Categories
حرکات کے بارے میں

بچے اورنوجوان : تحریکوں کی تصویر کے کھوئے ہوئے ٹکڑے

بچے اورنوجوان : تحریکوں کی تصویر کے کھوئے ہوئے ٹکڑے

مصنف: جوزف مائیرز ، سینئر مدیر ایکس ایل –

ایکس ایل  کے اپریل 2021 کے شمارے کے صفحات 14 سے 18 سے تدوین کرکے اجازت کے ساتھ پوسٹ کیا گیا

روایتی چرچز کے منظر نامے میں بچوں اور نوجوانوں کی منسٹری کے بارے میں بے تحاشہ معلومات دستیاب ہیں اور سینکڑوں ویب پیج ، مضامین اور کتابیں چرچز کی تخم کاری کی تحریکوں اور شاگرد سازی کی تحریکوں کے بارےمیں معلومات  فراہم کرتی ہیں ۔لیکن بڑی  تفصیل سے تلاش کرنے کے بعد مجھے صرف ایسے دو حوالہ  جات مل سکے جو بچوں / نواجونوں کی تحریکوں کے بارے میں تفصیل کے ساتھ تمام مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ پہلا جارج او کونر کا تحریر کردہ مضمون ری پرڈیوس ایبل  پاسٹرٹریننگ: چرچ پلانٹنگ گائیڈ لائنز فورم دی ٹیچنگ  آف جار ج پیٹرسن ہے  ( پیساڈینا، کیلیفورنیا: ولیم کیری لائبریری ، 2006) ۔ان ہدایات میں سے ہدایت نمبر 32 کہتی ہے ” بچوں کو سنجیدگی سے منسٹری کی خدمات انجام دینے دیں “(صفحات 140 – 9) اگرچہ یہ تصورات تحریکو ں کو ذہن میں رکھ کر پیش نہیں کئے گئے لیکن پھر بھی یہ ایسے قارئین  کے لئے ،جو ان کا اطلاق کرنا چاہیں ،مددگار ہو سکتے ہیں اور کافی حد تک معلومات فراہم کر سکتے ہیں ۔

ذیل میں اس کا ایک خلاصہ دیا جا رہا ہے ۔

  • بچوں کو محض وعظ یا کہانی سُنانے کی بجائے انہیں عبادت میں سر گرمی سے شریک ہونے کا موقع دیں  ۔مثال کے طور پر عبادت کے دوران بچوں کو بائبل کی کہانیوں کی تمثیلیں پیش کرنا بہت اچھا لگتا ہے ۔مختلف عمر کے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کو بھی شامل کر کے وعظ کو ڈرامائی انداز میں پیش کرنے سے سُننے والوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے ۔
  • بچوں اور بڑوں کو الگ کر دینے سے معاشرتی ترقی کا عمل روک جاتا ہے  ۔بچے بڑوں اور مختلف عمر کے دیگر بچوں کے ساتھ کام کر کے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔
  • چرچز اور والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں اور نوجوان افراد کی شاگرد سازی کے لئے ایک عملی اور مربوط انداز اپنا کر تربیت دیں ۔
  • مسیحی والدین، خاص طور پر باپوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کی تربیت میں بہت آگے جائیں اور چرچز کو ایسی سر گرمیاں ترتیب دینی چاہیں جس میں پورے خاندان شامل ہوں ۔
  • ہر عمر کے بچے بڑوں کی توجہ چاہتے ہیں۔ بڑی عمر کے بچوں کا چھوٹے بچوں کے لئے شاگرد سازی کا کام انجام دینا فائدہ مند ہوتا ہے ،کیونکہ یہ شاگرد بننے اور بنانے والے دونوں کو افزائش میں مدد دیتا ہے ۔
  • بچوں کو خُد اکے کام میں سر گرم انداز میں شریک ہونے میں مدد دیں۔ 
  • اس بات پر دھیان دیں کہ کون سابچہ کیا کردار ادا کر سکتا ہے ۔
  • بچے تخلیق کاری میں بہت دلچسپی لیتے ہیں انہیں موقع دیجیے کہ وہ اپنی تخالیق مثلا  گیت ، نظمیں ، خاکے یا آرٹ ورک وغیرہ دوسرے بچوں کے ساتھ ساتھ ،اگر مناسب ہو تو بڑوں کو بھی دِکھا سکیں ۔
  • بچے زبانی تعلیم کی بجائے عملی تعلیم سے بہتر سیکھتے ہیں ۔مثلا کے طور پر بچوں کو ابتدائی سال سے ہی دعائیہ رفاقت کا حصہ بنانے سے اُن میں چرچ کی محبت پیدا ہوتی ہے جو آگے چل کر چرچ کی سِکھائی ہوئی سچائیوں پریقین کرنے اور اُس کا نمونہ بننے میں مدد دیتی  ہے ۔
  • کلام پولوس کے انداز میں سکھائیں۔ بائبل کی تعلیم اچھے انداز میں دی جائے تو مختلف مذہبی  تصورات کی بنیاد مستحکم طور پر پڑتی ہے ۔بائبل میں سے واقعات پر مبنی اقتباسات   سے آغاز کر کے مثلا تخلیق ، آدم کاجنت سے نکالے جانا ، ابرہام کے ساتھ وعدہ یا شریعت دینے کے جیسے واقعات نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کو بھی بعد میں مختلف مشکل تصورات سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔
  • دلچسپی اور سمجھ بوجھ بڑھانے کے لئے کلام کے کسی بھی حصے کو مختلف اور  دلچسپ انداز میں  پیش کریں۔  ان میں  پڑ ھ کر سُنانا ، ڈرامہ پیش کرنا ، معروضی سبق سِکھانا اور سوالات پوچھنا جیسی سر گرمیاں شامل ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ہی تعلیمی یا تبلیغی  سیشن میں کئے جا سکتے ہیں۔ 

دوسرا معاون وسیلہ سی اینڈرسن کا تحریر کیا ہوا ایک مضمون ہے جس کا عنوان انتہائی مناسب ہے ” کیا بچے اور کم سن بالغ افراد بھی شاگرد سازی کی تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں ؟” شاگرد سازی کی تحریکوں میں خاندانی مسائل سے نمٹنے کے اصولوں کے سیکشن   میں وہ والدین کو 6 نکات سمجھاتی ہیں جو بچوں اور کم عمر لڑکے لڑکیوں کو شاگرد اور شاگردساز بننے میں مدد دے سکتی ہیں:

  • بچوں کو تفریح فراہم کرنے کی بجائے اُن کی تربیت کا سوچیں بچوں اور کم عمر نوجوانوں کو یہ سمجھائیں کہ وہ بھی کاہن ہیں ۔
  • بچوں اور کم عمر بڑوں میں تحریکوں کی سوچ ابھاریں ۔اُن کےساتھ ساتھ اُن کے والدین کو بھی شامل کریں۔ ( اس اصول کے ساتھ ساتھ وہ مشورہ دیتی ہیں ،” انہیں یہ جاننے میں مدد دیں کہ خُدا اُن کے ذریعے ایک تحریک کا آغاز کر کے بہت کچھ کر سکتا ہے اور اُن سے کہیے کہ وہ آپ کے ساتھ مل کر اس کے لئے دعا کریں “)
  • بچوں اور کم عمر بالغوں سے اپنی توقعات بلند رکھیں  ۔ انہیں چیلنج دیا جائے تو وہ چیلنج پورا کریں گے ۔
  • بچوں کو ہمیشہ اُن کے اپنے اپنے گروپوں میں ہی تقسیم نہ کریں  ۔
  • والدین کویہ سمجھنے میں مدد دیں کہ یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ اُن کے بچے مسیح کی فرمانبرداری کریں اور شاگرد وں کی تعداد میں افزائش کریں ۔   

اگرچہ یہ اصول ” کیسے” کی بجائے ذیادہ تر ” کیا ” کے مسئلے کو حل کرتے دِکھائی دیتے ہیں، پھر بھی یہ ابتدا کے لئے بہت اچھے اصول ہیں  جو بعدمیں نوجوانوں اور بچوں کو حتیٰ کہ قائدین کو بھی تحریکو ں کے سر  گرم شُرکا بننے میں مدد دے سکتے ہیں ۔

اینڈرسن مضمون کے اختتام پر ہمیں ان الفاظ میں خبردار کرتی ہیں ،جن کا یاد رکھنا نوجوان افراد کی شاگرد سازی کرنے والوں کے لئے بہت ضروری ہے :

بہت کم چرچز نوجوانوں کو شاگرد ساز بننے کی توقع رکھتے ہیں انہیں چیلنج ہی نہیں دیا جاتا کہ وہ اپنی روحانی صلاحیتیں  کسی موثر انداز میں استعمال کر سکیں۔ اگر ہم مغرب میں تحریکیں  ابھرتے اور چلتے دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ طریقہ کار بدلنے کی ضرورت ہے۔ آپ میں سے جن کا تعلق افریقہ یا ایشیا سے ہے ،انہیں چاہیے کہ وہ بچوں کی شاگرد سازی کے اس غیر موثر مغربی چرچ کے نمونے کو اپنانے سے گریز کریں !

نوجوان ہمارے چرچز اور تحریکوں کا مستقبل ہیں ۔لیکن ہم انہیں اپنے مستقبل میں اتنا اہم نہیں سمجھتے۔ یقینا ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جس میں خُد اکے ذریعے  بچے اور نوجوان تحریکوں میں کام کرتے نظر آ رہے ہیں، لیکن اس کے لئے وقت اور محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔

اب آخر میں، میں آپ کو ایک چیلنج دینا چاہوں گا ۔اپنی اپنی منسٹریوں پر نظر ڈالیں۔ اُن لوگوں سے بات کریں  جو آپ کی تحریکوں کا حصہ ہیں۔ اپنے اُن ساتھی کارکنوں سے بات کریں جو دیگر تحریکوں میں شریک ہیں   ۔خُدا  بچوں اور نوجوانوں کو شاگرد بنانے تربیت  دینے اور راہنما بنانے کے لئے کیا کر رہا ہے؟ یہ کیسے ہو رہا ہے ؟ کیاہی اچھا ہو کہ اُ سے کے نام کو جلال دینے کے لئے اور مسیح کے بدن کلیسیا کی تعمیر کے لئے ہم ایک دوسرے کو اس سے آگاہ کریں تاکہ دوسرے وہ حاصل کر لیں جو آپ نے سیکھا ہے اور پھر اُس کا اطلاق کر سکیں ؟ 

اگر آپ مجھ سے متفق ہیں تو مجھے [email protected]  پر Email بھیجیے ۔خُداوند نے چاہا تو ہم مستقبل قریب میں ” بچے اور تحاریک ” کا ایک  دوسرا شمارہ بھی شائع کر سکتے ہیں۔

(1) https://www.dmmsfrontiermissions.com/children-teenagers-dmm/

(2) Ibid.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے