Categories
حرکات کے بارے میں

دعا کے بارے میں دو اہم اسباق

دعا کے بارے میں دو اہم اسباق

“دی کنگڈم اَن لیشڈ” نامی کتاب سے اقتباسات

مصنفین  جیری ٹروس ڈیل  اور گلین سن شائن کی اجازت سے

ہم نے دنیا کے نسبتاً پس ماندہ جنوبی حصے میں موجود ساتھی ایمانداروں سے دو اہم سبق سیکھے ہیں ۔ پہلا یہ کہ ترقی یافتہ ،شمالی حصے کے چرچ اُتنی دعائیں نہیں کرتے جتنی ضروری ہوتی ہیں ۔ دوسرا یہ، کہ جب ہم دعا کرتے ہیں تو عموما ًہماری ترجیحات وہ نہیں ہوتیں جو خُدا کی ترجیحات ہوتی ہیں ۔ آئیے اس باب میں ان دو اہم  اسباق پر گفتگو کریں ۔ دعا ،یسوع کی زندگی اور خدمت کا مرکز تھی ۔ ایک ربّی ہوتے ہوئے ،یسوع ایک دن میں کم ازکم 3 مرتبہ دعا کرتا تھا، جس کی بنیاد رسمی مناجاتوں پر ہوتی تھی ۔لیکن انجیل ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ وہ اکثر دعا کے لئے بیابان میں جاتا تھا  ،جہاں وہ اکثر پوری رات دعا میں گذاردیتا تھا۔اس کی مثال ہمیں مرقس  1: 35-39میں ملتی ہے     ، جب اُسے اپنی منادی کی سمت متعین کرنے کے لئے فیصلہ کرنا تھا ۔ ایک اور ایسی ہی مثال بارہ شاگردوں کا تقرر کرتے وقت کی ہے ۔ اس سے فوری طور پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ یسوع ،جو   خُدا باپ کے ساتھ مکمل اور بے روک ٹوک رفاقت کے رشتے میں بندھا ہو ا تھا ، اگر اُسے دعا میں اتنا زیادہ وقت گذارنے کی ضرورت تھ،ی تو ہمیں روح القدس کی راہنمائی اور  قوت حاصل کرنے  کے لئے  کتنی زیادہ دعا ؤں کی ضرورت ہو گی ؟

عمیدہ کی دعا

یسوع مسیح کے دور میں راسخ العقیدہ یہودی دن میں تین مرتبہ   عمیدہ کی دعا پڑھتے تھے، جسے اٹھارہ مناجاتیں بھی کہا جاتا تھا ۔ وہ اسے ایک مقدس فریضہ جانتے تھے اور ایسا نہ کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا ۔ تاہم یہ دعائیں بہت طویل وقت لیتی تھیں ۔ ربّیوں اور دیگر پیشہ و ر کاہنوں کے لئے تو باقاعدگی سے یہ دعا پڑھنا ممکن تھا، لیکن پوری عمیدہ دن میں تین مرتبہ پڑھنا، ایک ایسے شخص کے لئے بڑا بوجھ تھا جو کوئی نوکری یا کام بھی کرتا ہو، اور جس پر خاندان کی ذمہ داریاں   بھی ہوں ۔اس لئے شاگرد ربّیوں سے درخواست کرتے تھے کہ وہ انہیں ان دعاؤں کا ایک جامع خلاصہ دے دیں، تاکہ اس مذہبی فریضے پر عمل کرنا اُن کے لئے ممکن ہو جائے ۔ 

