Categories
حرکات کے بارے میں

دعا اور روحانی جنگ

دعا اور روحانی جنگ

جیری ٹروس ڈیل اور لین سن شائن کی انتہائی مقبول کتاب “دی کنگڈم ان لیشڈ: یسوع کی پہلی صدی کی بادشاہی کی اقدار کیسے ہزاروں تہذیبوں کو تبدیل کر رہی ہیں اور اُس کے چرچ کو جگا رہی ہیں “سے مصنفین کی اجازت سے نقل کیا گیا ۔

(کِنڈل : 2399-2469، باب نمبر 9 “بھرپُور دعا”)

شاگرد سازی کی تحریکیں نہ تو کوئی پروگرام ہیں ،نہ حکمت عملی اور نہ ہی کوئی نصاب ۔ایسی تحریک بس صرف خُدا کی تحریک ہوتی ہے۔ اُس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ شاگرد سازی کی تحریکوں کے بارے میں تمام بات چیت دعا اور روزے سے شروع ہوتی ہے ۔ہمارا قادرِمطلق خُدا باپ دل و جان سے کوشش کر رہا ہے کہ وہ کھوئے ہوؤں کو اپنے پاس لائے۔ دعا اور روزے کے ذریعے ہم اُس کی راہ پر ہم قدم ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنے وسائل اور قوت پر بھروسہ کر کے چلتے رہیں توکوئی نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔خُدا کہتا ہے ،”  مجھ سے مانگو اور میں تمہیں قوموں کا وارث بناؤں گا اور دنیا کی انتہاتک سب کچھ تمہاری وراثت بنے گا “۔ وہ یہ بھی کہتا ہے ” تم جس جگہ قدم رکھو گے میں وہ جگہ تمہیں عطا کروں گا ،جیسے میں نے موسیٰ سے وعدہ کیا تھا ۔۔۔” ۔چرچز کی تخم کاری اور شاگردی کی ہر تحریک کے پیچھے بھرپور دعا اور روزے ہوتے ہیں ، گھٹنے ٹیکنا ہوتا ہے اور خُدا کے سامنے رونا اور آنسو بہانا ہوتا ہے۔  اسی کے ذریعے ہمیں کامیابی ملتی ہے اور پھر آپ میدان میں جا کر نتائج خود دیکھتے ہیں ۔

ینوساڈجاو ، اینگیج ! افریقین ویڈیو سیریز

دعا اور روحانی جنگ

دعا اُس روحانی جنگ کا ایک اہم عنصر ہے جس سے ہمارا روزانہ واسطہ پڑتا ہے ۔کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہمارے صبح آنکھیں کھول کر اپنے فون پر نظر ڈالنے سے لے کر رات کو بستر میں  جانے تک ۔ سارا دن سب کچھ کرتے ہوئے ہم گناہ سے آلودہ ہوتے رہتے ہیں اگرچہ یہ روحانی جنگ بہت عام سی بات ہے پھر بھی ہم اکثر اسے نظر انداز کر جاتے ہیں اور اس کے بارے میں سوچتے بھی نہیں اس کے علاوہ شمالی دنیا اکثر شیطانی سر گرمیوں کو نظر انداز کر جاتی ہے لیکن جنوبی دنیا کے چرچز ایسا نہیں کر سکتے ۔

ایک شخص، جِسے ہم گونڈا  کہیں گے، وہ وسطی افریقہ کے ایک ملک کا  چرچ کا تخم کار ہے ۔اُس نے خُدا کو وسطی افریقہ میں بہت سے  معجزات کر کے کامیابیاں لاتے دیکھا ہے،   اور وہ انتہائی مشکل حالات میں  بھی بچتا رہاہے۔ اُس نے ہمیں چار اصول بتائے جن پر اُس کی منسٹری کی تشکیل ہوئی ہے : 

  1. اُس کے لئے ہر چیز دعا کے گرد گھومتی ہے اور خُد اکی آواز سُننے پر انحصار کرتی ہے ۔ 
  2. وہ سلامتی کے فرزندوں کی تلاش کرتا ہے ۔
  3. جب وہ انہیں تلاش کر لیتا ہے تو وہ دریافتی بائبل سٹڈی کا عمل شروع کرتا ہے ۔
  4. اور پھر وہ اپنے شاگردوں ، دیگر راہنماؤں  اور نئے چرچز کی تربیت اور مشاورت کرتا ہے تاکہ وہ اپنے اپنے طور پر افزائش کر سکیں ۔

گونڈا  نے ہانٹے نامی ایک گاؤں کے بارے میں سُن رکھا تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا قبیلہ تھا جو قتل وغارت اور انسانی خون اور جادو اور شیطانی عمل کی خاطر انسانی  جسم کے حصوں کا گھناؤنا کاروبار کرتا تھا ۔گاؤں کے لوگ اجنبیوں کی آمد برداشت نہیں کرتے تھے گونڈا کی معلومات کے مطابق وہاں جانے والے بہت سے لوگ واپس نہیں آ سکے تھے ۔

 سو گونڈا  نے اُس گاؤں کے لئے خُداکے آگے دعا کرنا شروع کی۔ وہ جانتا تھا کہ وہاں خُدا کی بادشاہی  کا راستہ بنانے میں  بہت خطرات ہیں، لیکن خُدا نے اُس کی حوصلہ افزائی کی۔ اب صرف دعا کرنا اور فرمانبرداری کے ساتھ ساتھ کچھ تحقیق کرنا باقی رہ گیا تھا ۔

اُسے پتہ چلا کہ اُس قبیلے کا سردار اپنے آباؤاجداد کے  عقائد پر سختی سے عمل کرتا تھا ،جن کی قوت کے زور پر وہ ہاتھیوں  کے غول کے درمیان جا گھستا تھا اور پھر اپنے مدد گاروں کو بُلاتا تھا ۔لوگ اُس کی شخصیت اور اُس کی روحانی یعنی شیطانی قوتوں سے خوف زدہ تھے ۔

گونڈا  نے راہنمائی کے لئے دعا کی اور انتظار کرتا رہا ۔

جلدہی وہ ایک  مسیحی خاتون سے ملا جو ہانٹے کے گاؤں میں رہتی تھی  ۔جیسے ہی وہ اُس سے ملا اُس نے محسوس کیاکہ خُداوند اُس سے یہ عمل شروع کرنے کو کہہ رہا ہے۔ وہ وہاں کلام کی منادی چاہتی تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ اُس کے قبیلے میں بہت بڑے چیلنج در پیش ہیں  ۔گونڈا نے ایک منصوبہ بنایا کہ وہ 7 کلومیٹر دور ایک گاؤں سے آغاز کرے ۔ اُس نے جان لیا کہ وہ ایک ایسا اچھا مقام تھا  جس کے ذریعے وہ ہانٹے کے قریب ہو کر وہاں دعا کر سکتا تھا ۔ 

بلآخر اتوار کی ایک شام وہ اُس گاؤں گیا اور اپنے ساتھ دو شاگردوں کو لے گیا ،جنہیں وہ تربیت دے رہا تھا ۔انہیں  توقع تھی کہ رات وہ وہاں گزاریں گے ۔

لیکن راستے میں وہ ایک سابقہ پاسٹر سے ملے اور جب اُسے اُن کے ارادوں کا پتہ چلا تو اُس نے کہا کہ وہ ضرور انہیں سیدھا ہانٹے کے گاؤں تک لے جانا چاہتا تھا ۔ گونڈا سمجھ گیا کہ پاسٹر صاحب سلامتی کے فرزند تھے جو انہیں گاؤں کے افراد سے متعارف کروا سکتے تھے ۔اس لئے وہ منصوبہ بدلنے کے لئے تیار ہو گیا ۔

اندھیرا چھا جانے کے بعد یہ تھکے ہوئے لوگ ہانٹے پہنچے اور وہاں انہیں خطرے کا احساس ہوا۔ انہیں  یہ فائدہ ہوا کہ اُن کے ساتھ ایک ایسا شخص تھا جسے گاؤں کے لوگ پہلے ہی جانتے تھے۔ خاص طور پر جب پاسٹر نے لوگو ں کو بتایا کہ وہ اُس کے دوست تھے اور خالق ِکائنات یعنی خُد اکے بارے میں کہانیاں سُناتے تھے ۔

رات کے 10 بجے لوگوں کا پہلا گروہ اجنبیوں کے پاس اکٹھا ہو کر کہانی سُننے کی درخواست کرنے لگا تاکہ اُس کے بعد وہ فیصلہ کر سکیں کہ وہ وہاں ٹھہر سکتے ہیں یا نہیں۔ مقامی باشندوں نے آگ جلائی اور اُن لوگوں نے انہیں بائبل کی کہانیاں سُنانا شروع کیں۔ انہوں نے تخلیق سے ابتدا کر کے پرانے عہد نامے کی کہانیاں سُنائیں اور پھر انجیل تک آ پہنچے ۔اس دوران اُنہوں نے لوگوں کو کافی وقت دیا تاکہ وہ خود جان سکیں کہ سچ  کیا تھا ۔اس دوران گونڈا دُعائیہ گیت بھی گاتا رہا اور لوگ ناچتے رہے ۔یہ سلسلہ کچھ گھنٹے تک چلا۔ رات کے دو بجے لوگ وہاں سے جانے لگے، لیکن وہ سونے کے لئے نہیں جا رہے تھے  وہ اس لئے جا رہے تھے کہ وہ جا کر اپنے خاندانوں کو جگائیں کہ وہ بھی آ کر یہ حیرت انگیز کہانیاں سُن سکیں ۔

 آخر کار تقریبا 150 لوگ آگ کے گرد بیٹھ کر بائبل کی کہانیاں ترتیب وار سُنتے رہے۔ گونڈا کو بالکل یہ توقع نہیں تھی کہ لوگ ساری رات جاگ کر یہ کہانیاں سُنیں گے ۔لیکن اُس کے سمیت اُس کے شاگرد اس حیرت انگیز  صورتحال پر بہت پُر جوش تھے ۔

بعد میں لوگوں نے انہیں بتایا کہ وہ ساری رات اس لئے جاگتے رہے کہ انہیں موت کا بہت ذیادہ خوف تھا  اور قادرمطلق خُداکے بارے میں یہ کہانیاں اُن کے دلوں میں گونجتی رہیں ۔اُن لوگوں میں  ایسے خاندان بھی تھے جن کے آباؤاجداد نے بہت خوفناک کام کئے تھے اور اُن میں سے کچھ اب بھی ویسے ہی کام کر رہے تھے ۔انہیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ لعنت کا شکار ہیں اور وہ خوف زدہ بھی تھے ۔ لیکن کہانیاں سُن کر انہیں ایسا لگا کہ اُمید اور نجات کا پیغام انہیں مل گیا ہے۔ جب کہانیوں کا اختتام  ہونے لگتا تو وہ خاندان اصرار کرتے کہ یہ لوگ کہانی جاری رکھیں۔ رات کے دوران ہاتھیوں کا شکاری، جو کہ قبیلے کا سردار بھی تھا ، بیمار پڑ گیا۔ وہ ایک مقامی کاہن کے پاس گیا لیکن اُسے کوئی مدد نہ مل سکی ۔وہ جانتا تھا کہ گاؤں میں کچھ نیا ہو رہا ہے۔ لیکن وہ اتنا بیمار تھا کہ وہ ٹھیک طرح سے پتہ نہیں  کر سکتا تھا ۔شاگرد سازوں کو بتایا گیا کہ قبیلے کا سردار بیما ر ہے، اوروہ سمجھ گئے کہ  اُن میں سے کچھ کو جاکر اُس کے لئے دعا کرنا چاہیے، تاکہ وہ جان سکے کہ کوئی عظیم قوت اُس کی شیطانیت سے بڑھ کر ہے۔ خُدا کے فضل سے شاگردسازوں کے وسیلے وہ فوری طور پر شفا یاب ہو گیا اور اُس نے فیصلہ کیا کہ اگلی صبح وہ بھی کہانیاں سُننے کے لئے آئے گا ۔

بائبل کی کہانیوں کا سلسلہ صبح کے وقت ختم نہ ہوا اور نہ ہی دوپہر تک – وہ شام کے 3 بجے تک چلتا رہا – بائبل کی کہانیوں کا 17 گھنٹوں کا بیان،  جس میں ابتدا تخلیق سے ہوئی اور جس کی انتہا آسمانی تخت پر یسوع کے بیٹھنے پر ہوئی ۔اس سارے وقت کے دوران شاگرد سازوں کی ٹیم حیران تھی کہ لوگ بائبل کی کہانیوں پر مبنی اس تربیت وار بائبل سٹڈی کے بارے میں کتنے پُر جوش ہوکر وقت اور قوت لگا رہے تھے ۔ 

بات چیت اور دریافتی بائبل سٹڈی کا  سلسلہ 2 ہفتوں تک چلتا رہا ،جس کے بعد قبیلے کے سردار نے یسوع کے پیچھے چلنے والا پہلا شخص بننے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے گاؤں کے لوگوں کو بُلایا ، اپنے گناہوں اور شیطانی کاموں پر توبہ کی ، اپنے تمام شیطانی عمل کرنے والے اوزار تباہ کر دئیے، اور پھر بپتسمہ حاصل  کیا۔ اُس کے فورا بعد40 سے زیادہ لوگوں نے بپتسمہ لیا اور گاؤں میں چرچ نے جنم لے لیا  ۔اُس کے بعد مزید 280 لوگوں نے بپتسمہ لیا ۔سردار اُس پورے علاقے کے اگلے گاؤں اور قصبوں میں جا جا کر لوگوں کو بتاتا رہا کہ کس طرح پیار بھرے خالق خُد انے اُسے شفا دی ، اُسے معافی دی اور اُس کو اور اُس کے دل کو تبدیل کر دیا ۔ایک معجزہ ہی تھا کہ جہاں جہاں وہ گیا مزید چرچز قائم ہوتے چلے گئے ۔

گونڈاکا کہناہے کہ جب اُس نئے قصبے میں لوگوں سے پوچھا جاتا کہ وہ مسیح کے پیچھے کیوں چلنے لگے تو وہ بس یہ کہتے ،” ہمیں اُس خالق خُداکے بارے میں پتہ چل گیا ہے جو بہت بااختیار ہے اور طاقت رکھتا ہے!” نئے گاؤں میں نئے مسیحی تعداد میں بڑھتے رہے اور اُن کی دعائیں قبول ہوتی رہیں ۔انہیں یسوع کی محبت کا ثبوت ملتا رہا ۔کچھ ماہ کے بعد ایک بغاوت کی وجہ سےجنگ کے باعث تمام لوگوں کو اپنی حفاظت کی خاطر ایک بڑے شہر کو ہجرت کرنا پڑ گئی۔ اُن میں سے زیادہ طرح مسیحی بن چُکے تھے ۔

کہانی یہاں ختم ہو جاتی ہے لیکن ایک اہم تفصیل باقی ہے۔ اُس قصبے میں جہاں ابتدائی طور پر یہ ٹیم جا کر کام شروع کرنا چاہتی تھی، ایک بڑا مندر تھا، جہاں ایک دیوی کا وجود تھا ۔وہاں کے رہنے والوں کے ایمان کے مطابق جو لوگ اُس مندر کے قریب جاتے تھے وہ مرتے رہتے تھے۔ وہ پاسٹر جو انہیں لے کر ہانٹے گیا تھا اُس نے وہاں 3 دن تک  دعا کی اور روزے رکھے۔ پھر پیر کی ایک صبح8 بجے وہ اُس گاؤں کے وسط میں گیا اور اُس نے خود اپنے ہاتھوں سے اُس مندر کو جلا دیا۔ وہاں کے باشندوں میں سے زیادہ تر کو یہ یقین تھا کہ وہ یقینا  مر جائے گا لیکن وہ زندہ رہا ۔ 

مسلسل دعا کے ذریعے اس واقعہ کے رونما ہونے کے باعث مسیحیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور دیوی کی پوجا کا سلسلہ ختم ہوتا چلا گیا ۔

شیطان کی بادشاہی کی تباہی

یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ یسوع کی منادی کسی نئے فلسفے یا  مذہب کے آغاز کی منادی نہیں تھی۔ اس کا مقصد شیطان کی بادشاہی کو تباہ کرنا تھا ۔یسوع نے فریسیوں کے ساتھ اپنی گفتگو ان الفاظ پر ختم کی : 

یا کیونکر کوئی آدمی کِسی زورآور کے گھر میں گُھس کر اُس کا اسباب لُوٹ سکتا ہے جب تک کہ پہلے اُس زورآور کو نہ باندھ لے؟ پِھر وہ اُس کا گھر لُوٹ لے گا۔” (متی 12: 29)

یسوع چاہتا ہے کہ وہ شیطان اور اُس کے چیلوں کے کام تباہ کر دے اور تاریکی سے لوگوں کو نکال کر خُدا کی بادشاہی میں لے آئے۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے