Categories
حرکات کے بارے میں

بادشاہ کا جلال و جمال دیکھنے کی کیا قیمت ہے ؟

بادشاہ کا جلال و جمال دیکھنے کی کیا قیمت ہے ؟

ڈاکٹر پیم آرلینڈ اور ڈاکٹر میری ہو –

دنیا بھر میں بادشاہی کی خوشخبری کی منادی  ہر ایماندار کی اُمید اور التجا اور متی 24 کا نُکتۂ  انتہا ہے ۔دراصل متی 24 ایک ایسے اہم سوال کا جواب دیتا ہے جو خُدا   کے لوگ زمین کی تخلیق کے وقت سے پوچھ رہے ہیں : دنیا بھر کی قوموں میں سورج کے طلوع اور غروب ہونے تک خُدا کے نام کو عظیم  بنانے کی  کیا قیمت ہو گی؟ ( ملاکی 1: 11)

وہ نسل جو متی 24: 14 کی تکمیل کرئے گی اُسے آخری نسل کے طور پر کیا کچھ برداشت کرنا پڑے گا ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ایسی نسل ہونے کا آغاز حاصل ہے جو کہہ سکتی ہے کہ دنیا کے کسی بھی ٹائم زون میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں یسوع کی عبادت نہ ہو رہی ہو۔ تاہم ہر ٹائم زون میں ایسے تاریک مقامات موجود ہیں جہاں یسوع کوئی جانتا نہیں اور اُسکی عبادت نہیں ہو رہی۔  ایسانہیں ہو نا چاہیے ۔

اگرچہ ہمیں متی 24: 14  کی آیت بہت اچھی لگتی ہے لیکن ہم بقیہ باب کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یسوع واضح کرتا ہے کہ جب خُدا کا جلال دنیا کی تمام قوموں میں پھیلے گا تو اُس سے پہلے بہت سی آفتیں بھی آئیں گی  مثال کے طور پر : 

  • ایک عالمگیر جنگ ( آیت 6-7)
  • خشک سالی اور زلزلے ( آیت 8 ) 
  • ایذارسانی اور موت ( آیت 9)
  • تمام قوموں کی نفرت ( آیت 9) 
  • بہت سے لوگ اپنے ایمان سے انکار کر دیں گے ( آیت 10) 
  • جھوٹے نبی ( آیت 11، 22) 
  • بُرائیوں میں اضافہ ( آیت 12) 
  • بہت سوں کی محبت کا سرد پڑ جانا( آیت 12) 
  • لا قانونیت کا بڑھ جانا ( آیت 12) 

یسوع واضح کرتا ہے کہ بادشاہی کا آنا  نہ ہی آسان ہے اور نہ ہی صاف ستھرے طریقے سے ہو سکتا ہے ۔ تاہم اسی باب میں ہمیں 5 ایسے طریقے بتائے گئے ہیں جن کے ذریعے ہم آخر تک مستحکم رہ سکتے ہیں ( آیت 13) 

نمبر 1 یسوع ہمیں متحرک اور چاک و چوبند رہنے کو کہتا ہے وہ بتاتا ہے کہ ہمیں ایک سیکنڈکے نوٹس پر بھاگنے کے لئے تیار رہنا چاہیے ( آیت 16)  بادشاہی کا آنا ہمیں اچانک ہی پکڑ لے گا ۔سو ہمیں اپنی زندگیوں میں تبدیلیوں اور اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کے لئے تیار رہنا ہو گا ۔مہاجرین کا حالیہ بحران ایک ایسا ہی موقع ہے ۔اس صدی میں مسلمانوں کے مسیحی ہونے کی تعداد پچھلی صدیوں سے کہیں زیادہ ہے ۔جن لوگوں نے مہاجرین کے بحران پر کام کیا ہے  اُنہوں نے کئی مسلمانوں کو مسیح میں آتے دیکھا ہے۔ لیکن بہت سوں نے اس بحران سے ملنے والے موقع کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا باقاعدہ کام چھوڑ دیا ہے۔ مستقبل میں بھی ایسے موقعے ملتے رہیں گے اور ہمیں خُدا کی جانب سے آنے والے ان مواقعوں پر ردعمل کے لئے فوری تیار رہنا ہو گا ۔ دراصل ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام آفتیں اور مصیبتیں بادشاہی کی تحریکوں کو مستحکم کرنے کا ایک لاثانی موقع ہیں ۔لیکن اس کے لئے خُد اکی قوم کو متحرک اور چُست رہنے کی ضرورت ہے ۔

نمبر2 یسوع ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں بھاگنا تو پڑے گا لیکن اپنی مصیبت کے دوران ہم اُس سے رحم کی درخواست کر سکتے ہیں ( آیت 20)۔ ہمیں مسلسل دعا کرنے والی قوم بننا ہو گا۔ یہ چند منٹ کی دعا نہیں۔  نہ ہی یہ ایسی ہے جس میں  ہم خُد اسےکچھ کرنے کو کہیں۔  یہ ایسی جنگ ہو گی جس میں خُد اکے بیٹے اور بیٹیوں آسمانی باپ کے ساتھ مل کر دشمنوں کے ساتھ لڑ رہے ہوں گے – ایسے دشمن جو نہ دیکھے جا سکیں اور نہ جن کی چال کا پتہ چل سکے ( افسیوں 6) اس قسم کی دعا مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ خوشی سے بھر پور بھی ہے ۔

نمبر3 یسوع ہمیں تیار رہنے کو کہتا ہے ( آیت نمبر 42) ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خُدا کی حکمت عملیوں کے لئے تیار رہیں ۔ہمیں جھوٹے نبیوں کے خلاف خبردار کیاگیا ہے ہم جھوٹے نبیوں اور اصل نبیوں  میں تمیز کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ صرف بادشاہ کے دل کی مرضی جان کر ہو سکتا ہے۔ وہ ہمارے دل ، روح ، دماغ اور قوت پر اختیار رکھتا ہے۔ اور جب وہ ایسا کرتا ہے تو اُس سے ہم جرأت پاتے ہیں  ، ایک مختلف زندگی گزارتے ہیں ، نفرت کرنے والوں اور دشمنوں سے محبت کرتے ہیں اور تکلیفیں برداشت کرتے ہیں۔ یہ محبت 1 کرنتھیوں باب نمبر 13 جیسی محبت نہیں جو سب کچھ سہہ لیتی ہے، بلکہ ایک  سرگرم مثبت محبت ہے ۔یہ ایک سپاہی کی صبر و برداشت کی محبت ہے جو جنگ کے میدان میں مایوسی کا اظہار نہیں کرتا ۔

نمبر4 یسوع ہمیں دیانتدار نوکر بننے کو کہتا ہے ( آیت 45)  جو ضرورت مندوں کو کھانا دیتا ہے۔ یہ حقیقت میں خوراک کے بارے میں نہیں کہا گیا بلکہ ایک تمثیل ہے ۔قدرتی آفتوں کے برعکس جس میں ہم ضرورت مندوں کو خوراک دیتے ہیں ،ہم خادموں کو ایسے لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں جنہیں روحانی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس تمثیل سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ دنیا کے نظر انداز کئے ہوئے لوگوں اور قوموں کو ترجیح دیں۔  ہمیں ایمانداری سے یہ سمجھنا ہو گا کہ ہمارے ارشاداعظم کے  خادموں کو پورے دل کے ساتھ وہاں کام کرنے کی ضرورت ہے جہاں روحانی کمی سب سے ذیادہ ہے ۔

نمبر 5 یسوع ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے زمینی اسباب سے جُڑے نہ رہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ ہمیں واپس جا کر اسباب لینے کی ضرورت نہیں ( آیات 17-18)۔ یہ طرز زندگی ہمارے پڑوسیوں کے طرز زندگی سے مختلف ہے۔  ہم اپنی جسمانی خواہشات ، دولت اور حسن وجمال کے لئے زندہ نہیں رہتے ( رومیوں 8: 5) ۔اس کی بجائے ہم بادشاہ کا حُسن و جمال دیکھنے کے لئے زندہ ہیں۔ یوں ہمیں اپنی خوشی اور عیش وعشرت  پر کم وقت لگا کر زیادہ تر وقت دوسروں کی بھلائی کے لئے لگانا چاہیے، تاکہ ہمارا وقت اور ہمارے وسائل ایک ان دیکھے جلال کو سامنے لانے کا موجب بنیں ۔

بادشاہ کا حُسنِ جمال دیکھنے کے لئے زندہ رہنا قربانی کا تقاضا کرتا ہے – انتہا درجے کی قربانی ،ایک ایسی قربانی جو بہت تکلیف دیتی ہے ۔تاہم اس قربانی کے ساتھ  ، جیسا کہ ملاکی 1: 11 میں کہا گیا ہے ، کہ ہر جگہ اُس کا نام قوموں میں عزت پائے گا اور اُس کی تمجید ہو گی اور ہماری پاک قربانیوں کا بخور جلے گا۔ اگر اُس کا نام قوموں میں  بلند کرنا ہے تو اُس کے لئے کوئی قربانی بھی دی جا سکتی ہے ۔

متی 24: 14 میں یسوع کا وعدہ یقینا پورا ہو گا بادشاہی کی خوشخبری کی منادی دنیا  کی تمام قوموں میں ہو گی کیا ہم اپنی نسل میں اس مقصد کے  پورے ہونے کے لئے ضروری  قربانیاں دینے کو تیار ہیں ۔

Share on facebook
Share on twitter
Share on linkedin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے