Categories
حرکات کے بارے میں

مسلمانوں کے درمیان تحاریک کا آغاز: بہترین طریقہ ہائے کارکی کیس سٹڈی – انطاکیہ کے خاندان کے چرچ

مسلمانوں کے درمیان تحاریک کا آغاز: بہترین طریقہ ہائے کارکی کیس سٹڈی – انطاکیہ کے خاندان کے چرچ

– ولیم جے ڈبیوس –

میرا نام ولیم جے ڈبیوس ہے اور میں انطاکیہ کے خاندان کے چرچز کا شریک راہنما ہوں ،جو مقامی چرچز کی تخم کاری کی تحریکوں کا ایک عالمگیر اتحاد ہے۔ گذشتہ 30 سالوں میں ہم نے پہلی نسل کے ایسے مسیحیوں میں قائدین کی تعمیر پر توجہ مرکوز رکھی ہے  جن کا تعلق اُن ممالک سے ہے  جہاں رسائی مشکل ہے ۔  ہم انہیں ایسے علاقو ں میں گھریلو چرچز کی افزائش کی تربیت میں مدد دیتے ہیں۔میرا آج کا موضوع مسلمانوں  میں چرچز کی تحریکوں کا آغاز ہے ۔

ہمارے گزشتہ بیس سال کے کام کے دوران ہماری کوششیں اکثر بے سمتی ، غلطیوں، اور ناکامیوں کا شکار رہی ہیں ۔تاہم اپنی زندگی میں ایک ذاتی بحران سے گذرنے کے بعد میں نے کچھ ایسا سیکھا ،جس سے ہم کامیابی کے راستے پر گامزن ہو گئے ۔ 2004 میں میں زیر زمین ایرانی گھریلوچرچ کے راہنماؤں کو تیمتھیس کے دوسرے باب کی تعلیم دے رہا تھا۔ اس تربیت کے مکمل ہونے کے بعد مجھے القاعدہ  کے ایک ایجنٹ نے زہر دے دیا اور میں قریب المرگ ہو گیا۔ بہت سے لوگ میرے لئے دعائیں کر رہے تھے اور ڈھائی مہینوں تک ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے چکر لگانے کے بعد میں معجزاتی طورپر صحت یاب ہو گیا ۔ میں اس کے لئے خُدا کا بہت شکر گزار ہوں !

لیکن اس کہانی کا سب سے متاثر کُن پہلو بعد میں سامنے آیا۔ دراصل کئی سال کےبعد ،مَیں افغانستان، عراق اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے چرچز کی تخم کاری کے راہنماؤں کی تربیت کی میزبانی میں شریک تھا۔ تربیت کے ابتدائی مرحلے میں ہم ایک دوسرے کو  اپنا تعارف کروا رہے تھے ۔ تب مجھے پتہ چلا کی چرچز کی بنیاد رکھنے والوں میں وہ شخص بھی تھا  جس نے مجھے زہر دیا تھا ۔ 

اُس لمحے میری سمجھ میں آنے لگا کہ تحریکوں کی افزائش کو محض بین التہذیبی زبانیں اور تہذیب اور ثقافت کو سمجھنے کی اہلیت رکھنے سے بڑھ کر بھی کچھ چاہیے ہوتا ہے ۔ نئے جنم کی قوت ملنے کا آغاز لوگوں کی روحوں کو جاننے سے ہوتا ہے اور خاص طور پر اس معاملے میں ایسے لوگوں کو گہرائی میں جاننے سے، جو برائی اور شیطان کی راہ پر چل نکلے ہوں ۔خدا نے مجھے لوگوں کے دلوں کو سمجھنے کے سفر پر ڈال دیا جس سے میں یہ جاننے کے قابل ہونے لگا کہ مسلمانوں میں تحاریک کا آغاز کرنے کے لئے کیا درکار ہو گا ۔

آج انطاکیہ کے خاندان کے چرچ 157 ملکوں میں 1225 تحریکوں میں سر گرم ہیں اور 748 زبانیں  بولنے والے لوگوں تک رسائی حاصل کر چکے ہیں ۔ان علاقوں میں 23 لاکھ گھریلوچرچز ہیں جن کے بالغ ممبران کی تعداد 4 کروڑ 20 لاکھ ہے۔ خُدا نے جو کُچھ ہم میں اور ہمارے درمیان شروع کیا ، اُس کا آغاز غلط فیصلوں ،ٹوٹے ہوئے جذبوں اور غلط فہیموں کے ساتھ ہوا ۔لیکن خُدا نے اپنے فضل سے ہمیں ایسی  با اثر اور قوی صلاحیتیں  اور موثر اصول سیکھنے میں مدد دی جس کے ذریعے بے انتہاکامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ 

ہماری توجہ تین ترجیحات پر مرکوز ہوتی ہے۔ سب سے پہلی یہ کہ لوگوں کو غلامی سے بچا کر بیٹے بننے کی طرف لایا جائے ۔ غلامی چاہے انسانی تجارت کی شکل میں ہو ،لیکن یہ ہر صورت میں گناہ کی غلامی ہوتی ہے۔ غلامی کی زندگی نسلی امتیاز،  تکلیفوں اور ٹوٹے ہوئے دل کے جذبات سے بھری ہوتی ہے ۔لیکن جب یہ لوگ یسوع مسیح کے ذریعے خُدا کے ساتھ ایک ذاتی رشتے میں جُڑ جاتے ہیں تو وہ زندہ خُدا کے بیٹے اور بیٹیاں اور اُس کے وارث بن جاتے ہیں ۔ سو نئے ایمانداروں کے ساتھ ہمارا رشتہ نسلوں کی بنیاد پر نہیں ہوتا ۔یہ ایک خاندان کی  صورت میں ہوتا ہے، کیو نکہ ہم انہیں مسیح میں بپتسمہ لینے کے بعد چرچ میں، اور پھر دنیا میں بپتسمہ لینے کو کہہ رہے ہوتے ہیں ۔ ہم کسی کو بھی منجی کو جان لینے سے پہلے اپنے دائرے میں شامل ہونے کو نہیں کہتے ۔ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سب سے پہلے وہ ہمارے  منجی سے ملاقات کر لیں ۔ پھر ہم مل کر اس بات کا تعین کرتے ہیں  کہ اُن کی اپنی ثقافت میں چر چ کی ساخت کیا ہونی چاہیے ۔ سو سب سے پہلی ترجیح غلامی سے نجات  دلا کر بیٹے بنانے کی ہے ۔ 

 ہماری دوسری ترجیح لوگوں کو یہ اختیار دینا ہے کہ وہ دوسروں کو مسیحی کی جانب لا سکیں ۔آپ نے سلامتی  کے فرزند کی تلاش کی اصطلاح سن رکھی ہو گی ۔ہمارے طریقہ ِکار کے مطابق ہم سب سے  پہلے ایک بااثر مرد یا عورت کی تلاش کرتے ہیں ۔ اس طریقہ کار کو کرنیلیس کا نمونہ کہتے ہیں ۔ جس کا ذکر اعمال کی کتاب کے10 ویں باب میں ہے ۔ ہم خُدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایسے لوگوں سے ملائے جو اپنے گاؤں  ،اپنے معاشرے یا اپنے ملک پر گہرا اثر و نفوذ رکھتے ہوں۔ ہم اُن تک انجیل کا پیغام لے کر جاتے ہیں ،جس کے بعد وہ اپنی پوری قوم یا سماجی رابطوں سے منسلک سب لوگوں میں  خوشخبری پھیلانے لگ جاتے ہیں ۔ اور پھر جس طرح پولس رسول نے ططس سے ہر چرچ میں پاسبان متعین کرنے کو کہا تھا ، ہم بھی اپنے ہر کرنیلیس کو یہ کہتے ہیں کہ وہ ہر گھریلو چرچ میں راہنما تیار کریں۔ اس طرح ہماری خدمت ایک سے دوسرے چرچ تک پھیلتی چلی جاتی ہے ۔یہ کسی تنظیم سے چر چ کا رابطہ نہیں ہوتا بلکہ ایک مقامی چرچ کسی دوسرے مقامی گھریلوچرچ کے ساتھ شراکت کر کے خُدا سے پوچھتا ہے کہ کیا کرنے کی ضرورت ہے، اورپھر دونوں مل کر وہ کام کرتے ہیں ۔ 

پھراس کے بعد ہماری تیسری ترجیح آتی ہے جو کہ  افزئش ہے۔ تیمتھیس 2:2 کے مطابق ہماری ذمہ داری ہے کہ جو باتیں ہم نے بہت سے گواہوں کے سامنے سُنی ہیں اُن کو ایسے دیانت دار آدمیوں کے سپُرد کریں جو اوروں کو بھی سِکھانے کے قابل ہوں۔ یہ تین نسلوں تک کی افزائش ہے۔ ہم نے یہ جان لیا ہے کہ اگر ہم راہنماؤں کی نسل در نسل افزائش کریں تو اُس کے ذریعے ہم تحریکوں کی افزائش کر سکتے ہیں۔ ہماری قیادت کی تربیت محض تعلیم کی بجائے فرمانبرداری پر مبنی ہوتی ہے ۔ میں آپ کو اس کی ایک مثال دوں گا۔ کئی سال پہلے ہم نے ایک بڑے شہر میں ایک نئی خدمت کا آغاز کیا  اور ہمیں ایک ایسا شخص ملا جو روحانی چیزوں میں دلچسپی رکھتا تھا ہمارے ایک کارکن نے اُس کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا اور جلد ہی وہ یسوع کے بارے میں پوچھنے لگا  ۔لیکن اُسے بادشاہی کا تصور گہرائی میں سمجھانے سے پہلے ہم نے اُس سے کہا کہ وہ اپنے پانچ دوست تلاش کر کے لائے۔ 

مقصد یہ نہیں تھا کہ اُن پانچ دوستوں کو گھریلو چرچ کی میٹنگ میں صرف شریک کر لیا جائے۔ بلکہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ اُن میں سے ہر ایک کی راہنمائی  ہمارا یہ کرنیلیس کرے ۔پھر اُس کے بعد وہ  پانچ اس پیغام کو مزید پانچ  دوستوں کو سُناتے اور وہ پانچ اپنے مزید پانچ دوستوں کو یہ خوشخبری دیتے۔ سو ابتدا سے ہی ہماری خدمت افزائش کی بنیاد پر قائم تھی ۔

ان تین ترجیحات – نجات ، اختیار اور افزائش کے ذریعے، ہم نے یہ جانا کہ ہم اُن لوگوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو مسیح کی جانب آ رہے ہوتے ہیں۔ سو انہیں محض ایمان کے بیان سِکھانے کی بجائے ہم اُن سے بڑے موثر  سوالات پوچھنے سے ابتدا کرتےہیں ۔ جو تین سوالات ہم اُن سے پوچھتے ہیں وہ یہ ہیں ، ” کون روح کے لئے پیاسا ہے ؟ وہ روح کی تلاش کب کر رہے ہیں ؟ اور وہ روحانی طور پر کہاں متوجہ ہیں ؟” اس کے ذریعے ہم اُن لوگوں کے تہذیبی اور روحانی پس منظر اور صُورت ِ حال سے آگاہی حاصل کر تے ہیں جن کی ہم خدمت کرنا چاہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ایسٹر کا موقع مسلمانوں کے لئے کوئی  مذہبی حیثیت یا تقدیس کا حامل نہیں ہے  کیو نکہ وہ ابھی تک مسیح کو جان نہیں سکے ہیں ۔ ہم نے یہ جانا کہ دراصل سا ل بھر میں رمضان کا مہینہ ایک ایسا اہم وقت ہے جب ہم مسلمانوں کو خوشخبری سُنا سکتے ہیں۔ کیوں ؟ کیو نکہ یہ وہ مہینہ ہوتا ہے جب وہ خُدا کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں ۔ ماناکہ  وہ کوئی اور خُدا ہے کیو نکہ وہ یسوع مسیح خُدا کے بیٹے کو تلاش نہیں کر رہے ہوتے، تاہم وہ کسی  نہ کسی طرح سے ثواب کمانے کے خواہش مند ہوتے ہیں تاکہ خُدا انہیں قبول کرلے ۔ سو انہیں ایسٹر سے متعارف کروانے کے بجائے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اُن کے ساتھ چلیں، اُن کے روحانی  نظام الاوقات کو سمجھیں اور اُن کے لئے دعا کریں جو روح کی پیاس رکھتے ہیں۔ اس طرح ہم یہ جان جاتے ہیں کہ اُن کی پیاس کس کے لئے ہے اور اُن کی توجہ کا  مرکز کیا ہے۔ پھر روحانی گفتگو کے بعد ہم ایک کرنیلیس کی تلاش کرتے ہیں ۔ ہم اُس سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے دوستوں کو تلاش کرے اورپھر اس طرح سے افزائش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔

ہم اپنے راہنماؤں کو کلام یا کلیدی آیات کے ترجمے فراہم کرتے ہیں۔  اکثر ہم انہیں وائی فائی باکس بھی مہیا کرتے ہیں ۔  تاکہ وہ محض ایک بٹن دبا کر جیزس ( Jesus)فلم یا نئے عہد نامے کے کچھ حصے مخصوص زبانوں میں نشر سکیں   ۔اگر وہ قوم ابھی تک نارسا ہو تو ہم اپنی ٹیموں کو موبائل بیک پیک بھی دیتے ہیں تاکہ اگر وہ کسی گاؤں میں ہوں تو وہ ایک وقت میں لگ بھگ 300 سو لوگوں کو جیزس(Jesus) فلم دِکھا سکیں۔ اور اس کے ساتھ ہم انہیں لوگوں کے ساتھ روحانی گفتگو کرنے کے  آغاز کی بھی بہت زیادہ تربیت دیتے ہیں  تاکہ اُن لوگوں میں یہ خواہش ابھرے کہ وہ اُس خُدا کوجانیں جو انہیں نجات دے سکتا ہے ، انہیں  اختیار حاصل ہو اور پھر وہ اپنے اثر کی افزائش کر سکیں۔ اس طرح وہ خُدا، یسوع سے مل جاتے ہیں جو انہیں اُن کے گناہوں کی  معافی دینے پر قادر ہے۔

یہ سب کچھ کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی پتا چلا کہ اگر ہم مل کر دعا کریں اور مناجات کے لئے ٹیمیں تشکیل دیں تو ایسے لمحات میں بھی بہت بہترین مواقع مل سکتے ہیں ۔ رمضان کے اختتام کے قریب رمضان کی 27 تاریخ کو ایک بہت خاص موقع ملتا ہے جسے شبِ قدر کہتے ہیں ۔       دنیا بھر کے مسلمانو ں کا ایمان ہے کہ اس ایک رات میں کی گئی دعائیں عام دنوں میں کی گئی دعاؤں سے  ہزاروں گنا زیادہ موثر ہوتی ہیں ۔   اُس رات میں وہ خُدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ خود کو اُن پر آشکار کرے۔وہ خُدا سے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں اور وہ اپنی خواہشوں اور ضروریات کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں۔ سو ہم اپنے لوگوں کو اُن لوگوں میں شامل ہونے کے لئے بھیجتے ہیں جو ایسے خدا کو تلاش کر رہے ہیں جسے وہ نہیں جانتے۔ اس طرح ہم انہیں اُس خُدا سے متعارف کرواتے ہیں جسے ہم واقعی جانتے ہیں ۔

19 مئی 2020 کو ایک ارب سے زیادہ مسلمان اپنے گھروں میں روزے رکھنے اور دعا کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ۔سن 622 عیسوی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ مسجدیں کرونا وائرس کی وجہ سے بند تھیں ۔ انہوں نے اُس شبِ قدر میں خُدا سے گناہوں کی معافی کے لئے خاص دعا کی۔ اُسی وقت 57 1ممالک میں 3کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ یسوع کے ماننےوالے، جو اُس سے پہلے مسلمان تھے، یہ آواز بلند کر کے دعا مانگنے لگے کہ واحد سچا زندہ خُدا نشانیوں، معجزوں، نبوتوں اور رویا کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں پر آشکار ہو۔ انہوں نے روح القدس کی قوت سے پہلی مرتبہ یہ دعا کی کہ مسلمان اُس رحم، محبت اور معافی کو سمجھ سکیں جو صرف یسوع مسیح میں ملتی ہے ۔اور معجزے کی اس رات میں خُدا نے ہماری دعائیں سُن لی ۔

جب ہم متفق ہو کر دعا کرنے کے لئے آسمانی تخت تک پہنچتے ہیں ہم یسوع کو اپنی ترجمانی کرنے کے لئے التجا کرتے ہیں –تو اس کے ذریعے ہمیں صحیح وقت اور صحیح مقام پر روحانی گفتگو کرنے کی اہلیت حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے بعد ہم توقع کر سکتے ہیں کہ معجزے رونما ہونے لگیں گے۔میں آپ کو ایک واقعہ سُنانا چاہتا ہوں  جو اس سال رمضان کے مہینے میں پیش آیا ۔ ہم نے اُس دوران کئی گاؤں اور دیہات میں اپنی ٹیمیں بھیجیں اور خُدا سے دعا کی کہ وہ ہمارے لئے دروازوں اور دلوں کو کھولے۔ ایک ٹیم ایک ملک میں گئی ( میں معذرت چاہتا ہوں کہ سیکیورٹی کی  وجوہات کی بنا پر میں اُس ملک کی   تفصیلات سے آپ کو آگاہ نہیں کر سکتا ) اور وہاں وہ ایک ایسے گاؤں میں پہنچے جہاں  کسی نے انہیں قبول نہ کیا  ۔کسی نے اُن کے لئے دروازہ نہ کھولا اور  نہ ہی کسی نے انہیں مہمان بنایا ۔

دن کے اختتام تک ساری ٹیم کا حوصلہ بہت پست ہو چکا تھا ۔ وہ گاؤں سے باہر جا کر ایک درخت کے نیچے بیٹھے اور خود کو گرم رکھنے کے لئے آگ کا الاؤ روشن کر لیا ۔انہوں نے دعا کر کے خُدا سے یہ پوچھنا شروع کیا کہ انہیں اُس گاؤں میں کامیاب آغاز کرنے کے لئے کیا کچھ کرنا ہو گا ۔ پھر رات ڈھلی تو وہ سب سو گئے۔ کچھ دیر بعد وہ سب جاگ اُٹھے اور ایک راہنما نے ایک بھڑکتی ہوئی آگ اپنی جانب آتے دیکھی۔  ہوا یہ کہ 274 لوگ اپنے ہاتھوں میں مشعلیں تھامے اُن کی جانب آ رہے تھے ۔ پہلے تو ساری ٹیم خوف کا شکار ہو گئی۔ حتیٰ کہ  ایک نے کہا ،” دیکھو ہم تو دعا کر رہے تھے کہ ہمیں اس گاؤں میں جا کر یسوع کی خوشخبری دینے کا موقع ملے، پر اب پورا گاؤں ہی ہماری طرف آ رہا ہے !” 

اُن کے قریب پہنچ کر اُن 274 لوگوں میں سے ایک آگے بڑھا اور کہا ،” ہم نہیں جانتےتم کون لوگ ہو ، ہم نہیں جانتے کہ تم کہاں سے آئے ہو  اور آج جب تم ہمارے گاؤں میں آئے تو ہم نے اپنے گھروں کے دروازے تمہارے لئے نہیں کھولے ۔لیکن آج رات ہم سب نے ایک ہی خواب دیکھا ۔ اُس خواب میں ہمیں ایک فرشتہ نظر آیا جس نے ہم سے کہا ” یہ لوگ جو تمہارے گاؤں میں آئے ہیں ان کے پاس سچائی ہے ۔ جاؤ اور اُن سے پوچھو اور جو کچھ وہ کہیں و  ہی کرو”۔

یہ ہی وہ خاص لمحہ تھا :صحیح لوگوں کے ساتھ، صحیح وقت پر اور صحیح مقام پر روحانی گفتگو کا آغاز ہو ا ،اور رات ختم ہونے سے پہلے گاؤں کے تمام گھروں   سے آنے والے 274 سربراہوں نے اپنا مذہب چھوڑ کر ایمان قبول کر لیا اور یسوع کے ساتھ رشتہ جوڑ کر چلنے کا فیصلہ کیا ۔یہ ہوتی ہے دعا اور صحیح  مقام پر روحانی گفتگو کی طاقت ۔

آخر میں مَیں آپ کو مسلمانوں کے درمیان تحریکوں کے آغاز کے بارے میں ایک اور کہانی بھی  سُنانا چاہتا ہوں ۔اس کے پیچھے یہ تصور کار فرما ہے  کہ مسیحی کارکن یا مشنری  اس چیز کا ذمہ دار نہیں ہے کہ وہ چرچ قائم کرے ۔اُس کی ذمہ داری ایک کرنیلیس  کی تلاش کر کے اُسے مہارتوں سے آراستہ کرنا اور تربیت دینا ہے، جو خود اس کام کی افزائش کر سکے ۔کئی مہینے پہلے کچھ راہنما میرے پاس آئے اور کہنے لگے، “کچھ ایسے گاؤں ہیں جہاں تک ہم رسائی حاصل نہیں کر سکے اور عمومی طریقے استعمال کر کے ہم اُن تک کبھی رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ سو ہم نے دعا کی اور ہم نے محسوس ہوا کہ روح القدس ہم سے کہہ رہا ہے کہ ایسی ٹیمیں مخصوص کر لیں جو صحرا کے پار جا کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام نارسا لوگ خوشخبری سُن لیں “۔

میرے اور آپ کے پاس موقع ہے کہ ہم مسلمانوں کے درمیان تحریکوں کا آغاز کریں ۔اس کی ابتدا اُن لوگوں کی تربیت سے ہوتی ہے جو اُس مقام اور اُس تہذیب سے قریب تر ہوں۔ ہم ایک کر نیلیس کی تلاش کرتے ہیں جسے ڈھونڈ کر ہم اُسے وقت اور تربیت دیتے ہیں ۔   پھر یہ شخص یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ ہم کس طرح اُس کے دوستوں کو متحرک کر کےمزید دوستوں کو خوشخبری سُنا سکتے ہیں ۔ یہ مقام  مشرق وسطیٰ کے صحراؤں میں بھی ہو سکتا ہے، جہاں  اونٹوں پر بھی بیٹھ کر جانا پڑےگا۔ اگر ہم خود سامنےآنے کی بجائے مقامی چرچوں کو وہ اختیار دیں کہ وہ خُدا کی دی ہوئی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو سکیں تو ہم ایسے برنباس بن جاتے ہیں جو اُن شاگردوں کو تعاون فراہم کرتے ہیں جو بھیجے جانے والے ہوتے ہیں۔ سو میں یہ کہوں گا کہ ہماری ذمہ داری لوگوں کو تربیت کے ذریعے  وسائل اور مہارتوں سے آراستہ کر کے اعتماد قائم کرنا ہے ۔ وہ راہنما متعین کریںگے اوردوسری قوموں میں  خوشخبری پھیلانے کے لئے  چرچز کی تخم کاری کر کے اُن کی افزائش کریں گے ۔ 

مختصراً یہ ،کہ  میرا خیال   ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تحریکوں کا  آغاز اسی طرح سے  بہترین طور پر ہو سکتا ہے ۔سب سے پہلے اعمال کی کتاب کا ماحول  تخلیق کر کے اعمال  کی کتاب جیسی ابتدائی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے درمیان تحریکوں کے آغاز کے لئے ہمیں اپنے بیانیے میں  ترمیم کرنی چاہیے  تاکہ روح القدس کی راہنمائی میں ہم صحیح لوگوں کو صحیح وقت اور صحیح مقام پر چھو سکیں ۔

اس کی بجائے کہ ہم لوگوں کو اپنے چرچ میں شامل ہونے پر زور دیں، ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں یسوع مسیح میں بپتسمہ دے کر یہ دریافت کرنے کے لئے چھوڑ دیں کہ اُن کا اپنا چرچ کیسا ہونا چاہیے۔ ضرورت ہے کہ ہم  خُدا سے ایک کر نیلیس کے لئے دعا کریں جو کوئی بھی بااثر مرد یا عورت ہو سکتا ہے۔   پھر وہ  اپنے پہلے سے موجود بااثر تعلقات کو استعمال کر کے خُدا کی بادشاہی کی افزائش کرے۔ جب آپ مسلمانوں کے درمیان تحریکوں کے آغاز کا سوچیں تو میں چاہوں گا کہ آپ تربیت کے ذریعے مہارتیں فراہم کریں اور اعتماد کی فضا قائم کریں۔  ایک ہی چرچ ہو جو قریبی چرچوں کے ساتھ منسلک ہو تاکہ مل کر آپ نارسا اور غیر سرگرم قوموں تک پہنچیں اور یہ دیکھیں کہ ایک کرنیلیس آپ کے ساتھ مل کر کس طرح خُدا کی بادشاہی کی افزائش کرتا ہے ۔ خُدا کا فضل آپ پر ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے