1 – پھل پر نظر- مختصر جائزہ 2021
– ٹریور لارسن –
جب میں کالج میں داخل ہوا تو میں خُداوند سے ملا اور پھر کالج کے سالوں کے دوران میں روحانی طور پر بڑھتا گیا ۔خُداوند نے مجھےمختلف تہذیبوں اور ملکوں سے تعلق رکھنے والے روم میٹ دئیے جنہوں نے دنیا کی زندگی میں میری دلچسپی ختم کر کے رکھ دی ۔بعد میں میں ریاضی کا استاد اور ریسلنگ یعنی کُشتی کا کوچ بن گیا ۔میں نے جانا کہ کوچنگ نے میری خدمت اور منادی پر گہرا اثر ڈالا ۔ایک کوچ ایسے سوالات پوچھتا ہے جیسے آپ دوسروں کی کیسے مدد کر سکتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہوںاُس میں ذیادہ سے ذیادہ موثر بن جائیں ؟ اب میں جنوب مشرقی ایشیائی معاشروں میں مقامی تحریکوں کو ذیادہ سے ذیادہ موثر بنانے، چرچز کے قیام اور قیادت کی راہنمائی میں معاونت فراہم کر رہا ہوں۔ پڑھانے اور کوچنگ کے بعد میں سیمنری چلا گیا ۔ جہاں میں نے کمبوڈیا ، ویت نام اور لاؤس سے آنے والے بہت سے مہاجرین میں منادی کی یہ وہ لوگ تھے جو ابھی جنگ کے میدانوں سے وہاں پہنچے تھے اور اُن کے پاس لاکھوں لوگوں کے مارے جانے کی کہانیاں تھیں ۔ان مہاجروں کو امریکہ کے 10 شہروں میں بسایا گیا تھا جن میں وہ شہر بھی شامل تھا جہاں میں سیمنری میں موجود تھا ۔
میں نے 15 اور سیمنری کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ٹیمیں تشکیل دیں جو اُن زبانوں کے گروپوں کے مطابق بنائی گئی تھیں جن پر ہم توجہ دے رہے تھے ۔میں نے یہ جانا کہ مقامی جنوب مشرقی ایشیائیوں کو دوسرے لوگوں کو شاگرد بنانے کے لئے متحرک کرنا بھی بہت اچھا تھا ۔میں اس حقیقت کو جان کر حیران رہ گیا کہ ایسے لوگ جن کے بارے میں ہم سمجھتے تھے کہ وہ ہم سے منادی حاصل کر رہے ہیں اور ہم سے تربیت لے رہے ہیں ، دراصل نئے چرچز کا قیام کرنے لگے تھے نہ صرف اپنے شہر میں بلکہ اپنے رشتہ داروں کے ذریعے کمبوڈیا میں بھی ۔ہم نے اُسی وقت کئی نسلوں کے چرچز کی سوچ اپنائی جو آج تک چل رہی ہے میں 7 سال تک کیلیفورنیا میں پاسٹر رہا اور پھر اُس کے بعدمیں 1993 سے 28 سالوں تک ایشیا کی ایک سیمنری میں تعلیم دیتا رہا ہوں۔ میں 15 سیمنریوں میں جو ایک دوسرے سے منسلک ہیں ،ڈاکٹر یٹ اور ماسٹر کی سطح کی تعلیم دیتا ہوں یہ ہی اُس ملک میں ویزہ حاصل کرنے کے لئے میری وجہ ہے ۔لیکن ہم 22 سال پہلے نارسا قوموں میں کام کرنے کے لئے متحرک ہوئے اور ہم نے اکثریتی مذہب کے نارسا گروپوں پر توجہ مرکوز کی ۔ میں نے مقامی چرچ قائم کرنے والوں کی ایک تنظیم قائم کی جن کا کام ہمارے ملک کے نارسا گروہوں تک پہنچنا تھا یہ میری زندگی کا ایک اہم کام بن گیا جب کہ ساتھ ہی ساتھ میں سیمنری میں تعلیم بھی دیتا رہا ۔
کچھ لوگ اس قسم کے غیر روایتی چرچ کا تصور قبول کرنے میں مشکل کا شکار ہوتے ہیں یاد رہے کہ سیمنری کا پروفیسر ہوتے ہوئے میں روایتی چرچز اور مختلف فرقوں کے راہنماؤں کے ساتھ بڑی مضبوطی سے منسلک ہوں ۔جو مجھے اپنے چیلنجز کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں لیکن جب میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تو روایتی چرچ بہت پھل لا رہے تھے ۔تاہم 20 سال کے عرصے کے دوران روایتی چرچز کا پھل کم ہوتا چلا گیا اور وہ الجھن اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے چلے گئے ۔ ہمارے تناظر میں صورت حال سن 2000 کے بعد سے ذیادہ بدلی جب بنیاد پرستی بڑھتی چلی گئی اور روایتی چرچ نئی صورت حال میں اپنے طور طریقے بدلنے میں سُست رفتار رہے ۔ وہ اس مایوس کُن صورتحال کے بارے میں مجھ سے بات کرتے رہے ۔
نارسا قوموں کے گروہوں میں روایتی چرچ پھل لانے میں ذیادہ کامیاب نہیں تھے۔ اِس لیے 1998 میں ہم نے سیمنری کے چار نوجوان تحصیل شدہ طُلبا کے ساتھ خاموشی سے ایک تجربہ شروع کیا تاکہ ایک نیا نمونہ استعمال کرنے کی کوشش کے ذریعے نارسا قوموں میں بہتر نتائج لائے جا سکیں ۔ اس چھوٹی سی منادی کی ٹیم کا لایا ہوا پھل بڑھتا چلا گیا جب کہ مقامی روایتی چرچز کے راہنما مجھے بتاتے رہے کہ اُن کا پھل کم ہوتا چلا جا رہا ہے ۔میں نے دیکھا کہ یہاں 2 مختلف دنیاؤں کا ٹکراؤ ہو رہا ہے : دو مختلف گروہ ،دو مختلف طریقوں سے خُداوند کی خدمت کرتے ہوئے بہت مختلف نتائج پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ہی میرا پس منظر ہے میں خدمت کے دونوں نمونوں کی کہانیاں سمجھتا ہوں روایتی چرچز اور ہماری ٹیم کے شروع کئے ہوئے ایسے چرچز جو کسی چار دیواری میں قائم نہیں ہوتے ۔
قصہ مختصر ، میں نے مقامی منادوں کے ساتھ آغاز کیا جو میرے خیال کے مطابق اکثریتی مذہب میں منادی کے لئے بہترین تھے۔ پھر میں نے چار کُل وقتی مقامی منادوں کو تربیت دی جو ہمارے اس تجرباتی نمونے پر کام کر رہے تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم صرف ان ہی لوگوں کا شمار رکھیں گے جو اکثریتی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں کیو نکہ ہم اُن لوگوں کو شمار کر کے کامیابی حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے جن تک رسائی آسان تھی ۔ہمیں پہلے پانچ ایمانداروں کے ایک مختصر سے گروہ تک رسائی حاصل کرنے میں 3 سال لگ گئے ۔ پھر ہمیں مزید 22 گروپ بنانے کے لئے 4سال تک جدوجہد کرنا پڑی۔ اس دوران ہم یہ بھی سمجھ گئے کہ کون سے طریقے موثر ہیں اور کون سے طریقے بے کار ہیں ۔ان میں سے ذیادہ تر گروپ پہلی نسل کے گروپ تھے جن کی قیادت ہمارے چرچز کا قیام کرنے والے خادم کر رہے تھے ۔تب تک منادی کے کام نے مقامی راہنماؤں میں جڑ نہیں پکڑی تھی مزید 52 گروپ بنانے میں 3 اور سال لگے اور اُس دوران ہم پھل لانے والے طریقہ کار کی دریافت کرتے چلے گئے۔ پھر اگلے 2 سالوں میں ہماری منادی کے نتیجے میں 110 گروپ تشکیل پا چُکے تھے اُس وقت ہم یہ جان کر حیران ہو گئے کہ ایمانداروں کے گروہ بہت تیزی سے دوگنے ہوتے جا رہے ہیں اور ہم تب بہت حیران ہوئے جب ہم نے دیکھا کہ تیسری نسل کے پہلے گروپ تشکیل پا چُکے ہیں۔ تب ہم سمجھے کہ ہماری منادی مقامی تہذیب اور مقامی راہنماؤں میں جڑ پکڑتی جا رہی ہے ۔
امریکہ جاتے ہوئے جہاز کے سفر میں میں اُن 110 گروپوں کا شمار کر رہا تھا جنہیں میں نے ایک کانفرنس میں کیس سٹڈی کے طور پر پیش کرنا تھا ۔ جب میں نے اُن اعداد و شمار کا جائزہ لیا جو مجھے ائیر پورٹ پر دئیے گئے تھے ۔تو میں نے جانا کہ ہماری رفتار دُگنی ہو چُکی ہے اور میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے یہ تعداد دُگنی ہونے میں 2006 سے 2008 تک کا عرصہ لگا اور یہ اُس مقابلے میں کم تھا جو اُس سے پہلے ہوتا رہا ۔میں سوچنے لگا ، ” واہ کیا ہی بات ہے اگر ہم گروپوں کی تیسری نسل تک پہنچ چُکے ہیں تو آٹھویں نسل تک پہنچنے کے لئے ہمیں کیا چیز روک سکتی ہے ؟کیا یہ ایک مسلسل بڑھتا جانے والا نظام بن سکتا ہے ؟ اس مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کے راستے میں کیا رکاوٹیں آ سکتی ہیں ؟
سال 2000 میں پہلے گروپ کے بعد سے یہ تحریک ہزاروں گروپوں کی صورت اختیار کر چُکی ہے ۔جو تحریکوں کا ایک خاندان بن گئی ہے بہت سے مختلف نارسا قوموں کے گروہوں میں ایک ہزار یا ذائد ایماندار ہیں جو کہ کم از کم 6 نسلوں میں تقسیم ہیں۔ یہ سب لوگ اُن بہت سے ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں جو ایشیا کے ایک ملک سے نکل کر جانے والے محرکین کی کوششوں کا ثمر ہیں ۔ یہ انتہائی حیرت انگیز بات ہے کیونکہ میرا ابتدائی مقصد ، میری پوری زندگی کا ہدف صرف 200گروپ تھے جو اُس وقت بھی تقریباً ناممکن لگتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ خُداوند آپ کو ابتدا کرنے کے لئے ایک تعداد دیتا ہے اور پھر اگلی حدوں تک جانا آپ کی اپنی سوچ اور تصور پر انحصار کرتا ہے اور ابتدائی چھوٹے سے ہدف کے پیچھے جاتے ہوئے آپ ایک ایسا نظام تشکیل دے سکتے ہیں جو کہ بعد میں وسیع تر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک ایسے نظام کو جو ثمر آور طریقہ کار کے خواص رکھتا ہو اور مسلسل وسعت پانے کا حامل ہو ، ہم قابلِ حصول نظام کہتے ہیں ۔