اس تناظر کو جانتے ہوئے ہم وہ صورت حال سمجھ سکتے ہیں جب لوقا کے11  ویں باب میں شاگرد اُس کے پاس آئے اور اُس سے درخواست کی کہ وہ انہیں دعا کرنا سِکھائے،  جیسے یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اپنے شاگردوں کو سِکھایا تھا۔  شاگرد دراصل  عمیدہ کے مرکزی نکات جاننا چاہتے تھے تاکہ وہ دن میں تین مرتبہ دعا پڑھ سکیں  ۔یسوع نے اس کے جواب میں انہیں  خُداوند کی دعا دی ،جو بہت حد تک عمیدہ کے اُس خلاصے سے ملتی ہے، جو اُس دور کے بعد سے مروج رہا ۔ تو یسوع کے لئے خُداوند کی دعا دراصل ایک عرق یا لُب لُباب تھی، اُس طویل دعا کا،  جو کہ کی جانی چاہیے ۔نہ صر ف اُس نے یہ دعاپڑھنے کی ہدایت کی بلکہ اس  دعا میں اُس کی دعائیہ ترجیحات کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ اور اس طرح ہمیں ایک نمونہ مل جاتا ہے  کہ ہمیں ہر وقت کیسی دعا کرنی چاہیے۔ یہ دعا دراصل اُس کی ساری خدمت، منادی اور پیغام کا بھی خلاصہ ہے۔

 بہت سے مسیحی  اکثر خُداوند کی دعا کے الفاظ د ہراتے رہتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی جب ہم یہ دعا اپنے الفاظ میں  کرتے ہیں تو ہم اس دعا کے کلیدی نکات کو نظر انداز کر جاتے ہیں ۔یہ بات حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ شرمناک  بھی ہے ۔ پھر بھی اگر ہم یسوع کے الفاظ کا گہرائی میں جائزہ لیں تو ہمیں یہ جاننے  میں مدد مل سکتی ہے   کہ اُس کا زور کس بات پر تھا ۔آیئے خُداوند کی دعا کا باریک بینی سے جائزہ لیں ۔ تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ دعا کے بارے میں یسوع کی تین اہم ترین ترجیحات کیا تھیں :

  • یہ کہ باپ کے نام کو ہمارے آس پاس کی دنیا میں جلال ملے ۔
  • یہ کہ اُس کی بادشاہی پوری قوت اور اختیار کے ساتھ  آئے ۔
  • یہ کہ دنیا کے سارے لوگ خصوصا اُس کے پیروکار، خُدا کی مرضی اور کلام کی فرمانبرداری کریں ۔

اےَ ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے ۔

یسوع کی سب سے پہلی ترجیح خُدا کو جلال دینا ہے۔ ان الفاظ کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے : خُدا کی پاکیزگی اور جلال جیسا کہ آسمان پر ہے یہاں بھی نظر آئے جہاں میں رہتا ہوں !

تیری بادشاہی آئے ۔

دوسری چیز جس کے بارے میں یسوع  ہمیں دعا کرنے کو کہتا ہے ، وہ یہ ہے کہ زمین پر خُدا کی بادشاہی کا پھیلاؤہو ۔ یعنی خُدا کی بادشاہی میری دنیا میں قائم ہو !

تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو ۔ 

” جیسے آسمان پر ” کے الفاظ کا تعلق نہ صرف خُدا کی مرضی پوری ہونے سے ہے ، بلکہ اس سے پہلے کہی گئی تین باتوں سے بھی ہے : ” تیرا نام زمین پر پاک مانا جائے جیسے کہ آسمان پر ہے، تیری بادشاہی زمین پر بھی آئے جیسی کہ آسمان پر ہے، اور میرے اندر بھی خُدا کی بادشاہی ویسا ہی استحکام پکڑے جیسی آسمان پر ہے ۔اور نہ صرف مجھ میں، بلکہ دنیا کی تمام قوموں میں “۔ کیا آپ کو پہلی تین دعاؤں میں  ایک مشترکہ بات نظر آتی ہے ؟ یہ ایک شُکر گزار دل سے نکلنے والی آوازیں ہیں کہ :

  • خُدا کا جلال اُن لوگوں پر آشکار ہو جن کے درمیان میں رہتا ہوں ۔
  • خُدا کی بادشاہی کی سلطنت اور اختیار وہاں پھیلے جہاں میں رہتا ہوں ۔
  • خُدا کی مرضی پر پوری فرمانبرداری سے عمل ہو جہاں  میں رہتا ہوں۔

اگلی تین دعاؤں پر جانے سے پہلے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ ہماری پہلی تین دعائیں یسوع کی دُعائیہ ترجیحات کے ساتھ کتنی مطابقت رکھتی ہیں ۔کیا ان کا تعلق خُدا کے جلال، خُدا کی بادشاہی اور  خُدا کی مرضی سے ہے، یا اس کا تعلق خُدا کی بجائے زیادہ تر ہمارے ساتھ ہے ؟

ہماری روز کی روٹی ہر روز ہمیں دیا کر ۔

خُدا کی بادشاہی کے وسائل اور خزانوں سے ہماری روز مرہ ضروریات پوری ہوتی رہیں ۔ 

اور ہمارے گناہ معاف کر کیو نکہ ہم بھی اپنے ہر قرض دار کو معاف کرتے ہیں ۔

خُدا مجھ گناہ گار پر رحمت کرے اور میں بھی اُس کی دی ہوئی معافی دوسروں تک فیاضی سے پھیلاؤں ۔

اور ہمیں  آزمائش میں نہ لا ۔

خُدا کا روح ہمارے دلوں، ہمارے پاؤں، ہماری آنکھوں اور ہمارے کانوں کو بُرائیوں اور آزمائشوں کی جگہوں سے دور رکھے۔ 

بلکہ برائی سے بچا ۔

روح القدس مجھے شیطان کی جانب سے لائی جانے والی آزمائشوں سے بچائے اور مجھے طاقت دے کہ میں لوگوں کو تاریکی کی سلطنت سے نجات دلا کر خُدا کے پا س لاؤں۔ خُدا کرئے کہ جہاں میں رہتا ہوں وہاں برائی کی قوتوں کو شکست ہو ۔

کیو نکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں ۔ آمین 

یہ حصہ یقینی طور پر یسوع کی اصل دعا کاحصہ نہیں رہا ہو گا ،لیکن یہ اس دعا کی روح سے مطابقت رکھتا ہے ۔ یہ الفاط دراصل اس دعا، بلکہ تمام  دعاؤں کی اصل وجہ ہیں۔ دعا کا مقصد خدا کے جلال کو لانا ہے۔ جدید  انگریزی زبان کے مطابق  اس آخری جملے کا مفہوم اردو میں کچھ اس طرح ہے : ” ہم یہ سب کچھ اس لئے مانگتے ہیں کیو نکہ جب تو یہ دعائیں قبول کرے، تو تیری بادشاہی کی تعمیر ہوتی ہے، اور صرف اور صر ف تیری قدرت ہے  جو یہ سب کچھ ممکن بنا سکتی ہے ،اور جب تو ان دعاؤں کو قبول کرے تو ہمیشہ سے ہمیشہ تک تیرے نام کو جلال ہو گا “

دعا کے بارے میں یسوع کی تعلیمات صرف اسی دعا تک محدود نہیں ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ خُدا کی بادشاہی کے موضوع کے علاوہ، اُس کی تعلیمات دیگر کسی بھی موضوع سے بڑھ کر دعا کے موضوع پر ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اور ابتدائی چرچ کے لوگ زبور اور وہ عظیم دعائیں پڑھتے تھے، جو صدیوں کے عرصے میں لکھی گئیں  اور جو زبور کے الفاظ کا ہی نچوڑ ہیں۔ ہمیں کلام میں کئی اور مقامات پر بھی  گہری اور موثر دعائیں  نظر آتی ہیں، جیسا کہ پولوس کے خطوط میں  بھی ہے ، لیکن ہر دعا دراصل اُنہی دعاؤں اور  ترجیحات کا عکس ہے ۔ جن کا ذکر خُداوند کی دعا میں ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے