Categories
حرکات کے بارے میں

چرچز کی تخم کاری سے شاگرد سازی کی تحریکوں تک ایک ایجنسی کی تبدیلی- حصہ اول

چرچز کی تخم کاری سے شاگرد سازی کی تحریکوں تک ایک ایجنسی کی تبدیلی- حصہ اول

– آیلا ٹیسے –

اگست 1989 میں میں نے شمالی کینیا کے کچھ مسلمان گروپوں میں منادی شروع کی  اور 1992 میں میں نے منادی کو وسعت دینا شروع کر دی ۔1994 سے 98 تک میں نے نارسا لوگوں کے گروہوں پر تحقیق شروع کی   اور 1996 میں لائف وے مشن کا قیام ایک مقامی مشن ایجنسی کی حیثیت سے ہو گیا۔ اُس دوران ہمارا گروپ کافی حد تک بڑا ہوا ۔ہمیں وہ لوگ آ ملے جو اُن بہت سے قبیلوں کی زبانیں بول سکتے تھے ،جن تک ہم پہنچنا چاہتے تھے  ۔نارسا گروپوں کے بہت سے لوگ بھی ہماری منسٹری میں شامل ہوکر خدمت انجام دینے لگے ۔ سو میں نے ایک چھوٹاسا مشن سکول قائم کیا اور انہیں تربیت دینا شروع کر دی  ۔چونکہ میں سیمنری جاتا تھا تو میں نے وہاں سے سیکھا ہوا تمام علم اُن تک منتقل کر دیا ۔ہم نے نوجوان لوگوں کو تربیت دی اور انہیں اُن کے علاقوں میں واپس بھیجا ۔لوگوں تک رسائی اور چرچز کی راہنمائی میں یہ ہی لوگ اگلے محاذوں  پر تھے ۔

1998 میں ایک موڑ آیا جب میں نے اپنے بڑے مقصد کے حصول کے لئے کام شروع کر دیا ۔میں نے مقامی لوگوں کوذمہ داریاں دینا شروع کیں جن کو میں تربیت دے رہا تھا۔میں نے کہا  ،” بہترین  طریقہ یہ ہو گا کہ اگر ہم مقامی معاشرے سے ہی لوگ تلاش کریں ” ۔ سو وہ ایک ماہ کے عرصے تک مقامی لوگوں میں  جاکر راہنما تلاش کرتے۔ واپس آ کر وہ اُن راہنماؤں کو ہمارے تربیتی مرکز میں داخل کر دیتے ۔ہم اُن کلیدی راہنماؤں کو دو مہینے کی تربیت دے کر اُن کے علاقے میں واپس بھیج دیتے ۔وہ خادم جنہوں نے اُن سے سب سے پہلے رابطہ کیا ہوتا وہ تربیت کار  کا کردار جاری رکھتے تھے ۔میں نے یہ سب کچھ سیکھا نہیں تھا لیکن جیسے جیسے یہ چیزیں ہوتی گئیں میں  ساتھ ساتھ سیکھتا بھی چلا گیا ۔ ہمارے پاس سیکھنے کو کچھ نہیں تھا، لیکن ہم حالات و واقعات سے سیکھ رہے تھے ۔سو ہمارے منسٹری کے پروگرام عملی میدان میں ضرورتوں کے مطابق تشکیل پاتے تھے  میں ایسی بہت سی چیزیں سکھا رہا تھا جو بعد میں CPM  کے روپ میں بدل گئیں ۔



ایک نئے طریقہ کار پر غور و فکر

2002 اور 2005 کے درمیان میں نے چرچز کی تخم کاری کی تحریکوں کے بارے میں سُننا شروع کیا ۔ لیکن اُس وقت تک میں افریقہ کے دیگر CPM   کے راہنماؤں کے ساتھ تربیت میں شامل نہیں ہوا تھا ۔ہمارے مشنریوں نے ہمارے مرکزی علاقے میں تمام نارسا لوگوں تک رسائی حاصل کر لی تھی لیکن ابھی تک ہم ایک تحریک نہیں بنے تھے۔ میں نے چرچز کی تخم کاری پر ایک مقالہ لکھا تھا اور اس بار ے میں کئی قسم کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں، جس میں ڈیوڈ  گیریزن کی کتاب چرچ پلانٹنگ موومنٹ بھی شامل تھی۔  لیکن میری سوچ کے لئے ایک بڑا چیلنج سال 2005 میں سامنے آیا ۔

میں مغربی افریقہ کے ایک بھائی سے ملا جو ایک تربیت کا آغاز  کر رہے تھے اور ڈیوڈ واٹسن  اُس میں مرکزی تربیت کار تھے ۔یہ ہی وہ وقت تھا جب میں تحریک کے تصور سے پوری طرح آشنا ہوا ۔ لیکن مجھے ڈیوڈ واٹسن کے الفاظ قبول کرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ وہ مجھے کہہ رہے تھے “تمہیں یہ کرنا ہے ،تمہیں وہ کرنا ہے ” اور اُن کی رائے انڈیا میں ہندؤوں کے ساتھ کام کے تجربے پر مبنی تھی ۔

میں نے کہا،” آپ کبھی مسلمان نہیں رہے۔ میں مسلمان پس منظر سے تعلق رکھنے والا ہوں اور مجھے افریقی مسلمانوں میں کام کر کے پھل لانے کرنے کا  تجربہ ہے۔ ہمارے تناظر میں چیزیں ویسے نہیں ہوتیں جیسے آپ کہہ رہے ہیں ” ۔میری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ میں  اپنے کام اور طریقے کا دفاع کرنا چاہتا تھا۔  میں محسوس کرتا تھا کہ میں مسلمانوں کے درمیان چرچز قائم کرنے میں کامیاب ہو ں۔ سو میں پیچھے ہٹ گیا ۔

لیکن سب سے اہم بات یہ تھی ،” اگر میں کسی CPM   جیسا طریقہ اختیار نہ کروں تو میں ان لوگوں  میں کام کی تکمیل کیسے کروں گا ؟” خُدا مجھ سے کہہ چکا تھا ،” اپنی زندگی کی افزئش کر کے اپنے جیسے بہت سے لوگ اور بہت سی زندگیاں پیدا کرو”اور اُسی نے میرے نصب العین کو میرے آبائی علاقے سے بڑھا کر پورے مشرقی افریقہ تک پھیلایا تھا ۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا، لیکن میں اتنا ضرور جانتا تھا کہ خُدا نے اس بارے میں مجھ سے کچھ کہہ رکھا ہے ۔تب ہی تحریکوں کی راہ پر میرا سنجیدہ سفر شروع ہو گیا۔  میں نے محسوس کیا کہ طریقۂ     کار سے زیادہ اہم یہ ذمہ داری تھی۔ میں چاہتا تھا کہ میں بائبلی انداز میں یہ کام کم ازکم وقت میں ختم کروں، تاکہ خُدا کے نام کو جلال ملے ۔ میں نے محسوس کیا کہ میں ایک بڑے فیصلے کے لئے تیار ہوں -اُس آدمی کی طرح  جس نے اپنا سب کچھ بیچ کر وہ کھیت مول لے لیا تھا جس میں خزانہ چُھپا ہوا تھا۔ میں  کسی بھی قیمت پر خُدا کے نام کے جلال کے لئے نارسا لوگوں میں  بہترین خدمات انجام دینا چاہتا تھا ۔

سال 2005 کے آس پاس میں نے نارسا لوگوں تک رسائی کے لئے CPM   کے بارے میں بات کرنا شروع کی۔ میں فرنئٹیر مشن کے بارےمیں بہت پُر جوش تھا  اور میں مزید چرچز قائم کرنا چاہتا تھا ۔میں پہلے ہی CPM   کی طرز کے کام کر رہا تھا ،لیکن 2005 کی تربیت نے مجھے مزید وسائل اور رابطے دے دیئے ۔

ابتدا میں میں اپنی توجہ مرکوز نہیں کر سکا، لیکن اگلے چند سالوں میں میں نے ڈیوڈ ہنٹ کے ساتھ مل کر CPM   کے اصولوں کا استعمال اور تربیت دینا شروع کر دی ۔انہوں نے میری تربیت کرنے اور میرے سوالوں کے جواب دینے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ۔انہوں نے میرے سفر میں میری بہت حوصلہ افزائی کی CPM۔   کے بارے میں کچھ زیادہ جانے بغیر اور اُس پر اعتراضات اُٹھا نے کی بجائے میں نے اپنی طاقت CPM   کے اصول لاگو کرنے پر لگائی اور مجھے پھل ملنا شروع ہو گیا ۔میں نے جانا کہ CPM   کے زیادہ تر اصول تو بائبل میں ہی موجود ہیں ۔ہم نے CPM   کی تربیت کر کے لوگوں کو بھیجنا شروع کیا۔ جب میں نے تحریکوں کے بارے میں  مزید معلومات حاصل کئیں تو اُن کی حکمت عملی مجھ پر واضح ہو تی گئی اور سال 2007 کے شروع میں تحریکیں آغاز پکڑنے لگیں۔ میری سوچ میں ایک تبدیلی اور بھی آئی ،جب میں نے چرچ کو ایک مختلف نظر سے دیکھ کر پوچھا  :” چرچ ہوتا کیا ہے ؟” چرچ کے بارے میں میرا پرانانُکتہ نظر ایسانہیں تھا جو چرچ کی افزائش کر سکے۔  اب میں نے چرچ کو انتہائی سادہ بنیادوں پر استوار دیکھا جو کہ بہت بہترین افزائش کر سکتا تھا ۔

دو اور عوامل نے بھی میری سوچ میں بہت بڑی تبدیلی لائی :

  1.  لوگوں کو سچ بتانے کی بجائے انہیں سچ کی دریافت کرنے میں مدد دینا اور۔
  2. فرمانبرداری شاگردی کا لازمی عنصر ہے ۔

میں نے دیکھا کہ اس بنیادی تبدیلی کے ذریعے میری خدمت اور منادی کی رفتار میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ۔

 

لائف وے مشن کے طریقۂ                      کار میں تبدیلی

یہ تبدیلی میرے دماغ میں تو آئی لیکن میں نے لائف وے کو CPM   کی جانب نہیں دھکیلا۔ میں ایک بڑے سوال پر سوچتا رہا :” ہم بقیہ کام کیسے مکمل کرسکتے ہیں ؟ ہم نے چرچز کی ابتدا ہوتے دیکھی ہے لیکن کیا ہمارے موجودہ طریقہ کار ہمیں منزل تک پہنچا سکتے ہیں ؟ کیا خُد ا نے ہمیں ارشاد اعظم کی تکمیل کے لئے کسی مخصوص طریقۂ           کار پر عمل کرنے کو کہا  ہے؟” میرا خیال ہے کہ خُدا اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی طریقہ استعمال کر سکتا ہے ہمیں صرف اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ وہ سنجیدگی سے اس مقصدکی خاطر کون سے طریقے استعمال کر رہا ہے۔ یسوع نے ہمیں حکم دیا :” شاگر دبناؤ اور انہیں تعمیل کی تربیت دو ” یہ ہی ارشاد اعظم کا مرکزی خیال ہے۔ اسی وجہ سے ارشاد اعظم ایک عظیم  حکم بنتا ہے ۔ جب تک ہم شاگر دنہ بنائیں ہم ارشاد اعظم کو ایک عظیم حکم نہیں کہہ سکتے  ۔  سو چاہے ہم کوئی بھی طریقہ استعمال کریں اُس کا ایسے شاگرد بنانے کے لئے مؤثر ہونا ضروری ہے جو فرمانبردار ہوں ۔

میں نے اپنے ساتھی کارکنوں کو اس سوچ سے آگاہ کرنا شروع کیا۔ میں نے اُن سے ایک قدم آگے بڑھ کر ان طریقوں کے عملی مظاہرے شروع کیے۔ میں نے انہیں عمل کروانے کی بجائے خود ان اصولوں پر عمل کرکے دکھایا  ۔میں چاہتا تھا کہ میں اُن پر دباؤ ڈالنے کی بجائے اُن کے دلوں میں اس مقصد کے لئے کشش پیدا کروں۔ میں  نے قابل افزائش گروپ شروع کر کے انہیں خود اپنی مثال دی۔  میں نے کلام کھول کر انہیں بائبلی اصول دکھائے  ۔جب فرمانبرداری ہماری فطرت بن گئی تو اُس   سے لوگو ں کو بہتر طور پر سمجھ آنے لگی۔ وہ سمجھ گئے کہ آگے بڑھنے کا طریقہ یہ ہی ہے۔ میں نے تنظیمی  دباؤ یا اپنے اختیار کے زور پر تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ اوپر سے نیچے کی جانب جانے والا عمل نہیں تھا۔ ہمارے کچھ ساتھی کارکنان جلد ہی سیکھ گئے اور انہوں نے CPM   کے اصول استعما ل کرنا شروع کئے ۔اور دیگر لوگ اس معاملے میں سُست تھے ۔جو لوگ سُست رفتار تھے اُن سے میں نے یہ کہا :” آئیے شُکر کرتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہیں “۔ یہ عمل سال 2005 میں شروع ہوا اور کچھ سالوں تک جاری رہا ۔اکتوبر 2007 میں ہم نے تنظیم کو مکمل طور پر بدل دیا ۔ہم نے واضح کر دیا کہ ہمارا مقصد صرف نارسا لوگوں تک رسائی حاصل کرنا نہیں بلکہ بادشاہی کے پھیلاؤ کی تحریکوں کو متحرک کرنا ہے۔ لائف وے مشن نے شمالی کینیامیں بادشاہی کی افزائش کے مقصد کا آغاز کر دیا ۔اس میں کلیدی کام یہ تھا کہ نارسا لوگوں کو شامل کرتے ہوئے اُن تک کلام کی خوشخبری پہنچائی جائے ۔

اب یہ واضح ہو چکا تھا کہ ہمارا کام صرف نارسا لوگوں تک خوشخبری پہنچانا نہیں بلکہ اُن کے درمیان خُداوند کی بادشاہی کی تحریکوں کو مؤثر اور متحرک بنانا ہے۔  ہمارا مرکزِ نگاہ آج بھی نارساؤں  تک رسائی ہے لیکن اب اسے ہم شاگرد سازی کی تحریکوں کے ذریعے کر رہے ہیں ۔   اکتوبر 2007 ہماری تما م ٹیموں کے لئے ایک بڑا  موڑ تھا۔ ہم نے اپنی مشن سٹیٹمنٹ بھی بدلی ، اور اُس کے ساتھ ساتھ  اپنی شرکت ، نیٹ ورکنگ اور تعاون کے طریقۂ               کار بھی تبدیل کر دیئے ۔

اب ہم   ایسے شاگرد بناتے ہیں جو مزید شاگر دبنائیں  اور ایسے چرچ قائم کرتے ہیں جو مزید چرچز پیدا کریں۔  شاگرد سازی کی تحریک ہمیں یسوع کی دی ہوئی ذمہ داری  پوری کرنے میں مدد دے سکتی ہے ۔ہم کسی ایک ہی طریقہ کار پر توجہ نہیں دیتے لیکن اگر شاگرد سازی کی تحریکیں ہمیں اپنے مقصد تک پہنچنے میں مدد دے رہی ہیں تو ہمیں بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم نارسا لوگوں کے درمیان بادشاہی کی پیش روی کی تحریکوں کے ذریعے خُدا کے دیئے ہوئے اُس حکم میں  اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں جو ارشاداعظم میں  لکھا ہے  ۔ 2007 میں ہم نے CPM   کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی ۔ CPM   کا کلیدی نُکتہ  شاگرد بنانا ہے۔ سو اُس وقت سے اب تک ہم نے شاگرد بنانے پر زور دیا ہے اور ہم مشرقی افریقہ کے مسلمانوں کو یسوع کے فرمانبردار شاگرد بنا رہے ہیں ۔

حصہ دوم میں ہم تبدیلی کی راہ میں آنے والے چیلنجز، تبدیلی سے حاصل ہونے والے پھل اور اُن کلیدی عوامل پر بات کریں گے جنہوں نے ہمیں قائم رکھا اور پھل لانے میں مدد دی۔

ڈاکٹر آیلا ٹیسے  لائف وے مشن انٹرنیشنل ( www.lifewaymi.org) کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں یہ مشنری 25 سال سے زیادہ عرصے سے نارسا لوگوں میں کام کر رہی ہے ایلا افریقہ اور دنیا بھر میں شاگرد سازی  کی تحریکوں کی تربیت اور نگرانی کرتے ہیں وہ ایسٹ افریقہ CPM    نیٹ ورک کا حصہ اور ایسٹ افریقہ کے لئے نیو جینریشنز کے علاقائی کوآرڈینیٹر ہیں ۔

Share on facebook
Share on twitter
Share on linkedin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے