Categories
حرکات کے بارے میں

خُدا کس تیزی سے جنوبی ایشیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے- حصہ اول

خُدا کس تیزی سے جنوبی ایشیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے- حصہ اول

– واکر فیملی کی تحریر –

ہماری ٹیم ایک شادی شدہ جوڑے، ایک غیر ملکی ، اور دو مقامی ساتھی کارکنوں پر مشتمل ہے ،جن کے نام سنجے اور جان ہیں۔  جان، سنجے کا چھوٹا بھائی ہے ۔ ہم سب مل کر خدمت کرتے ہیں۔  ہمارے لئے ” ہم ” یا ” وہ ” کے الفاظ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ہم سب یسوع کے شاگرد ہیں ۔ہم اُس کا حکم سُننے اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہم میں سے کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ ہمیں اپنے  کام کے طریقہ ِکار میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے، تو ہم بڑی عاجزی کے ساتھ ایک تجویز پوری ٹیم کے سامنے پیش کرتے ہیں، اور پھر خُدا سے درخواست کرتے ہیں  کہ وہ اپنے کلام کے ذریعے تجویز کی تصدیق اور تائید  کرئے۔ 

ہم غیر ملکی شروع سے ہی اس نظریے کے ساتھ میدان ِ عمل میں نہیں آئے تھے ۔ ہم نے خدمت کے میدان میں کئی سال اپنے ہی طریقوں پر عمل کرتے ہوئے گذارے۔ ہم مصروف رہے لیکن نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ سال 2011میں ہم نے شاگرد سازی کی تربیت میں شرکت کی، جس  کے لئے ہماری ایجنسی نے تعاون کیا تھا۔ اس تربیت نے ہماری زندگیاں بدل دیں ۔ ہم نے دو ہفتے تک خدا کے کلام کا گہرا مطالعہ  کیا ۔ہم نے مشنزکے بارے میں کوئی کتابیں پڑھیں اور نہ ہی مشن کے جدید نمونوں کا مطالعہ کیا۔ ہم نے بس اپنی اپنی بائبلیں  کھولیں اور ایسے سوالوں کے جواب تلاش کرنے لگے جیسے ، ” کیا یسوع کے پاس نارسا لوگوں تک پہنچنے کے لئے کوئی خاص حکمت علمی تھی ؟”

تربیت کے ان سِلسلوں کے ذریعے، خُدا نے ہمارا نُکتہ ِنظر تبدیل کر دیا ۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ہمارے سامنے اب ایک سوال تھا :” کیا ہو اگر ہم اپنی اپنی مہارتوں کے میدان  ( انجینئرنگ ، تدریس ، انتظامی مہارتیں  ، مواصلات ) سے ہٹ کر اُن چیزوں پر توجہ دیں جن کے کرنے کی واقعی اشد ضرورت ہے ؟”  خدمت کے میدان میں  گذارنے والے تمام سالوں کے دوران ہم نے اپنی مہارتوں کے استعمال پر توجہ دی تھی۔ سوال ہماری اپنی مہارتوں کے استعمال کا نہیں تھا بلکہ سوال  یہ تھا ،” بھٹکے ہوؤں کو نجات دلانے کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہے ؟” اس سوال کے جواب میں  ہماری مہارتوں کی ضرورت ختم ہو جاتی تھی ، اور اُن مہارتوں کی ضرورت پڑتی تھی جو ہمارے پاس نہیں تھیں، جیسے اجنبیوں کو دوست بنانا،  غیر ایمانداروں کے ساتھ مل کر دعا کرنا،  اور لوقا کے دسویں باب میں دی گئی ہدایات پر عمل کرنا ۔ ہمیں یہ جان کر واقعی اطمینان ہوا کہ متی   28:19 میں دیئے گئے یسوع کے حکم کی تعمیل  کے لئے ہمیں اپنے طریقہ ِکار،  اپنی شخصیات اور سوچ یا ذہانت کے معیار پر انحصار نہیں کرنا تھا ۔ یسوع نے اپنے ابتدائی شاگردوں کو اپنے پیچھے چلنے کے لئے اس نے اس لئے نہیں کہا تھا کہ وہ تمام لوگوں میں  سے بہترین اور ذہین ترین تھے۔  وہ ان پڑھ مچھیرے ، محصول لینے والے گنا ہ گار اور استحصال کا شکار، غریب  لوگ تھے، لیکن انہوں نے یسوع کے حکم کی تعمیل  کی ۔

یہ حقیقتیں جان کر ہمارے دل جوش سے بھر گئے ۔ہماری خدمت   کی زندگی میں پہلی مرتبہ ہم نے خُدا کی اس خواہش پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دی کہ ہمیں اپنی ذاتی مہارتوں کو ایک طرف چھوڑ کر دوسروں کو بچانا ہے۔ ہم نے نئے طریقہِ کار استعمال کرنا شروع کر دیئے جن میں مندرجہ ذیل شامل تھے :

(الف)      ذاتی فرمانبرداری ( ایسے لوگوں کی تلاش جو انجیل کے لئے اپنے گھرانوں کے دروازے کھول دیں ) 

(ب)     زیادہ پُر جوش اور مؤثر دعا ( دعا محض ایک ذاتی سرگرمی نہیں رہی بلکہ دعا ہمارے کا م اور خدمت کا لازمی حصہ بن گئی )

( ج)       موجودہ ایمانداروں کو اس کاوش میں اپنے ساتھ  شراکت کا نصب العین عطا کرنا ۔

(د)        دلچسپی رکھنے والے مسیحیوں کی تربیت 

(ہ)        اُن لوگوں سے تربیت حاصل کرنا جو اس کام میں ہم سے آگے تھے ۔ 

تربیت حاصل کرنے کے چند مہینوں کے بعد ہماری ملاقات سنجے نامی ایک واقف کار سے ہوئی ۔ہم اُسے گذشتہ کئی سالوں سے ملے نہیں تھے۔ ذیل میں  اُس میٹنگ کے بارے میں سنجے کے   تاثرات اُسی کے الفاظ میں پڑھیئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوا ۔ہم مسیحی روایات پر کاربند رہتے تھے۔ جب میں بڑا ہوا تو میں نے بائبل کی چار سالہ تعلیم لی اور پھر میں بائبل کا معلم  بن گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے ملک کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے دیہی علاقوں میں 17 مختلف چرچز کی ابتدا کی ۔ 

دسمبر 2011میں میں دہلی کی ایک سڑک پر واکر بھائی سے ملا ۔انہوں نے مجھے اپنے گھر پر چرچز کی تخم کاری کی تربیت کی دعوت دی۔ اپنی زندگی کے اُس دور میں میں ایک بڑا مغرور شخص تھا۔ میں ایک بہت بڑی منسٹری چلا رہا تھا ۔ میں نے ایک سکول اور بائبل کا تربیتی مرکز بھی قائم کر رکھا تھا۔ میں نے سوچا ،”یہ شخص مجھے کیا سِکھا سکتا ہے ؟” سو میں نے وہاں نہ جانےکا فیصلہ کیا۔

 تاہم، ایک مہینے بعد میں نے   انہیں نئے سال کی مبارک باد دینے کے لئے فون کیا  ۔ انہوں نے مجھ سے کہا ،”میں نے آپ سے چرچ کی تخم کاری کی تربیت کے بارے میں بات کی تھی۔ آپ کیوں نہیں آئے ؟” 

اب کی بار میں انکار نہیں کر سکا اور میں نے کہا کہ میں چند دوستوں کے ساتھ ضرور آؤں گا ۔

جب ہم وہاں پہنچے تو انہوں نے ہمیں  پینے کو پانی دیا اور ہماری آمد کاشکریہ ادا کیا۔ پھر انہوں  نے ہمیں کاغذ اور قلم دیئے اور کہا ،” آج ہم کلام کا مطالعہ کریں گے۔ میں سب کے لئے چائے بنانے جا رہا ہوں اس دوران آپ سب لوگ متی کے باب نمبر 28 کی آیت نمبر 16 سے ،20 بائبل سے اپنے اپنے کاغذ پر نقل کریں ۔اِس کے بعد اُس کے آگے لکھیں کہ آپ ان چیزوں کا اطلاق اپنی زندگیوں پر کیسے کریں گے” ۔

میں  سوچنے لگا،” یہ کس قسم کی تربیت ہے ؟ ہمیں بس اُس نے ایک   ورق اور ایک قلم تھمادیا ہے !”۔ میں اس سے پہلے ہی بائبل کالج میں تربیت حاصل کر چکا تھا ۔میں نے خدمت کے 12 سال کامیابی سے پورے کئے تھے ۔لیکن اگلے 10 منٹ میں مَیں بالکل تبدیل ہو کر رہ گیا ۔ 

میں نے متی کے باب نمبر 28 میں پڑھا کہ یسوع کہتا ہے کہ ہمیں جا کر تمام قوموں میں شاگردبنانے ہیں۔ میں نے یہ لکھ لیا۔ بعد میں جب میں نے انہیں اپنی لکھی  ہوئی چیزوں کے بارے میں  بتایا، تو واکر بھائی نے مجھ سے پوچھا ،” سنجے تمہاری منسٹری بہت بڑی ہے لیکن کیا تمہارے پاس کوئی شاگرد بھی ہیں ؟” 

 میں  نے سوچا ،”  میرے پاس تو ایک بھی شاگرد نہیں ہے۔ 10 سالوں میں  مَیں نے یسوع کے  لئے کچھ بھی نہیں کیا۔  اُس  نے شاگرد بنانے کو کہا تھا لیکن آج تک مَیں کچھ بھی نہیں کر سکا “۔

اگلے ماہ میں دوبارہ واکر کے خاندان سے ملنے آیا ۔ہم مل کر بیٹھے اور خُدا کے کلام کا مطالعہ کیا۔ اُس کے بعد سے مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے کچھ چیزیں پیچھے چھوڑنا پڑیں گی۔ مَیں صرف ایک خواہش لئے واپس گھر آیا کہ مجھے شاگرد بنانے ہیں ۔جس سکول کی میں نے ابتدا کی تھی ، میں نے اُس سے استعفیٰ دے دیا۔  اس کے علاوہ میں  نے ایک عالمی منسٹری کا اچھی تنخواہ والا عہدہ  اور بائبل کے  تربیتی  مرکز کےصدر کی حثییت سے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیا ۔ میں نے سب کچھ چھوڑ دیا۔ تب سے اب تک میری پوری توجہ کسی اور چیز کی بجائے یسوع کے حکم کی تعمیل پر رہی ہے اور خُدا نے میری ہر ضرورت ہر طرح سے پوری کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ہم ایک مہینے میں کم و بیش ایک مرتبہ سنجے اور اُس کے 15 دوستوں سے ملاقاتیں کرنے لگے، جنہیں  اُس نے اپنے صوبے کے مختلف ضلعوں سے دعوت دی تھی۔ اُن میں سے زیادہ تر مسیحی پس منظر اور کچھ ہندو پس منظر سے تعلق رکھنے والے ایماندار تھے ۔اُن میں سے جنہوں  نے CPM کے اصولوں کا  اطلاق شروع کیا ،انہیں جلد ہی پھل آتا نظر آنے لگا ۔سنجے اس گروپ کا ہیڈ کوچ تھا جو اُن کی ہمت بندھاتا رہتا تھا ۔

  • دسمبر 2012 تک 55  دریافتی بائبل گروپ شروع ہو چکے تھے جو سب کے سب کھوئے ہوئے لوگوں پر   مشتمل تھے ۔
  • دسمبر 2013 تک یہ 250 گروپوں تک پہنچ چکے تھے ( چرچز اور دریافتی گروپ ) ۔
  • دسمبر 2014 تک 700 چرچ قائم ہو چکے تھے اور تقریبا 2500 بپتسمے دیئے جا چکے تھے ۔
  • دسمبر 2015 تک 2000 چرچز قائم ہوئے اور تقریبا 9000 بپتسمے دیئے گئے ۔ 
  • دسمبر 2016 میں چرچز کی تعداد 6500 تھی اور بپتسموں کی تعداد تقریبا 25000 تھی ۔
  • دسمبر 2017 میں چرچز 21000 تک بڑھ چکے تھے اور بپتسموں کی تعداد کا شمار رکھنا ممکن نہیں رہا تھا ۔
  • دسمبر 2018 میں چرچز کی تعداد 30000 ہو چکی تھی ۔

 

حصہ دوم میں ہم آپ کو  اِس   عمل کے دوران ہمارے سیکھے ہوئے اسباق،  ہمارے ساتھ شامِل بہت سے لوگوں کے کرداروں  اور ترقی  کے ضامن کلیدی عناصر سے آگاہ کریں گے۔ 

“واکر” فیملی نے 2001 میں بین التہذیبی خِدمت کا آغاز کیا۔  انہوں  نے 2006  میں  Beyond (www.beyond.org)  میں شمولیت اختیار کی۔  2013  میں “فیبی” اُن کے ساتھ شامل ہوئی۔  فیبی اور واکر 2016 میں  دُوسرے ممالک میں منتقل ہو گئے اور فاصلے پر رہتے ہوئے تحریکوں کو معاونے پیش کر رہے ہیں۔

یہ  Mission Frontiers  کے جنوری-فروری 2018  کے شمارے  میں شائع ہونے والے مضمون  کی توسیعی صورت ہے۔ اِس میں  آر۔ریکیڈیل  سمتھ  کی کتاب           Dear Mom and Dad: An Adventure in Obedience  کے حصے بھی شامل ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے