ایک مشن ایجنسی کی تحریکوں کے ثمر آور اسلوب کی دریافت- حصہ اول
– ڈگ لوقس –
تعارف
ہماری مشنری تنظیم 1978 میں ایک عظیم مقصد کے تحت شروع کی گئی : نارساؤں کے درمیان کام کے لئے بہت سے مشنریوں کو بھیجنے کے لئے ۔ ڈاکٹر رالف ونٹر جیسے محتاط دانشوروں کی وجہ سے 1990 میں ہم نے نارسا قوموں کے گروہوں پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دی ۔ ہمارا مقصد صرف بھیجے گئے کارکنوں کا شمار رکھنا نہیں رہا بلکہ اس کے علاوہ اُن لوگوں کی تعداد کا تعین کرنا بھی ہو گیا جنہیں سر گرم کرنے کے لئے اُن لوگوں کو بھیجا جا رہا تھا ۔ہم نے بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے تمام کارکنوں کو مقامی زبان اور لوگوں کے ساتھ میل جول بڑھانے کی تربیت دی۔ ہم نے چرچز کے قیام پر زور دیا ہم نے اس توقع کے ساتھ دعا کی کہ جب کارکنوں کی ہر ٹیم لوگوں کے ساتھ سر گرم ہو جائے گی تو ان کارکنوں کو کسی نئے چرچ کی جماعت قائم کرنے کے لئے صرف ایک سال کے قریب کا عرصہ درکار ہو گا ۔ہمیں یہ بھی پوری توقع تھی کہ نئے راہنماؤں کی ایک مرکزی جماعت کی تربیت میں زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے ۔
سال 2000 کے بعد کے عرصے میں ہم نے ڈاکٹر ڈیوڈ گیریزن جیسے محققین کے کہنے کے مطابق CPM کے لئے اہداف مقرر کرنے شروع کئے ۔اپنی تنظیم کے اس تیسرے بدلتے ہوئے روپ میں ہم نے دیکھا کہ کچھ چرچ محض اپنی جگہ پر محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اعمال کی کتاب میں ہم دیکھتے ہیں کہ شاگردوں نے ہر علاقے یا ملک میں محض ایک نیا چرچ قائم کرنے سے بڑھ کر بہت کچھ کیا۔ خُدا نے اُن کی تعداد بڑھائی ۔اسی طرح ہم نے اپنے کارکنوں کو ترغیب دی کہ وہ ایسے چرچ قائم کریں جو آگے مزید چرچز قائم کرنے کے قابل ہوں۔ اب ہمارا ہدف محض اس بات کا تعین نہیں تھا کہ کتنے چرچز قائم ہوئے بلکہ یہ تھا کہ اُن چرچز نے کتنے نئے چرچز قائم کیے ۔
سال 2010 تک ہمارے اندرایک قسم کا انقلاب آ چکا تھا ۔میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اُسے کیا نام دیا جائے لیکن اسے شاگرد سازی کی تحریک کی سوچ کہنا بہتر ہو گا۔ ابتدا میں یہ فرق کوئی اتنا بڑا نظر نہیں آتا ۔حقیقت یہ تھی کہ میرے لئے بھی یہ تصور ابتدا میں بہت دھندلا تھا لیکن جب ہم اس تصور کو سمجھ گئے تو اُس کا نتیجہ بہت شاندار نکلا۔
ثمر آور اسلوب
شاگرد سازی کے اسلوب کے بارے میں آپ کی رائے کچھ بھی ہو ،اس سوچ اور طریقے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی توانائی کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ ابتدائی تربیتی سیشنز میں ہماری توجہ طریقۂ کار اور حکمت عملی پر ہوتی تھی ۔ اس لئے شاگرد سازی کی تحریکوں کو ہمارا ذہن قبول نہیں کر رہا تھا ۔شاگرد سازی کی تحریکوں کے ایک تربیت کار سرجنٹ کر ٹس کے مطابق اسے چند لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے –”ایسے شاگرد بنے جو آگے افزائش کرنے کے قابل ہوں “( کیا یہ ہی طریقہ یسوع کا بھی نہیں تھا ؟) ڈیوڈ گیریزن نے دعا کو چرچز کی تخم کاری کی تحریکوں کےبہت سے اہم عناصر میں سے اولین قرار دیا ہے، لیکن کسی وجہ سے ہمیں دعا کی غیر معمولی اہمیت سمجھنے میں 10 سال سے زیادہ عرصہ لگ گیا اور ہم اس کی بجائے اپنی ساخت اور مہمات پر ہی لگے رہے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا بدلنے کے لئے ہمیں پہلے خود کو بدلنے کی ضرورت تھی ۔ہماری ابتدائی کاوشیں امریکی کاروباری اسالیب سے کافی زیادہ متاثر تھیں جن میں حکمت عملی اور تزویراتی منصوبہ بندی شامل تھی۔اب یہ کچھ زیادہ ہی آسان دکھائی دیتا تھا کہ ہم ایک نئے کارکن سے کہیں کہ بس اُسے صرف خُدا کی کہانی سُنانے کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم سب یہ ہی چاہتے ہیں کہ ہمارا کام کسی نہ کسی حکمت عملی پر مبنی ہو ۔ شاید اس طرح ہماری کوششیں ذہانت پر مبنی دکھائی دیتی ہیں ۔ اس لئے کارکنوں کو صرف دعا پر ابھارنا اور تین بٹا تین گروپوں کی سہولت کاری کروانا کچھ زیادہ ہی آسان لگتا تھا) گروپوں کے مشترکہ وقت میں تین سادہ سے عناصر شامل تھے :
- پیچھے مُڑ کر دیکھنا ، خُدا کی فرمانبرداری اور اُس کی بُلاہٹ پر خوشی منانا ۔
- اوپر دیکھنا -کہ خُدا نے اُن کے لئے کیا تیار کر رکھا ہے اور یہ دریافتی بائبل سٹڈی میں ہفتہ بہ ہفتہ ہوتا تھا ۔
- آگے دیکھنا -تاکہ خُد اکی فرمانبردای کا طریقہ جانا جائے ، سیکھا ہوا علم عمل کے ذریعے دوسروں کو دیا جائے اور دعا کے ذریعے اہداف مقررکئے جائیں۔
مشہور کتاب چرچ پلانٹنگ موومنٹز نے گیریزن کا بتایا ہوا ایک اور طریقہ پہلوؤں سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ عموماً ہم یہ کرتے ہیں کہ جب نئے ایمانداروں کو ایذارسانی کا سامنا ہوتا ہے تو ہم انہیں منظر سے نکال دیتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے خروج کا نام بھی دیتے ہیں۔ چاہے اسے کوئی بھی نام دیا جائے یہ یقینا انسانی سوچ کا پہلا ردعمل ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم کسی سر گرم ایماندار کو اُس کے تناظر سے باہر کر دیتے ہیں تو آگے بڑھنے کا سفر ر ک جاتا ہے ۔اس وجہ سے نہ صرف نیا ایماندار اپنے گھر سے کٹ کر رہ جاتا ہے بلکہ اُس کے اندر کے جذبے کی آگ بھی ٹھنڈی ہو جاتی ہے ۔کسی وجہ سے ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ خُد ااُن لوگوں کو برکت دیتا ہے جو ایذااُٹھاتے ہیں ۔اور اس کا نتیجہ بہت شاندار رہا ۔
فرمانبرداری اور احتساب کو تحریکوں کے اجرا کے لئے مرکزی عوامل کے طور پر اجاگر کرنا کچھ عجیب لگتا تھا ۔کیا ہم ابھی تک فرمانبرداری نہیں کرتے چلے آئے تھے ؟ ہاں لیکن ہم نے فرمانبرداری کو صرف یسوع کے بارے میں سوچنے تک محدود رکھا اور اُس طرف نہیں سوچا کہ اُس نے ہمیں کیا کرنے کو کہا ہے ۔ اس کا معیار صرف چرچ میں حاضری دینے تک تھا۔ لیکن یہ جاننا بہتر ہوتا ہے کہ کیا چرچ میں آنے والے یہ لوگ اپنے ایمان کے اظہار کے لئے واقعی کچھ کرتے ہیں کہ نہیں ۔ایک بار پھر کرٹس سارجنٹ کی بنیادی تعلیمات کے مطابق ، ” یسوع کے پیچھے چلنا فضل کی علامت ہے دوسروں کو یسوع کے ساتھ ایک تعلق میں لانا بڑی فضل کی بات ہے ایک نئی روحانی جماعت کی ابتدا کرنا اس سے بھی بڑا فضل ہے لیکن سب سے بڑا فضل دوسروں کو نئی روحانی جماعتوں کے آغاز کی تربیت دینا ہے “۔کچھ عشروں تک ہماری تنظیم نے لوگوں کو مسیح کے پاس لانے پر توجہ دی ۔پھر ہم نے انہیں بائبل کی تعلیمات کی تعلیم دینا شروع کی اور روحانیت کو محض تعلیمات سے آگاہ ہونے کے برابر جانا ۔لیکن یسوع یہ نہیں چاہتا کہ لوگ صرف تعلیمات حاصل کریں اُس نے انہیں بتایا کہ اگر انہیں اُس سے محبت ہے تو وہ اُس کے حکموں کی تعمیل کریں گے ۔
دریافتی تعلیم کا تصور سمجھنا مشکل ترین چیزوں میں سے ایک ہے ۔شاید یہ اس لئے بہت مشکل ہے کیونکہ اصل میں یہ انتہائی آسان ہے ناقدین کے خیال میں شاگرد سازی کی تحریکوں کے کارکن کلام کو انتہائی سادہ بیان کرتے ہیں، اور کیوں نہ ہو کہ نئے ایماندار یسوع کی کہانی سُننے سے پہلے گہری اور وسیع تربیت حاصل کریں ؟ لیکن حقیقت صدیوں سے ہماری آنکھوں میں آنکھیں گاڑے کھڑی تھی۔ یسوع نے جس شخص کو بدروح سے نجات دلائی، اُسے وہ کتنے عرصے سے جانتا تھا ، اس سے قبل کہ اُس نے اُسے اپنے لوگوں میں واپس بھیجا کہ وہ جا کر انہیں بتائے کہ خُداوند نے اُس کے لئے کیا کیا ہے ؟( مرقس 5: 1-20) شاید یہ عرصہ زیادہ سے ذیادہ آدھے دن کا تھا ۔ واہ کیا بات ہے ہم دراصل اس معاملے کو کچھ ضرورت سے زیادہ ہی سنجیدہ لے رہے تھے اور دیکھیے کہ مرقس کے باب نمبر 5 میں مذکور اس شخص نے دکپلُس کے اپنے آبائی علاقے کی تاریخ بدل دی ۔
یہ عناصر یقیناً بنیادی عناصر کہلائے جا سکتے ہیں ، فرمانبرداری کا عملی اظہار ، خُدا کی کہانی سُنانے کا جذبہ ، ایذارسانی کا شکار لوگوں کے لئے دعا ( لیکن انہیں فرار نہ کرانا )، فرمانبرداری اور دریافتی تعلیم۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سارے کام میں 20 سے زیادہ گھنٹے نہیں لگتے اور ایک ایسا شاگرد تیار ہو جاتا ہے جو آگے مزید شاگرد بنا سکتا ہے- صرف 20 گھنٹے ۔
حصہ دوم میں ہم اپنی تبدیلی کے عمل اور اِس کے زریعے خُدا کے لائےپھل سے آپ کو آگاہ کریں گے۔
1978 میں خُدا نے ایک بائبل کالج کے طالبِ علم ڈگ لوُکس کو بُلایا کہ وہ ایک ڈارم کے کمرے میں دُعائیہ میٹنگ منعقد کریں۔ اِس کے نتیجے میں ٹیم ایکسپینشن کا جنم ہُوا۔اُس وقت سے ڈگ ایک مشنری (یوراگوئے اور بعد ازاں روُس/یوکرائن میں) اور اِس عالمی تنظیم کے بانی اور صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔( مزید جانئےwww.TeamExpansion.org ) ۔ لوُیس ویل سے تعلُق رکھنے والے ڈگ بائبل میں بی اے، مشنز میں ایم اے، ایم بی اے اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل ہیں۔ 1995 میں اُنہوں نےعالمی مشنز کے وسائل، تحریک اور رُجحانات سے آگاہی کے لئے ایک ہفتہ وار ایمیل/نیوز لیٹر www.Brigada.org
جاری کیا۔ وہ شاگردوں کی افزائش کا بھر پُور جذبہ رکھتے ہیں اور اِس مقصد کے لئے اُنہوں نے ایک ساتھی کار کُن کے ساتھ مِل کر یہ تربیتی ویب سائٹس بھی جاری کی ہیں:
www.MoreDisciples.com اور www.MissionsU.com.
یہ اقتباس ایک مضمون “Discovering the Fruitful Practices of Movements,” سے لیا گیا ہے جو مشن فرنئٹیر ز کے نومبر-دسمبر 2017 کے شمارے کے صفحات نمبر 6سے 11 پر شائع ہوا ، www.missionfronters.org۔ یہ مضموُن ابتدائی طور پر 24:14 – A Testimony to All Peoples میں صفحات 287- 291 پر شائع ہوا اور 24:14 اور Amazon پر بھی دستیاب ہے۔