Categories
حرکات کے بارے میں

تحریک کی سوچ اپنانے کی جانب میرا سفر

تحریک کی سوچ اپنانے کی جانب میرا سفر

ڈگ لوقس

صدر، Team Expansion –

مجھے یاد ہے کہ 1978 میں، مَیں اپنے اُس وکیل کو    Team Expansion کے بارےمیں سمجھانےکی کوشش کر رہا تھا ،جو ہمیں رجسٹرڈ ہونے میں مدد  رہا  تھا۔ یہ آسان کام نہیں تھا ۔ ہم انفرادی سوچ رکھنے والے افراد کا ایک گروہ تھے جن کا مرکزِ نگاہ مختلف مقامات تھے۔ لیکن ہمارا یک مشترک نصب العین تھا : چرچ کی تخم کاری ۔

تقریبا 35 سال تک میں Team Expansion کے صدر کی حیثیت سے مشکل اور اُلجھن کا شکار رہا ۔ آخِر2013 میں مَیں نے مشنز کے لئے ایک مختلف حکمت عملی کے بارے میں سُنا اور مجھ پر سب کچھ واضح ہو گیا ۔ اب میں اپنے سفر میں پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں، تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مجھے اس حکمتِ عملی کو قبول کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا  ۔یہ اس قدر مشکل کیوں تھا ؟ میں ذاتی طور پر اس تبدیلی سے کیسے گزرا ؟ اور اب ایک تنظیم کی حیثیت سے ہم ان حکمتِ  عملیوں کے اطلاق کی کوشش کیسے کر رہے ہیں ؟ 

پہلی بات یہ کہ تحریک کا تصور میرے لئے ایک دھندلا سا تصور تھا، جس کے لئے کوئی حقیقی حوالہ دستیاب نہیں تھا ۔  اور جو کچھ لوگ بتاتے تھے، وہ کچھ زیادہ ہی سادہ اور آسان لگتا تھا۔ یقینا اگر ہمیں صرف اعمال کی کتاب کے مطابق ہی زندگی جینا تھی تو ہمیں یہ سمجھنے کے لئے 19 صدیاں کیوں لگیں ؟  میں خود سے پوچھتا تھا : ” اگر واقعی ہزار سے زائد تحریکیں سر گرم ہیں جن میں لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں کارکن موجود ہیں ، تو وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتیں ؟ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ان اعداد وشمار میں مبالغہ نہ ہو ؟ ” میں یہ بھی سوچتا تھا :” اگر ایشیا اور افریقہ سے آنے والی خبریں سچی ہیں ، اگر یہ سب اتنا آسان ہے ،تو پھر شمالی امریکہ اور یورپ میں یہ سب ممکن کیوں نہیں ہو رہا ؟”

اس کے ساتھ ساتھ میں خود کو یہ دلیل بھی دیتا تھا کہ ہمارا مرکز نگاہ ایک نیوکلیائی مرکزی گروپ رہا ہے : سَو لوگوں کا ایک گروپ جو کسی کرائے کی یا خریدی ہوئی عمارت میں اکٹھا ہوتا ہے۔ مجھے دی گئی تربیت کے مطابق چرچ ایک ایسی تنظیم تھا ،جس کا اپنا  عملہ ہو، اپنے چلائے جانے والے پروگرام ہوں  اور اُس کا ایک بجٹ ہو۔ کئی سال کی تربیت نے مجھے ایک ہی تصور کے لئے تیار کر رکھا تھا : چرچ کا ایک ” معیاری ” نمونہ۔ یہ تمام تصورات میرے ذہن میں اس حد تک  راسخ ہو چکے تھے کہ اس ٹھوس سانچے کو توڑنا مشکل تھا ۔

سو پھر مجھ میں اور میری تنظیم میں کیا تبدیلی آئی ؟ ذیل میں دیئے گئے عناصر نے نظریات کو تبدیل کیا : 

  1. ایک تجویز کنندہ :  ایک شخص جِس پر میں اس مقصد کا علمبردار ہونے کی حیثیت سے بھروسہ کرتا تھا ۔ وہ ہمارا ایگزیکٹووائس پریذیڈنٹ تھا ۔ ایرک میرا عُمربھر کا دوست ہے ۔میں کھوئے ہوؤں تک رسائی کے لئے اُس کے جذبے اور عزم کا احترام کرتا ہوں ۔ جب میں پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں کہ اُس نے کیسے میری سوچ کو جیت لیا تو میں اُس کے چند ایسے کام بھی دیکھ سکتا ہوں جنہوں نے میری بہت مدد کی ۔
  2. صبر وتحمل – یہ تجویز کنندہ میری زبان بولتا تھا اور  مُجھے متاثر کرناجانتا تھا ۔ اُس نے مجھے لیکچر نہیں دیئے اور نہ ہی مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ اُس نے مجھ سے اجازت چاہی کہ وہ ہماری تنظیم میں سے چند منتخب کارکنان کو تربیت دے ۔ہم نے اُس کی پیش کش بخوشی قبول کی ۔  اُس نے مجھے اس عمل میں شامل کرنے کے لئے کئی مرتبہ اُن تربیتی مجالس میں آنے کی دعوت دی۔ اُسے اپنا راستہ بناناآتا تھا ۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اگر میں اس نئے انداز کی تربیت   کی تائید اور حمایت نہ کرتا اور اُس میں اُن کارکنان کو خوش آمدید کہتا ؟ لیکن پھر بھی میں مزاحمت کرتا رہا۔ کئی مہینوں تک میں یہ سب کچھ دیکھتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ۔لیکن میں خود سے پوچھتا رہا  آخِر    یہ سب ہے کیا ؟ 
  3. برداشت: اُس تجویز کنندہ نے کبھی میری جانب سے ہار نہیں مانی ۔اُسے پکا یقین تھا کہ اگر  تنظیم کا بانی اور CEO اس تبدیلی  کے حق میں ہو   گا  توہماری تنظیم تحریک کی سوچ آسانی سے اپنا لے گی ۔ میں کوئی ایسا CEOنہیں ہوں  جو تمام فیصلے خود ہی کرتا ہو۔لیکن وہ جانتا تھا کہCEOکی حمایت حاصل کرلینے کا فائدہ کیا ہے۔ وہ کبھی میری جانب سے مایوس نہیں ہوا ۔ مجھے یہ سب کچھ ایسا یاد ہے جیسے یہ کل ہی ہُوا ہو۔ ” تمہارا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ اتنی آسانی سے ہو جائے گا۔ یہ تعداد بڑھتی ہی چلی جائے گی ؟ یہ بس اتنی سی ہی بات نہیں ہو گی ” ۔اس کے جواب میں وہ بڑی نرم روی سے میرے ساتھ مل کر کیس سٹڈی کرتا  اور مجھے اصول سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ،تاکہ میں یہ تصور پوری طرح سے سمجھ جاؤں ۔
  4. کیس سٹڈیز : اُس نے مجھے مثالیں دِکھائیں۔ وہ ہمیشہ مجھے واقعات اور کہانیوں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتا رہا – خاص طور پر ہمارے اپنے ہی شعبے سے۔ وہ جانتا تھا کہ اگر مجھے ابتدائی  کوششیں پھل لاتی ہوئی نظر آئیں، تو میں اس بارے میں بات کرنا شروع کر دوں گا ۔یہ CEOکے کردار کا ایک حصہ ہے کہ وہ اپنی تنظیم کی خدمت کی کہانیوں کے بہترین پہلو پیش کرے ۔ اس کے زریعے لوگوں کو اُس تنظیم کے موثر ہونے اور دیگر تنظیموں کو شراکت کے لئے تیار ہونے میں مدد ملتی ہے ۔

لیکن ان چار چیزوں کے باوجود مجھے وقت درکار تھا ۔مجھے اس پورے عمل کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے اُسے ہضم کرنا تھا ۔جیسے  پورے ہاتھی کو ایک ہی مرتبہ کھا جانے کی بجائے مجھے ایک وقت کا کھانا ،یا کبھی کبھی ایک نوالہ کھانا تھا۔ میں اپنے شہر لوئس ویل،  ریاست کینٹکی  میں چہل قدمی کے دوران دعا کرتا رہا اور آس پاس کےغیر ملکیوں کو ،جو وہاں رہتے اور کام کرتے تھے ، تربیتی مجالس میں شرکت کی دعوت دیتا رہا۔ میں  نے  اپنے روحانی خاندان میں شمولیت کے لئے دو خاندانوں کے ساتھ کام شروع کر دیا ۔ ہم ہفتے میں ایک بار ملتے اور ڈی ، بی ، ایس  کے نمونے پر سیکھنے اور   سکھانے کا عمل کرتے ( ان سادہ اور آسان طریقہ ہائے کار کے بارے میں www.zume . training کی ویب سائٹ سے مزید جانیں) ۔ان سادہ اور آسان اقدامات کے بعد کچھ گروپ پھلتے پھولتے رہے، جب کہ دوسرے ناکام نظر آنے لگے ۔جب میں نے خود ذاتی طور پر اس عمل کا تجربہ حاصل کرنا شروع کیا ،تو  دو    ہفتے کے دوران ہی میری سمجھ میں سب کچھ آ گیا ۔ 

اس عمل میں آگے بڑھتے ہوئے، میں خیالات کو یکجا کر کے اصولوں کی شکل دینے لگا ۔ میں یہ ایک دوست کے ساتھ مل کر کرتا رہا ، تاکہ ابتدا سے ہی افزائش کا عمل شروع ہو جائے ۔بعد میں یہ اصول ایک تربیتی ویب سائٹ کی صورت میں ڈھل گئے، جو نہ صرف میری ،بلکہ میرے جیسے اُن لوگوں کی ضروریات بھی   پوری کرنے لگی ،جو اِسی جیسے ایک سفر میں تھے ۔ جو کچھ میں سیکھتا رہا اُسے لکھتے رہنا میرے لئے ایک اچھی مشق ثابت ہوا ( یہ تمام موادwww.MoreDiciples.com  پر بلا قیمت دستیاب ہے)۔ اس ویب سائٹ پر کام کرتے ہوئے مجھے www.Zume.training کی ویب سائٹ پر آن لائن تربیتی مواد  کے استعمال  اور جانچ پڑتال کا اعزاز بھی حاصل ہوا ۔اس کورس سےاب  دنیا بھر میں درجنوں ممالک کے ہزاروں لوگ، کئی زبانوں میں تربیت حاصل کر رہے ہیں ۔

 ایک تنظیم کی حیثیت سے ہم نے متواتر تربیتیں دینا شروع کیں ۔خُدا کا شکر ہے کہ ہمارے بہت سے کارکنوں نے ذاتی اور ٹیم کی حیثیت سے سی پی ایم اور ڈی ایم ایم کے اصولوں کا اطلاق شروع کر دیا ۔آج ہمارے اندازے کے مطابق ہمارے  80 سے 90 فیصد  کارکُن ڈی ایم ایم کی حکمتِ عملیوں کو بنیادی اصولوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ تبدیلی کے اس سارے عمل کے دوران شاید صرف ایک ہی خاندان ہم سے الگ ہوا ۔یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ اس تبدیلی کے بعد اب ہم پہلے سے کہیں زیادہ موثر تنظیم بن چکے ہیں ۔عالمی وبا کے دوران بھی خُدا ہماری ٹیم کے ممبران کے ذریعے کا م کرتا رہا اور ہم 2400 سے زیادہ لوگوں کو بپتسمہ لینے کے لئے تربیت دے رہے ہیں۔ ہم 796 نئے گروپوں کی ابتدا کر رہے ہیں۔ اب اُن 50 سے زائد ممالک میں جہاں ہم خدمت کر رہے ہیں، 4000   سے زائد سرگرم گروپ موجود ہیں۔ 25000 سے زیادہ لوگ  خلوص اور ایمان کے ساتھ  عبادت  میں شامل ہوتے ہیں ۔ 

ہمیں حیرت ہے کہ شمالی امریکہ میں مزید  لوگ ان سادہ اور موثر اصولوں کا اطلاق کیوں نہیں کر رہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ مسیحی زندگی کو صرف اتوار کی صبح چرچ  کی عبادت شامل ہونے تک ہی محدود سمجھتے ہیں ،اور اسی کے عادی ہو گئے ہیں ۔ شاید ہماری زندگیاں کھیلوں اور تفریحی سرگرمیوں سے اس قدر بھری  ہوئی ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں  کہ ہمارے پاس ان سادہ افزائشی اصولوں پر عمل کرنے کا وقت ہی نہیں   ۔وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو، ضرورت اس بات کی ہے کہ سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں دعا کرنے والے سر گرم کارکنان کو متحرک کیا جائے ۔تاکہ ہمارے درمیان بھی وہ سب کچھ ہو جائے جو خُدا دنیا کے دیگر بہت سے حصوں میں کر رہا ہے ۔

تحریک کی سوچ کی جانب میرا سفر بہت سُست رفتار تھا ۔لیکن یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے ۔میں اُس تجویز کنندہ کا بہت شُکر گزار ہوں جس نے اس سارے سفر میں میری بڑی مدد کی۔ اور مَیں سب سے زیادہ  خُدا کا شکر گزار ہوں جس نے اُسے میری زندگی کے لئے صبر اور فضل عطا کیا  ۔میں توقع کرتا ہوں کہ دیگر ر ہنما اور تنظیمیں بھی ہمیں ایسی متاثر کن کہانیوں سے آگاہ کریں گی ۔ 

(1) اس طرح کے سوالات کے جوابات کے لئے ، ملاحظہ کریں ، مثال کے طور پر ، “
نقل و حرکت کی کہانی اور انجیل کے پھیلاؤ
،” “
اب بھی اس کے درمیانی عمر کی نقل و حرکت
” اور “
کس طرح کی نقل و حرکت شمار
.”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے