیہ کے انطاکیہ، اکُنیم ،لُسترہ اور دربے میں مزید بہت سے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔

ان قوموں اور علاقوں میں منادی کے دوران ہم بار بار اُن کے منہ سے یہ ہی الفاظ سُنتے جاتے ہیں “خُدا کا کلام ” ،”خُدا کا کلام ” ” خُدا کا کلام ” دراصل اعمال کے دو ابواب میں ہمیں نو مرتبہ یہ لکھا نظر آتا ہے کہ بھیجے ہوئے مشنریوں نے خُدا کا کلام سُنای۔ا خوشخبری کی گواہی کا بیج بوتے ہوئے وہ پوری طرح مخلص تھے۔ اعمال کے 13  ویں باب میں لوقا پسدیہ کے انطاکیہ کے وعظ پر 25 آیات لکھتا ہے۔ جب پولوس اور برنباس کلام کی منادی کرنے کو نکلے تو ہر جگہ اُس خوشخبری کو قبول نہیں کیا گیا ۔درحقیقت ہم       13  ویں  باب کی 46   ویں آیت میں دیکھتے ہیں کہ پسدیہ کے انطاکیہ میں یہودی عبادت خانے میں موجود  بہت سے یہودی کلام سُن کر حسد سے بھر گئے۔ آیت نمبر46 کہتی ہے ،” پولوس اور برنباس دلیر ہو کر کہنے لگے کہ ضرور تھا کہ خُدا کا کلام پہلے تمہیں سُنا یا جائے ،لیکن چو نکہ تم اُس کو  رد کرتے ہو اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی زندگی کے ناقابل ٹھہراتے ہو تو دیکھو ہم غیر قوموں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں “۔                    یسعیاہ نبی کا حوالہ دیتے ہوئے پولوس کہتا ہے ،” میں نے تجھے غیر قوموں کے لئے نوُر مقرر کیا تاکہ تو زمین کی انتہا تک نجات کا باعث ہو ”  آیت نمبر 48 ”  غیر قوم والے یہ سُن کر خوش ہوئے اور خُدا کے کلام کی بڑائی کرنے لگے اور جتنے ہمیشہ کی زندگی کے لئے مقرر کئے گئے تھے ایمان لے آئے ”   آیت نمبر 49 ، ” اور اُس تمام علاقہ میں خُدا کا کلام   پھیل گیا ” 

سو یہاں  پسدیہ کے انطاکیہ میں ہم صرف اولین مشنریوں کو قوموں میں خُدا کے کلام کی منادی کرتے نہیں دیکھتے ۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اُن قوموں  میں  جتنے ہمیشہ کی زندگی کے لئے مقرر کئے گئے تھے  وہ فورا ایمان لے آئے ،اور اُس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پورے علاقے میں پھیل گئے اور کلام کا بیج بونے کے کام میں شامل ہوگئے ۔یہ ایک بہت اہم تبدیلی  ہے ۔ پہلے مشنری سفر میں باب نمبر 13 کے اختتام سے پہلے 52   ویں آیت میں ہم ” شاگرد” کا لفظ دیکھتے ہیں۔ وہاں پسدیہ کے انطاکیہ  میں خوشی اور روح القدس سے معمور ہوتے رہے جہاں جہاں کلام کی منادی ہوئی ،جہاں جہاں بیج بویا گیا وہاں وہاں ہم کھیت میں نئی زندگی کا ظہور شاگردوں کی صورت میں  ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔   باب نمبر 13 میں اس سفر کے اختتام سے پہلے شاگرد کا لفظ مزید تین مرتبہ سامنے آتا ہے۔ گلتیہ کے شہروں اکنیم ،لُسترہ اور دربے میں نئے ایماندار پولوس کے ساتھ رہے، یہاں تک کہ لسترہ میں جب اُسے سنگسار کرکے  موت کے دہانے پر پہنچا دیا گیا اور اُس کے جسم کو کھینچ کر شہر سے باہر لے جایا گیا، تب بھی نئے ایمان دار اُس کے ارد گرد اکٹھے تھے۔  نئے ایماندار جمع ہوئے اور جب اُنہوں نے دعا کی تو پولوس اُٹھ کھڑا ہوا اور شہر میں واپس چلا گیا ۔ دربے لسترہ اور اکُنیم کے شاگردوں کو پولوس اور برنباس نے کہا ،” ضرور ہے کہ ہم بہت مصیبتیں سہہ کر خُدا کی بادشاہی میں داخل  ہوں “پولوس اور برنباس  نہ صرف اولین مشنری بنے ، نہ صرف انہوں نے خوشخبری کا پیغام  پھیلایا بلکہ انہوں نے اُن شہروں میں سے ہر ایک میں نئے شاگردوں کی نگہداشت اور نشوونما بھی کی ۔ یہاں تک کہ وہ اُن شہروں میں بھی واپس گئے جہاں اُنہیں ایذارسانی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ( پولوس کو تو سنگسار کرکے مردہ سمجھ لیا گیا تھا لیکن اُس نے یہ سب کچھ نئے ایمانداروں کی نشوونما اور ایمان میں ترقی کی خاطر برداشت کیا) ۔

اگر آپ کی بائبل کھُلی ہے تو اعمال  14:23پر نظر ڈالیں ۔واپسی کے سفر میں وہ اُن شہروں میں واپس گئے جہاں انہوں  نے خُدا کے کلام کا بیج بویا تھا اور جہاں شاگرد بنے تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کلیسیا میں اُن کے لئے بزرگوں کو مقرر کیا ۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہیں مقامی پاسبانوں اور نئے گلے کے لئے راہنماؤں کے تقرر کی بہت فکر تھی اس مشنری ذمہ داری اور پہلے سفر کو لوقا ” کام ”    کا نام دیتا ہے ۔ اس کام کے بہت سے پہلو ہیں ہمارے لئے اس کام کے تکمیل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اولین بنیں ۔یہ کام سرگرمی کا آغاز کرنے سے شروع ہوتا ہے لیکن یاد رکھیے کہ سرگرمی شروع کر لینا محض دوڑ کا آغاز ہے ۔ ہمیں دوڑ کے سارے چکر پورے کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جب ہم خالی کھیتوں میں جاتے ہیں تو ہمارا مقصد کلام کا بیج بونا  ہوتا  ہے ۔ جب کلام کا بیج بو دیا جاتا ہے تو یہ قدرتی سی بات ہے کہ روح القدس کی شراکت ہونے کے باوجود شاگرد سازی کی صورت میں نئے حاصل ہونے والے ایمانداروں کی نگہداشت اور نشوونما  کی جائے۔ اسی طرح کھیتی بڑھتی اور کاٹنے کے قابل ہوتی ہے ،تاکہ چرچز کا قیام عمل میں  آ سکے ۔ 

نئے راہنما نہ صرف مقامی گلہ کی پاسبانی کرنے کے لئے ابھرتے ہیں بلکہ ( جیسا کہ ہم اعمال 1 : 16 میں لسترہ کی کلیسیا میں تیمتھیس کو ابھرتا دیکھتے ہیں) وہ اگلے خالی کھیت میں کلام کا بیج بونے والوں کے ساتھ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ کیا آپ کو یہاں ایک نمونہ نظر آتا ہے ؟ کیا آپ اعمال کی کتاب میں مشن کے کام کا مقصد سمجھ سکتے ہیں ؟ یہ کام صرف پہلے سفر تک محدود نہیں ۔جو کچھ پہلے سفر میں ہوتا ہے وہ  دوسرے اور تیسرے سفر میں دوہرایا جاتا ہے۔ جب پولوس اور برنباس ( اور بعد میں پولوس، سیلاس اور تیمتھیس ) مقدونیہ کی بلاہٹ پر وہاں چلے تو اُن لوگوں نے پیچھے رہ جانے والی کلیسیا کی نگہبانی سنبھال لی ۔ یہی نمونہ ہمیں کرنتھیوں اور آسیہ کے صوبے میں افسس کی کلیسیا میں بھی نظر آتا ہے ۔

یہاں ہمیں ہر جگہ ،کلام کی منادی ، شاگرد سازی اور نئی کلیسیاؤں کو جنم دینے والی کلیسیاؤں میں افزائش کا عنصر نظر آتا ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ نئی کھیتی میں سے ہی وہ لوگ ابھرتے ہیں جو مزید فصل تیار کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس نمونے کا ہر پہلو اپنی جگہ بہت اہم ہے ۔               جہاں ہم ابتدا کئے ہوئے کام کو مکمل کرتے ہیں تو وہاں ہم دوڑ  دوڑتے نظر آتے ہیں۔ ہر نئی جگہ پر کلام کا بیج بوتے ہوئے ،شاگرد بناتے ہوئے ، چرچ قائم کرتے ہوئے اور راہنماؤں کا تقرر کرتے ہوئے ہم اسی عمل کو دوہراتے چلے جاتے ہیں ۔

آیئے اپنی زندگیوں اور اپنے دنوں کو بہترین انداز میں گزاریں  جیسا کہ زبور نمبر 90 میں ہے کہ ہم خُدا سے دعا کریں کہ وہ ہم کو اپنے دن گننا سِکھائے ،تاکہ ہم وہ ذمہ داری پوری کریں جو ہمیں دی گئی ہے :کا م ،کام اور کام ۔ ہماری سب سے پہلی ترجیح یہی  ہونی چاہیے کہ ہم اُس کام کو پورا ہوتے اور خُداوند کو واپس آتا دیکھیں۔ جیسا کہ متی کے باب نمبر 25 میں ہے کہ جب وہ آئے اور ہمیں اپنا کا م کرتے دیکھے  تو کہے ” شاباش اچھے اور مخلص خادم ”  ۔اُس کام کو یاد رکھیں جس کی تکمیل کے لئے وہ ہمیں بُلا رہا ہے – اپنے چرچز ، اپنی تنظیموں اور اداروں میں  ایمانداروں  کو متحرک کرنا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ پوچھیں کہ میں کلام کسے سُناؤں ؟ میں کلام کی منادی میں کسے اپنے ساتھ شریک کروں ؟   FTT  آپ کے ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے تیار ہے۔  جب آپ اپنے لئے کوئی ہدف مقرر کرتے ہیں ،جب آپ کو  قوموں کی طرف جانے کی بلاہٹ ہوتی ہے یا آپ زمین کی انتہاؤں تک جانا چاہتے ہیں تو ایک اور سوال ابھرتا ہے ،” میں کیا کہوں ؟ میں اُن لوگوں کےدرمیان  کلام کی سچائی کو کیسے قائم رکھوں جنہوں نے ابھی تک سُنا نہیں ہے ؟ ”  پھر ایک تیسرا سوال ہے ،” اگر وہ ہاں کہہ دیں تو میں کیا کروں ؟ میں شاگرد کیسے بناؤں ؟” اگر آپ کے شاگردوں کے دلوں اور  ذہنوں میں ان سوالوں کے جوابات واضح ہوں تو انہیں متحرک کر کے نئے شاگرد بنانے کے لئے   بھیجا جا سکتا ہے۔ ایک چوتھا سوال ،” ہم چرچ کیسے قائم کر یں گے ؟ ہماری ذاتی پسند یا نا پسند ، ہمارے تہذیبی تناظر  اور فرقے کی روایات سے ہٹ کر خُدا کا کلام مسیح کی دُلہن کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟ ہم انہیں مسیح کا بدن کیسے بنائیں ؟ ” اگر آپ اس سوال کا جواب خُدا کے کلام میں تلاش کر لیں تو آپ کے شاگرد چرچز کا قیام کرنے والے اولین لوگ بن سکتے ہیں ۔اور آخر میں ، ” ہم ایسے راہنما ؤں کی افزائش کس طرح کریں جو یہ ہی سب کچھ باربار کر سکیں -نئی جگہوں پر جا کر پوری سچائی کے ساتھ کلام کا بیج بونا ، کلام قبول کرنے والےلوگوں کو شاگرد بنانا ،  اُس فصل سے حاصل ہونے والے لوگوں کو چرچ کی شکل دینا اور پھر ایسے راہنماؤں کی تلاش اور تقرر کرنا جو بار بار یہ عمل دوہرا سکتے ہیں ۔ ہر قوم قبیلے امت اور زبان تک پہنچنے کے لئے یہ بڑا پیچیدہ راستہ ہے ۔

مکاشفہ کے 7  ویں باب میں جس بے شمار بھیڑ کا ذکر ہے اُسے حاصل کرنے کے لئے ضرورت ہے کہ ہم افزائش در افزائش کریں ۔کیا آپ اپنے شاگردوں کو یہی کا م حوالے کرنے کے لئے تیار ہیں ؟ کیا آپ تیار ہیں کہ انہیں قوموں کے درمیان بھیجیں – دنیا کی انتہاؤں تک ؟ اور شاید اس سے پہلے پوچھا گیا سوال دوبارہ سامنے آئے – کیا آپ خُدا کے روح کی آواز سُن سکتے ہیں جو آپ کو بُلا رہا ہے اور فصل کے لئے مزدور بھیجنے کو کہہ رہا ہے ؟ 

کام کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ مشن کا آغاز کیا جائے اور مشنریوں کو بھیجا جائے۔ رومیوں  باب نمبر 10 کے مطابق جس پر وہ ایمان نہیں لائے اُس سے کیوں کر دعا کریں ؟ اور جس کا ذکر انہوں نے سُنا نہیں اُس پر ایمان کیوں کر لائیں ؟ اور بغیر منادی کرنے والے کے کیوں کر سُنیں ؟ ہر جگہ خُدا کی بادشاہی کی جانب پہلا قدم مزدوروں کے بھیجنے کا قدم ہے اور ہم کایروس کی نسل کے درمیان زندہ ہیں ۔

ایک سو سال پہلے جے او فریزر نامی ایک مشنری ،جنہیں میں مشنری ہیرو مانتا ہوں ، جنوب مغربی چین میں لیسو نامی قوم  کے درمیان خدمت کر رہے تھے اپنے مشنری کام کے بارےمیں انہوں نے کہا :

مشن کے میدان میں کسی شخص کا جانا ایسا ہے جیسے کوئی اپنے ہاتھ میں جلتی ہوئی تیلی لئے ایک نم اور تاریک وادی میں پہنچے جہاں وہ کسی بھی جل سکنے والی چیز کو آگ لگا نا چاہتا ہو لیکن وہاں ہر گیلی ہو ۔ اور جتنی بھی کوشش کر لے وہ کسی چیز کو جلا نہیں سکتا دوسری صورت حال ایسی ہو سکتی ہے کہ خُدا نےہوا اور دھوپ کے ذریعے پہلے سے ہی وادی کو خشک کر رکھا ہو ۔ اور جس چیز کو بھی وہ آگ لگائے ،چاہے وہ جھاڑی ، درخت ، چند ٹہنیاں  یا پتوں کا ڈھیر ہو جلنے لگیں اور جلانے والے کے چلےجانے کے بعد بھی دیر تک روشنی اور حرارت دیتے رہیں ۔ خُدا ہم سے یہی چاہتا ہے: پوری دنیا میں جگہ جگہ جلتی ہوئی چھوٹی چھوٹی آگ ۔

فینشنگ دی ٹاسک کی کوششوں کا شکریہ کیونکہ اُن کی وجہ سے ہماری نسل کی دو دہائیوں میں دنیا میں کئی جگہ  ہزاروں مقامات پر حقیقتاً ایسی آگ جل رہی ہے ۔ ارشاداعظم کی تاریخ کے آخری ایک فیصد دورانیے میں دنیا کے 20 فیصد لوگ اور قومیں سرگرم ہو چکے ہیں ۔ اگر سر گرمی کی ابتدا دوڑ کے آغاز کی طرح ہے تو دوڑ کے چکر ابھی باقی ہیں۔ یہ چکر ہیں – کلام کا بیج بونا ، شاگرد سازی کرنا اور چرچز کا قیام کرنا ۔ فریزر  کے الفاظ کے مطابق لکڑیوں کو جلا کر چھوٹی سی آگ جلانا ۔

بھائیو  اور بہنو! اس دوڑ میں آگے بڑھتے ہوئے اس بات کا یقین کر لیں کہ     FTT اور اُس جیسی دیگر تنظیموں کی جلائی ہوئی آگ کے الاؤ  ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ میری بات کا یقین کیجیے   کہ یہ آگ ہم تک پہنچ رہی ہے۔ ہماری نسل میں ہی خُدا کی بادشاہی کا ظہور ہونے والا ہے۔ کیو ں نہ ہو کہ ہم وہ نسل بن جائیں جو اس کام کی تکمیل کرے ؟  FTT   نہ صرف آپ کو یہ مقصد دے رہی ہے ، نہ صرف آپ کو نارسا قوموں کی شناخت اور نشاندہی کرنے کو کہہ رہی ہے، بلکہ آپ کو تربیت دینے کے لئے بھی موجود ہے ۔ یہ تنظیم آپ کے ذریعے آپ کے چرچ اور آپ کی مشنری تنظیم کو متحرک کرنے  کے لئے تیار ہے ۔ تاکہ کلام کا بویا ہوا بیج شاگرد سازی اور چرچز کی تخم کاری کا مقصد اور پھل حاصل کر سکے ۔ جب یہ چرچز پھل لائیں گے تو ہم دیکھیں گے کہ مزدورں کی ایک بہت بڑی اور بڑھتی ہوئی تعداد مشن  کی ذمہ داری میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گی ۔

آیئے دعا کریں۔    اے خُدا ،تو نے پہلی صدی میں اپنے روح ،اپنے اختیار اور اپنی ہدایت کے ذریعے جو کچھ کیا ، ہمیں یقین ہے کہ تو ہماری نسل میں بھی وہی کچھ کر رہا ہے۔ بلاہٹ کاکام کر۔ اے خُداوند ہمارے اُن بھائیوں اور بہنوں کو نارسا قوموں میں  بھیج جو تیری بلاہٹ کا جواب ہاں میں  دیتے ہیں ۔ اپنی قوت کا اظہار کر۔ اپنی دانش کا اظہار کر۔  اے خُدا تیرا کلام ہمارے دلوں میں ہے۔ ہم کبھی تیرے روح کے راستے سے نہ ہٹیں بلکہ تیرے قدموں کے ساتھ قدم ملا کر چلیں۔ اے خُداوند ہم کام کے مکمل ہوجانے تک تیری مرضی  سمجھتے اور اُس پر چلتے رہیں  ۔ہم تجھ سے پیار کرتے ہیں اور تیری تمجید کرتےہیں ۔مسیح کے نا م میں، آمین ۔خُدا  کا فضل آپ سب کے ساتھ ہو ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے